انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ زندگی دونوں کی فعالیت اور اہمیت کا نام ہے لیکن دونوں میں تقابل کیا جائے تو روح افضل ہے کیونکہ روح کے بغیر جسم لاش کہلاتا ہے لیکن دوسری طرف جسم کے بغیر اکیلی روح بھی انسان نہیں کہلاتی۔ روح اور جسم کے درمیان بندھن کس نوعیت کا ہے اور خود روح کیا چیز ہے،اس کے بارے میں انبیاء کرام علیہم السلام سے لیکر حکماء وفلاسفر تک سوچتے رہے ہیں اور اس کی حقیقت پانے کیلئے ریاضت وجدوجہد کے مراحل سے بھی گزرے ہیں لیکن آج بھی اس خدائی کلام سے کہ ’’روح میرے رب کے امر میں سے ہے‘‘ کوئی زیادہ نہ سمجھ سکا ہے اور نہ اس پر بات کرسکا ہے۔ البتہ تخمینی اور ظنی طور پر بہت سارے فلسفے بگھارے جاتے رہے ہیں اور مزید بھی اس سلسلے میں غور وفکر اور تجسس جاری رہے گا۔
رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمان جسم سے زیادہ روح کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ اسلام روحانیات پر پوری زندگی میں عمل پیرا رہنے کا تقاضا کرتا ہے۔ روح کی بالیدگی اور ترقی ومعراج کے لئے اسلام نے وہ عبادات فرض کی ہیں جو ساری کی ساری جسمانی فوائد سے زیادہ روحانی نشوونما وترقی کے لئے ضروری ہیں۔ چونکہ اسلام اعتدال کا دین ہے اس لئے جسم کے حق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ روح کے تقاضوں اور مطالبات کی تکمیل پر بھی زور دیتا ہے، اس طرح جسم وجان یا جسم وروح کے درمیان ایک خوبصورت اور معتدل امتزاج جاری رہ کر زندگی کا پہیہ گھومتا اور رواں ہوتا ہے۔
لیکن یہ بات تو ہر صاحب عقل کو معلوم ہے کہ یہ جسم فانی ہے لیکن اس فانی جسم کے اندر جو اصل جسم ہے وہ روح ہے اور اصل انسان وہی ہے۔ اگر ہم کہیں فرصت کے لمحات میں اطمینان قلب کے ساتھ اس بات پر سوچیں کہ جسم اور روح میں کس کو اہمیت حاصل ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل اہمیت روح کو حاصل ہے کیونکہ اس دنیا میں خیروشر کی کشمکش میں کردار روح کا ہوتا ہے لیکن روح کی ظاہری ومادی سلامتی کے لئے جسم بھی بطور گھر یا قلعہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے روح کی حفاظت اور اس کی صحیح طور پر ادائیگی کردار کے لئے جسم کے نشوونما کیلئے بھی انواع واقسام کی نعمتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ان نعمتوں میں سے بعض ایسی ہیں کہ اگر ایک ڈیڑھ گھنٹہ یا دو تین کیلئے نہ ملیں تو روح جسم سے اپنا ناتا توڑلے گی۔ مثلاً اگر ہوا ناپید ہوجائے تو آدھا گھنٹہ کے اندر اندر زندگی خطرے میں پڑجائے ۔اللہ تعالیٰ نے کتنی مہربانی فرمائی ہے ہوا کو تمام جانداروں کے لئے عام کیا ہے تاکہ ہوا میں موجود آکسیجن جو زندگی کی علامت ہے سب کو بلامعاوضہ اور محنت ومنت کے ملے۔ اسی طرح پانی ہے جو زندگی کو پیہم رواں دواں رکھنے کے لئے کرہ ارض میں 2/3دو تہائی مقدار میں پیدا کیا ہے۔ یہی پانی ہے جو آبی بخارات کے ذریعے بار بار آسمان سے صاف ستھرا نتھر کر برستا ہے اور ساری روئے زممین پر اور سندروں ودریائوں میں زندگی کو آگے بڑھاتا ہے کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ وہ پانی جو آسمان سے صاف ستھرا نازل ہوجاتا ہے اور حضرت انسان چند ٹکوں کی خاطر اسے آلودہ کرکے انسان اور جانداروں کے لئے مضر صحت بنادیتا ہے۔
آج پاکستان جیسے ملکوں میں پانی اس حد تک آلودہ ہوچکا ہے کہ ہمارے پھل اور سبزیاں تک اس کے مضر اثرات کے تحت فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ آج وطن عزیز میں ماہرین طب کی آراء کے مطابق یرقان، کینسر اور دیگر موذی امراض کا باعث زیادہ تر یہی آلودہ اور زہریلا پانی ہے۔ کسی زمانے میں اباسین (شیردریا) کا پانی پورے پاکستان کے عوام اور کھیتوں کو اپنے صاف وشفاف پانی سے سیراب کرتے ہوئے جسم وروح کی تازگی اور روئیدگی کا سبب بنتا تھا۔ دریائے راوی جو کبھی کھیتی باڑی کے علاوہ رومان ومحبت کی داستانوں کا آمین ہوتا تھا، آج گندے اور زہریلے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کم وبیش یہی حال پوری دنیا کا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور یورپ کو اب اس بات کا شدت سے احساس ہوچکا ہے کہ انہوں نے زمین کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے اور مادہ پرستی کے گھن چکر سے اب نکلنے کو اس حد تک تیار ہوچکے ہیں کہ اپنے اپنے ملکوں کی فضا اور ماحول کو صاف رکھنے کیلئے قانون سازی کے ذریعے سخت اقدامات کررہے ہیں لیکن اپنا نفع کھرا رکھنے کے لئے تیسری دنیا کے غریب ملکوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے اپنی فیکٹریاں اور کارخانے لگواکر ہر قسم کے ترود اور دلدر سے مبرا ہوجاتے ہیں۔ اپنا نفع زرمبادلہ (ڈالر) کی صورت میں اپنے ملک لے جائیں اور ان فیکٹریوں کے مضر فضلہ جات کے مضر اثرات اس غریب ملک کے عوام بھگتیں۔ یہ داستان اتنی تلخ اور طویل ہے کہ سن پڑھ کر انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ امریکہ کی مادہ کے حصول کے لئے لاطینی امریکہ میں چیرہ دستیاں خود ایک امریکی صاحب روح جان پرکنز کی کتاب ’’معاشی غارت گر‘‘ (اردو ترجمہ) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
اسی طرح ہوا ہے۔ کارخانوں اور ٹرانسپورٹ اور بالخصوص ترقی یافتہ ممالک کی اسلحہ سازی کی صنعت اور ایٹمی ہتھیار کی ایجاد اور استعمال نے حضرت انسان کی زندگی کو جن خطرات سے دوچار کیا ہے اس کا تصور کرکے ہی انسانی روح وضمیر کانپنے لگتے ہیں۔ 9/11کے بعد عراق، افغانستان، لیبیا، پاکستان، شام، یمن اور دیگر علاقائی ممالک میں جو بارود اور کیمیکلز (Chemicals)استعمال کیا گیا اس کے اثرات بد نوزائیدہ بچوں پر صاف دیکھے جارہے ہیں۔ ان مسلمان ممالک میں جو ظلم وستم روا رکھا گیا اس نے یہاں کے حساس اور دکھی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور باپوں کو نفسیاتی مریض بناکر رکھ دیا۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ لوگ روح اور ضمیر کی پکار پر کان نہیں دھرتے۔ صرف اور صرف جسم کی ضروریات وہ بھی تعیش وتنعم کی آخری حد تک پوری کرنے کے لئے سب کچھ دائو پر لگانے کے لئے تیار ہیں۔ حالانکہ سونا چاندی اور کاغذ کی کرنسی نہ کھانے کے قابل ہے اور نہ پینے کے۔ وہ انسان جو آج آسمانوں اور سمندروں کو مسخر کرچکا ہے۔ اتنا نہیں سمجھتا کہ اگر یہ زمین، فضا، پانی اور ہوا اس طرح اپنے ہی ہاتھوں تباہ وبرباد کرتے رہے تو خزانوں میں منوں ٹنوں کے حساب سے سونا چاندی رکھ کر بھی کیا کریں گے؟ کاش آج کا انسان اس کہانی سے عبرت حاصل کرلے جس میں ایک بادشاہ کو وہ گر ہاتھ آیا تھا جس میں اس کی لمس سے ہر چیز سونا بن جاتا تھا اور پھر جب اسے بھوک لگی اور اس نے لقمہ توڑا تو وہ بھی سونے میں تبدیل ہوچکا تھا اور سونا وہ کھانا نہ سکا۔
مغرب کو ان مسائل کا اب اس حد تک احساس ہوچکا ہے کہ پچھلے دنوں پوپ فرانسس جو پوری مسیحی دنیا کے روحانی پیشوا ہیں۔ نے آب وہوا اور موسمیات کی غیر فطری تبدیلی کو زمین اور نتیجتاً انسان کے لئے خطرناک ترین قرار دیتے ہوئے متعلقہ ملکوں اور اداروں پر زور دیا ہے کہ آئیں مل کر زمین کو تباہ ہونے سے بچالیں۔
پوپ کی اس بات سے جہاں مجھے بے حد خوشی محسوس ہوئی وہاں اس بات سے رنجیدگی بھی ہوئی کہ اسلامی دنیا کی مساجد بالخصوص حرم پاک سے ایسی آواز کیوں نہیں اٹھتی۔ کہ آئیں مل کر اپنی دنیا کو صاف ستھرا بنائیں تاکہ ہمیں روحانی ترقی حاصل ہو، ماحولیاتی صفائی پر اسلام نے جتنا زور دیا ہے شاید ہی کسی اور مذہب میں اتنی تفصیل اور تاکید کے ساتھ آیا ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی صفائی پر زور دیتے ہوئے اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی صاف رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔ ماحول کو گندہ کرنے اور رکھنے کا وطیرہ یہودیوں کا تھا۔ اس لئے آپﷺ نے فرمایا! ’’اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھو اور یہودیوں کی طرح نہ بنو‘‘۔
ماحولیات کی صفائی تب ممکن ہوسکتی ہے جب انسانوں کی روحانی صفائی ہوئی ہو۔ اس لیے اسلام نے عقیدہ توحید ورسالت کے ذریعے فکری تطہیر کو اولیت وترجیح دی ہے۔ فکر وروح پاک صاف ہوجائے تو اعمال وامور خود بخود سنورنے لگتے ہیں۔
آج دنیا میں روحانی وفکری صفائی کم ہے اس لئے ترقی کے باوجود دنیا آلودگی کی شکار ہے۔ برقی توانائی کی چکا چوند کے باوجود دنیا میں اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ امریکہ کی سپریم کورٹ اور بعض دیگر یورپی ممالک کی پارلیمانوں میں ہم جنس شادیوں کو قانوناً جائز قرار دیا گیا ہے۔ کیا یہ انسانی فکر کی آلودگی کی انتہا نہیں ہے۔ دوسری طرف اسلامی دنیا ہے۔ پاکستان جس کا ایک نمائندہ ملک ہے۔ رمضان کا مہینہ ہر سال اس لئے آتا ہے کہ ہمیں گیارہ مہینوں کی آلودگیوں سے پاک صاف کرے لیکن کھانے پینے سے منع ہونے کے باوجود مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گڑبڑ کرنے سے روزہ دار نہیں رکتا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انسان اپنے جسم سے عظیم تر ایک چیز ہے جو اس پیمانہ خاکی سے باہر چھلک رہا ہے لیکن ہم اس کے تقاضوں اور مطالبوں پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ حالانکہ یہ اتنی طاقتور چیز ہے کہ اس کے ذریعے دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔ اسی تسلسل کی چند باتیں دوسرے کالم میں ( ان شاء اللہ )