سال 2016ء پاکستان سمیت دنیا بھر کے لئے غم و پریشانی کا سال رہا۔اس سال دنیا کے مختلف حصوں میں کئی بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں،عرب بہار کے بعد یہ سال گزشتہ آدھی دہائی میںشام اور سوادودہائیوں میں کشمیر کے لئے انتہائی بھاری ثابت ہوا۔جہاں انسانیت سوز مظالم کے مناظر دیکھنے میں آئے جن کے بارے میں سوچ کر ہی دل دہل جاتاہے۔بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی جنونیت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت شرما گئی۔تحریک آزادی کے دوران سال گزشتہ اس نے جس طرح کا اسلحہ(پیلٹ گن) استعمال کیا اس سے کشمیری بچے،بوڑھے،خواتین اور مرد نہ صرف شہید وزخمی ہوئے بلکہ سیکڑوں کی بینائی بھی چلی گئی،ان مظالم کے باوجود عالمی برادری ،اقوام متحدہ اوراسلامی تعاون تنظیم کا کردارافسوسناک حد تک شرمناک رہا۔پاکستان نے اپنے نہتے کشمیری بھائیوں پر مظالم کے خلاف سفارتی مشنز کو متحرک کیااورپہلی بار پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے بھارتی مظالم اور پاکستان کے اندر اس کی دہشت گردی کے ثبوت رکھے مگران مقتدر قوتوں نے کشمیریوں کا حق خود ارادیت کیا تسلیم کرناتھا اُلٹا بھارتی واویلے پر پاکستانی مشنز کو ہی لتاڑا جس کا منہ توڑ جواب دینے کی بجائے ہمارے مشنز اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے اور اپنے ہی لوگوں پر برسنا شروع کردیانتیجتاً آزادی کشمیر کی تازہ لہر جس کو برہان مظفروانی نے اپنے خون سے نیا جوش وولولہ دیاتھااس کے درجہ حرارت میں قدرے فرق پڑا لیکن یہ ماند نہیں پڑی۔اوراب 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے تحت اس میں نئی جان پڑجائے گی،تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچانے اور ہندوستان سے چھٹکارا دلانے کے لئے آج کا وقت شاید گزشتہ وقتوں سے زیادہ بہتراور مناسب ہے۔
کیونکہ آج کی دنیا اگر چہ کشمیریوں کے لئے آواز نہیں اٹھاتی مگر ان کی حق خودارادیت کی تحریک سے اچھی طرح واقف ضرور ہوچکی ہے جبکہ دنیا کے درمیان تنازعات کے حل کے لئے قائم عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی نئے امیر کی اقتداء میں صف بندی کرچکا ہے۔جس کا عزم ہے کہ وہ دنیا میں جاری صدیوں سے حل طلب مسائل کونتیجہ خیز بنانے میں کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہیں کریں گے۔ادھرسپر پاور وائٹ ہاؤس میں نیاسفید فام (ڈونلڈٹرمپ)مگر ایک متنازع صدر عہدہ صدارت پر براجمان ہوچکاہے۔جس نے انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیانات سے ایک دنیا کوفکر اور پریشانی میں مبتلا کردیا تھا یہی وجہ تھی کہ خود امریکا کے اندر بھی ٹرمپ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل پڑے اور یورپ ومغرب کے دیگر ملکوں میں جن کے امریکا سے مفادات وابستہ تھے مخالفین کی صف میں کھڑے نظرآئے۔تاہم اسلامی ممالک میں ردعمل بہت مختلف رہااور کئی نے ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات اور اسلام مخالف رویوں کو سیاسی مہم کا حصہ قرار دیا۔
جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری کے بعد جو خطاب کیا وہ بڑا معنی خیز اور فکرانگیز ہے جس کا تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک میں حکمرانوں ،سیاسی رہنماؤں اور عوام نے بھرپور طریقے سے نوٹس لیا اور اس کی مذمت کی ۔یہ ایک خوش آئند امرہے مگر ٹرمپ کی تقریر جو خالصتاً امریکی مفادات کے گرد گھومتی ہے اس میں اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کا دعویٰ یا امریکیوں سے وعدہ خود ایک ناقابل عمل پہلو لگتاہے۔تاہم اگر ٹرمپ اسلامی ممالک سے شدت پسندی ختم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ان کا اسلامی دنیا پر ایک عظیم احسان ہوگا۔پوری دنیا نہ جانے یا نہ مانے مگر اس حقیقت کو ہر ذی شعور انسان سمجھتا اور تسلیم کرتاہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا ہمارے دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام امن وآشتی کا ایک ایسا عظیم وفقید المثال مذہب ہے جس میں انسان تو انسان جانوروں اور چرند پرند حتیٰ کہ ہر ذی روح چیز کے حقوق کا تعین کیا جاچکاہے۔ لہٰذا امریکی صدر کو اپنے وعدے کے مطابق اس شدت پسندی اور دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے میں ذرا برابر بھی تحمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،اور یقین ہے اسلامی ممالک اور وہاں کی مذہبی وسیاسی قوتیں ٹرمپ منصوبے میں ان کے شانہ بشانہ چلیں گی۔لیکن یہ بات امریکی صدر کے پیش نظر رہنی چاہئے ٹہنیاں کاٹنے سے کانٹے دار درخت ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کے ارد گرد کئی خودرو پودے بھی جنم لے لیتے ہیں لہٰذا اس درخت کو جڑسے اکھاڑنا ہوگا جس کی وجہ سے اس انسانی دنیا میں مشکلات ومسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے اور گزشتہ دودہائیوں میں جس طرح اس ناسور نے پاکستان کونقصان پہنچایا اور اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا کسی دوسرے ملک کو اس طرح برباد نہیں کیا۔اس جنگ میں پاکستان نے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا حالانکہ یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پاکستان دیگر دنیا کو محفوظ بنانے کے لئے دہشت گردی کی اس بھٹی میں جل رہاہے۔عالمی برادری بالخصوص امریکاپاکستان کی ان قربانیوں سے اچھی طرح واقف ہے اور کئی مواقع پر ان قربانیوں کو تسلیم بھی کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود عدم اعتماد کی فضا انتہائی حوصلہ شکن اور مایوس کن ہے۔کئی حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ اسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر انہیں خود یورپ اور مغرب میں ہونے والی شدت پسندی اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں دہشت گردی ، شدت پسندی اورانتہاپسندی خود بخود پیدا نہیں ہوتی اس کی کچھ بنیادی وجوہ بھی ہوتی ہیں،اور اسلامی ممالک میں پنپنے والی شدت پسندی وانتہاپسندی کا یورپی ومغربی رویوں سے بہت گہرا تعلق ہے،مختلف ممالک میں جنگ وجدل اور ہولناک بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات ونقصانات یورپ اور مغرب کے خلاف غم وغصے کا سبب بنتے ہیں۔جب تک امریکا اور دیگر اتحادی ممالک اپنے ان رویوں میں بہتری اور جنگ وجدل کے ماحول میں تبدیلی نہیں لاتے اس وقت تک دنیا میں امن کا قیام ایک خواب کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔اسی طرح شام،فلسطین،عراق،افغانستان،مقبوضہ جموں وکشمیر،برمااور دیگر ممالک میں جاری علیحدگی کی تحریکیں اور جنگیں بھی عالمی امن کے لئے ایک خطرناک اور ہولناک حقیقت ہیں جن سے فرار اور چشم پوشی امن عالم کے لئے رستا ہو ا زخم ہے۔سال گزشتہ کے آخری ماہ میں شام کے شہر حلب میں جس طرح بشارالاسد کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بمباری کرکے نہتے اور بے گناہ شہریوں ،بالخصوص معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار ا یہ ناقابل فراموش اورافسوسناک واقعہ ہے جس نے انسانی درندگی کی بدترین مثال قائم کی۔جبکہ فلسطین میں ارض مقدس کی بے حرمتی اور نہتے مسلم شہریوں پر مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،افغانستان،عراق اور برما کی صورتحال بھی اشتعال انگیزی کی ایک بنیادی وجہ ہے۔بہتر ہوگا ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ کے نئے سربراہ ان خطوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے غیر معمول اقدامات کریں اور عوام کو ان کی مرضی اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیں تو شاید نئے امریکی صدر کا دنیا کو محفوظ اور امریکا کو مضبوط بنانے کاخواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔
تعلیمی واصلاحی سلسلے میں میں اکثر غیر ملکی دوروں پر ہوتاہوں میرا وہاںمختلف الخیال لوگوں سے بھی اس حوالے سے تبادلہ خیال ہوتا ہے ہر شخص دہشت گردی اور شدت پسندی سے تنگ ہے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ،کسی بھی معاشرے اور رویے میں ہو۔اور سب لوگ ایک نقطے پر متفق نظر آتے ہیں کہ اس عفریت سے جان چھڑانے کے لئے عدل کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا ۔حق دار کو اس کا حق دیناہوگا۔شدت پسندی ودہشت گردی کی بنیادی وجوہ کو ختم کرنا ہوگا۔بھوک وافلاس کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا۔مدلل اور جامع گفتگو کرکے مخالف کو مطمئن کرنا ہوگا۔ایک معتدل معاشرے کے قیام کے لئے عمرلاز کے تحت قوانین تشکیل دیناہوں گے۔
آہ !چمکتے ستار ے کہکشاں ہوگئے
راقم بنیادی طور پر بھی ایک متعدل اور اسلامی معاشرے کا داعی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب نائن الیون کے بعد دینی مدارس کے خلاف ایک پروپیگنڈا مہم کا آغاز ہوا تو اپنے اسلاف اور اکابرین کی مشاورت اور دعاؤں کے ساتھ مجلس صوت الاسلام پاکستان کے پلیٹ فارم سے دفاع میں نکلا اور انتہائی ذمے داری کے ساتھ اپنے دینی مدارس کا مقدمہ پیش کیا اور آج تک یہ کوشش جاری ہے۔اس بیچ مختلف مواقع پر کانفرنسز اور سیمینارز کے ذریعے جید علماء کرام کو اکٹھا کیا،سیاسی زعماء اور حکومتی ارکان کو اسٹیج پر بٹھایا،اپنے طلبہ کو صبروتحمل اور مدلل اور جامع انداز میں اسلام کا مقدمہ پیش کرنے کی تعلیم دی۔مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کوششیں کیں اور الحمدللہ اس میں خلاف توقع کامیابی نصیب ہوئی اور سب لوگوں کو اس بات پر متفق پایا کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی اور انتہاپسندی اور شدت پسندی سے اہل اسلام اور مدارس کا کوئی تعلق نہیں۔کئی مواقع پر ہمیں مشکلات بھی پیش آئیں لیکن وہ کہتے ہیں ناکہ ’’سو مرے سو کاسردار نہ مرے‘‘ صحیح کہتے ہیں۔استاذالمحدثین اور شیخ الحدیت مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ تعالیٰ کی وفات کے بعد آج جب اس وقت پر نظر دوڑاتاہوں تو واقعی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک سایہ شجرتھاجواُٹھ گیا۔جس طرح حضرت نے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مسندصدارت سے مدارس اور اہل مدارس کا دفاع کیا اور ہماری رہنمائی و حوصلہ افزائی فرمائی اس کو الفاظوں میں ڈھالنا میرے لئے بہت مشکل ہے۔مجھے جہاں بھی ان کی ضرورت پڑی اور ان سے رہنمائی کے لئے رجوع کیا حضرت نے بلاتامل میری رہنمائی فرمائی،حضرت اپنی ضعیفی اور مصروفیات کے باعث کئی مرتبہ ان تقریبات میں شریک نہیں ہوسکے مگر مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ہمارے ساتھ رہے ۔آج حضرت ہم میںموجود نہیں مگر مجھے بے حد دکھ وافسوس ہے کہ سفر میں ہونے کے باعث میں حضرت کے نماز جنازہ میں شریک ہوسکا نہ ان کے جسد مبارک کو کندھا دے سکا۔اسی طرح سال 2016ء کے دوسرے ہی مہینے میں جامعہ خیرالمدارس کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدصدیق ،اورمارچ میں جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا محمد عبیداللہ ہم سے جدا ہوگئے جبکہ جولائی میں دہشت گردوں نے مدرسہ رشید آسیا آباد کے رئیس مفتی احتشام الحق آسیا آبادی کو شہید کردیااور اس سے بھی قبل سال 2015ء کے اکتوبر میں جامعہ دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے جامع الکلمالات شیخ الحدیث حضرت مولاناڈاکٹرشیرعلی خان اور اب 2017ء میں امیر ختم نبوت مولاناعبدالحفیظ مکی بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔یہ کائنات ربی کے وہ چمکتے ستارے تھے جو اب کہکشاں بن چکے اور جن کے نعم البدل شاید ہمیں صدیوں میں بھی میسر نہ آسکیں۔بس ان کی تعلیمات اور کردار حسنہ کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہمیں ان کے مشن کو ذمے داری کے ساتھ آگے بڑھاناہے۔
(اللہ تعالیٰ ان مرحومین کی قبروں پر کھربا رحمتیں نازل فرمائیں۔)