اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں اور ہماری کوتاہیاں

آج غیر مسلموں بالخصوص اہل مغرب میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں‘ دیگر عوامل کے علاوہ اس کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ ہم نے بھی اپنے طرز عمل سے اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب غیر مسلموں کو دعوت اسلام دیا کرتے تھے تو ان سے فرماتے ’’تم بھی ہم جیسے بن جائو‘ کامیاب ہوجائوگے‘‘ لیکن ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے یہ کہہ سکیں کہ تم بھی ہم جیسے بن جائو‘ کامیاب ہوجائوگے؟

ہمارے جو مسلمان بھائی حصول روزگار‘ اعلیٰ تعلیم یا دیگر مقاصد کے حصول کیلئے بیرون ملک سکونت اختیار کرتے ہیں انہیں اپنا دنیاوی مقصد تو یاد رہتا ہے اور وہ اس کیلئے دن رات ایک کردیتے ہیں مگر بحیثیت مسلمان جو حقیقی مقصد حیات ہے اسے فراموش کردیتے ہیں۔ اسلام نے ہمیں خوش اخلاقی‘ مروت‘ رواداری‘ صبروتحمل‘ برداشت تمام مخلوق کی خیرخواہی‘ ایمانداری‘ محنت‘ پابندی وقت‘ احترام انسانیت‘ قانون کی پابندی‘ ڈسپلن‘ فلاح وبہبود‘ سچائی‘ ادائیگی حقوق‘ مساوات اور زندگی گزارنے کے جو دیگر اعلیٰ اصول سکھائے ہیں ہم انہیں کبھی خاطر میں نہیں لاتے مگر یورپ اور امریکا جیسے ممالک جنہوں نے تاریخ انسانی اور مذاہب عالم کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام کی بنائی ہوئی صفات کو اپناکر ایک کامیاب معاشرہ تشکیل دیا اور آج اپنی کامیابی پر فخر کرتے ہیں‘ جب ہم ان ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں کے قوانین اور اصولوں پر عمل کرکے ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں اور ان کی اس کامیابی کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یعنی ہم اصل کی نقل نہیں کرتے مگر نقل کی نقل کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیمات اور آفاقی اصولوں کا عملی پیکر بن کر بیرون ملک جاتے اور اپنے عمل سے انہیں اپنے جیسا بننے کی ترغیب دیتے مگر ہم وہاں جاکر ان کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں‘ ان کے جیسے بن جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل مغرب کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیاں بھی ہم میں سرایت کرجاتی ہیں ہم اپنی امتیازی شناخت برقرار رکھنے کے بجائے ’’روم جاکے رومیوں جیسے بن جاتے ہیں‘‘ جس کے بعد نہ تو دعوت وتبلیغ کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے اور نہ ہی اسلام کو ہر دور میں ایک قابل عمل دین ثابت کرنے کی اور یہ دعویٰ تو ایک عبث چیز بن کر رہ جاتا ہے کہ ’’ہمارے جیسے بن جائو‘ کامیاب ہوجائوگے‘‘۔
آپ نیدیکھا ہوگا کہ اکثر سڑکوں کے چوراہے پر ایک کھمبا موجود ہوتا ہے جس پر سگنل سسٹم نصب ہوتا ہے جس رخ پر سبز بتی روشن ہو ادھر ٹریفک کو جانے کی اجازت ہوتی ہے اور جس طرف لال بتی روشن ہو ادھر ٹریفک کے جانے پر پابندی ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کی مثال بھی ٹریفک سگنل جیسی ہے جو اس بات کا مدعی ہوتا ہے کہ اگر میرے گرین سگنل پر چلوگے تو بخیروخوبی اپنی منزل پر پہنچ کر کامیاب وکامران ہوجائوگے اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہوگے لیکن اگر میرے ریڈ سگنل پر رکنے کے بجائے اس کی خلاف ورزی کروگے تو کسی بھی لمحے کوئی جان لیوا حادثہ تمہیں تباہی وبربادی سے دوچار کردے گا اور اگر مکمل تباہی سے بچ بھی گئے تو خلاف ورزی کی سزا تو تمہیں بہرحال بھگتنی ہی پڑے گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہی طریقہ اپنایا تھا لہٰذا انسانی ٹریفک ان کے اتباع پر مجبور ہوگیا لیکن اس کے برعکس اگر سگنل سسٹم ہی خراب ہو تو وہ ٹریفک کی رہنمائی کیا کرے گا‘ اس کی حیثیت چوراہے پر نصب ایک فالتو کھمبے سے زیادہ ہرگز نہیں ہوگی جسے ناکارہ سمجھ کر ہر کوئی اسے اپنا مقام سے ہٹانے کا متمنی ہوگا۔
اگر کوئی کسان یہ کہہ کہ میں نے زمین میں گیہوں کے بیج ڈالے مگر اس سے گیہوں کے بجائے جھاڑ جھنکار اگ آئے تو ایسا کسان جھوٹ بولتا ہے کیونکہ یہ بات خالق کائنات کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہے‘ اگر کوئی سائنسدان یہ کہے کہ میں نے دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن کو ملایا تو پانی کے بجائے مٹی بن گئی تو لوگ یقیناً اسے پاگل کہیں گے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خود تو اپنے دین پر عمل نہ کریں‘ خود تو چلیں ناکامی کے رستے پر اور دوسروں سے کہیں کہ ہمارے جیسے بن جائو‘ کامیاب ہوجائوگے‘ کیا لوگ ہمیں پاگل نہیں کہیں گے؟۔
رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے 40سال تک اپنی شخصیت کی اس قدر مضبوط تعمیر کی کہ آپؐ بہترین اخلاق والے اور صادق وامین مشہور ہوگئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپﷺ نے یہ کٹھن انقلابی سفر تن تنہا شروع کیا تھا مگر رفتہ رفتہ لوگ آپ کے ساتھ ملتے گئے اور قافلہ بنتا چلاگیا اور صرف 23سال کے عرصے میں اسلامی مملکت 10لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی حتیٰ کہ اس کی وسعت افریقہ‘ اسپین‘ چین اور ہنگری تک جاپہنچی‘ یہ شاندار کامیابی ایک انتہائی سادہ پروگرام کے ذریعے حاصل ہوئی جو قرآن کے لفظوں میں حسب ذیل تھا۔
اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھئے‘ لوگوں کو دوڑائیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے اور اپنے اخلاق کو اچھا بنائیے اور بری باتوں کو چھوڑ دیجیے اور ایسا نہ کیجیے کہ احسان کریں اور بدلہ چاہیں اور اپنے رب کے لیے صبر کیجئے (سورۂ مدثر)
اس پروگرام کا خلاصہ کیا جائے تو اس کے صرف تین نکات قرار پائیں گے۔
(1) ذاتی اصلاح: اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے‘ اپنے اخلاق کو درست کیا جائے اور ہر قسم کے برے کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔
(2) انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہے اور مرنے کے بعد اسے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔
(3) اپنی اصلاح اور دوسروں کو آگاہی دینے کی اس جدوجہد میں جو مشکلات پیش آئیں ان پر صبر کیا جائے۔
قرآن پاک 23برس میں رفتہ رفتہ نازل ہوا جس میں سے 13برس تک صرف وہ آیات اور سورتیں نازل ہوئیں جن میں اصلاح نفس اور اصلاح باطن پر زور دیا گیا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور اصلاح معاشرہ سے متعلق دیگر احکام بعد میں نازل ہوئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جیسی عبادات 13سال تک اسلام نے اپنے پیروکاروں کی شخصیت کی تعمیر کی‘ انہیں ایک عملی نمونہ بنایا تاکہ ہر شخص ان کے جیسا بننے کی خواہش کرے۔ ان کے اندر بردباری‘ ایمانداری‘ ایثار‘ صبروتحمل‘ رواداری‘ برداشت‘ احسان‘ سچائی‘ انصاف‘ ہمدردی‘ مخلوق خدا سے محبت‘ مساوات اور اصلاح معاشرہ کی فکر جیسی صفات پیداکیں۔ اس کے بعد ان پر اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری بھی ڈال دی اور انہیں یہ بات ذہن نشین کرادی کہ دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے خواہ تمہارے سامنے کوئی مسلمان ہو یا کافر‘ دوست ہو یا دشمن اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے عملی کردار اور حسن سلوک کو دیکھ کر ہی اکثر غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا لیکن ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا آج ہمارا عملی کردار اس قدر مضبوط ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ اسلام کی جانب راغب ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے ’’کرتوت‘‘ دیکھ کر تو لوگ اسلام سے متنفر ہورہے ہیں۔ ہم اشاعت اسلام کے بجائے اسلام کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ آج کتنے لوگ ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات کی حقانیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے مگر مسلمانوں کی حالت زار دیکھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اگر ہم اسلامی تعلیمات کے بجائے مسلمانوں کے طرز عمل کا مطالعہ کرتے تو شاید کبھی بھی مسلمان نہ ہوتے۔ نہ جانے کیوں ہم جارج برنارڈشاہ کے اس قول کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ’’اسلام بہترین مذہب اور مسلمان بدترین قوم ہے‘‘۔
موجودہ دور کے مسلمانوں میں سب سے بڑی خرابی جو پیدا ہوگئی ہے وہ افراط وتفریط ہے۔ ہم یاتو اپنا جداگانہ مذہبی تشخص اور آفاقی تعلیمات کو نظر انداز کرکے دیگر ترقی یافتہ اقوام کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں اور ان کی ہر اچھی وبری عادت کو اپناکر فخر محسوس کرتے ہیں یا پھر انہیں انتہائی حقیر اور بکریوں کا ریوڑ سمجھتے ہوئے ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ان کی اصلاح کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان دونوں طرح کے طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو دیگر اقوام ہمیں حقیقتاً اپنا غلام سمجھنے لگتی ہیں یا پھر ہمیں جاہل‘ گنوار‘ انتہا پسند اور دہشت گرد جیسے القابات سے نوازا جانے لگتا ہے۔ یہ دونوں رویے ناکامی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ پہلے کا نتیجہ شکست وپسپائی ہے جبکہ دوسرے کا نتیجہ ذلت ورسوائی‘ کامیابی صرف اسلام کے بتائے ہوئے طریقے میں ہے اور وہ ہے راہ اعتدال۔
(دوسری قسط)
اسلام نے ہر شعبے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور انتہا پسندی سے منع کیا ہے۔ کھانے پینے میں‘ پہننے اوڑھنے میں‘ رہن سہن میں حتیٰ کہ عبادت وریاضت میں بھی۔ اعتدال اور میانہ روی ایک فطری طریق ہے جس پر چلنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ اگر ہم اعتدال کی راہ اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کامیابی ہمارے قدم نہ چومے‘ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم خود بھی میانہ روی اختیار کریں اور اسلام کو بھی اس کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ایک معتدل مذہب کے طور پر متعارف کرائیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر متعصب اور سلجھے ہوئے لوگ اسلام کی فطری تعلیمات کو کھلے دل سے تسلیم کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے اور یہ ہماری ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔دوسری جانب وہ لوگ جو اسلام پر انتہا پسندی کا الزام عائد کرتے نہیں تھکتے‘ کم ازکم ان کی زبانیں تو بند ہوہی جائیں گی۔
ہماری ایک کمزوری دین کا علم حاصل نہ کرنا بھی ہے۔ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگوں کو نہ صرف اپنے مذہب کے بارے میں کافی معلومات ہوتی ہیں بلکہ وہ دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کرتے ہیں اور پھر دیگر مذاہب پر تنقید کرکے اپنے مذہب کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی عمل دہراتے ہوئے جب وہ ہمارے مسلمان بھائیوں کے سامنے اسلام پر تنقید اور اپنے مذہب کو سچا ثابت کرنے کیلئے دلائل دیتے ہیں تو ہمارے مسلمان بھائی اپنی کم علمی کی وجہ سے نہ صرف ان کے سامنے شکست تسلیم کرلیتے ہیں اور اپنے مذہب کی حقانیت کے بارے میں ڈانوا ڈول ہوجاتے ہیں بلکہ اسلام کی رسوائی کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔
یہ میڈیا کا دور ہے۔ ہم میں سے اکثر افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جس پر تقریباً ہر مذہب اور ہر موضوع پر وافر مواد دستیاب ہے۔ سائنس وٹیکنالوجی کے اس دور میں علماء اسلام بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی اسلام کو دین فطرت ثابت کرنے اور اس پر کی جانے والی تنقید کا دلائل اور ثبوت سے جواب دیتے رہتے ہیں جس کا مدلل جواب مخالفین اسلام کے پاس بھی نہیں ہوتا ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انٹرنیٹ پر ایسی ویب سائٹس سرچ کرکے مطلوبہ مواد تلاش کیا جائے اور اپنے مذہب کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں تاکہ ہم تنقید کرنے والوں کے سامنے شکست وپسپائی اختیار کرنے کے بجائے انہیں دلائل سے قائل کرسکیں اور اسلام کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دور کرسکیں۔ اس میں ہمارا بھی بھلا ہے اور ان کا بھی۔
ہمارے اندر ایک خامی یہ بھی ہے کہ جب ہمارے مذہب پر تنقید کی جاتی ہے تو ہم فوراً بھڑک اٹھتے ہیں اور لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مکالف جو الزام تشدد‘ انتہا پسندی اور دقیانوسیت کا اسلام پر عائد کررہا ہوتا ہے اسے اس کا مدلل جواب ملنے کے بجائے اپنے الزام کی تائید میں ثبوت مل جاتا ہے اور وہ ہمارے اس غیر اسلامی رویے کو دیگر مقامات پر اپنے نظریات کی حمایت میں بطور دلیل پیش کرتا ہے اور ہم اس بے وقوف کے مثل بن جاتے ہیں جو کم عقلی کی وجہ سے اپنے محبوب کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حکایت ہے کہ کسی بادشاہ نے ایک بندر پالا۔ بندر اس قدر مانوس ہوگیا کہ بادشاہ پر جان چھڑکنے لگا۔ آخر کار بادشاہ نے اسے اپنا محافظ مقرر کردیا۔ ایک روزبادشاہ سورہا تھا‘ ایک مکھی بار بار اس کے چہرے پر بیٹھ کر اسے تنگ کررہی تھی۔ بندر کو غصہ آیا اس سے مکھی کی یہ گستاخی برداشت نہ ہوئی لہٰذا اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھاکر مکھی پر دے مارا جس کے نتیجے میں مکھی تو پتہ نہیں مری یا نہیں البتہ بادشاہ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔ ہمارا مذکورہ بالا رویہ بھی اسلام کے صاف وشفاف چہرے پر ’’گند‘‘ پھیلانے والی مکھی کا تو کچھ بگاڑتا البتہ اسلام کا چہرہ ضرور مسخ کردیتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دین فطرت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے دلائل کا سہارالیں۔ آج سائنس نے کائنات کے کتنے ہی ایسے پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کیا ہے اور کتنے ہی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو اس سے قبل انسانی عقل میں سما ہی نہیں سکتے تھے مگر قرآن اور حدیث نے ان کی حقیقت آج سے 14سو سال قبل بیان کردی تھی۔زمین سورج اور چاند کی گردش سے متعلق اول تو انسان کچھ جانتا ہی نہ تھا‘ پھر جب چند صدی قبل اس پر تحقیق شروع ہوئی تب بھی ایک طویل عرصے تک سائنسدانوں میں اس بات پر اختلاف رہا کہ آیا زمین گھومتی ہے یا سورج مگر قرآن نے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال قبل یہ واضح کردیا کہ سورج‘ چاند‘ زمین وغیرہ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں اور نہ سورج کی مجال ہے کہ چاند کو جاپکڑے اور نہ چاند کی مجال ہے کہ سورج کو جاپکڑے۔ اسی طرح دن اور رات وقت مقررہ پر شروع ہوتے ہیں‘ روز اول سے یہی نظام چل رہا ہے جس میں آج تک ایک سیکنڈ بھی آگے پیچھے نہیں ہوا۔آج جدید طبی تحقیقات سے جو چیزیں انسانی صحت کیلئے مفید یا مضر ثابت ہورہی ہیں‘ ان کی وضاحت 14صدیاں قبل ہی کردی گئی تھی مثلاً جب جراثیم کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا تو اسلام نے کھانا کھانے سے قبل ہاتھ دھونے کا حکم دیا۔ جب دانتوں پر جمنے والے پلاک کا تصور بھی کسی کے ذہن میں نہیں تھا اس وقت اسلام نے دن میں کئی مرتبہ مسواک کرنے کی تاکید کی‘ جب ایکسرے اور الٹرا سائونڈ جیسی مشینوں کا وجود بھی نہیں تھا تب قرآن نے یہ حقیقت منکشف کی کہ ماں کے پیٹ میں بچہ تین حفاظتی پردوں میں محفوظ ہوتا ہے۔اسی طرح قرآن پاک کا ایک بھی دعویٰ آج تک غلط ثابت نہیں کیا جاسکا‘ نہ ہی اس جیسا کلام کوئی شخص تیار کرسکا۔ آج غیر مسلموں کے اپنے اعترافات کے مطابق کتنے ہی سائنسی نکات اور کائنات کے اسرار ورموز ہیں جن پر جدید سائنسی تحقیق کا منبع قرآن وحدیث ہیں اور محققین وسائنس دانوں نے ان گتھیوں کو سلجھاکر اپنے اس فعل سے لاشعوری طور پر قرآن وحدیث کو سچ ثابت کردیا۔ یہی قرآن وحدیث ہے جسے تھام کر مسلمانوں نے ماضی میں نہ صرف سیاسی واقتصادی میدان میں اپنا سکہ جمادیا بلکہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں بھی وہ عروج حاصل کیا جس کا اعتراف کرنے پر آج بھی مخالفین مجبور ہیں اور موجودہ دور میں سائنس وٹیکنالوجی نے جو ترقی کی ہے وہ مسلمان سائنس دانوں کے تحقیقی مواد کی پیروی کے بغیر ممکن نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ
’’اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو اور حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو‘‘۔
بہترین طریقہ وہی ہے جو رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ آپﷺ ہر شخص سے اس کے مقام‘ پیشے‘ ذہنی استعداد اور اس کے علم کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی شخص خواہ آپﷺ کی دعوت قبول کرے یا نہ کرے مگر آپ کے دعوے ودلائل کو تسلیم کرنے پر خود کو مجبور پاتا تھا اوریہ بھی ایک طرح کی کامیابی ہے۔ موجودہ دور میں اس سنت پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعے اسلام کی تعلیمات کو اجاگر کیا جائے اورجدید تحقیق سے تقابل کے ذریعے قرآن وحدیث کی حقانیت ثابت کی جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ اسلام میں تعلیمات سائنس کے خلاف نہیں ہیں بلکہ جدید سائنس 1400سالہ قدیم اسلامی تعلیمات سائنس کے خلاف نہیں ہیں بلکہ جدید سائنس 1400سالہ قدیم اسلامی تعلیمات کی تصدیق کرتی ہے۔ مدلل اور شائستہ گفتگو مخالفین کا بھی دل موہ لیتی ہے اور ان کے پاس قائل ہونے کے سوا کوئی رستہ نہیں بچتا۔ سوائے ان لوگوں کے جو سخت متعصب‘ ضدی اور ہٹ دھرم ہوں‘ سو ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے