ایک خوفناک دھماکہ ہوا، پھر ہر طرف لاشیں ہی لاشیں نظر آنے لگیں، زخمیوں کی چیخ و پکار، مائوں کی صدائیں، اپنوںکی بے چینی، ایمبولینسوں کے سائرن، آہ و بکا، انسانی اعضاء پتوں کی طرح بکھرے پڑے، ہر طرف خون ہی خون، دہشت ہی دہشت، بھگدڑ، افراتفری، کوئی دھماکے کا شکار ہوا تو کوئی پائوں تلے کچلا گیا، غرض قیامت صغریٰ کا منظر، شہدائے کربلا سے وابستہ یوم عاشور اہل کراچی کے لئے بھی یوم کرب و بلا بن گیا۔
دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے پچاس سے زائد افراد کی جان لے لی، درجنوں خواتین کو بیوہ، بچوں کو یتیم اور خاندانوں کو اپنے کفیل سے محروم کردیا ، مگر اس کے ساتھ ہی ایک دھماکہ اور ہوا، ایک معاشی بم بھی پھٹا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ’’اکنامک حب‘‘ کراچی کی شہہ رگ ایم اے جناح روڈ کی تین ہزار سے زائد دکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آگ نے چالیس، پچاس ارب روپے کی املاک و تجارتی سامان ہی نہیں جلایا بلکہ ہزاروں تاجروں کو کنگال، پچاس ہزار سے زائد افراد کو بے روزگار اور معاشی زندگی کو مفلوج کردیا۔ ’’ردعمل‘‘ کے نام پر کی جانے والی اس دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں کتنے مفلوک الحال خاندان موت کا شکار ہوںگے، حکومت کو ریونیو کی مد میں کتنے ارب کا نقصان ہوگا اور آئی سی یو میں پڑی ملکی معیشت پر کیا گزرے گی؟ ان سوالوں کا جواب نہ تو دہشت گردوں کے پاس ہے، نہ ان کے سر پرستوں کے پاس اور نہ ان کارروائیوں کا سبب بننے والے صاحبان اقتدار و اختیار کے پاس! ہر عمل کا ردعمل ایک فطری بات اور سائنس کا اصول ہے مگر وہ ردعمل کیا ہونا چاہئے یہ فیصلہ کرنا انسان کا کام ہے، منہ پر مکھی بیٹھ جائے تو اپنے ہی منہ پر مکا مارنا کوئی دانش مندانہ ردعمل نہیں، اسی طرح اگر گاڑی چلاتے ہوئے کوئی شخص آپ کو طیش دلا دے تو اپنی گاڑی اس کی گاڑی سے ٹکرا دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ لیکن بدقسمتی سے ہم من حیث القوم عموماً اسی قسم کے ’’خودکش‘‘ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جس سے زیادتی کے مرتکب شخص کا کچھ بگڑے نہ بگڑے، ہمارا اپنا نقصان ضرور ہوتا ہے اور بعض اوقات تو فریق مخالف کے منفی عمل سے اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا کہ ردعمل سے پہنچتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کے قتل کے ردعمل میں کراچی تا پشاور ملک بھر میں آگ لگا دی گئی، ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا اس کی تلافی آج تک نہ ہو سکی، کتنے بے گناہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بے شمار زخمی ہوئے، ردعمل کا شکار ہونے والے یہ معصوم شہری بھی اپنے گھر والوں اور خالق کائنات کی نظر میں بحیثیت انسان اتنے ہی اہم تھے جتنی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو، کیا یہ تباہ کن ردعمل اسلام، اخلاقیات، قانون، انسانیت اور خود پیپلزپارٹی کے اصول، مساوات و آزادی کے خلاف نہیں تھا؟ اس ردعمل سے بی بی کے قاتلوں کو کیا نقصان پہنچا؟ مغربی ممالک کے بعض بدبختوں نے ایک سازش کے تحت توہین آمیز خاکے شائع کئے اور ہم نے ردعمل کے طور پر اپنے ہی ملک کی املاک جلا ڈالیں، پر تشدد مظاہرے کئے ، گاڑیوں پر پتھرائو کیا ،ہڑتالوں و توڑ پھوڑ کے ذریعے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اور کتنے ہی گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے، کیا ردعمل کا یہ طریقہ خود محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ تھا، اس ردعمل سے گستاخانِ رسول کو کیا نقصان پہنچا؟ سوات میں کوڑے مارے جانے کی جعلی ویڈیو سامنے لائی گئی، لاہور میں خود کش حملہ ہوا، ہم نے اس کے خلاف ہڑتالیں کیں، احتجاجی مظاہرے، جلسے، جلوس اور توڑ پھوڑ کی، اس طرح معیشت کا پہیہ جام اور روز کے کمانے، کھانے والوں کو فاقہ کشی کا شکار کرکے کیا ہم نے بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی مدد نہیں کی؟ ہمارے اس ردعمل سے دہشت گردوں کو کیا نقصان پہنچا؟
اس طرح کے مواقع پر ہمارے احمقانہ اور جذباتی ردعمل سے صرف ایک ہی بات کا اظہار ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی دہشت گردوں کے آگے بے بس ہے، ملک کے 18 کروڑ عوام دہشت گردوں کے آگے بے بس ہیں، دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان دہشت گردوں کے آگے بے بس ہیں، لہٰذا ہم اپنی بے بسی کا اظہار اپنا ہی نقصان کرکے کرتے ہیں، ہم باہر سے پٹ کر آتے ہیں تو اپنا غصہ گھر کی چیزیں توڑ کر نکالتے ہیں، ڈانٹ بیگم سے پڑتی ہے، اظہار برہمی اپنے ماتحتوں پر کرتے ہیں، پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ ’’طاقت ور کا تھپڑ اور کمزور کی گالی‘‘ لہٰذا ہم بھی دہشت گردوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا مقابلہ توڑ پھوڑ، چیخ پکار اور گالی گلوچ کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے دشمنوں کا عمل جتنا مضر ثابت ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان ہمیں اپنے ’’ردعمل‘‘ سے اٹھانا پڑتا ہے جس سے ایک طرف تو ہماری جگ ہنسائی سے دشمن کو دہری خوشی ملتی ہے جبکہ دوسری جانب ہم اپنی کمزوری و بے بسی کا اظہار کرکے ان دہشت گردوں کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، یہ کسی بھی موقع پر توڑ پھوڑ، جلائو گھیرائو، ہڑتالوں و احتجاجی مظاہروں، بے گناہوں پر تشدد، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے، بدامنی اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ مسلمانوں اور ایک اسلامی ملک کو نقصان پہنچانا تو درکنار، اسلام تو کفار اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے کا بھی مخالف ہے حتیٰ کہ جنگ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘‘ مگر اسلام انسانی جذبات کے عروج کے اس نازک موقع پر بھی اپنے پیروکاروں پر یہ پابندیاں عائد کرتا ہے کہ وہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو نہیں ماریں گے، جو شہری ان کے مقابلے پر نہیں آئے، ان پر اسلحہ نہیں اٹھائیںگے، دشمن کی عبادت گاہوں، املاک حتیٰ کے مویشیوں تک کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد نہیں کریں گے کیونکہ یہ ایسے وحشیانہ افعال ہیں جن کی اسلام جیسے امن و محبت والے دین سے کوئی مناسبت نہیں۔ ایسے مواقع پر سب سے بڑا بہادر وہ ہے جو اپنے جذبات، زبان اور ہاتھوں کو کنٹرول میں رکھے۔
حضور ﷺ طواف و زیارت کعبہ کے لئے جانا چاہتے ہیں مگر دشمنان اسلام نے آپؐ کو اس پر امن سفر سے روک دیا، آپؐ نے کوئی احتجاج نہیں کیا، صلح حدیبیہ میں کفار من مانی شرائط عائد کرتے چلے گئے، مگر آپؐ سیخ پا نہیں ہوئے، حضرت عثمانؓ کی شہادت کی جھوٹی خبر ملی مگر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے کوئی توڑ پھوڑ اور پتھرائو نہیں کیا، اہل طائف نے آپؐ پر ظلم کی انتہاء کردی مگر کوئی صدائے احتجاج بلند نہ ہوئی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کو شہید کردیا گیا، حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا گیا، حضرت علیؓ کو شہید کردیا گیا ،اس کے باوجود نہ تو کوئی ہڑتال ہوئی، نہ جلائو گھیرائو اور نہ جلسے، جلوس، اس کی وجہ یہی تھی کہ یہ اسلام کا مزاج ہی نہیں ہے۔ خالق کائنات نے واضح طور پر فرمادیا کہ ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ آپؐ کی ساری زندگی صبر و تحمل اور بدی کے بدلے نیکی کا عملی نمونہ ہے مگر اس کے باوجود سیکولر پارٹیاں تو ایک طرف ،مذہبی جماعتیں بھی کسی سانحے کے موقع پر اپنے ردعمل کا اظہار اسی غیر اسلامی اور ’’اغیار‘‘ کے طریقے سے کرتی ہیں، یہ ہماری حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ دنیا بھر میں ناپسندیدہ واقعات پر ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے مگر اپنے ملک، املاک اور شہریوں کو نقصان پہنچانا جہالت تصور کیاجاتا ہے۔ ستر کی دہائی میں عربوں نے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی، مغربی ممالک میں صنعتی پہیہ جام ہوگیا بلکہ عمومی زندگی کی رفتار بھی انتہائی سست ہوگئی اس کے باوجود وہاں نہ تو عربوں کے خلاف ہڑتالیں ہوئیں نہ توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو، بلکہ انہوں نے آئندہ کے لئے اس قسم کی بھیانک صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک طویل المدتی پالیسی ترتیب دی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ آج عربوں کے تیل پر مغرب قابض ہو چکا ہے اور صورتحال ماضی کے بالکل برعکس ہو چکی ہے۔ اگر اس وقت متاثرہ ممالک احتجاجی طرز عمل اختیار کرکے ٹھنڈے پڑ جاتے تو وہ آج بھی عربوں کے دست نگر ہوتے اور اوپیک ممالک ان کو وقتاً فوقتاً بلیک میل کرتے اور وہ ہر مرتبہ پر زور احتجاج کرکے خاموش ہو جاتے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہم کب تک بڑے سے بڑے سانحے کے نتیجے میں پرتشدد ردعمل کا اظہار کرکے بے وقوف بنتے رہیں گے؟ ہم ایسے واقعات سے سبق کیوں حاصل نہیں کرتے؟ سانحہ بھی ہم پر گزرتا ہے اور ردعمل کے نتیجے میں نقصان بھی ہمارا کیا باشعور قومیں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں؟