میجر ریٹائر ڈمحمد عا مر

مایوسی ختم ہوگئی

نحمدہ ونصل علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد !
بزرگ اور بڑی شخصیات کی موجودگی میں میرے بھائی ابوذر نے مجھے بڑی آزمائش سے دوچار کردیا ۔میں تقریریں سننے آیاتھا تقریرکرنے نہیں آیاتھا۔جب میں ہال میں داخل ہوا تو میں مایوسی کا شکار تھا لیکن ان نوجوان علماء کو سننے کے بعد میں اس ہال سے ایک مطمئن شخص کی حیثیت سے جارہا ہوں،میں اپنے بھائی مفتی ابوہریرہ محی الدین صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ان نوجوانوں کا یہ پیغام ہم تک پہنچے جو بیماریاں انہوں نے بیان کی ہیں ان میں سے کوئی بھی بیماری نہیں بچے گی۔ مسئلہ یہ ہے دہشت گردی، شدت پسندی، انسانی حرمت کی بے توقیری، اقلیتوں کے ساتھ ظلم،عدم برداشت یہ ساری بیماریاں انہوں بیان کیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی دوا بھی تجویزکردی ہے اوروہ ہے قرآن ۔جوان بیماریوں کا حکیم اور دواخانہ ہے لیکن افسوس وہ آج ٹارگٹ ہے، ایسی بیماریوں کے جراثیم ہم نے پھیلائے ہوئے ہیں ان کے بعد ان بیماریوں کا علاج کرنے والے آپ ہو مگر آپ بھی ٹارگٹ ہیں  تاکہ نہ بچے بانس نہ بجے بانسری۔ 
دوسپر پاور کو مدرسے کے علماء نے شکست سے دوچارکیاتیسرا اپنی شکست کے زخم چاٹ رہاہے۔یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ مسجد کو مُلاّ کو ٹارگٹ کیا جائے آج ایک سانحہ ہوا بچوں کا، میں اس رات نہیں سویا تھا میرا ضمیر شرمندہ تھا اگر میں مذاکرات میں سرنڈر نہ کرتا تو شاید میں بچوں کی زندگی بچاسکتا تھا۔ میں خود کو مجرم سمجھتا ہوں ،میں ملافضل اللہ کے پاس گیا مسلم خان کے گھر میں ملااور میں نے کہا مولانامیںمشرف کی قید کاٹ کرآیا ہوں،میری ایک سال کی بچی اس کی قیدی تھی۔ میں تمہاری منت کررہا ہوں کہ بندوق مت اٹھائو،علماء مارے جائیں گے، مدارس گرائے جائیں گے، مساجدشہید کردی جائیں گی ،کوئی اُف کرنے والا نہیں ہوگا یہ بین الاقوامی سازش ہے۔ میں مذاکرات کاسب سے بڑا حامی تھا،کیونکہ مذاکرات سے ہی ہوکر امن کو راستہ جاتا ہے مگرہم ناکام رہے اور مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے۔ ہم کیوں ناکام رہے یہ تاریخ کی امانت ہے جو کبھی نہ کبھی ان شاء اللہ ضرور سامنے آئے گی۔ میں پھر کہتا ہوں کہ یہ خطرہ باہر سے ہے توکچھ اندر سے بھی ہے۔ہم خودکش جیکٹ اترواسکتے تھے لیکن ہم نہیں اترواسکے۔ہم فکری کام سے بہت پیچھے رہے۔ آج ہم مدرسوں اور مساجد کی بقاء کا رونا رورہے ہیں۔ خدا کی قسم مسجد ومدرسہ کے مینار جب تک سلامت ہیں اس ملک کو کچھ نہیں ہوگا اور ان شاء اللہ مسجد ومدرسہ سلامت رہیں گے، اس کی فکر چھوڑ دو۔آج ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ 
تمام مدارس ،تمام علماء کو دہشت گرد قرار کہا جارہا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ ادراک کرنا چاہیے کہ ہم نے اس خطرہ کا تدارک کرنا ہے ،آپ حکیم ہیں آپ مرشد ہیں، آپ دواخانہ ہیں آپ جادو گر ہیں ۔روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کی معیت میں تشریف لے جارہے تھے بنو امیہ کی مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد خلاف معمول لمبی دعا مانگی صحابہ کرامؓ کو تجسس ہوا پوچھا یا رسول اللہ آپ نے لمبی دعا مانگی، فرمایا میں نے اللہ سے دعا مانگی یااللہ میری امت کو اوپر کے عذاب سے محفوظ فرما میری دعا قبول ہوگئی،میں نے دعا مانگی یااللہ میری امت کو دوسرے قسم کے عذاب نیچے کے عذاب سے محفوظ فرما ،میری دعا قبول کرلی، میں نے دعا مانگی یااللہ میری امت کو تیسرے قسم کے عذاب سے محفوظ فرما مجھے یہ دعا مانگنے سے روک دیا گیا،آپﷺ کی دعا تو مسترد ہونہیں سکتی تھی تو اس تیسرے قسم کے عذاب کا دروازہ امت پر کھلا چھوڑ دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کوہم نالائقوں سے بڑا پیار ہے ،ہم سرکش ہیں، ہم باغی ہیں،اس لئے انہوں نے راستہ بنادیا اور رہبر دے دیئے اور وہ ہیں آپ لوگ ۔یہ اللہ کا ہمارے اوپر خصوصی انعام ہے۔ اس نے ہر دور میں ہمیں نوازا ہے آپ جیسے لوگوں سے ،مدارس سے اور علماء سے۔آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مدارس اور علماء خطرے سے دوچار ہیں تو وہ آرام سے گھر بیٹھ جائے میرے بھائی صدیق الفاروق بیٹھے ہیںجن کو غائب کیا تھا پرویز مشرف نے ،سردار یوسف صاحب بیٹھے ہیں ہمارے ساتھی ہیں۔ خدا نہ کرے اس دور میں ایسا کوئی واقعہ ہوا کوئی ایک بات آئی ،کوئی شک ہوا آپ گھر بیٹھ جائیں ہم باہر نکلیں گے لیکن دین کو جو اندر سے خطرہ ہے اس کا تدارک کرنا ہے فکری طور سے، جب تک آپ لوگ ہیں جب تک یہ نوجوان ہیں۔مفتی ابوہریرہ جس طرح آپ نوجوانوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں آپ یقین کریں میری تو آج بیٹری چارج ہوگئی۔ نہ مدارس بند سکتے ہیں نہ علماء کو کچھ ہو سکتا ہے نہ ان شاء اللہ اس ملک کو کچھ ہوگا۔ ہم آگے بڑھیں گے۔ مشرف کے دور میں ہمارے مولانا عارف تھے 80سال کے ڈاکٹروں کو درس قرآن دیتے تھے انہیں اٹھایا گیا ہم اعظم ہوتی کے پاس گئے ۔اعظم ہوتی نے کہا کسی مولوی کو نہیں چھوڑیں گے ۔اوپر سے آرڈر ہے۔اگلے دن مولانا کی لاش کھیتوں میں پڑی ہوئی ملی ۔ہم جنازے میں گئے 25،30ہزار کا مجمع تھا،مولانا کے چار بیٹے تھے بڑے بیٹے نے مجھے آکر کہا چچا ہم سب خودکش بنیں گے ،میں نے کہا بند کرو یہ بکواس ۔کس کے خلاف خودکش بنوں گے اور میں نے بھائی کو کہا جنازے کی صفوں میں اعلان کردو کہ ہمارے ہر جنازے میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگیں گے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے