اسلامی تہذیب کی خصوصیات

اسلامی تہذیب کی روح توحید ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات، صفات اور اعمال میں ایک ماننا اور تمام عیوب سے مبرّا تسلیم کرنا، جب انسان شجر وحجر، شمس وقمر اور دیگر مخلوقات کو اپنا معبود ومطلوب بنا لیتا ہے تو ان کو مسخر کرنے اور ان سے خدمت لینے کی تمام راہیں مسدود کر لیتا ہے۔ توحید انسان کو یہ سبق دیتی ہے کہ تمام مخلوقات اور اشیاء انسان کی خادم اور انسان مخدوم ہے۔ یہی وہ تصور ہے جس نے مادی ترقی کے راستے کھولے اور انسان نے تسخیر کائنات کی جانب قدم بڑھایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کیا تم غور نہیں کرتے کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور تم پر اپنی ظاہری وباطنی نعمتوں کو پورا کیا ہے۔ (سورۂ لقمان،۲۰)
مشہور فلسفی کانت (Kant) نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ ’’تہذیب انسانی اس وقت کمال کو پہنچے گی جب انسان خدا کی وحدانیت کو تسلیم کر لے گا۔ (تمدن اسلام، خواجہ کمال الدین)
اسلامی تہذیب کا درخشندہ پہلو عظمت انسان ہے، یہ وہ پہلو ہے جو دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں پایا جاتا۔ ہندوئوں نے ذات پات کے مسئلے سے انسانوں کو تقسیم کر دیا ہے۔ ہندو تہذیب میں شودر کی حیثیت ایک گری پڑی شے سے زیادہ نہیں جسے بقیہ تین ذاتوں کی خدمت کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ عیسائیت میں انسان کو پیدائشی گناہ گار قرار دے کر ذلت کا طوق اس کی گردن میں پہنا دیا گیا ہے۔ یہی حال دیگر مذاہب کا بھی ہے، جب کہ اسلام نے عظمت انسان کا وہ تصور پیش کیا جو دنیا کی کسی تہذیب میں نہیں ملتا۔ رب العٰلمین نے فرمایا: ’’اور ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور ان کو اچھی چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے ان کو بہتوں پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے‘ بڑی فضیلت دی‘‘۔ (بنی اسرائیل۔۷۱،۷۰)
اسلام نے انسان کی اسی عظمت کی وجہ سے یہ تعلیم دی ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے کی عزت وتکریم کرے اور محبت سے پیش آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ سب سے زیادہ محبت اس سے کرتا ہے جو اللہ کی مخلوق سے سب سے زیادہ بھلائی کرتا ہے‘‘۔ (بیہقی۔ کتاب الایمان)
ایک مرتبہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کے احکام کی تعظیم کرنا اور اللہ کی مخلوق سے محبت رکھنا‘‘۔ (بیہقی)
ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ ہر انسان خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان، عالم ہو یا جاہل، غریب ہو یا امیر اور گورا ہو یا کالا واجب الاحترام ہے اور نہ تو کسی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو حقیر سمجھے اور نہ ہی دوسروں سے نفرت کی اجازت ہے، بلکہ اگر کوئی شخص یا قوم گمراہی کے راستے پر گامزن تو اسے احسن طریقے سے ہدایت کا پیغام پہنچایا جائے اور اس کیلئے دعائے خیر کی جائے، کیونکہ اسلام کا بنیادی مقصد ہی فلاح انسانیت ہے۔
اسلامی تہذیب مساوات کا سبق دیتی ہے اور مسئلہ ذات پات کو جڑ سے سے کاٹ دیتی ہے۔ اسلام محمود وایاز کو ایک ہی صف میںکھڑا کرکے ہر قسم کے امتیازات مٹا دیتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر حاجیوں کے درمیان مساوات کا نظارہ شاید ہی کسی اور تہذیب میں دیکھنے کو ملے۔ قرآن مجید میں رب کائنات نے مساوات انسانی کا درس ان الفاظ میں دیا ہے: ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں (ایک) مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری شاخیں اور قبیلے بنائے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے، بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ (الحجرات۔۱۳)
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! ہاں بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے، ہاں عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔ (مسند احمد)
اسلام سے قبل انسانیت ملکی، قومی، لسانی اور نسبی تعصبات میں بٹی ہوئی تھی۔ ہر قوم دوسری قوم کو اپنا دشمن تصور کرتے ہوئے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتی تھی۔ اسلام نے ان تعصبات وتفریقات کی زنجیروں کو کاٹا اور وحدت انسانی کی تعلیم دی، رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے اور ہر چیز کے پروردگار، میں گواہی دیتا ہوں کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ (مسند احمد، ابو دائود)
اسلامی تہذیب کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ مذہبی رواداری کی علمبردار ہے، وہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہر آسمانی کتاب اور ہر پیغمبر کو مانا جائے اور ان کے درمیان کسی قسم کی تفریق نہ کی جائے۔ اسلام اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں سے جبراً دین کو منوایا جائے اور نہ ہی مذہبی اختلافات کی بنیاد پر دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے قتل عام کی اجازت دیتا ہیٖ۔ اس کے حوالے سے اس کی تعلیمات یہی ہیں کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔ (سورۃ الکافرون)
انسان فطرتاً آزادی کا خواہش مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اکثر جنگیں آزادی کیلئے لڑی گئی ہیں۔ اسلامی تہذیب بھی فطرت انسانی کے عین مطابق آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بہت برے ہیں وہ لوگ جو آدمیوں کو فروخت کرتے ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اسلامی تہذیب زندگی کے ہر شعبے میں اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتی ہے اور افراط وتفریط سے روکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور درمیان کی راہ اختیار کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل۔۱۱۰)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہ ہوگا۔
اسلام نماز، روزہ اور صدقہ خیرات سمیت تمام عبادات میں بھی اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے۔
اسلامی تہذیب دین ودنیا کا حسین امتزاج ہے۔ اسلام نہ تو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ تارک الدنیا ہو کر جنگلوں میں نکل جائو اور نہ ہی دنیا کو سب کچھ سمجھنے کی اجازت دیتا ہے بلکہ یہ دنیا کو بھی دین کا حصہ قرار دیتا ہے اور اس کے حصول کی جائز کوشش کو سراہتا ہے۔ رب کائنات نے خود یہ دعا سکھلائی۔
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (سورۃ البقرہ۔۲۰۱)
اسلامی تہذیب عدل وانصاف پر بہت زور دیتی ہے، کیونکہ مشہور ہے کہ ظالم کی حکومت زیادہ قائم نہیں رہ سکتی اور نہ ہی ایسا معاشرہ فلاح پا سکتا ہے، جہاں عدل وانصاف کا خون کرنا عام روش بن چکا ہو، لہٰذا قرآن کریم میں ہے: ’’اللہ تمہیں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے‘‘۔ (النحل۔۹۰)
جب کسی تہذیب میں بداخلاقی وبدکرداری عام ہو جاتی ہے تو وہ تہذیب مٹنا شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا کی اکثر تہذیبوں کے مٹنے کی نمایاں وجہ یہی تھی۔ اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اپنے نظام میں اخلاقی اصولوں کو بنیادی حیثیت دی ہے۔ جیساکہ فرمایا: ’’اور کھلے اور چھپے گناہ چھوڑ دو‘‘۔ (الانعام ۱۲۰)
اسلام سے قبل کسی مذہب نے بھی عالمگیر تہذیب کی بنیاد نہیں ڈالی جب کہ اسلامی تہذیب ایک عالمگیر تہذیب ہے، اس کے بنیادی اصول تمام نسل انسانی کے لئے ہیں۔ مسلمانوں کا خدا رب العالمین اور رب المشرق والمغرب ہے۔ (مزمل۔۹)
مسلمانوں کی کتاب ھدیً للناس (بقرہ۔۱۸۵) اور ذکر للعالمین ہے (القلم۔ ۵۲) اور مسلمانوں کے پیغمبر رحمۃ للعالمین ہیں۔
غرض اسلام ہی ایک ایسی عالمگیر تہذیب کی بنیاد ڈالتا ہے جو چہار اطراف عالم کے انسانوں کو اخوت وبھائی چارے کی مضبوط لڑی میں پروکر ملت واحدہ بنا دیتا ہے۔
اسلامی تہذیب امن عالم کی زبردست حامی ہے۔ اس کا بنیادی پتھر توحید ہے۔ عقیدہ توحید نفرت ودشمنی کو ختم کرکے ہر قسم کے تعصبات کو مٹا دیتا ہے۔ اسلام انسانی عظمت، مساوات، اتحاد، اخوت، مذہبی رواداری، عدل وانصاف، اخلاقی اصولوں اور آزادی کو برقرار رکھتا ہے۔ جب باہمی دشمنی ختم ہوکر اس کی جگہ اخوت لے لے تو دنیا میں حقیقی امن قائم ہوسکتا ہے۔ مسلمان اسلامی تہذیب کا نمونہ ہوتا ہے جس کے قول وفعل سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا احتمال بھی نہیں رہتا اور یہی عالمی امن کے قیام کی بنیاد ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی امن کے قیام کیلئے اسلامی تہذیب کی مدد حاصل کی جائے اور اسلام کے عالمگیر آفاقی اصولوں کو رائج کیا جائے۔ عالمی سطح پر تہذیبوں کے باہمی تصادم سے بچنے کا یہی واحد راستہ ہے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے