اسلامی خلافت…دلیل اور قانون کی حکمرانی

2، 3 ، 4 جنوری کو جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی مجلس صوت الاسلام کے زیراہتمام فضلائے درس نظامی کے ایک تربیتی کورس میںمسلسل تین روز تک ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر گفتگو کا موقع ملا۔ یہ کورس ایک تعلیمی سال کے دورانیے پر مشتمل ہوتا ہے اور کئی سالوں سے جاری ہے۔ مختلف اصحابِ فکر ودانش اپنے اپنے پسندیدہ موضوعات پر اس میں گفتگو کرتے ہیں۔ مجھے بھی ہر سال چند روز کے لیے حاضری کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور منتظمین کے ساتھ ساتھ فضلائے درس نظامی کا ذوق اور طلب دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اس سال کراچی میں حاضری کے موقع پر مجھے تین نشستوں میں بات کرنا تھی، میں نے خود ہی اپنے لیے یہ موضوع منتخب کیا کہ ’’خلافت‘‘ کے بارے میںکچھ عرض کرنا زیادہ مناسب بات ہوگی۔ اس کے بعد 12جنوری کو اسلام آباد کے آب پارہ کمیونٹی سینٹر میں ’’مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار میں بھی اسی موضوع کے بعض پہلوؤں پر گزارشات پیش کیں، کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ ان معروضات کو قلمبند ہوجانا چاہیے، چنانچہ ان حضرات کی فرمائش، بلکہ اصرار پر مذکورہ محافل میں اس موضوع پر ہونے والی گفتگو کو ترتیب کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔
’’خلافت‘‘کے لفظی معنی نیابت ہیں، خَلَفَ کے معنی ہیں ’’وہ کسی کے پیچھے چلا‘‘ اور کسی کے جانے کے بعد اس کی جگہ سنبھالنے والے کو بھی خلیفہ کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے، جس کی ایک تعبیر یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل نے زمین پر بسنے والی پیش رو مخلوق یعنی جنوں کی جگہ سنبھالی ہے اور وہ ان کے خلیفہ ہیں۔ ایک مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں اپنی خلافت عطاء فرمائی ہے کہ زمین میں انسان اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے، اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ زمین پر بسنے والے ہزاروں قسم کے جانوروں میں سے زمین پر تصرف کا ملکہ اور مواقع انسان ہی کو عطاء ہوئے ہیں، زمین کی سطح پر، اس کے اندر، فضا میں اور سمندر میں بسنے والی مخلوقات کو شمار کیا جائے تو اس کی ہزاروں انواع گنی جاتی ہیں لیکن ان سب میں زمین کے اندر، سطح، فضا اور سمندر میں تصرف کی صلاحیت انسان کو ہی حاصل ہے اور وہی سارے نظام کو کنٹرول کررہا ہے۔ گویا زمین پر تکوینی تصرف کی ایک صورت انسان کے پاس ہے، جبکہ انسان کے اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی اور دوسری زمینی مخلوقات کے لیے جو نظام اور قوانین مقرر فرمائے ہیں، ان کے نفاذ کی ذمہ داری انسان پر ہے۔ وہ خدا کی زمین پر خدا کا نظام نافذ کرنے پر مامور ہے اور اس کی ڈیوٹی ہے کہ انسانی سوسائٹی اور زمین کا نظام اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین کے مطابق چلائے۔ قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کو خلیفہ کہا گیا ہے اور ارشاد ربانی ہے کہ 
’’اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں۔‘‘
یہاں خلیفہ کا لفظ حکمرانی اور قوانین ونظام کے حوالے سے استعمال ہوا ہے اور سیدنا حضرت داؤد علیہ السلام کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ یہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواہشات کی پیروی اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹا دیتی ہے اور گمراہ کردیتی ہے، گویا حضرت داؤد علیہ السلام کو خطاب کرکے یہ کہا گیا ہے کہ صحیح قانون وہی ہے، جو حق یعنی وحی کی روشنی میں ہو اور انسانی خواہشات پر بننے والا قانون ونظام گمراہی کا نظام وقانون ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشاد میں خلافت کا مفہوم اور پس منظر یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیائے کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، ایک نبی فوت ہوجاتا تو دوسرا نبی اس کی جگہ آجاتا، لیکن میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا، البتہ خلفاء ہوں گے۔‘‘ (بخاری شریف)
بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کی مختلف صورتیں تھیں، بعض پیغمبر خود ہی حکمران بھی ہوتے تھے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یوشع بن نون علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام اور بعض نبی بادشاہ گر تھے، جیسے حضرت سموئیل علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے درخواست کی کہ ان پر کسی کو بادشاہ بنایا جائے تاکہ وہ اس کی قیادت میں ظالم بادشاہ جالوت کے خلاف جہاد کرسکیں، چنانچہ انہوںنے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت طالوت کو بادشاہ بنادیا اور ان کی قیادت میں بنی اسرائیل نے جالوت کے خلاف فلسطین میں جنگ لڑی۔ اس جہاد کی بہت سی تفصیلات سورۃ البقرہ کی آیات میں بیان ہوئی ہیں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادگرامی کی رو سے ’’خلافت‘‘ سیاسی معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا نام ہے اور اسلام کے سیاسی سسٹم کا بنیادی اصول یہ قرار پاتا ہے کہ وہ سیاسی قیادت جو اس سے پہلے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کیا کرتے تھے، وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے باعث اب خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی اور یہ خلفاء نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کریںگے، چنانچہ ہمارے فقہائے کرام جب خلافت کی تعریف کرتے ہیں تو یہ فرماتے ہیں کہ امت کے اجتماعی معاملات کو چلانا ’’نیابتاً عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کرتے ہوئے۔ اسی وجہ سے خلیفۂ اوّل حضرت سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ’’خلیفۃُ رسولِ اﷲ ‘‘ (اللہ کے رسول کا خلیفہ) کہا جاتا تھا اور ان کے بعد ان کے جانشین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ’’خلیفۃُ خلیفۃِ رسولِ اﷲ‘‘ (اللہ کے رسول کے جانشین کا جانشین) کہا جانے لگا تو ان کو الجھن ہوئی تھی کہ تیسرے اورچوتھے خلیفہ کو کس لقب سے یاد کیاجائے گا؟ ایک دن غالباً حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں ’’یاامیرالمومنین ‘‘کے لقب سے خطاب کیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ خطاب صحیح ہے، اب اس کے بعد انہیں امیرالمومنین ہی کہا جائے۔
یہاں ایک نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اسلامی نظام میں ’’خلیفہ‘‘ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں کہلاتا، بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا حامل تصور کیا جاتا ہے، جیسا کہ فقہائے کرام نے خلیفہ کی تعریف میں لکھا ہے، بلکہ قاضی ابویعلیٰ نے ’’الأحکام السلطانیۃ‘‘ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ’’یا خلیفۃ اﷲ‘‘ کہہ کر خطاب کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر اسے ٹوک دیا کہ ’’لست بخلیفۃِ اﷲ، أنا خلیفۃُ رسولِ اﷲ‘‘ یعنی میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ نہیں ہوں، بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں۔ اسلامی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میرا خیال ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ فرماکر خلافت کا ایک بڑا اصول بیان فر مایا ہے اور پاپائیت کی جڑ کاٹ دی ہے۔
پاپائیت کا تصور یہ ہے کہ پاپائے روم جو کیتھولک مسیحیوں کے عالمی مذہبی پیشوا کے طور پر اللہ تعالیٰ کے نمایندہ ہیں اور وہ مذہب کی کسی بات کی جو تشریح کریں، اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھا جائے، مذہب کی تعبیر کی فائنل اتھارٹی ہیں، ان کے کسی فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اگر خلیفہ کو بھی اللہ تعالیٰ کا خلیفہ قرار دیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نمایندہ کی حیثیت سے فائنل اتھارٹی تصور کیا جائے گا اور اس کی بات کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، اس کے برعکس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ کے طور پر خلیفہ وقت قرآن وسنت کا پابند قرار پاتا ہے کہ اس کی ہر بات کی دلیل قرآن کریم سے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث سے تلاش کرنا ہوگی، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالتے ہی اپنے پہلے خطبہ میں اس بات کو واضح کردیا اور فرمایا کہ میں قرآن وسنت کی اتباع کا وعدہ کرتا ہوں اور تمہیں حق دیتا ہوں کہ اگر مجھے قرآن کریم یا سنت نبوی کے خلاف چلتا دیکھو تو مجھے سیدھا کردو۔ اسے دلیل اور قانون کی حکومت کہا جاتا ہے کہ خلیفہ ایک ایسے قانون ودستور کی پابندی کا اعلان کررہا ہے، جو نہ اس نے خود بنایا ہے اور نہ ہی اسے اس میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔
بادشاہت میں بادشاہ خود قانون بنانے والا ہوتا ہے اور خود ہی اس میں ترمیم کا اختیار رکھتا ہے، اس لیے اگر بادشاہ قانون کی پابندی کی بات کرتا ہے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ خود ہی دستور وقانون بناتی ہے اور اس میں ترمیم بھی کرسکتی ہے، اس لیے اس کی طرف سے دستور وقانون کی پابندی کا دعویٰ محل نظر ہے۔ ان دونوں کے برعکس اسلامی خلیفہ قرآن وسنت کا پابند ہوتا ہے اور خود حکمران کہلانے کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کا منصب رکھتا ہے، جبکہ اسے قرآن وسنت میں ردوبدل یا اس کی من مانی تشریح کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، اس لیے صحیح معنوں میں اگر کسی حکومت کو قانون کی حکومت کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف اسلامی خلافت ہے، جس کی بنیاد قوت یا خاندانی بالادستی پر نہیں، بلکہ دلیل پر ہوتی ہے، اس لیے دنیا کی تاریخ میں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد اگر دلیل اور قانون کی بنیاد پر کوئی حکومت قائم ہوئی ہے تو وہ اسلامی خلافت ہے، جس کے بنیادی اصول خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پہلے خطبہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کردیے گئے ہیں۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ان کی جانشینی کے بارے میں دو مکتب فکر پائے جاتے ہیں، ایک امامت کا اور دوسرا خلافت کا۔ اہل تشیع امامت کے علم بردار ہیں اور اہل سنت خلافت کی بات کرتے ہیں۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ان دونوں میں بنیادی فرق بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں خلافت اور امامت میں درج ذیل فرق پائے جاتے ہیں:
٭امامت منصوص ہے، یعنی اس کا قیام نص اور مبینہ طور پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے ذریعہ عمل میں آیا اور اس میں امت کی رائے کا کوئی دخل نہیں، اسی لیے اہل تشیع حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ’’وصی رسول اﷲ‘‘ کا عقیدہ رکھتے ہیں، جبکہ خلافت منصوص نہیں ہے، یعنی خلیفہ کا تقرر کسی نص یا وصیت کے ذریعہ نہیں ہوا، بلکہ خلیفہ اول کا انتخاب امت کی اجتماعی صوابدید کی بنیاد پر عمل میں لایاگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے باہمی مشاورت اور عمومی بحث ومباحثہ کے بعد آزادانہ رائے کے ذریعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین منتخب کیا تھا۔
٭امامت نسبی اور خاندانی ہے کہ جن بزرگوں کو اہل تشیع بارہ اماموں کا درجہ دیتے ہیں، وہ ایک دوسرے کے نسبی وارث تھے، جبکہ خلافت راشدہ کے چاروں بزرگوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا نسبی وارث نہیں ہے۔
٭اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق امام معصوم ہے۔ اہل سنت خلیفہ کو معصوم نہیں سمجھتے، بلکہ وہ شرعی طور پر مجتہد کا درجہ رکھتا ہے۔ معصوم سے خطا کا احتمال نہیں ہوتا، اس لیے اس کی بات حتمی ہوتی ہے، جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا، جبکہ مجتہد کے فیصلوں میں خطا وصواب دونوں کا احتمال موجود ہوتا ہے، اس کے کسی بھی فیصلے سے دلیل کی بنیاد پر اختلاف کیاجاسکتا ہے اور خلفائے راشدین کے فیصلوں سے بھی اختلاف کیاجاتا رہا ہے۔
٭خلیفہ اپنی رعیت اور رائے عامہ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ دونوں نے اپنے ابتدائی خطبوں میں اس کی وضاحت کی ہے، جبکہ امام کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔
٭عوام کو خلیفہ کے احتساب کا حق حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بدوی نے کھلے اجتماع میں چادر کے بارے میں پوچھ لیا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خود پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں حج کے موقع پر کھلی عدالت لگاکر اپنے حکام سمیت عوامی احتساب کے لیے پیش ہوگئے تھے، بلکہ اس عوامی احتساب کا خود سرکاری طور پر اہتمام کیا تھا، مگر اہل تشیع کے عقیدے کے مطابق عوام امام کا احتساب کرنے کا حق نہیں رکھتے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نمایندہ تصور ہوتا ہے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتا۔
٭اثناعشری اہل تشیع کے ہاں امامت کا تسلسل بارہویں امام پر رُک گیا ہے، ان کے عقیدہ کے مطابق آخری دور میں انہی کو واپس آنا ہے اور اس فہرست میں مزید اضافہ ممکن نہیں ہے، جبکہ خلافت کا تسلسل ہر دور میں قائم رہا ہے اور آج بھی شرعی شرائط اور طریق کار کے مطابق کسی بھی مسلمان کو خلیفہ منتخب کیا جاسکتا ہے، اس لیے میںیہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ’’پاپائیت‘‘ اور ’’تھیاکریسی‘‘ کا یہ تصور کہ ایک شخص خدا کے نمایندہ کے طور پر حکومت کرے، قانون ودستور کی تعبیر میں حتمی اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہو اور کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو، یہ تصوراہل سنت کے نظام خلافت میں تو سرے سے موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے، البتہ اہل تشیع کے فلسفہ امامت میں اس کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
اس حوالے سے ایک اور بات بھی ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ آج کے دور میں امامت اور خلافت کے ان دونوں فلسفوں کو دستوری شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے اور خلافت وامامت کی معروف اصطلاحات پر زور دیے بغیر یہ دونوں دستوری ڈھانچے آج موجود ہیں۔ مثلاً ایران کا دستور امامت کے تصور پر تشکیل دیا گیا ہے کہ اصل حاکم تو ’’امام غائب‘‘ ہیں لیکن چونکہ ان کی غیبوبت کا زمانہ ہے، اس لیے ان کی نمایندگی وقت کے سب سے بڑے فقیہ کریںگے، جو امام غائب کی نمایندگی اور اختیارات کے ساتھ اصل حاکم ہوںگے، اسے ’’ولایت فقیہ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ’’ولایت فقیہ‘‘ کا یہ منصب جناب خمینی کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد سے جناب خامنہ ای اس منصب پر فائز ہیں۔ انہیں ایران کے دستوری وقانونی نظام میں آخری اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے۔ وہ حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کے فیصلے کو ویٹو کرسکتے ہیں اور ان کے فیصلے پر نظرثانی کا اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ گویا وہ ’’امام معصوم‘‘ کہلائے بغیر عملاً ’’امام معصوم‘‘ ہی ہیں اور میرے خیال میں ’’پاپائیت‘‘ کا تصور بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں ’’قراردادمقاصد‘‘ کے ذریعہ یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، حکومت عوام کے منتخب نمایندے کریںگے، مگر وہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدود کے پابند ہوںگے اور قرآن وسنت کے دائرے سے تجاوز نہیں کرسکیںگے۔ میرے خیال میں اگر آج ’’خلافت‘‘ کو دستوری شکل دی جائے تو اس کی بنیاد بھی یہی ہوگی کہ
٭اصل حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
٭خلیفہ ٔوقت اللہ تعالیٰ کے احکام وقوانین نافذ کرنے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے۔
٭اس کا انتخاب عوامی رائے سے ہوگا۔
٭وہ اور اس کی حکومت قرآن وسنت کے مطابق حکومت کرنے کے پابند ہوںگے۔
٭خلیفہ اور اس کے حکام عوام کے سامنے جواب دہ ہوںگے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں یہ سب اصول ’’خلافت‘‘ کی اصطلاح اختیار کیے بغیر شامل کرلیے گئے ہیں، اگر ان پر عمل ہوجائے تو ایک صحیح اسلامی ریاست قائم ہوسکتی ہے۔ ایران کی قیادت اپنے فلسفہ کے ساتھ مخلص ہے اور پورے خلوص ودیانت کے ساتھ اس پر عمل کررہی ہے، جبکہ پاکستان کے مقتدر طبقات کے نزدیک دستور کی اسلامی حیثیت اور دفعات وقوانین کی پوزیشن صرف شوپیس اور نمائش کی ہے، اس لیے دستور کے ساتھ مسلسل منافقت روا رکھی جارہی ہے۔
اس کے بعد میں اس طرف آؤںگا کہ آج کے دور میں اسلامی خلافت کس طرح قائم کی جاسکتی ہے؟ ہمارے فقہائے کرام نے ’’انعقادخلافت‘‘ کی جو عملی صورتیں بیان کی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
٭امت اپنی اجتماعی صوابدید پر خلیفہ کا انتخاب کرے، یہ عوامی رائے سے ہو یا اربابِ حل وعقد خلیفہ کا انتخاب کریں، اس کے بارے میں بحث کی گنجائش موجود ہے۔
٭ موجود خلیفہ کسی کو ارباب حل وعقد کی مشاورت کے ساتھ اپنا جانشین نامزد کردے۔
٭خلیفہ براہ راست جانشین نامزد کرنے کی بجائے کوئی کمیٹی بنادے، جو اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرلے۔
٭مجلس شوریٰ خلیفہ کا انتخاب کرلے۔
٭کوئی شخص جو خلافت کی اہلیت رکھتا ہو، بزورطاقت اقتدار پر قبضہ کرلے اور امت اسے قبول کرلے۔
فقہائے کرام کے ہاں مسلّمہ فقہی اصولوں کے مطابق خلافت کے انعقاد کی یہی پانچ صورتیں ہیں، جن میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ خلافت قائم ہوسکتی ہے اور خلیفہ کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے آج کے حالات میں دوسری، تیسری اور چوتھی صورت قابل عمل نہیں ہے، اس لیے کہ اس وقت کوئی شرعی خلیفہ موجودہ نہیں ہے، جو کسی کو نامزد کرسکے یا کمیٹی بناسکے اور کسی شرعی خلیفہ کی مقررکردہ کوئی شوریٰ بھی موجود نہیں ہے، جو انتخاب خلیفہ کا حق رکھتی ہو۔
آج کے دور میں خلافت کے قیام کی پہلی اور آخری صورت ہی قابل عمل ہے کہ امت خود کسی خلیفہ کا انتخاب کرے یا کوئی اہل شخص طاقت کے ذریعہ کسی بڑے خطے پر قبضہ کرکے خلافت کا اعلان کردے، اس لیے میرے خیال میں اب اگر ہم خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں تو عملی صورت یہ ہوگی کہ کسی مسلم ملک کی منتخب پارلیمنٹ خلافت کے نظام کو اپنانے کا فیصلہ کرے اور اس کے تمام شرعی ودستوری تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے ملک کو ’’اسلامی امارت‘‘ قرار دے اور چند اسلامی ریاستیں وجود میں آجانے کے بعد وہ آپس میں مل کر ’’خلافت اسلامیہ‘‘ قائم کرکے خلیفہ کا انتخاب کرلیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے خلافت کے نظام کو ایک عالمی نظام قرار دیا ہے، جو مختلف ریاستوں اور حکومتوں کے درمیان انصاف کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے، اس لیے علاقائی اسلامی حکومتوں کو خلافت کی بجائے ’’امارت اسلامیہ‘‘ کا نام دینا ہی زیادہ مناسب ہے، جیسا کہ طالبان نے افغانستان میں شرعی حکومت قائم کرنے کے بعد خلافت کے اعلان کی بجائے اسے ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ قرار دے دیا تھا اور میرے خیال میں یہ انتہائی دانش مندانہ فیصلہ تھا، اس لیے کہ ہر علاقے میں الگ الگ ’’خلافت‘‘ قائم ہوگی تو باہمی ٹکراؤ اور خلفشار کی انتہائی افسوس ناک صورت حال پیدا ہوجائے گی۔
اس وقت عالم اسلام میں خلافت کی بحالی کی بیسیوں تحریکات موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک کے ساتھ مناسب مواقع پر تعاون بھی کرتا ہوں، مگر اس وضاحت کے ساتھ کہ ہم خلافت کی بحالی کی جدوجہد میں تعاون کریںگے لیکن ’’خلیفہ‘‘ کا انتخاب اپنے وقت پر منطقی طریقۂ کار کے مطابق ہوگا، اس لیے ہم خلافت کے کسی موجودہ امیدوار کی حمایت نہیں کرتے۔ چند سال قبل لندن میں ایک جبہ قبہ پہنے ہوئے شخص ایک اجتماع میں ملے، انہوںنے اپنی ہیئت اس طرح کی بنارکھی تھی جیسے وہ واقعتا ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ ہوں، انہوںنے کہا کہ وہ جرمنی میں رہتے ہیں، ترکی خاندان خلافت سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوںنے خلافت کے استحقاق کا دعویٰ کیا ہے، کچھ لوگ ان کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں، مجھ سے انہوںنے بیعت کا تقاضا کیا، عربی میں گفتگو کررہے تھے، ان کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ خلافت کی بحالی کے موقف سے ہم متفق ہیں لیکن ’’خلیفہ‘‘ کے انتخاب کے اس طریقِ کار سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ ایک دفعہ جامعہ نصرۃ العلوم میں اسباق کے دوران ایک بزرگ تشریف لائے، جو پاکستان ہی کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں، میں اسباق سے فارغ ہوکر ان سے ملا تو انہوںنے بیعت کا تقاضا رکھ دیا کہ میں امیرالمومنین ہوں، آپ میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔ میں نے معذرت کردی کہ اس طرح کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ لاہور میں خلافت کے موضوع پر سیمینار ہوا، جس میں مجھے بھی بلایا گیا، میں نے خلافت کی اہمیت وضرورت اور برکات وثمرات کے حوالہ سے گزارشات پیش کیں، جن کے آخر میں دل لگی کے انداز میں عرض کیا کہ اس ہال میں پانچ چھ خلیفہ نظر آرہے ہیں، اگر لاہور میں اتنے خلیفہ ہیں تو پاکستان میں کتنے ہوںگے، پھر عالم اسلام کی کیا صورت حال ہوگی اور خلافت کے نام پر کتنی خوف ناک دھماچوکڑی مچ جائے گی۔
ایسی صورت حال میں جبکہ پورا مغرب ’’خلافت‘‘ کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور عالمی قوتوں نے طے کررکھا ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں خلافت قائم نہیںہونے دی جائے گی اور نہ ہی شریعت نافذ ہونے دی جائے گی، اس ماحول میں خلافت کا قیام بہت سنجیدہ مسئلہ ہے۔ یہ ہماری شرعی ودینی ذمہ داری بھی ہے کہ جلدازجلد خلافت قائم ہوجائے لیکن اس سے کہیں زیادہ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ خلافت کے نام پر امت میں کوئی نیا خلفشار پیدا نہ ہوجائے اور ہم پہلے مسائل کو سمیٹتے سمیٹتے عالم اسلام کے لیے کوئی نیا مسئلہ کھڑا نہ کردیں۔
جہاں تک خلافت کی ضرورت اور اس کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے، فقہائے کرام نے اسے امت کی اجتماعی ذمہ داری اور فرض کفایہ قرار دیا ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلافت شرعیہ موجود ہو، جس سے امت کے افراد متعلقہ امور ومعاملات میں رجوع کرسکتے ہوں تو گزارہ ہوجائے گا لیکن اگر کہیں بھی خلافت اسلامیہ کا وجود نہیں ہے تو امت مسلمہ بحیثیت امت مجموعی طور پر دینی فریضہ کی تارک اور گناہ گار ہوگی۔ میرے خیال میں آج کی صورت حال یہی ہے کہ ہم سب دینی فریضہ کے تارک اور گناہ گار ہیں۔ فقہائے کرام نے خلافت کے وجوب پر ایک دلیل یہ دی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سب سے پہلے یہی کام کیا تھا، حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتدفین سے بھی اس کو مقدم کیا، اس لیے یہ صرف واجب نہیں، بلکہ اہم الواجبات ہے۔ فقہائے کرام خلافت کے وجوب کی ایک دلیل یہ بھی دیتے ہیں کہ قرآن وسنت کے بہت سے صریح احکام مثلاً جہاد، قیام عدل، حدود کا نفاذ اور بیت المال وغیرہ اس بات پر موقوف ہیںکہ کوئی صاحب اقتدار انہیں قائم ونافذ کرے اور اصول یہ ہے کہ فرض کا موقوف علیہ بھی فرض ہوتا ہے، اس لیے قرآن وسنت کے اجتماعی اور معاشرتی احکام کے نفاذ کے لیے خلافت کا قیام فرض اور واجب ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ہم سب ترک خلافت کے ذمہ دار ہیں۔ حکمران اس درجہ میں کہ ان کے پاس اختیار ہے، مگر وہ نہیں کررہے، جبکہ سیاسی راہنما اور علمائے کرام اس طور پر کہ وہ منظم محنت کرکے ملک میں ایسی فضا قائم کرسکتے ہیں،مگر ان کی اس طرف توجہ نہیں ہے اور خلافت کے احیاء کی جو تحریکیں اس وقت عالم اسلام میں موجود ہیں، ان میں سے ہر ایک کا ہدف صرف یہ ہے کہ کسی طرح وہ دنیا کے کسی خطہ میں اقتدار حاصل کرلیں اور خلافت کے قیام میں ان کی طرف سے پہل ہوجائے لیکن جو اصل ضرورت ہے کہ امت میں عمومی طور پر خلافت کی بحالی کا ذوق بیدار ہو، آج کے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے رائے عامہ کو خلافت کی بحالی کے لیے منظم کیا جائے اور بھرپور عوامی قوت کے ساتھ خلافت کے قیام کی جدوجہد کی جائے، یہ کام دنیائے اسلام میں کسی جگہ بھی نہیں ہورہا، اس کے برعکس ’’امامت‘‘ کا تصور رکھنے والوں نے مربوط اور منظم محنت کرکے اسے نہ صرف عملاً قائم کرلیا ہے، بلکہ کامیابی کے ساتھ اسے چلا بھی رہے ہیں۔
ایران میں شاہ کے خلاف مذہبی طبقہ نے بیداری اور بے زاری دونوں کا پوری قوت کے ساتھ اظہار کیا، جناب خمینی نے اپنی جدوجہد اور محنت کا ہدف یونیورسٹیوں کو بنایا، ان کے اساتذہ وطلبہ کی ذہن سازی کی، انہیں اپنے مذہبی فلسفہ کے مطابق حکومت کی تشکیل اور اس میں مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار کیا، رائے عامہ کو منظم کیا، شاہ ایران کے خلاف ذہن رکھنے والے تمام طبقوں حتیٰ کہ قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کو بھی ساتھ ملایا اور تمام شاہ مخالف قوتوں کو جمع کرکے پہلے شاہ کو شکست دی اور پھر اپنی تربیت، ذہن سازی اور منظم تیاری کی بنیاد پر حکومت پر قبضہ کرکے کمیونسٹوں اور قوم پرستوں کو دھیرے دھیرے پس منظر کی طرف دھکیل دیا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس انقلاب کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں کو سنبھالنے اور ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے تربیت یافتہ اور ذہنی طور پر پختہ افراد کی کھیپ موجود تھی، جس نے انقلاب کے بعد ملک کے نظام کو سنبھال لیا اور اب تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس سب کچھ کی تیاری انقلاب کے بعد نہیں کی گئی، بلکہ انقلاب سے پہلے یہ سارے کام درجہ بدرجہ مکمل ہوچکے تھے، اس لیے ان کا انقلاب کامیاب ہوا اور کامیابی کے ساتھ چل بھی رہا ہے، مگر ہمارے ہاں صورت حال کیا ہے؟ مجھے اگر اس گستاخی پر معاف کردیا جائے تو عرض کرنا چاہوںگا کہ ہمارے ہاں خلافت کی تمام تر بحث صرف ایک دو نقطوں کے گرد گھومتی ہے کہ ’’خلیفۂ اوّل‘‘ کون تھے اور خلافت راشدہ میں کون کون بزرگ شامل ہیں؟ ان دو باتوں سے ہٹ کر خلافت کا کوئی اور پہلو ہمارے ہاں سرے سے زیربحث نہیں آتا اور نہ ہی ہم اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، حالانکہ خلافت کا اپنا ایک مستقل نظام ہے، جو سیاسی بھی ہے، معاشی بھی ہے، انتظامی بھی ہے، معاشرتی بھی ہے۔
آج کی دنیا جن معاشی مشکلات سے دوچار ہے خود دنیا نے اس کے معاشرتی پہلو کا حل یہ نکالا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کا اصول اپنایا ہے۔ برطانیہ اور ناروے سمیت بعض مغربی ملکوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیت المال کے نظام پر ریسرچ کی ہے اور اس کا بہت سا حصہ اپنے نظام میں شامل کیا ہے، جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں لیکن ہم مسلمانوں کے علمی وسیاسی حلقوں کو اس کی توفیق نہیں ہے کہ وہ آج کے حالات اور معاشرتی ضروریات کو سامنے رکھ کر خلافت راشدہ کے معاشی نظام اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیت المال کے سسٹم کی اسٹڈی کریں اور اسے آج کی اصطلاحات میں ایک پورے نظام کی شکل دیں، میں مثال کے طور پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز جب خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہیں سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ بیت المال کے دو تہائی سے زیادہ اثاثے حکمران خاندان کے قبضے میں تھے اور قومی خزانہ خالی تھا۔ انہوںنے قومی خزانے کے یہ اثاثے واپس لینے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے فدک کا باغ واپس کیا، جو ان کے ذاتی قبضہ میں تھا، پھر اپنی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک کے زیورات اترواکر بیت المال کو واپس بھجوائے اور پھر حکمران خاندان کا اجتماع کرکے ان سے تقاضا کیا اور چند ہفتوں کے اندر وہ بیت المال کے اثاثے واپس لینے میں کامیاب ہوگئے۔ ہمارا آج کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہی ہے کہ قومی خزانہ خالی ہے اور ملکی دولت بڑے لوگوں کے بیرونی اکاؤنٹس میں منتقل ہوچکی ہے اور اس کی واپسی کے لیے چیخ وپکار جاری ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اگر ہم آج کے مسائل کو سامنے رکھ کر خلافت راشدہ کے نظام کو ان کے حل کے طور پر پیش کریں اور عام لوگوں کو سمجھانے میں کامیاب ہوجائیں تو خلافت کے نظام کے لیے امت کو تیار کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے