ایک عرصے سے ہمارے ملک میں احتساب احتساب کا شور مچا ہوا ہے لیکن عموماً دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ ہر حکمران حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا کڑا احتساب کرتا ہے اور پھر جب وہ خود اپوزیشن میں آجاتا ہے تو پھر نئے حکمران اس کا اور اس کے ساتھیوں کا کڑا احتساب شروع کردیتے ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی دوران اقتدار ہی اپنی پارٹی یا اتحاد سے الگ ہوکر اپوزیشن میں شامل ہوجائے تو اس کا بھی احتساب شروع ہوجاتا ہے جبکہ مخالفین میں سے اگر کوئی حکومت میں شامل ہو جائے تو وہ بالکل پاک صاف ہوجاتا ہے ،ایسا کیوں ہے ؟ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے احتساب کے لئے تیار نہیں ۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
مارو اپنے نفس کو اپنی موت سے پہلے اور اپنا احتساب کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ناجائزخواہشات کو کچل کر اپنے نفس کو قابو کیا جائے اور اپنی ذات کو ایسا بنایا جائے کہ نہ تو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے اور نہ خود اپنا دینی نقصان کر کے ا پنی آخرت تباہ کرلے۔ اگر ہر شخص کوئی بھی ناجائز کام کرنے سے پہلے اپنے فعل کو احتساب کے ترازو میں تول لے تو معاشرے سے سود خوری، رشوت ،قتل وغارت ، بدکاری ،چوری ،ڈکیتی ،بے ایمانی ،دھوکہ ،ملاوٹ ،جھوٹ اور لوٹ کھسوٹ کا مکمل خاتمہ نہ سہی خاطر خواہ کمی ضرور ہو سکتی ہے ۔
حکمرانوںکے لئے تو اپنا محاسبہ اور بھی ضروری ہے کیونکہ وہ صرف اپنے اعمال کے ہی ذمہ دار نہیں ہوتے بلکہ جولوگ بھی ان کے ماتحت یا رعایا میں شامل ہیں ،ان کی نگرانی بھی حکام کے فرائض میں شامل ہے اور اس میں سربراہان مملکت سے لے کر ایک کونسلر یا یو سی ناظم تک اور ایک قبیلے کے سردار سے لے کر ایک چھوٹے سے گھرانے کے سربراہ تک سب شامل ہیں ۔
جیساکہ محسن انسانیتﷺ نے ارشاد فرمایا:
آگاہ ہوجائو !تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جو شخص لوگوں کا امیر ہے ،اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا اور ہر شخص اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی نگہبان ہے ،اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور غلام(یاملازم) اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے ،اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا ۔سو آگاہ ہوجائو! تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کی بابت سوال ہوگا(صحیح مسلم)۔
رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے 40سال تک اپنی شخصیت کی اس قدر مضبوط تعمیر کی کہ آپؐ بہترین اخلاق والے اور صادق وامین مشہور ہوگئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ آپﷺ نے یہ کٹھن انقلابی سفر تن تنہا شروع کیا تھا مگر رفتہ رفتہ لوگ آپ کے ساتھ ملتے گئے اور قافلہ بنتا چلاگیا اور صرف 23سال کے مختصرعرصے میں اسلامی مملکت 10لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی حتیٰ کہ اس کی وسعت افریقہ‘ اسپین‘ چین اور ہنگری تک جاپہنچی‘ یہ شاندار کامیابی ایک انتہائی سادہ پروگرام کے ذریعے حاصل ہوئی جو قرآن کے لفظوں میں حسب ذیل تھا۔
اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھئے‘ لوگوں کوڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے اور اپنے اخلاق کو اچھا بنائیے اور بری باتوں کو چھوڑ دیجیے اور ایسا نہ کیجیے کہ احسان کریں اور بدلہ چاہیں اور اپنے رب کے لیے صبر کیجئے (سورۂ مدثر)۔
اس پروگرام کا خلاصہ کیا جائے تو اس کے صرف تین نکات قرار پائیں گے۔
(1) ذاتی اصلاح: اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے‘ اپنے اخلاق کو درست کیا جائے اور ہر قسم کے برے کاموں کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہے تاکہ جہاں کہیں بھی کوئی کمزوری یا خامی نظر آئے تو اسے دور کیا جاسکے ۔اس طرح کسی اور کو آپ کی طرف انگلی اٹھانے یا احتساب کرنے کی نہ تو جرأت ہو گی اور نہ ہی ضرورت۔
(2) انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ وہ ایک اللہ کا بندہ ہے اور مرنے کے بعد اسے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔اگر معاشرے کے ہر شخص کے دل میں یہ حقیقت جاگزیں ہوجائے تو کسی کو بھی احتساب احتساب کا شور مچانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
(3) اپنی اصلاح اور دوسروں کو آگاہی دینے کی اس جدوجہد میں جو مشکلات پیش آئیں ان پر صبر کیا جائے۔
قرآن پاک 23برس میں رفتہ رفتہ نازل ہوا جس میں سے 13برس تک صرف وہ آیات اور سورتیں نازل ہوئیں جن میں اصلاح نفس اور اصلاح باطن پر زور دیا گیا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور اصلاح معاشرہ سے متعلق دیگر احکام بعد میں نازل ہوئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ 13سال تک اسلام نے اپنے پیروکاروں کی شخصیت کی تعمیر کی‘ انہیں ایک عملی نمونہ بنایا تاکہ ہر شخص ان کے جیسا بننے کی خواہش کرے۔ ان کے اندر بردباری‘ ایمانداری‘ ایثار‘ صبروتحمل‘ رواداری‘ برداشت‘ احسان‘ سچائی‘ انصاف‘ ہمدردی‘ مخلوق خدا سے محبت‘ مساوات اور اصلاح معاشرہ کی فکر جیسی صفات پیداکیں۔ اس کے بعد ان پر اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری بھی ڈال دی اور انہیں یہ بات ذہن نشین کرادی کہ دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے خواہ تمہارے سامنے کوئی مسلمان ہو یا کافر‘ دوست ہو یا دشمن اور تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں کے عملی کردار اور حسن سلوک کو دیکھ کر ہی اکثر غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا لیکن ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا آج ہمارا عملی کردار اس قدر مضبوط ہے کہ اسے دیکھ کر لوگ اسلام کی جانب راغب ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے ’’کرتوت‘‘ دیکھ کر تو لوگ اسلام سے متنفر ہورہے ہیں۔ ہم اشاعت اسلام کے بجائے اسلام کی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں۔ آج کتنے لوگ ایسے ہیں جو اسلامی تعلیمات کی حقانیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے مگر مسلمانوں کی حالت زار دیکھنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’اگر ہم اسلامی تعلیمات کے بجائے مسلمانوں کے طرز عمل کا مطالعہ کرتے تو شاید کبھی بھی مسلمان نہ ہوتے۔ نہ جانے کیوں ہم جارج برنارڈشاہ کے اس قول کو سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ ’’اسلام بہترین مذہب اور مسلمان بدترین قوم ہے‘‘اور پاکستانی ہونا تو بیرون ملک ایک گالی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور یہ سب یقینا خود احتسابی کی صفت سے محرومی کا ہی نتیجہ ہے۔
احتساب کسی بھی معاشرے کی کامیابی کی کلید ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک ،اقوام ،قبائل اور معاشروں نے کسی نہ کسی صورت احتساب کا نظام قائم کررکھا ہے کیونکہ درحقیقت وہی قوم کامیاب ہو تی ہے جو ہمہ وقت احتساب کے حوالے سے مستعد رہتی ہے اور ہماری قومی وعالمی سطح پر ناکامی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے ۔احتساب کے لئے ضروری ہے کہ قوانین کا منصفانہ وعادلانہ نفاذ کیا جائے کیونکہ قوانین مرتب کرنے سے نہیں ،ان کے نفاذ سے معاشرے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص کا بلا تخصیص وبلا امتیاز احتساب کیا جائے ۔بے لاگ احتساب کے لئے اہل و دیانتدار اہل کاروں کا تقرر بھی انتہائی ضروری ہے بصورت دیگر یہی ہوگا کہ ’’لے کے رشوت پکڑا گیا ،دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘۔اگر کوئی شخص ازخود کوئی عہدہ طلب کرتا ہے تو اس کے نااہل ہونے کے لئے یہی کافی ہے لہٰذا ایسے شخص کو کوئی ذمہ داری نہ سونپی جائے ۔جیسا کہ آپؐ نے فرمایا:
بلاشبہ ہمارے نزدیک تم میں سب سے زیادہ خائن وہ ہے جو ذمہ داری خود طلب کرے۔
صاحبان اقتدار واختیار کا عوام سے رابطہ بھی ضروری ہے تاکہ جس پر بھی کوئی ظلم وزیادتی ہو تو بر وقت اس کا سدباب کیا جاسکے۔الغرض منصفانہ وعادلانہ احتساب کے لئے اسوۂ رسول اکرمﷺ میں مکمل رہنمائی موجود ہے ۔ضرورت صرف اسے سمجھنے ،اپنانے اور عمل کرنے کی ہے ۔