مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا قتل کیوں؟

اسلام لفظ ’’سلام‘‘ سے ہے جس کا مطلب ہے ’’ سلامتی اور امن‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے جھکا دیا جائے، پس اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو خود کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے جھکا دینے کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اسلام امن کا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کو ظلم اور استحصال کے خلاف لڑنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ بعض اوقات ظلم سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کیلئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف ظلم کے خاتمے، امن کے فروغ اور عدل کے قیام کیلئے ہے اور اسلام کا یہ پہلو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد سے بخوبی آشکارا ہو جاتا ہے، لیکن اسلام کسی شخص یا گروہ کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دیتا کہ وہ ظلم کے خاتمے کیلئے اٹھ کھڑا ہو اور طاقت کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کا قتل عام شروع کر دے، کیونکہ اس طرح سے بجائے امن قائم ہونے کے معاشرہ مزید بدامنی اور انارکی کا شکار ہو جائے گا اور ظلم بجائے ختم ہونے کے مزید فروغ پائے گا، لہٰذا اسلام میں ظلم کے خاتمے اور قیام امن کیلئے طاقت کے استعمال کا حق صرف حکومت وقت کو حاصل ہے اور اس کیلئے بھی احتساب کا باقاعدہ ایک نظام قائم ہے۔

رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم ومومن کی تعریف اور اسلام کے تعارف اسی بنیاد کو پیش نظر رکھ کر فرمایا ہے، جیساکہ ارشاد مبارک ہے کہ ’’مسلمان وہی ہے جس سے دوسرے لوگ اپنی جان ومال کے بارے میں محفوظ رہیں۔‘‘ اس تعریف وتعارف سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو جان، مال اور آبرو کے تحفظ کا بنیادی درس دیتا ہے اور مسلم ومومن کا تعارف اس طرح کراتا ہے کہ مسلمان نہ تو قاتل ہوتا ہے‘ نہ دہشت گرد‘ نہ تشدد پسند اور نہ شرپسند‘ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل فرماتے تو اس وقت ان سے چند اہم بنیادی امور پر عہدوپیمان لیتے (جسے شریعت میں بیعت اسلام کہتے ہیں) ان میں یہ عہد وپیمان سرفہرست تھا ’’ہم عہد کرتے ہیں کہ شرک‘ زنا‘ چوری اور قتل ناحق نہیں کریں گے۔‘‘ (صحیح بخاری)
اسلام نے قتل ناحق کو کفر و شرک کے ساتھ نتھی کر کے اس کی قباحت کو اجاگر کیا ہے اور کفروشرک کی طرح قتل ناحق کی سزا بھی جہنم بیان کی ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ’’شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتل وخونریزی ہے۔‘‘
قرآن کریم نے سورۂ مائدہ میں ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے کر اس کی سنگینی کو واضح کیا ہے۔ دوسرے کی جان کے درپے آزار ہونا اور اسے قتل کرنا تو درکنار اسلام تو اپنی جان اور اپنی ذات تک کے بارے میں شدید پابندی لگاتا ہے کہ خودکشی کے ذریعے جو اپنی جان کو تلف کرے گا وہ بھی دائمی جہنم کا سزاوار قرار پائے گا۔ (جمع الفوائد)
قتل تو قتل اسلام نے تو کسی ہتھیار کو کھلے عام اس انداز سے لے کر چلنے پر بھی پابندی عائد کی ہے جس سے خوف ودہشت گردی کی فضا قائم ہو۔ جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے: ’’جو اسلحے کی نمائش کرتے ہوئے دندناتا پھرے گا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘ (صحیح بخاری)۔
اسلام قتل وخونریزی کو ایک لمحے کیلئے بھی برداشت نہیں کرتا۔ ایک طرف وہ طرح طرح سے ان لوگوں کی مشکیں کستا ہے جو اس میں آلودہ ہوکر حظ اٹھانے کے عادی ہوتے ہیں‘ دوسری طرف عوام الناس کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے کسی قول وعمل سے قاتل کی اعانت وحوصلہ افزائی نہ کریں۔ انگلیوں سے کنکر بازی‘ خشت بازی کو بھی اسی اندیشے کے پیش نظر کہ اس سے کسی کو چوٹ لگ جائے اور وہ بڑھ کر جنگ کا شعلہ بھڑکادے اور انسانی زندگی کا اطمینان وسکون اس کی نذر ہوجائے‘ اسلام نے منع کردیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی ڈھیلہ بازی وکنکر بازی سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے کسی کے دانت ٹوٹ سکتے ہیں اور آنکھیں پھوٹ سکتی ہیں۔ (صحیح بخاری)
اسلام نے ان تمام گوشوں پر نظر ڈالی ہے جہاں سے امن وامان میں رخنہ وخلل پڑنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے اور محبت بھری فضاء میں عداوت وفساد کے مسموم جراثیم سرایت کرسکتے ہیں۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے عالمی وآفاقی اجتماع میں سوا لاکھ سے زائد شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون‘ تمہارے مال اور آبرو کو حرام کردیا ہے اور انہیں ایسی حرمت وعزت بخشی ہے جو حرمت وتقدس تمہارے اس شہر‘ اس مہینے اور اس دن کو حاصل ہے۔‘‘
الحمدللہ! ہم بھی مسلمان ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے مسلمان ہونے کے باوجود محض گروہی‘ جماعتی‘قبائلی‘ لسانی یا مسلکی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں؟ ہمارے ملک میں یہ معمول بن چکا ہے کہ روزانہ سینکڑوں افراد ہم مذہب ہونے کے باوجود سیاسی یا سماجی اختلافات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور اس قبیح فعل پر شرم وافسوس کے بجائے فخر کیا جاتا ہے۔ ہمارے مذہبی ومعاشرتی زوال کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب بھی کسی سیاسی جماعت کا کوئی رہنما یا اہم کارکن مارا جاتا ہے تو ردعمل کے طور پر پورے شہر یا ملک بھر میں جلائو گھیرائو اور قتل وغارت کی کارروائیاں شروع کردی جاتی ہیں، لہٰذا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ اس جماعت کا تو ایک فرد مارا گیا تھا مگر ’’انتقامی کارروائی‘‘ میں درجنوں بے گناہ شہری مارے جاتے ہیں‘ متعدد زخمی ہوجاتے ہیں‘ سینکڑوں گاڑیاں جلادی جاتی ہیں اور لاکھوں محنت کش اپنے اہل خانہ کے لئے روزی کمانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور یہ سب نتیجہ ہے اسلام سے دوری کا۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رحمت مومن کی خوبیوں میں سے ہے لہٰذا دل کی سختی سے بچو، جو تمہیں چھوڑے اس سے ملو‘ جو تمہیں نہ دے اسے دو اور جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو‘ جب تم ایسا کروگے تو تمہاری رسی اللہ تعالیٰ کی رسی سے جڑ جائے گی۔
غزوۂ احد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے‘ آپؐ کا دندان مبارک شہید ہوا اور آپؐ کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہوگیا‘ ایسے موقع پر بھی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم بد دعا کے بجائے فرماتے ہیں کہ ’’میں لعنت کرنے والا بناکر مبعوث نہیں کیا گیا۔ میں تو ہادی اور رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اور یہی نہیں بلکہ زخم پہنچانے والے دشمنوں کیلئے بھی بد دعا کے بجائے یہ دعا فرماتے ہیں: ’’اے اللہ! میری قوم کو ہدایت عطا فرما، یہ مجھے نہیں جانتے‘‘۔
کیونکہ وہ انتقام لینے کے لئے نہیں آیا‘ وہ ظلم وتشدد کا جواب ظلم وتشدد سے دینے کیلئے نہیں آیا‘ وہ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے کیلئے نہیں آیا۔ اسے تو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا گیا ہے لہٰذا وہ تشدد پسندوں وظالموں کیلئے بھی دعا کرتا ہے۔
حضرت زید بن مھَلھِل رحمہ اللہ بعثت نبوی سے پہلے پیدا ہوئے۔ وہ شاعر تھے‘ اسی کے ساتھ انہوں نے شمشیر زنی اور گھڑ سواری میں بھی شہرت حاصل کی، چنانچہ وہ زید الخیل کہے جانے لگے۔ خیل عربی میں گھوڑے کو بھی کہتے ہیں اور سوار کو بھی۔ انہوں نے اسلام سے پہلے شہسواری اور شمشیر زنی کی تعریف پر ایک پرجوش نظم کہی تھی جس میں وہ اپنے قبیلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ میری قوم لوگوں کی سردار ہے اور سردار ہی اس وقت قائد بنتا ہے جبکہ شعلہ بار ہتھیلیوں نے جنگ کی آگ کو بھڑکادیا ہو۔ زید الخیل ہجرت کے بعد مدینہ آکر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور اسلام قبول کیا۔ آپؐ کی امن پسند طبیعت نے زید الخیل کا نام پسند نہیں کیا، لہٰذا آپؐ نے ان کا نام بدل کر زید الخیر رکھ دیا۔ اس واقعے سے اسلام کا مزاج معلوم ہوتا ہے۔ اسلام کا مقصد آدمی کو ’’زید شہسوار‘‘ بنانا نہیں بلکہ اسے ’’زید صاحب خیر‘‘ بنانا ہے۔ قدیم عرب میں گھوڑا دوڑانا اور تلوار کا کمال دکھانا ہیرووانہ کام سمجھا جاتا تھا۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جذبات کو موڑا اور انہیں اس طرف متوجہ کیا کہ وہ خیر کے حامل بنیں۔ خیر کے میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیں۔ وہ لوگوں کو موت کا تحفہ دینے کے بجائے ان کی زندگی بچانے کی فکر کریں لیکن افسوس! کہ آج ہم ایک مرتبہ پھر زمانہ جاہلیت کی طرح ذرا ذرا سی بات پر قتل وغارت کرکے در در موت بانٹتے پھر رہے ہیں۔ یہ ہم پر اللہ کا عذاب نہیں تو اور کیا ہے؟۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے