خطبہ استقبالیہ:حضرت مفتی ابوہریرہ محی الدین 

چیئرمین مجلس صوت الاسلام پاکستان

محترم و مکرم عزت مآب جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
دنیا کے مختلف ممالک سے تشریف لانے والے مندوبین کرام، علماء عظام اور عزیز ساتھیو!سب سے پہلے تو میں آپ کو مجلس صوت الاسلام پاکستان اس کی ذیلی تنظیم ’’تنظیم صلاح المسلمین‘‘ اور اس عالمی سیرت کانفرنس کے تمام معاونین اور منتظمین کی جانب سے دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ سب معزز حضرات کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپ نے ہماری دعوت قبول فرمائی اور اس کانفرنس کو رونق بخشی، میں بطور خاص اس کانفرنس کے تمام مقالہ نگار حضرات کا مشکور ہوں جو اندرون اور بیرون ملک سے تشریف لائے ہیں اور اپنے علم و دانش سے ہمیں فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کریں گے، اس کے ساتھ میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس عظیم اجتماع کو دین اسلام کی دعوت اور سیرت طیبہ کے پیغام کو عام کرنے کا باعث فرمادے (آمین)
معزز مہمان خصوصی! آج کی یہ کانفرنس جس کا آپ افتتاح فرما رہے ہیں، اس کا مرکزی عنوان ’’تعلیمات نبوی اور عصر حاضر‘‘ ہے، ‘ عصر حاضر میں سیرت طیبہ کا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کیا پیغام ہے اس کو سمجھنے کے لئے یہ کانفرنس منعقد کی جارہی ہے۔ معزز مہمان خصوصی اور سامعین کرام! آج انسانیت مصائب وآلام کی جس گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، تہذیبیں جس طرح دم توڑ رہی ہیں، لامذہبیت اور تہذیبی اقدار سے خالی وعاری معاشرے جس تیزی سے پھیل رہے ہیں، ان حالات میں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہمارا واحد سہارا ہیں، کیونکہ:
(1) نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کا آغاز اقرء کے عظیم الشان نعرہ سے ہوا۔ غار حرا میں اس وقت علم کی ایسی شمع روشن کی گئی جو ان شاء اللہ قیامت تک روشن رہے گی، جب جہالت اور گمراہی کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے اور اسی جہالت کے نتیجے میں ایک جانب کفر وشرک اور بت پرستی عام تھی تو دوسری جانب معاشرہ خاندانی عصبیتوں، عدم برداشت اور انتقام کی بھینٹ چڑھا ہوا تھا، ہر طرف جنگ وجدال کی کیفیت تھی، نہ کسی کی جان محفوظ تھی، نہ کسی کا مال اور عزت وآبرو، چنانچہ غار حرا سے نکلنے والی اس علم کی روشنی نے ہر طرف علم کا اجالا پھیلادیا۔ آج بھی علم کی مؤثر طاقت اگر کسی نظام میں ہے تو وہ صرف اور صرف اُسی نظام میں ہے جو نبی کریم ﷺ کے اسوۂ مبارکہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات سے ہمیں ملا ہے۔ 
(2) نبی کریم ﷺ کی تعلیمات فطرۃ انسانی کے عین مطابق اور انسان کو اُس کا اصل اعزاز ومقام جس کو قرآن کریم نے احسن تقویم سے تعبیر کیا، دلانے والی ہیں۔ آج انسانیت پستی کی جن گہری وادیوں میں گھری ہوئی ہے اور انسانیت اگر اس پستی سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ سب مل کر اللہ کی رسی یعنی اللہ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لیں۔
(3) نبی کریم ﷺ کی تعلیمات، آپ کا اسوۂ مبارکہ ہمیں مکمل اور جامع نظام زندگی عطا فرماتا ہے۔ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی رویوں اور معاملات میں اعتدال اور توازن پیدا کرتا ہے، ہم اس بات کا بخوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی تعلیمات میں ایک طرف اگر عفو و درگزر، صبروبرداشت اپنی انتہائوں پر پہنچا ہوا نظر آتا ہے، ایک فاتح کا یہ کہنا کہ ’’لا تثریب علیکم الیوم وانتم الطلقاء‘‘ جائو آج تم پر کوئی داروگیر نہیں، تم آزاد ہو۔ کوئی معمولی بات نہیں تو دوسری جانب مفسدین اور اللہ کے دین کے راستے میں رکاوٹ بننے والوں کی سرکوبی کے لیے قوانین بھی موجود ہیں، ان قوانین کے نفاذ کی عملی مثالیں اور اس کے نظائر بھی تاریخ نے نقل کئے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ افضل الرسل، امام الانبیاء اور خاتم النبیین ہیں، اس لئے آپ کو ایسی کامل کتاب اور جامع شریعت عطاء کی گئی جو تمام کتب سماویہ اور شرائع الٰہیہ سے افضل اور جامع تر ہے، عقائد حقہ، مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کے ساتھ حکومت اور سیاست کو بھی اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے، دین اور دنیا، امیری اور فقیری دونوں کا جامع ہے۔
بقول مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ
’’شریعت اسلامیہ نے اگر ایک طرف اعتقادات، عبادات اور مکارم اخلاق کو علیٰ وجہ الکمال بیان کیا تو دوسری طرف معاملات وتجارت کے احکام، معاشرے اور تمدن کے حقوق وآداب، حکمرانی، عدل عمرانی اور ممالک کے نظم ونسق کو درست رکھنے کیلئے ایسے قواعد کلیہ اور اصول وضوابط بھی بتلائے، جن کی روشنی میں چل کر خلفاء راشدین نے باوجود بے سروسامان کے آدھی آدھی دنیا کے دو حکمرانوں قیصر وکسریٰ کو بیک وقت زمین پر پچھاڑا اور بیک وقت بغیر کسی دوسری حکومت کی اعانت وامداد کے ان کا تختہ الٹا‘‘۔
آج ہمیں بھی کم و بیش اسی طرح کے حالات نے گھیر رکھا ہے، آج ہمارا معاشرہ ایک مرتبہ پھر عدم برداشت، لاقانونیت، جاہلانہ اور فرسودہ روایات کا مرکز بن چکا ہے، قتل و قتال، لوٹ مار اور مسلمان کے ہاتھوں ہی مسلمان کی عزت و ناموس پر حملہ ہم سب کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا بہت بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہمارا مستقبل انہی نوجوانوں سے وابستہ ہے اور آنے والے کل میں انہی نوجوانوں نے قوم کی راہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے، لیکن ہمارے یہ نوجوان مستقبل سے مایوس اپنے مقصد ِزندگی سے لاتعلق ہوکر اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کررہے ہیں۔
آج ملک بھر میں خودکش حملوں، دہشت گردی کی کارروائیوں کی یہ فضا ہم سب کے لئے افسوسناک ہے اور ہمارے ملک کے استحکام کے لئے شدید خطرہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج ہماری ذمہ داری ہے ہم دہشت گردی کی مذمت کریں اور معاشرے کو اس لعنت سے بچانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اس خطرناک صورتحال میں ہم نے اپنی یہ ذمہ داری محسوس کی کہ ہم اپنے نوجوان بھائیوں کو اس گھمبیر صورتحال سے نکالنے کے لئے ان کے سامنے فخر کائنات رحمۃ للعالمین کی مبارک سیرت پیش کریں تاکہ ہمارے یہ مایوس نوجوان اپنی زندگی کے مقصد کو سیرت مطہرہ کی روشنی میں تلاش کرسکیں، ہمارا یقین ہے کہ آج بھی اگر مسلمانوں کے معاشرہ کو اتحاد و اتفاق، عدل و انصاف رواداری ، تحمل و برداشت کا مرکز بنانا ہو تو ہمارے پاس قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔ آج ہمارے نوجوانوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عفوودرگزر، محبت و اخوت کا درس دیا ہے دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی پیاری تعلیمات دی ہیں اور ہمارے نبی نے ہی انسانیت کو وہ عظمتیں عطا فرمائیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، اسی مقصد کے لئے ہم نے یہ مبارک محفل سجائی ہے اور کوشش کی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک سے عالم اسلام کی نامور شخصیات کو اپنے نوجوانوں کے سامنے پیش کریں اور ہمیں امید ہے کہ ہمارے نوجوان ان بزرگ اور نامور شخصیات سے ضرور استفادہ کریں گے۔
مجھے یہ کہنا بھی لازم ہے کہ اس عالمی سیرت کانفرنس کے انعقاد میں وزارت مذہبی امور نے ہم سے جو گرانقدر تعاون کیا ہم اس پر شکر گزار ہیں خصوصاً جناب شوکت حیات درانی صاحب، وفاقی سیکریٹری مذہبی امور کے بھرپورتعاون اور بے لوث محبت پر ہم تہہ دل سے ان کے مشکور ہیں اور مجھے یہ اعتراف ہے کہ اگر محترم شوکت حیات درانی صاحب خصوصی دلچسپی نہ لیتے تو شاید ہمارے لئے یہ خوبصورت تقریب منعقد کرنا ممکن نہ رہتا اللہ تعالیٰ ان کو اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
ہمارے لئے یہ بات بھی تقویت کا باعث ہے کہ تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو عام کرنے میں محترم وزیر اعظم پاکستان نے بھی خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا اور آج کی اس محفل میں شریک ہوکر ہمارے حوصلوں کو جلابخشی جس پر ہم تہہ دل سے ان کے مشکور ہیں اور میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس عالمی سیرت کانفرنس کے ذریعے ہمیں اتحاد و اتفاق اور امن و امان کی دولت عطا فرمائے اور ہمارے نوجوانوں کو سیرت مطہرہ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے