عذاب الٰہی اور اس کے اسباب

واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ واعلموا ان اللہ شدید العقاب
ترجمہ: اور بچتے رہو اس فساد سے کہ نہیں پڑے گا تم میں سے خاص ظالموں ہی پر اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (انفال آیت ۲۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان والوں کو ایک ایسے عذاب سے بچنے کا حکم کیا ہے جو صرف مجرموں کو ہی نہیں پہنچتا بلکہ مجرم اور غیر مجرم دونوں کو پہنچتا ہے۔ حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب دو قسم پر ہے ایک خاص جو کہ صرف مجرموں کو پہنچتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اختیا ر میں ہے کہ اس دنیا میں ڈھیل دے کر آخرت میں دے اور دوسرا عذاب عام جو کہ اس دنیا میں مجرم اور غیر مجرم سب پر آتاہے۔ اس عذاب ِعامہ کے اسباب کیا ہیں ؟
ترک دعوت
قوم کو نیکی کی دعوت دینا ترک کر دے یعنی برائی دیکھ کر اس کو ناگواری نہ ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من رایٰ منکم منکرا فلیغرہ بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذٰلک اضعف الایمان‘‘’’جو تم میں سے برائی دیکھے وہ ہاتھ سے روک دے (جو کہ اربا ب اختیار کے ذمہ ہے )اگر یہ طاقت نہ رکھے تو زبان سے روک دے (جو کہ داعی الیٰ اللہ کے ذمہ ہے )اگر یہ بھی طاقت نہ ہو تو کم ازکم دل سے برا جانے اور اس کا دل برائی محسوس کرے۔ مشکوٰۃ شریف صفحہ ۴۳۶‘‘حدیث پاک میں ہے اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حکم فرمایافلاں بستی کو الٹ دو جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے اللہ اس میں ایک نیک آدمی بھی رہتاہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اس کوبھی الٹ دو کہ میرا حکم توڑا جاتا تھا اور اس کے ماتھے پر بل بھی نہیں آتا تھا۔ مشکوٰۃ شریف صفحہ ۴۳۹ایسے ہی ایک جماعت بیت اللہ پر حملہ کرنے کے لئے اٹھی تواس جماعت کو شہر سمیت دھنسا دیا جائے گا حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیاکہ اس شہر میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو کہ اس جرم میں شریک نہ تھے تو فرمایاکہ یبعثون علیٰ نیاتہم۔ کہ آخرت میں اپنی اپنی نیت پر اٹھائے جائیں گے۔ 
ترک جہاد
عذاب عامہ کا دو سرا سبب ترک جہاد ہے کہ جب قوم جہا د فی سبیل اللہ کو ترک کر دے گی کفار غلبہ کر کے مسلمانوںپر یلغار کردیں گے جس سے عورتیں اور معصوم بچے بھی ہلاک ہوجائیں گے۔ 
توہین شعائراللّٰہ
عذاب عامہ کا تیسراسبب تو ہین شعائر اللہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے شعائر کی توہین نہ کرو یعنی جو اللہ تعالیٰ کے دین کی علامتیں جانی جاتی ہیں ان کی توہین نہ کرو۔ اس میں توہین خدا ,توہین رسول خدا,توہین کعبۃ اللہ , توہین مساجد , توہین قرآن ِ کریم ,توہین دینی مدارس, توہین اولیاء کرام سب شامل ہوگئے کہ جب ان شعائر کی توہین ہوگی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب عامہ نازل ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایامن عادی لی ولیا ً فقد اٰذنتہ بالحرب۔ جومیرے ولیوں سے دشمنی کرتاہے اس سے میرا اعلانِ جنگ ہے۔ 
سودخوری
عذاب عامہ کا چوتھاسبب سود خوری ہے جو قوم سود دینے اور لینے میں مشغول ہوجائے اور باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ۔ توتیار ہوجاؤلڑنے کو اللہ سے اس کے رسول سے۔ بقرۃ آیت ۲۷۹
ظلم کرنا
عذاب عامہ کا پانچواں سبب ظلم ہے۔ ظلم خواہ کسی نوعیت کا ہو اسکی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔۔ مظلوم کی بد دعا سے بچو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتقوادعوۃ المظلوم فانہ لیس بینہ و بین اللہ حجاب۔ 
ظلم کی اقسام جو ہمارے ملک میں عام ہیں۔ 
٭… نظام اسلام کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر مارنا۔ 
٭… کافروں کو ملک پر حملہ کی اجازت دے کر بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنا۔ 
٭… اقتدار سے ناجائز فائدہ حاصل کرکے اپنے مخالف بے گناہوں کو مارنا۔ 
٭… برائے تاوان اغوا کرکے تکلیف پہنچانا یا ماردینا۔ 
٭… جھوٹے مقدمے بنا کر بے گناہوں کو پابند سلاسل کرنا۔ 
٭… رشوت لیکر عدالتوں سے بے گناہوں کو سزا دینا اور مجرم کو چھوڑ دینا۔ 
٭… قاتلوں کو اسلامی سزایعنی قصاص میں قتل نہ کرنا۔ 
٭… قومی ذمہ داری بغیر رشوت پوری نہ کرنا یعنی جو قومی خدمت پر مامور تنخواہ دار ملازم ہیں وہ عوام کا کام رشوت لئے بغیر نہیں کرتے۔ 
٭… جرائم عامہ زنا ، چوری ، ڈاکہ ، فحش کاری ، فحش گانے، شراب خوری عام ہوجائے تو یہ بھی قوم پر ظلم ہے‘ اس سے معاشرے میں بگاڑ پھیلتا ہے۔
٭… نا اہل کو حکومت دینا بھی قوم پر ظلم ہے۔ 
٭… طاقت کے زور پر دوسرے کی آزادیٔ رائے کو کچل دینا۔ 
٭… زمیندار، کارخانہ دار، سرمایہ دارکا غریبوں کا خون پینا اور ان کی غربت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور پوری مزدوری نہ دینا بھی ظلم کی نوع میں داخل ہے۔ 
٭… تنخواہ پوری لینا اور کا م ادھورا کرنا بھی ظلم ہے۔ 
٭… سرمایہ داروں کا ذخیرہ اندوزی کرنا اور مخلوق کو قحط میں مبتلا کرکے گراں فروشی کرنا۔ 
٭… امانت میں خیانت کرنا او ر حق والے کو حق نہ دینا۔ 
٭… بم دھماکوں ، خود کش حملوں کے ذریعے معصوم عوام کو مارنا۔ 
٭… محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان جنہوں نے ایک اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا انہیں پابند ِسلاسل کرنا۔ 
جب من حیث القوم ان جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے اکثریت ان جرائم میں ملوث ہے ان جمہوری جرائم کا ارتکاب متقاضی ہے کہ ساری قوم کو عذاب دے کر ختم کردیا جائے جیساکہ قوم عاد ، ثمود ، قوم نوح اور اٰل فرعون لیکن اس میں رکاوٹ وہ صرف دعا ئے رحمۃ للعٰلمین ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی کہ اے اللہ ساری امت کو تباہ نہ کردینا جیسا کہ پہلی امتیں تباہ کردی گئیں۔ اس بناء پر عذاب عامہ کی دوقسم ہوگئی ایک استیصالی کہ جس سے تمام قوم کو جڑ سے اکھیڑ دیا جاتا ہے جو پہلی قوموں پر آیا۔ دوسرا عذاب غیر استیصالی جو اس وقت پر تنبیہ کرنے کیلئے کبھی کہیں کبھی کہیں آئیگا کبھی سرحد آئیگا کبھی بلوچستان میں کبھی کراچی ، سندھ میں آئیگا تو کبھی پنچاب میں آئیگا۔ چونکہ یہ امت آخری امت ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک رکھنا ہے اس لئے اس پر عذاب عامہ استیصالی نہیں آئے گا بلکہ جھنجھوڑنے کیلئے جزوی طور پر آتا رہیگا تاکہ قوم عبرت حاصل کرکے توبہ استغفار کی طرف متوجہ ہو۔ اب یہ وقت صرف حاکموں کو گالیاں دینے کا نہیں بلکہ ہر شخص خود احتسابی کرکے جو ظلم کرتا ہے اس کو ترک کرے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کلکم راع وکل مسؤل عن رعیتہ تم میں سے ہر ایک بادشاہ ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کا سوال کیا جائے گا کہ تم اپنی رعایا پر ظلم تو نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ظلم کو معاف نہ فرمائیں گے اگرچہ کسی جانور پر بھی کیوں نہ کیا ہو چہ جائیکہ انسان , انسان پر ظلم کرے۔ اب واحد راستہ یہی ہے کہ ان جرائم سے من حیث القوم توبہ کی جائے اور ملک میں اللہ تعالیٰ کا قانون جاری کیا جائے۔ پارلیمنٹ وہ فیصلے نہ کرے جو احکام الہی کے خلاف ہوں۔ 
عذاب عامہ کی قسمیں: 
فکلا اخذنا بذنبہ فمنھم من ارسلنا علیہ حاصبا ومنھم من اخذتہ الصیحۃ ومنھم من خسفنا بہ الارض ومنھم من اغرقناوماکان اللہ لیظلمہم ولٰکن کانوا انفسہم یظلمون۔ ۔ 
ترجمہ: …پھر سب کو پکڑا ہم نے اپنے اپنے گناہ پر پھر کوئی تھا کہ ہم نے اس پر بھیجا پتھراؤہوا سے اور کوئی تھا کہ اس کو پکڑا چنگھاڑ نے پھر کوئی تھا کہ اس کو دھنسا دیا ہم نے زمین میں اور کوئی تھا کہ اس کو ڈبو دیا ہم نے اور ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پرظلم کرے پر تھے وہ ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے۔ سورۃ عنکبوت آیت ۴۰
دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ عذاب کبھی اوپر سے آتاہے اور کبھی نیچے سے آتا ہے اور کبھی تمہاری آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں‘‘۔ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں بادشاہوں کا بادشاہ ہو ں جس سے چاہتا ہوں بادشاہی لے لیتا ہوں اور جس کو چاہتاہوں بادشاہی دے دیتا ہوں جب میں ناراض ہوتا ہوں تو ظالم بادشاہ مسلط کردیتا ہوں لہٰذا بادشاہوں کو گالیاں نہ دیا کرو بلکہ مجھ سے معافی مانگا کرو اسلئے قوم کوچاہیے کہ من حیث القوم اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگے۔
عذاب عامہ کے اوقات: 
افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وہم نائمون او امن اہل القریٰ ان یأتیہم باسنا ضحیً وہم یلعبون افامنوا مکراللہ فلایأمن مکراللہ الالقوم الخٰسرون۔
ترجمہ: اب کیا بے ڈر ہیںبستیوں والے اس سے کہ آپہنچے ان پر آفت ہماری راتوں رات جب وہ سوئے ہوں یا بے ڈر ہیںبستیوں والے اس سے کہ آپہنچے ان پرہمارا عذاب دن چڑھے جب کھیلتے ہوں کیا بے ڈر ہوگئے اللہ کی تدبیرسے پس نہیں بے ڈر ہوئے اللہ کی تدبیر سے مگر خرابی میں پڑنے والے۔ اعراف آیت ۹۔ ۸۔ ۹۷
عذاب کبھی سونے کے وقت میں آتاہے او ر عذاب کبھی عیش وعشرت کے وقت میں آتا ہے اور اللہ کا عذاب اچانک آتا ہے جب لوگ اپنی مستیوں میں مگن ہوں۔
عذاب عامہ سے بچنے کاطریقہ: 
عذاب عامہ سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر معافی مانگی جائے، جن جرائم کو عذاب عامہ کا سبب بتایا گیا ہے ان سے توبہ کی جائے۔
ذرائع ابلاغ، گانے، ڈرامے ختم کرکے انسانی ہمدری کا سبق جو قرآن و حدیث میں آیا ہے لیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے اس کو سنا جائے تاکہ دنیا پر واضح ہوکہ اسلام انسانی حقوق کاسب سے بڑا علمبردار ہے۔ قوم کا مزاج مغرب کی بجائے اسلام کی طرف موڑا جائے اور اسلامی اخلاق، اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن کے ذریعے نشر کریں۔ 
جرائم کبیرہ چوری، ڈاکہ، دہشت گردی، قتل، زنا بددیانتی، آبروریزی جیسے جرائم کی برائی نشر کی جائے اور ان کے خلاف مہم چلائی جائے۔
تمام قوانین سے اسلام کے قانون کی برتری بیان کی جائے۔ 
آخری تنبیہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمائی ہے اس کو نشر کیا جائے الم یأن للذین اٰمنوا ان تخشع قلوبھم لذکراللہ۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ لوگوں کے دل ڈر جائیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے۔ (حدید آیت ۱۶) سیلاب کی تباہ کاریاں، زلزلہ کی تباہ کاریاں ابھی قوم کو جھنجھوڑنہیں رہیں؟ کہ وہ سیلاب زدگان کو نشہ والا کھانا کھلاکر لوٹیں، سیلاب سے نکالنے کے بہانے سامان ٹرالیوں پر ڈال کر لے جائیں۔ سیلاب کی امداد ی رقم میں خیانت کریں مال تھوڑادیں اور دستخط زیادہ کے لیں۔ دیا ہوا سامان چھپا کر رکھ لیں اس کے بدلہ میں ردی سامان متأثرین کو دیں۔ کیا ابھی خوف کھانے کا وقت نہیں آیا ؟کیا اور کسی آفت کا انتظار ہے؟
قوم میں یہ اخلاق تب آئیں گے جبکہ بادشاہ اپنے اخلاق بدلیں گے، الناس علی دین ملوکھم۔ اس لئے حکومت اور رعایا سب کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے