مکالمہ بین المذاہب اور عالمی امن (دوسری قسط)

درج بالا چاروں قسم کے لوگ ہر مذہب اور ہر قوم میں پائے جاتے ہیں، لہٰذا یہ تخصیص انتہائی مشکل ہے کہ فلاں مذہب سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ ان چاروں میں سے کسی ایک قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ مذہب انسان کو منفی سوچ اور احساسات کو دبانے اور مثبت طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک میں بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ قدرے نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے، کیونکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہاں بھٹکے ہوئے جرائم پیشہ نوجوان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، جب تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں تو معاشرے کے خلاف انتقام کا جذبہ رکھنے والے ’’بدمعاش‘‘ اسی معاشرے کے خیرخواہ بن جاتے ہیں اور بدلہ لینے کی آگ میں جلنے والے دوسروں کی اصلاح کے غم میں گھلنے لگتے ہیں۔
جہاں تک ماحول کا تعلق ہے تو ہر شخص جانتا ہے کہ ماحول کسی بھی فرد کی شخصیت کو نکھارنے یا بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسان وہی کچھ سیکھتا ہے جس قسم کے ماحول میں وہ پرورش پاتا ہے، کیونکہ انسان کے اندر خیر اور شر دونوں قسم کے مادے موجود ہیں، لہٰذا اچھا ماحول اس کے اندر خیر کے مادے کو پروان چڑھاتا ہے، جب کہ برا ماحول شر کے مادے کو ابھارتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بادشاہ، عالم، پادری یا پنڈت کا بیٹا بچپن میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ جائے تو وہ بڑا ہو کر ڈاکو ہی بنے گا اور اسے دیکھنے والے یہ گمان بھی نہیں کر سکیں گے کہ اس کا باپ کتنا معزز شخص تھا۔ اسی طرح اگر کسی چور، ڈاکو یا بدمعاش شخص کا بیٹا کسی عالم یا راہب کی سرپرستی میں آجائے تو وہ اپنے سرپرست کے نقش قدم پر چل کر ایک مفید و معزز شہری بن جائے گا، لہٰذا انسانی کردار کی تعمیر یا تخریب میں ماحول کے اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض دنیا بھر میں ظلم وتشدد اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث افراد یا تنظیموں کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے منفی جذبات کے اظہار کیلئے کسی مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا ہو یا وہ کسی مذہب کے نام پر پُرتشدد کارروائیاں کرکے اس مذہب کو بدنام کرنا چاہتے ہوں تاکہ اس مذہب کے ماننے والوں کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔
جہاں بھی چند افراد، قبائل یا اقوام بستے ہوں اور ان کے نظریات، زبان، تہذیب، مذہب، رسوم و رواج اور ترجیحات میں بھی اختلاف ہو تو ان کے مابین مختلف مواقع پر اختلاف رائے کا پیدا ہونا ایک فطری سی بات ہے، لہٰذا یہ تو ممکن نہیں کہ اس کرۂ ارض پر بسنے والے 7ہزار ملین افراد کا اس طرح برین واش کر دیا جائے کہ ہر شخص ایک ہی نہج پر سوچنے لگے، اگر ایک شخص کہے کہ دن ہے تو سب کے سب کہیں کہ ہاں دن ہے اور اگر ایک شخص کہے کہ رات ہے تو سب کے سب کہیں کہ ہاں رات ہے، اس لئے اب ہمارے پاس ان تنازعات سے نمٹنے کیلئے فقط دو ہی راستے ہیں۔ ایک تو شیطان کا راستہ ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم خداوندی کے باوجود سجدہ کرنے سے انکار کرکے تکبر، تصادم اور تباہی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے غلط موقف میں ذرا سی بھی لچک پیدا نہ کر کے راندۂ درگاہ ہوا۔ دوسرا راستہ انبیاء علیہم السلام کا راستہ ہے جنہوں نے حق پر ہونے کے باوجود حتی الامکان تصادم اور جنگ و جدل سے گریز کی کوشش کی جنہوں نے ظلم کرنے والوں کو معاف کیا، برائی کا بدلہ اچھائی سے دیا، گالیوں کے بدلے دعا ئیں دیں، پتھروں کے بدلے پھول پیش کئے، محروم کرنے والوں کو عطا کیا، قطع تعلق کرنے والوں سے تعلق جوڑا، نفرت کے بدلے محبت دی، جن کی زندگی کا حاصل فقط یہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے یہ دشمن کسی طرح دائمی تباہی سے بچ جائیں، جہنم کا ایندھن بننے سے محفوظ رہیں، یہ راستہ صبرو تحمل، رواداری، برداشت، عدم تشدد، ایثار وقربانی اور ہمدردی کا راستہ ہے اور یہی دنیا و آخرت کی فلاح اور کامیابی کا راستہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ موجودہ گلوبل ویلج انتہائی تیزی کے ساتھ تباہی کی راہ پر گامزن ہے، ایک ایسی تباہی جو کسی ملک، خطے یا براعظم تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سورج کی روشنی کی طرح اس پورے کرۂ ارض پر پھیل جائے گی۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اس عالمگیر تباہی کا ادراک قبل از وقت کیا جاچکا ہے مگر اس سے محفوظ رہنے کیلئے پیش بندی کا صحیح طریقہ کار تاحال یاتو وضع نہیں کیا جا سکا یا پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس سے دانستہ یا نادانستہ گریز کیا جا رہا ہے جو قصداً پوری انسانیت کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ عموماً اقوام اور ریاستیں مذہب کی بنیاد پر ہی برسر پیکار ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کر نے کے لئے مکالمہ بین المذاہب کا اہتمام کیا جائے اور یہ صرف زبانی جمع خرچ یا محض لفاظی تک محدود نہ ہو کہ اقوام عالم کے نمائندے جمع ہوں، لمبی لمبی تقریریں کریں، فلسفہ جھاڑا جائے، ایک دوسرے کی مدح کی جائے اور ایسی کمیٹیاں تشکیل دے کر جان چھڑا لی جائے جو مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں محض اس لئے لٹکاکر رکھتی ہیں کہ اگر مسئلہ حل ہو گیا تو مذکورہ کمیٹی کے قیام کا کیا جواز رہ جائے گا؟
اس وقت دنیا بھر میں تقریباً وہی جنگل کا قانون رائج ہے جو بعثت اسلام سے قبل رائج تھا۔ بدمعاشی، غنڈہ گردی، تشدد، دہشت گردی اور طاقت کے بے جا استعمال نے اس کرۂ ارض کو بدامنی وبے سکونی کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ اس دور کا المیہ یہ ہے کہ تمام اچھے اخلاق کی تعلیم اور نصیحتیں فقط دوسروں کیلئے ہیں، خود کوئی بھی ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اس باپ کی طرح جو بچے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹا جھوٹ بولنا بری بات ہے وغیرہ وغیرہ، مگر اپنے دروازے پر آنے والے کسی شخص کو ٹالنے کیلئے اسی بچے سے کہلوادیتا ہے کہ ’’ابو گھر پہ نہیں ہیں‘‘ لہٰذا سب سے پہلے تو ہمیں دوسروں کو نصیحتیں کرنے کے بجائے خود ان پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔
اس کے علاوہ چند اقدامات ہیں جن کے نتیجے میں یہ گلوبل ویلج امن کا گہوارہ بن سکتا ہے، مثلاً مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر شخص کو اس کے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی جائے اور اس کی راہ میں کسی قسم کے روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ اس حوالے سے بہترین فارمولا یہ ہے کہ ’’ہر مذہب قابل احترام ہے‘‘ نہ یہ کہ ’’ہر مذہب سچا ہے‘‘ کیونکہ یہ جملہ مبالغہ آمیز بھی ہے اور مغالطہ آمیز بھی نیز منطقی واصولی اعتبار سے بھی غلط ہے ۔ مذہبی اتحاد کا واحد قابل عمل فارمولا باہمی احترام ہے جسے قرآن نے ایک مختصر سے جملے میں یوں بیان کیا ہے کہ: ’’تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین۔‘‘ (سورۃ الکافرون)
یہ رواداری کا ایک ایسا میثاق ہے جس کی مثال اس کرۂ ارض پر کہیں نہیں ملتی۔ یہ میثاق واضح الفاظ میں غیرمسلموں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب ، اپنی روایات، معاملات اور مسائل پر قائم رہیں۔’’لکم دینکم ولی دین‘‘ یہ دو جملے رواداری اور وسعت قلب کا ایسا چارٹر ہیں جن پر آج بھی دنیا کی کسی قوم کا عمل نہیں ہے۔ آج دنیا بھر میں بدامنی اور فساد کا بنیادی سبب یہی ہے کہ امن کے داعی ترقی یافتہ اقوام نے بھی ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کو پس پشت ڈال کر ’’صرف خود جیو‘‘ کی راہ اختیار کرلی ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ راہ نہ ماضی میں کسی قوم کو کامیابی کی طرف لے کر گئی ہے اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔
تمام مذاہب کی اصل تعلیمات پر عمل بھی اس مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ظلم وتشدد اور دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کے برعکس تقریباً تمام مذاہب دوسروں سے ہمدردی اور محبت کی تعلیم دیتے ہیں، لہٰذا اپنے اپنے مذہب کی اصل تعلیمات پر عمل، راہ سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو انتہائی آسانی کے ساتھ دوسرے انسانوں کے ساتھ خیر خواہی وہمدردی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔
مکالمہ بین المذاہب کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ اقوام عالم میں صبرو تحمل اور رواداری کا جذبہ پیدا ہو گا، کیونکہ برداشت و رواداری کا معاملہ ان چند مسائل میں سے ایک ہے جن کا آج قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر پوری دنیا کو سامنا ہے۔ صرف برداشت اور رواداری نہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا کیلئے ان گنت مسائل پیدا ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی شدید خطرات سے دوچار ہے۔ یقیناً یہ آسمانی تعلیمات اور نبوی طریق زندگی سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ قرآن حکیم ہر معاملے میں انصاف سے کام لینے، عفو و درگزر، برداشت اور تحمل کا درس دیتا ہے، وہ اپنا یہ پیغام مختلف مقامات پر مختلف انداز سے دہراتا ہے، اس طرح وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو اسلام کی پہچان ہو اور عملی طور پر ہر اعتبار سے پوری انسانیت کیلئے پیغام سا لمیت و سلامتی ہو۔ قرآن برائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دینے کی تاکید کرتا ہے، جیساکہ سورۂ حم السجدہ میں فرمایا:
’’اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی‘ برائی کو ایسے طریقے سے دور کرو جو بہتر ہو (اگر ایسا کروگے) تو جس شخص میں اور تم میں دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسے ولی (قریبی) دوست۔‘‘
سورۃ الرعد میں فرمایا:’’ اور (یہ وہ لوگ ہیں) جو اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ (راہ حق میں) خرچ کرتے ہیں اور برائی کے مقابلے میں بھلائی کرتے ہیں، انہی لوگوں کیلئے آخرت کا گھر ہے۔‘‘
درحقیقت اسلام کی یہ تعلیم دنیا کی مہتم بالشان تعلیمات میں سے ہے، جس کا وجود کسی دوسرے مذہب میں نہ تھا۔ یہ رواداری، بے تعصبی اور عام انسانی اخوت کی سب سے بڑی تعلیم ہے۔ یہودی اپنی کتاب کے علاوہ دوسری تمام آسمانی کتابوں سے انکار کرکے نجات کا منتظر رہ سکتا ہے، عیسائی تورات اور تمام دوسرے صحیفوں کا انکار کر کے بھی آسمانی بادشاہی کا امیدوار ہوسکتا ہے، پارسی اوستا کے سوا دوسری ربانی کتابوں کو باطل مان کر بھی جنت کا استحقاق پیدا کرسکتا ہے، ہندو اپنے ویدوں کے سوا دنیا کی تمام آسمانوں کتابوں کو دجل و فریب مان کر بھی آواگون سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ بُدھ مت والے اپنے سوا تمام دنیا کی وحیوں کا انکار کرکے بھی نروان کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں، مگر مسلمان جب تک قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں کو من جانب اللہ تسلیم نہ کرے جنت کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ اس کیلئے گزشتہ تمام انبیاء علیہم السلام اوران پر نازل ہونے والی کتابوں و صحائف پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اسی طرح کسی نبی یا آسمانی کتاب پر تنقید یا مخالفت ایمان کے منافی ہے۔ اس سے بڑھ کر رواداری کی مثال اور کیا ہوگی؟
۱ ھ؁ میں ہجرت مدینہ کے بعد رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود مدینہ کے ساتھ تاریخ ساز معاہدہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کیا جو غیرمسلم رعایا کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ مذہبی رواداری اور فراخ دلی کی ایک ایسی مثال ہے جس پر دنیا فخر کر سکتی ہے۔ موجودہ دور کی اقوام متحدہ بھی فریقین میں اس سے بہتر اور رواداری پر مبنی معاہدہ نہیں کرا سکتی۔ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ انسانیت کے تاجدار، مذہبی رواداری کے علمبردار، محسن انسانیت، رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبر کا مثالی اور تاریخی شاہکار ہے جس سے اسلامی سوسائٹی کے مقاصد، پرامن بقائے باہمی، مثالی مذہبی رواداری ، قیام امن اور انسانی اقدار کے تحفظ میں بھرپور مد ملی۔ ایک عظیم الشان ریاست کی تاسیس اور تنظیم و تدبیر رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ کارنامہ ہے جس کی نظیر تاریخ عالم پیش نہیں کر سکتی۔ اس تاریخی معاہدے کی بدولت غیرمسلموں اور مختلف المذاہب افراد و اقوام کے حقوق و فرائض اور مذہبی آزادی اور رواداری کا اصول وضع ہوا، چنانچہ یہود مدینہ اور دیگر غیرمسلم اقلیتوں کو مذہبی رواداری پر مبنی اس تاریخی معاہدے کی بدولت مندرجہ ذیل حقوق و مراعات حاصل ہوئیں:
(۱) اللہ کی حفاظت و ضمانت ہر فریق کو حاصل ہے۔
(۲) امت کے غیرمسلم ممبروںکو بھی مسلمانوں کی طرح سیاسی اور مذہبی حقوق حاصل ہیں، امت کے ہر گروہ کو مکمل آزادی اور اندرونی خودمختاری حاصل ہے۔
(۳)امت کے دشمنوں سے مسلم اور غیرمسلم دونوں ایک دوسرے کے بہی خواہ ہیں۔
نامور عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل لکھتے ہیں:
’’یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ انسانی معاشرے میں قائم کیا، جس سے شرکاء معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا اور انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی۔‘‘

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے