آندھیوں کا انتظار مت کیجئے!

موجودہ حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریاں؟
موجودہ صورتحال دو حوالوں سے انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور مزید ناگفتہ بہ ہوتی جارہی ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں اور مغرب کی کشمکش بڑھتی جارہی ہے اور فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ کشمکش سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، عسکری بھی ہے، سائنسی بھی ہے اور تہذیبی و فکری بھی ہے۔ اول الذکر چاروں شعبوں میں عالم اسلام مغرب کے سامنے مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے صرف عقیدہ و فکر اور تہذیب و ثقافت کے محاذ پر جنگ جاری ہے کہ مسلم دنیا کے عوام اور دینی حلقے اعتقادی، فکری اور ثقافتی طور پر مغرب کے سامنے سپر انداز ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں اور مغرب عالم اسلام میں اپنے وفا دار حلقوں کے ذریعے انہیں مغلوب اور بے بس کرنے کیلئے پوری قوت کے ساتھ مصروف عمل ہے اس کشمکش کا تناظر دن بدن واضح تر ہوتا جارہا ہے ،اس کی شدت اور سنگینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لئے علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورتحال سے واقف ہوں اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات پر ان کی مسلسل نظر ہو،تا کہ وہ قوم کی صحیح طور پر رہنمائی کر سکیں اس حوالہ سے مجھے اس طرز عمل سے قطعی اتفاق نہیں ہے کہ سرے سے حالات سے ہی بے خبر رہا جائے ۔میں نے کئی مدارس میں دیکھا ہے اور بہت سے علماء کرام کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں اخبارات کا داخلہ ہی بند ہے کہ صورتحال سے واقف ہوں گے اور نہ حالات کی سنگینی پر جلنے کڑھنے کا موقع آئے گا یہ فرار راستہ ہے اور طوفان کو دیکھ کر شتر مرغ کی طرح ریت میں سردے کو مطمئن ہو جانے والی بات ہے کہا جاتا ہے کہ کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ اب میں محفوظ ہوگیا ہوں میرے نزدیک حالات سے بے خبر رہنے کا طرز عمل بھی اسی نوعیت کا ہے اس سے حالات کی رفتار پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا البتہ ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے غافل رہیںگے۔ حالات کی خرابی کا دوسرا دائرہ علاقائی ہے اس لئے کہ مغربی استعمار اس بات سے مایوس ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں بالخصوص دینی حلقوں کو وہ اپنے ڈھب پر لا سکے اس لئے سرے سے پاکستان کو ہی (خاکم بدہن) دنیا کے نقشے سے ختم کر دینے کی باتیں ہونے لگی ہیں عالمی پریس میں یہ باتیں لکھی جارہی ہیں کہ روسی استعمار کے خلاف پاکستان کی ضرورت تھی جو پوری ہو گئی ہے، اس لئے اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی اس کے ساتھ ہی یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ملک مغربی استعمار کے تہذیبی اور ثقافتی غلبہ کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور اس کی قوت کو ختم کرنے کے لئے جنوبی ایشیا کے جغرافیائی نقشے میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ہے اس قسم کی باتیں لکھ کر اور بار ہا دوہرا کر اس خطہ کے عوام کا ذہن بنایا جارہا ہے کہ وہ جغرافیائی تبدیلیوں کے لئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ خود ہمارے دینی حلقوں میں دھیرے دھیرے سے یہ بات آگے بڑھائی جارہی کہ ہمارے بزرگوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کے نام سے یہ ملک مغرب کے مقاصد اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بنایا جارہا ہے اس لئے اگر (خدا نخواستہ) اس کی سالمیت و حدت کو نقصان پہنچتا ہے تو اس سے ہمارے بزرگوں کے موقف کی تائید ہی ہوگی یہ بہت خطرناک بات ہے اور بہت بڑا نفسیاتی حربہ ہے جو پاکستان کو جغرافیائی وحدت کے خلاف عالمی استعمار کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کے لئے اختیار کیا جارہا ہے جس سے پوری طرح خبرداررہنے کی ضرورت ہے میں اس سلسلے میں اکثر اوقات اس تاریخی واقعہ کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ 1971ء میں جب وطن عزیز دولخت ہوا اور بنگلہ دیش قائم ہوا تو اس سے قبل 71ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ اور پنجاب و سندھ سے اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت صدر جنرل یحییٰ خان سے دستور سازی کے لئے مذاکرات کر رہی تھی، جنرل محمد یحییٰ خان ،شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے یہ مذاکرات وطن عزیز کے مستقبل اور ملکی سالمیت و وحدت کے تحفظ کے لئے خطرے کے الارم کی حیثیت اختیار کرتے جارہے تھے اس دوران پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان سے دستور ساز اسمبلی میں نمائندگی حاصل کرنے والی جماعتوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے قائدین مولانا مفتی محمود اور مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ کی دعوت پر لاہور میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما قاضی محمد سلیم ایڈووکیٹ کے گھر میں جمع ہو کر اقلیتی پارلیمانی گروپوں کی طرف سے ان مذاکرات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور ایک وفد ڈھاکہ گیا جس میں خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود بھی شامل تھے۔ مولانا مفتی محمود نے جمعیت علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مذاکرات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایک اہم بات یہ بتائی کہ جب ان کی شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات ہوئی تو ان دونوں بزرگوں میں سے ایک نے (غالباً خان عبدالولی خان نے) شیخ مجیب الرحمن مرحوم سے کہا کہ ’’شیخ صاحب آپ مسلم لیگی ہیں اور ہم کانگریسی ہیں کل جب آپ پاکستان بنا رہے تھے تو ہم نے آپ سے کہا تھا کہ نہ بنائیں اس سے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو نقصان ہوگا اور آج جب آپ اسے توڑ رہے ہیں تو ہم تم سے یہ کہنے آئے ہیں کہ اب اس پاکستان کو نہ توڑیئے اس سے جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ 
میرے خیال میں اب اس نئے مرحلہ میں جبکہ پاکستان کے خدانخواستہ مزید حصے بخرے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ہمارا موقف یہی ہونا چاہیے اور یہی ہو سکتا ہے کہ ہم ماضی کی طرف جانے اور اس کاحوالہ دیئے بغیر ملک کے تحفظ کی جدوجہد کریں اس لئے کہ اب پاکستان کی بقاء اور تحفظ میں ہی جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کا مفاد ہے بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ پورے عالم اسلام کا مفاد پاکستان کی بقاء ور تحفظ میں ہے۔ 
جنوبی ایشیاء مشرق وسطی اور مشرق بعید کے مسلمانوں کے درمیان اہم ترین جغرافیائی سنگم میں واقع یہ تہذیبی اور فکری رکاوٹ اگر خدانخواستہ پامال ہوگئی تو دنیا کے کسی خطے میں بھی مسلمان محفوظ نہیں رہیں گے اور مغربی استعمار یا جوج ماجوج بن کر عالم اسلام کے کونے کونے میں پھیل جائے گا۔ 
ان دو حوالوں سے صورتحال کا ہلکا سا نقشہ آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ علماء کرام جہاں کہیں بھی ہوں انہیں میری تین گزارشات پر ضرورت توجہ دینی چاہئے ایک یہ کہ حالات سے لاتعلق نہ رہیں اور صورتحال سے سرے سے واقف نہ ہونے کے طرز عمل پر نظر ثانی کریں اس سے قبل میں یہ عرض کیا کرتا تھا کہ صورتحال سے بے خبر رہنا اور حالات سے لاتعلق ہو جانا دینی حمیت کے منافی ہے لیکن آج اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ دین کے ساتھ وابستگی کے بھی منافی ہے۔ اگر ہم ان حالات میں بھی بے خبر اور لا تعلق رہنے میں عافیت محسوس کر رہے ہیں تو ہمیں صرف اپنی اپنی دینی حمیت و غیرت کا ہی نہیں بلکہ دین کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھی از سر نو جائزہ لے لینا چاہئے، اس لئے علماء کرام اور دینی کارکنوں سے میری گزارش ہے کہ وہ حالات کا ادراک کریں، صورتحال سے باخبر رہیں اور پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ ان حالات میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کے راستے تلاش کریں۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ جس شعبہ اور دائرہ کار میں آپ اپنے ذوق کو ہم آہنگ پاتے ہیں اس میں کام کریں اور جس شعبہ سے آپ کا تعلق ہم آہنگ ہے اور جس کام کی آپ اپنے اندر صلاحیت پاتے ہیں، اس میں کام کیجئے لیکن ضرور کیجئے فارغ ہر گز نہ بیٹھے اور لاتعلقی اور بے خبری کے طرز عمل سے بہرحال نجات حاصل کیجئے۔ 
تیسری گزارش علماء کرام اور دینی کارکنوں سے یہ ہے کہ دین کے جس شعبہ میں آپ کام کر رہے ہیں وہیں کیجئے اور دل جمعی کے ساتھ کیجئے لیکن خدا کے لئے دین کے دوسرے کسی شعبہ کی نفی نہ کیجئے اور کسی دوسرے دینی شعبہ میں کام کرنے والوں کے لئے تحقیر کا لہجہ اختیار نہ کیجئے اگر دین کے کسی دوسرے شعبہ میں کام کرنے والوں کے ساتھ آپ کسی درجہ میں تعاون کر سکتے ہیں تو ضرور کریں لیکن اگر خدا نخواستہ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم حوصلہ شکنی کسی کی مت کیجئے۔ 
میں ایک کارکن ہوں اور ملک بھر کے کارکنوں کے جذبات و احساسات سے پوری طرح آگاہ ہوں، مجھے معلوم ہے کہ کارکنوں کی غالب اکثریت قومی سطح پر دینی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کیلئے مرکزی قیادتوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور ادھر سے حوصلہ افزا جواب نہ پا کر مایوسی کا شکار ہو کر گھروں میں بیٹھ جانے کے بجائے اپنے کام کرتے جائیں اور قائدین کو مناسب طریقہ سے توجہ دلاتے جائیں کبھی تو کسی کا دل پسیجے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر دینی جماعتوں کی موجودہ قیادت نے حالات کی سنگینی اور دینی کارکنوں کے جذبات کا بروقت احساس نہ کیا تو یہ خلا تو بہرحال باقی نہیں رہے گا اس لئے کہ خلا کبھی باقی نہیں رہتا، فضا میں اگر ہوا کا دبائو کم ہو جائے تو اس کو اکثر اوقات آندھیاں پر کیا کرتی ہیں اور پھر بہت کچھ بدل جایا کرتا ہے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے