خطاب چودھری شجاعت حسین

میرے لئے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ میں آج پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ پر اس بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہا ہوں۔ آج جب کہ پوری دنیا اور خاص طور پر مسلمانوں کو مختلف قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات نہ صرف ہمارے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ اور نجات کا راستہ ہیں۔ میں یہ خوبصورت محفل منعقد کروانے پر مجلس صوت الاسلام کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ان حضرات نے وقت کی ایک اہم ضرورت کا احساس کرتے ہوئے عالمی سیرت کانفرنس منعقد کی جس پر مجلس صوت الاسلام مبارکباد کی مستحق ہے۔ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس کانفرنس میں وقت کی ضرورت کے مطابق سیرت طیبہ کے تمام اہم پہلوئوں کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ 


دو دن سے علماء کرام اور اسکالروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس پر سیرت طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی جو ہمارے لئے مشعل راہ بنے گی۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے اسکالرز خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے انسانیت کی فلاح وبقاء کے لئے قیمتی خیالات پیش کئے جو ہم سب کے لئے باعث تقلید ہیں۔ علمائے کرام اور جامعہ ازہر کے اسکالرز نے نظام تعلیم کے بنیادی خدوخال دینی اور دنیاوی نظام تعلیم کا تذکرہ کیا اور واضح کیا کہ دینی اور دنیاوی علوم کی تقسیم اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا نظام تعلیم اور قرآن کا تصور علم سائنسی علوم حاصل کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مغرب والے تو حضرت محمدﷺ کی سیرت اور اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان حضور ﷺ کی تعلیمات کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ اگر ہم حضرت محمدﷺ کی روز مرہ زندگی کی مثالیں دیکھ کر اس پر عمل کریں تو کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پرآپؐ کی دیانت‘ امانت‘ وقار‘ تحمل‘ انصاف‘ بردباری اور رواداری ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
آج کل اقلیتوں سے برتائو پر بات ہورہی ہے۔ میں کہنا چاہوں گا کہ حضور ﷺ کے زمانے سے اقلیتوں کو اور عورتوں کو اتنے حقوق دیئے گئے تھے جبکہ مغرب میں اس کا تصور تک نہیں ہے اور وہ لوگ آج کل ہمیں انسانی حقوق کا لیکچر دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ مسلمانوں کی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جبکہ انہوں نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی تھی۔ حضرت محمد ﷺ نے ہمارے سامنے اس کی روشن مثال قائم کی ہے۔ حضور ﷺ نے ہمیں انسانیت کا بھی احترام سکھایا ہے۔
کچھ سالوں سے مغرب اسلام فوبیا میں مبتلا ہے اور اس میں نسل پرستی اور مذہبی تعصب کا اثر نمایاں ہے ۔ہم بطور مسلمان آخری نبی حضرت محمدﷺ پر اور تمام انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں۔ اگر میں مختصراً صرف اتنا کہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو چونکہ رول ماڈل قرار دیا ہے اس لیے آج کے دور کا سب سے اہم تقاضا یہ ہے کہ سیرت طیبہ کو عام کیا جائے۔ سیرت طیبہ کو اپنایا جائے۔
اس مملکت کو ریاست مدینہ کی طرح پیار ومحبت اور امن وسکون کا مرکز بنانے کی کوشش کی جائے جن بنیادوں پر حضور ﷺ نے اپنے معاشرے میں انقلاب برپا کیا ان بنیادوں پر معاشرے میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کی جائے۔ آج کی یہ مجلس ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اسلام اور قرآن کے مطابق ڈھالیں۔ اپنے گھروں اپنی اولادوں کو اور اپنے معاشروں کو اسلام کے آفاقی پیغام سے سجائیں اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں جو پوری مسلم دنیا کے لئے عزت‘ احترام اور رہنمائی کا سبب بنے۔ میں آخر میں آپ کے سامنے پیارے نبی ﷺ کی آخری وصیت دہرانا چاہتا ہوں جس میں انہوں نے ایک وصیت حقوق اللہ کے حوالے سے کی تھی اور دوسری حقوق العباد کے حوالے سے کہ نماز پڑھتے رہنا‘ کمزوروں اور ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنا۔
آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے