مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں
انسان کہاں سے آیا؟ کیوں آیا؟ اس کی زندگی کا مقصد کون متعین کرے گا؟ ان سوالات کا صحیح جواب ’’اسلام‘‘ دیتا ہے
انسان ظاہری وجود کا نام نہیں ہے بلکہ درحقیقت انسان طبعی میلانات، نفسی جذبات، ذہنی تصورات اور قلبی معتقدات کا نام ہے، جس طرح کے خیالات و افکار انسان کے وجود کا حصہ ہوں گے اسی طرح کے رویئے و عادات اور خصائل کا اس سے اظہار ہو گا۔ اعتدال مزاجی اور انتہا پسندی، نرمی اور محبت اور شدت و نفرت دراصل ان جذبات و معتقدات اور افکار و نظریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ہر انسان کے وجود میں پیوست اور اس کی جان و روح کا حصہ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔
کسی مذہب یا نظریہ کے بارے میں یہ جاننے کیلئے کہ اس کے اختیار کرنے والے اور اس کو ماننے والے لوگوں کے ذہن و قلب پر اور روح و جاں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر ان کے عملی اظہار کی صورتیں معتدل ہوں گی یا حد اعتدال سے تجاوز کرکے مائل بہ انتہا پسندی ہوں گی؟ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ وجود کے بارے میں، وجود مطلق (Absolute Existenc) کے بارے میں کائنات اور اس میں سرگرم عمل انسان کے بارے میں وہ مذہب کیا تصورات عطا کرتا ہے۔ کائنات اور ہستی موجود کے بارے میں، خالق کائنات کے بارے میں، خود انسان کے بارے میں مذہبی نظریات و معتقدات ہی وہ اصول فراہم کرتے ہیں جن پر تہذیبی عمارت استوار ہوتی اور تمدن کے بلند و بالا مینار تعمیر ہوتے ہیں۔
انسان نے جب سے اس دھرتی پر قدم رکھا ہے اسے چند سوالوں کا سامنا ہے۔ وہ ہر دور میں اور ہر وقت ان کے مطمئن کر دینے والے جوابات کا متلاشی رہا ہے اور ان کے جواب کے حصول میں اس کی سرگردانی کے باعث بارہا اس کے وجود زخمی اور اس کی روح گھائل ہوتی ہے۔ انسان کہاں سے آیا ہے اور کیوں آیا ہے؟ کیا اس کا سفر حیات ختم ہو جانے والا ہے یا موت کے بعد بھی جاری رہے گا؟ اس کا مقصد وجود کیا ہے اور کائنات رنگ و بو میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ کیا وہ آزاد پنچھی ہے یا کسی کا تابع فرمان؟ اور جس کا وہ بندہ ہے وہ کون ہے، کہاں ہے؟ اس تک رسائی کا ذریعہ کیا ہے؟
ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لئے اہل فلسفہ و دانش نے بھی سعی پیہم کی اور بُت پرستوں اور توہم پرستوں نے بھی اس معرفت کے حصول کی تگ ودو کی، مگر حاصل سب کا یہی ہوا کہ ’’ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سرا ملتا نہیں‘‘
ان سوالات کے تسلی بخش مطمئن کر دینے والے اور قلب و دماغ دونوں کو راضی کر دینے والے جوابات صرف دین اسلام نے فراہم کئے ہیں۔
اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ قادر مطلق ہے اور حکیم و دانا اور خبیر و علیم ہے، اس نے اپنی حکمت سے اور اپنے حکم سے اس ساری کائنات کو پیدا کیا ہے، اس وجود کی ہر ہر شے اس خلَّاق عظیم کی فرماں برداری اور اطاعت میں ہمہ وقت مصروف ہے، اگر ایک پتہ بھی درخت سے زمین پر گرتا ہے تو اسی کے حکم سے گرتا ہے، اسے اس کائنات کے پیدا کرنے سے کوئی تعجب لاحق نہیں ہوا اور وہ اس کائنات کو بنا کرکے علیحدہ ہو کر نہیں بیٹھ گیا، بلکہ وہ تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے اور تمام امور خود ہی اپنی حکمت و دانائی کے ساتھ انجام دے رہا ہے، وہ تمام زندہ موجودات کی ربوبیت کر رہا ہے اور ہر ایک ذی حیات کو روزی پہنچا رہا ہے۔ وہی ہے جو زندگی عطا کرتا ہے اور جو موت دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ایسی مخلوق وجود میں لائی جائے جو اپنی مرضی سے اور اپنے اختیار سے اللہ کے تمام احکام کی تعمیل کرے اور اپنی خوشی سے آداب بندگی بجا لائے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے مکرم و محترم بنا کر مسجود ملائک بنایا۔ اسے مٹی سے پیدا کر کے اپنے پاس سے روح جاری فرمائی۔ مٹی سے اس لئے پیدا فرمایا تاکہ مٹی سے طبعی مناسبت ہو اور اس سرزمین پر رہ کر وہ اپنے فرائض منصبی بخوبی انجام دے سکے اور اس میں ملأ اعلیٰ سے روح اس لئے جاری فرمائی کہ اس مخلوق کا مضبوط اور توانا رشتہ اپنے خالق سے استوار ہو جائے۔
اس طرح انسان ایک دوگانہ مخلوق بن گیا۔ یہ ایک ہی وقت میں مادی وجود بھی ہے اور روحانی بھی، یہ بیک وقت بہیمی صفات کا بھی حامل ہے اور ملکوتی اوصاف کا بھی، اس میں مادی تقاضے بھی موجود ہیں اور روحانی تقاضے بھی۔
مادی تقاضوں کی تکمیل کے لئے انسان کو عقل و شعور اور ادراک و احساسات کی دولت سے نوازا گیا اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کے لئے انبیاء کرام کو مبعوث فرمانے کا سلسلہ جاری فرمایا، تاکہ وہ انسان کو اس راہ ہدایت کی جانب راہنمائی کر سکیں، جس میں اس کی سعادت ابدی پنہاں ہے اور جو اس کی صلاح اور فلاح کی ضامن ہے۔
اسلام کی نظر میں انسان پیدائشی گنہگار اور نسلی خطا کار نہیں ہے، بلکہ ایک برگزیدہ اور محترم ہستی ہے، جس نے مکمل روشنی اور پوری ہدایت اور راہنمائی کے ساتھ اس زمین پر قدم رکھا ہے اور اس کی زندگی کے ارتقاء کے ہر مرحلے میں وحی الٰہی اس کی دست گیر بنی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہوا کہ انسان محض ایک معاشرتی جانور (Social Animal) بنا کر بغیر کسی ہدایت و راہنمائی کے مہیب اور خطرناک جانوروں کے ہجوم میں بھیج دیا گیا ہو پھر وہ برہنہ پا اور عریاں جسم کشاکش حیات اور تنازع للبقاء کی جنگ لڑتا ہوا ارتقائی مراحل تک ترقی کرتا رہا ہو۔
اسلام کی نظر میں انسان کی زندگی صرف اس کی دنیاوی حیات مادی تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کی حیات کے سیل رواں کا سلسلہ ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ
یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سے
کہ جاں مرتی نہیں مرگ بدن سے
انسان کی زندگی ایک وقفۂ امتحان اور ایک دورانیہ آزمائش ہے۔ اس کے اس دنیا کی ساری زندگی کے اعمال لکھے جا رہے ہیں اور وہ اس حیات دنیا سے گزر کر محشر میں سوال و جواب کے لئے پیش ہو گا، عدالت قائم ہوگی اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب دینا ہو گا۔
غلامی ظلم وجبر قوموں کے فراخ بگاڑ دیتے ہیں آدمی اگر زندگی پھر غلامی میں رہے اور مجبور ومقرور ہو ار ظلم وستم کی چکی میں پستا رہا ہو۔ اس کی عجیب نفسیات تشکیل پاتی ہے۔ وہ بظاہر بہت مسکین خوشامدی اور متواقع بن جاتا ہے لیکن اس کا اندرونی وجود دشمنی نفرت اور عداوت کا ایک کبھی ختم نہ ہونے والا لاوا ابلتا رہتا ہے۔ ابھی عراق کی بربادی کے بعد کہا گیا کہ یہ ہم نے بابل (Babylon) کے اس ظلم کا بدلہ لیا ہے جو انہوں نے ہم پر کیا تھا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ یہود کو جب بھی کبھی موقع ملا انہوں نے ہمیشہ دیگر اقوام پر ظلم وستم کیا اور دسیسہ کاری کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے ہر دور میں انبیاء اور رسولوں کو قتل کیا۔ رسولوں کا تعاقب کرتے تھے اور نبی غاروں میں چھپنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ہیرودیاس ہیرودیس اعظم کی پوتی تھی۔ اس کی شادی اس کے ماموں فلپس سے ہوئی تھی۔ فلپس کے بھائی ہیرودیس انتیاس نے جب اسے روما میں دیکھا تو وہ اس پر فریفتہ ہوگیا اور اسے اپنالیا۔ یوحنا بتپسمہ دینے والے ((Jhon The Baptist) (حضرت یحییٰ علیہ السلام) نے اس شادی کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا اس پر بادشاہ نے انہیں جیل میں ڈلوادیا۔ ہیرودیاس نے یوحنا کی اس بات کو دل میں رکھا۔ جب اس کی بیٹی سلومی نے دربار میں ناچ کر بادشاہ کو خوش کیا اور بادشاہ نے اسے کہا کہ مانگ کیا مانگتی ہے تو ہیرودیاس نے اس سے کہا کہ کہہ دے کہ یوحنا کا سر چاہیے۔ بادشاہ نے اس کی فرمائش اسی وقت پوری کردی۔ (لوقا ۳:۱۹۔۲۰) متی ۱۴:۳۔۱۲‘مرقس ۶:۱۴۔۲۹)
اسی زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ رومیوں کی حکومت تھی اور یہودی ان کے غلام تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (یسوع) کے بارہ حواری تھی جن میں سے ایک نے غداری کی اور رومیوں کی پولیس کا دستہ لے آیا اور کہا کہ جس شخص کو میں بوسہ دوں گا وہی یسوع ہے۔ اس طرح اس نے یسوع کی نشاندہی کی۔
’’وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ یہودا (جو ان بارہ میں سے ایک تھا) آیا اور اس کے ساتھ ایک بڑی جماعت تلواریں اور لاٹھیاں لیے سردار‘ کاہنوں اور قوم کے بزرگوں کی طرف سے آپہنچی اور اس کے پکڑوانے والے نے ان کو یہ نشان دیا تھا کہ جس کا میں بوسہ لوں اسے پکڑلینا اور فوراً اس نے یسوع کے پاس آکر کہا اے ربی سلام! اور اس کے بوسے لیے۔ یسوع نے اس سے کہا کہ یہاں جس کام کو آیا ہے وہ کرلے۔ ‘‘(متی ۲۶:۴۷۔۴۹)
یہودی بزرگوں نے فیصلہ کرلیا کہ یسوع کو پھانسی دلوائی جائے۔ اس وقت حاکم کا دستور تھا کہ عید پر لوگوں کی خاطر ایک قیدی جسے وہ چاہتے چھوڑ دیا جاتا۔ اس وقت ’’برابا ‘‘نام کا ایک مشہور قیدی تھا۔ پلاطسن نے کہا کہ تم چاہو تو میں برابا کی جگہ یسوع کو چھوڑ دوں۔ لیکن سردار‘ کاہنوں اور بزرگوں نے لوگوں کو ابھارا کہ وہ برابا کی آزادی اور یسوع کو پھانسی دیئے جانے کا مطالبہ کریں۔
پلاطسن نے ان سے کہا کہ پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے کیا کروں؟
سب نے کہا کہ وہ مصلوب ہو۔ (متی‘ ۲۷:۲۲)
رومیوں کے یہاں پھانسی دینے کا طریقہ یہ تھا کہ پھانسی کا تختہ باہر کھلی جگہ میں رکھ دیا جاتا اور مجرم کو لاکر اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں پر میخیں ٹھونک کر تختہ پر لگادیا جاتا۔ ایک موٹی سی لکڑی پشت کو سہارا دینے کے لیے لگادی جاتی اور مجرم کے اوپر اس کے جرم کو لکھ کر ایک کتبہ لٹکادیا جاتا اور اسے اسی طرح موت کے منہ میں جانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا۔(Harper`s Dictionary Of Bible)
الغرض حاکم کے حکم پر یسوع کو پھانسی کیلئے لے جایا گیا ‘انہیں کانٹوں کا تاج پہنایا گیا اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔ ان کے ہاتھ میں سر کنڈا دیا گیا جو ان کے سر پر بھی مارا گیا اور اس کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کا مذاق اڑانے لگے اور اس طرح مصلوب کرنے کیلئے لے گئے۔ (متی ۲۷:۱۵۔۳۱)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے (نعوذباللہ) پھانسی دیئے جانے کی مسیحی لٹریچر میں بڑی واہیات درج ہیں جن کو ضبط تحریر میں لانے سے قلم عاجز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’انہوں نے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی دی نہ انہیں قتل کیا بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھالیا۔
اس کے بعد یہودی اور رومی دونوں عیسائیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتے رہے ‘ ہر قسم کے تشدد کرتے رہے ‘ یہ سلسلہ پوری تین صدیوں تک جاری رہا اور غالباً اسی دور میں اصحاب کہف کا واقعہ بھی پیش آیا۔ ۳۲۵ ء میں رومی بادشاہ قسطنطین نے مسیحیت قبول کرلی۔ اور اس طرح مسیحیت کو آزادی کا سانس لینے کا موقع ملا۔
مسیحیت جس شکل وصورت میں موجود ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لایا ہوا دین نہیں ہے۔ بلکہ پال کا ایجاد کردہ دین ہے جس پر یونانی اور رومی تہذیبوں کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ گویا یہودیت اور عیسائیت دونوں مذاہب اپنی حقیقی صورت میں باقی نہیں رہے بلکہ دونوں مذاہب کو ہیلینی تہذیب HELL ENISTC CULTUREنے پوری طرح اپنے اندر جذب کرکے ایک نئے دین کی صورت عطا کردی۔
یہ موضوع بڑا طویل ہے۔ مگر یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے اس لیے مختصر اشارات پر اکتفا کرنا ہی مناسب ہے۔
ظلم کی چکی جب چلتی ہے تو وہ ہمیشہ ایک ہی رخ پر نہیں چلتی بلکہ جب ایک رخ پر چلتے چلتے تھک جاتی ہے تو پھر الٹی طرف چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہی ہوا کہ جب مسیحیت رومن ایمپائر کا سرکاری مذہب قرار پائی تو اسے بھی اپنا حساب بے باق کرنے کا موقع ملا اور اب عیسائیوں کو موقع ملا کہ اپنے پچھلے بدلے چکائیں۔
قوم یہود مقہور ہوکر ساری دنیا میں منتشر ہوگئی۔ دنیائے مغرب نے انہیں (GHETOES)میں رہنے پر مجبور کردیا۔ ان کی آزادی سلب کرلی اور وہ ایک اچھوت قوم کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ عیسائیوں نے احتساب عدالتیں قائم کیں اور یہودیوں کی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائی گئیں اور انہیں نذر آتش کیا گیا۔ ممانعت کردی گئی کہ کسی یہودی کے پاس تالمود کا کوئی نسخہ نہیں ہونا چاہئے اگر ہے تو وہ خود لاکر حوالے کردے ورنہ سزا بھگتنے کیلئے تیار ہوجائے۔ وجہ یہ تھی کہ تالمود میں جگہ جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام کو ناپسندیدہ الفاظ سے یاد کیا گیا تھا۔
جیوش انسائیکلوپیڈیا میں یہ واقعات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ ۵۵۳ء میں جسٹینین نے تمام مملکت روما میں تالمود کا لکھنا اور اس کا نقل وحمل ممنوع قرار دیدیا تھا ۔ تیرہویں صدی میں پادری گریگوری نہم نے تالمود کا کسی قبضے میں ہونا جرم قرار دیدیا۔ لوئی کے عہد میں ۱۲۲۶۔ ۱۲۷۰ء فرانس میں اور ۱۲۹۰ء میں برطانیہ یہود کی جلاوطنی کا حکم صادر ہوگیا اور تمام یہودیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔ ۱۲۴۲ء میں ایک ہی دن چوبیس چھکڑے بھرکر کتب یہود لائی گئیں اور انہیں نذر آتش کیا گیا۔ روتھن برگ کے میئر نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کا مرثیہ لکھا جو یہودی صومعات میں پڑھا جاتا ہے۔
۱۵۹۲ء میں پوپ کلیمنٹ ہشتم نے حکم جاری کیا کہ یہودیوںکی تمام دینی کتابیں ضبط کرلی جائیں اور ان پر قانونی پابندی عائد کردی گئی۔ ۱۸۴۰ء میں پولینڈ میں اسقف نے یہودی کتابوں پر پابندی لگائی اور تمام کتابوں کو جلانے کا حکم دیا۔
سولہویں صدی میں چھاپے خانے کی ایجاد کے بعد یہودیوں کو پھر موقع مل گیا اور انہوں نے تالمود کی طباعت کا پھر سے اہتمام شروع کردیا اور اب بھی تالمود میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جن پر مسیحی دنیا ہمیشہ سیخ پا ہوتی رہی ہے۔
سولہویں صدی سے مغرب جن انقلابات سے گزرا ہے اور جس طرح مغربی دنیا میں تحریک اصلاح مذہب اور تحریک احیائے علوم شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں انقلاب فرانس ظہور پذیر ہوا ان سب مدوجزر میں یہودیوں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے اور لبرل ازم اور حریت فکر اور انسانی حقوق جیسے نعروں سے ساری دنیا میں سب سے زیادہ یہود مستفید ہوئے ہیں۔ جدید مغربی دنیا کے بیشتر ہیروز اور سائنس وفلسفہ کے اکثر قائدین یہودی ہوتے ہیں۔ یہودی مفکرین اور دانشوروں نے دنیا بھر میں مغربی تہذیب وثقافت کو فروغ دینے میں ایک عظیم کردار ادا کیا ہے اور اسی کے صلے میں ساٹھ کی دہائی میں کیتھولک چرچ کے دنیا بھر کے پادری ویٹی کن سٹی میں جمع ہوئے اور یہودیوں سے دم عیسیٰ (علیہ السلام) معاف کردیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار
غرض تہذیب نوی یہودی کارناموں سے لبریز ہے۔ کہا جاتا ہے روس کے سوشلسٹ انقلاب میں بھی ان کا ہاتھ ہے اور اب ماضی قریب کے واقعات بطور خاص ان کے دست ہنرکی کرشمہ سازیاں ہیں۔
غرض اسلام نے انسان کو معزز ومکرم قرار دیا، اسے ایک ذمہ دار اخلاقی وجود کی حیثیت میں اس دنیا میں نیابت الٰہیہ کے فریضہ کی ادائیگی کیلئے بھیجا گیا۔ اسے مکمل روشنی اور علم کے ساتھ ایک جامع نظام زندگی دے کر یہاں بھیجا گیا۔ وہ اس دھرتی کی تمام ذی حیات اشیاء سے ممتاز ایک مستقل وجود کا حامل ہے۔
اسلام کی نظر میں انسان اپنے ہر فکر وعمل میں اور ہر حرکت واقدام میں خالق کائنات رب العالمین کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان اللہ کا بندہ ہے جسے اللہ نے اس لئے پیدا فرمایا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور اپنے ارادے سے اللہ کی تابع داری کرے اور اس کے احکام بجا لائے۔ ’’لیکون عبداً للہ بالاختیار‘‘ اسلام انسانوں کے درمیان کسی فرق وامتیاز کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ ہر شخص اپنے اعمال، اپنے اخلاق اور اپنے کردار سے اعلیٰ اور ارفع مقام حاصل کر سکتا ہے۔
بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ عالم میں کبھی کسی مذہب نے، کسی ضابطہ حیات نے اور کسی فکر وفلسفہ نے انسان کو اس حیثیت اور اس مرتبہ سے سرفراز نہیں فرمایا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور تصور حیات میں انسان اسی طرح کا ایک وجود ہے جس طرح تمام ذی حیات اشیاء ہیں۔ انسان ایک معاشرتی جانور (Social animal) ہے اور بس! انسان نے اپنے سفر کا آغاز جہالت ونادانی، تاریکی اور ظلمت سے کیا ہے۔ یہ قدرت کی مہیب قوتوں سے خوفزدہ ہوکر ان کے سامنے سرنیاز جھکاتا رہا، مفید اور حیرت انگیز قوتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا رہا۔ جنگلی جانوروں اور درندوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے پتھر کے زمانے سے گزرا اور دھات کے زمانے میں داخل ہوا۔
انسان اپنی سرشت کے اعتبار سے دیگر حیوانات کی طرح حیوانیت کا حامل اور اپنی فطرت کے اعتبار سے دون فطرت ہے۔ یہ نسلی اور ابدی گناہ گار ہے جس کا یہ نسلی اور آبائی گناہ اس سے نسلاً بعد نسلٍ منتقل ہوتا آرہا ہے۔ یہ بدی اور گناہ کا پیکر ہے، اس کا گناہ اور اس کی برائی اصلی اور فطری، اس کی نیکی اور اچھائی ایک عارض کے طور پر وقتی اور لمحاتی طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس پیکر خاکی میں روح اس طرح قید ہوگئی ہے جس طرح پنجرے میں پرندہ قید ہوتا ہے، روح کی آزادی کیلئے جسم کو تعذیب دینا اور آزار دینا ناگزیر ہے۔ انسانوں کی آبادی میں تمام انسان برابر نہیں ہیں، بلکہ انسانی معاشرہ نسلی اور طبقاتی گروہوں میں منقسم ہے اور اعلیٰ طبقات کو ادنیٰ طبقات پر ہر طرح کا تفوق اور امتیاز حاصل ہے۔
ایک مذہبی فلسفہ کے مطابق انسانوں کے چار طبقات ہیں جن میں سے ایک طبقہ سب سے اعلیٰ اور سب سے بلند اور سب سے زیادہ مراعات یافتہ ہے، باقی تین طبقات اس سے فروتر ہیں۔ خاص طور پر سب سے نچلا طبقہ اچھوت ہے وہ اپنے سے اوپر کی طبقات کی خدمت کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک طبقہ کا انسان اپنے اچھے اعمال اپنے اخلاق کی عمدگی اوراپنے کردار کی پختگی کی بدولت کوئی ترقی نہیں پا سکتا اور اپنے طبقہ سے بالاتر طبقہ میں نہیں پہنچ سکتا۔
ایک اور مذہبی فلسفہ کے مطابق اس مذہب کے ماننے والے خدا کے برگزیدہ اور اس کی منتخب کردہ قوم ہے جس کو ’’شعب اللہ المختار‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ جس قدر انسان ہیں وہ سب اس سے فروتر ہیں اور اس قوم کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں، انہیں اللہ نے انسانی شکل و صورت میں اس لئے پیدا فرمایا ہے کہ خدا کی اس منتخب اور چنیدہ قوم کو ان سے خدمت لینے میں سہولت ہو، اگر یہ مصلحت نہ ہوتی تو خالق کائنات اس چنیدہ قوم کے علاوہ تمام انسانوں کو گدھوں اور گھوڑوں کی شکل پر پیدا فرماتا۔
اے اہل بصیرت! بتائیے اسلام نے جو تصورات وافکار عطا کئے ہیں وہ انتہا پسندی پیدا کرنے والے ہیں یا وہ تصورات وافکار جو اسلام کے علاوہ دنیا کے دیگر مذہبی تصورات میں موجود ہیں!
عملی صورت حال کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ طلوع اسلام کے بعد سے اسلام نے اقوام عالم کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا؟ کیا یہ طرز عمل کسی مقام پر کسی موقع پر انتہا پسندی کا حامل تھا یا اسلام کی اعتدال اور توسط کی تعلیمات پر مبنی تھا، اسلام کی تاریخ کوئی ماقبل تاریخ زمانہ کی بات نہیں ہے، بلکہ اسلام کی تاریخ انتہائی روشن اور واضح ہے اور اقوام عالم اسلامی تاریخ سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
قرآن کریم نے اہل کتاب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’ آئو ہم سب ایک متفقہ بات پر مجتمع ہوجائیں کہ ایک اللہ کی بندگی کریں کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور اپنے میں سے کسی کو اللہ کو چھوڑ کر ربوبیت کے مقام پر سرفراز نہ کریں‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہل کتاب نے اس کلمہ جامع کو قبول کیا؟ نہیں! بلکہ وہ اپنے عناد اور اپنی دشمنی پر بدستور قائم رہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے آپ نے میثاق مدینہ مرتب فرمایا اور اس میں مدینہ میں بسنے والے یہودیوں کے قبائل کو بھی شریک فرمایا، لیکن نتیجہ کیا ہوا، یہودیوں نے بار بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، غداری کے مرتکب ہوئے۔ قریش کے لوگوں کو جنگ کیلئے بھڑکایا اور جانتے بوجھتے کافر بت پرستوں کو مسلمانوں پر فوقیت دی۔
عدی بن حاتم کو اسلام سے ایسی کدورت ہوگئی تھی کہ وہ آتش پرست سے عیسائی ہو گئے اور اسلام دشمنی میں پیش پیش رہنے لگے۔ ان کی ایک بہن تھی، انہوں نے بھی عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔ عدی دولت مند تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ شاندار گھوڑے تیار رکھے جائیں اور جوں ہی اہل اسلام اس جانب رخ کریں، مجھے فوراً اطلاع دیدی جائے‘ میں شام چلا جائوں گا۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہی ہوا کہ اطلاع ملی کہ اہل اسلام اس جانب آتے دیکھے گئے ہیں۔ وہ ایک ہی جست میں گھوڑے پر سوار ہوئے اور شام کی جانب روانہ ہوگئے‘ پلٹ کربہن کو بھی نہ دیکھا۔
بہن گرفتار ہوکر مدینہ پہنچ گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی ﷺ کے دروازے کے قریب ایک کمرے میں ٹھہرا دیا۔ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی خیریت دریافت فرماتے۔ ایک دو روز بعد ہی ان کے کچھ اہل قبیلہ مدینہ منورہ پہنچے تو آپ ﷺ نے عدی کی بہن کو زاد راہ دیا اور اپنی چادر پہنائی اور بصد عزت و احترام ان کے اعزہ کے ساتھ انہیں روانہ کر دیا۔
وہ بھائی کے پاس شام پہنچیں۔ بھائی پر برہمی کا اظہار کیا کہ ایک ہی بہن تھی اس کو بھی چھوڑ کر چلے آئے اور ساتھ ہی عدی کو یہ مشورہ بھی دیا کہ مدینہ جا کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں۔ چنانچہ عدی مدینہ منورہ پہنچے۔ سوچا دیکھتا ہوں کہ اللہ کے رسول ہیں یا بادشاہ ہیں۔ دیکھا کہ مسجد نبوی ﷺ میں اصحاب کے درمیان تشریف فرما ہیں۔ دل نے گواہی دی کہ یہ بادشاہوں کا انداز نہیں ہے، یہ رسولوں کا طریقہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عدی کو لے کر گھر کی جانب روانہ ہوئے‘ راستے میں ایک عمر رسیدہ خاتون سے ملاقات ہوئی۔ اللہ کے رسول ﷺ ان کی باتیں سنتے رہے اور خاتون کی باتوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ عدی کے دل نے پھر گواہی دی کہ بادشاہ نہیں ہیں، اللہ کے رسول ہیں۔ گھر پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا گدا ان کی طرف بڑھایا کہ اس پر بیٹھ جایئے۔ عدی نے ذرا تامل کا اظہار کیا تو ارشاد ہوا کہ نہیں مہمان کا حق فائق ہے تم بیٹھو اور خود آفتاب نبوت ﷺ فرش خاکی پر فروکش ہوگئے۔ عدی کے دل نے پھر پکارا۔ یہ بادشاہوں کے طریقے نہیں ہیں، یہ پیغمبرانہ عادات وخصائل ہیں۔ فوراً اسلام قبول کر لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا کہ مدینہ منورہ میں ایک یہودی نوجوان بیمار ہے۔ آپ ﷺ اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے، اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے، اس کا حال دریافت فرمایا اور اسے اسلام کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی۔ آپ ﷺ اس قدر مسرور ہوئے کہ چہرۂ مبارک خوشی اور مسرت سے دمکنے لگا۔
فتح مکہ کے موقع پر جب مسلمانوں کو اپنے دشمنوں پر مکمل قدرت حاصل ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو معاف فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ جائو سب آزاد ہو! اب کوئی مؤاخذہ اور گرفت نہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے کعبۃ اللہ کے اندر تشریف لے جانا چاہا۔ باب کعبہ کے کنجی بردار عثمان بن طلحہ نے چابی دینے سے انکار کیا۔ حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر اس کی کلائی موڑ دی اور اس سے چابی لے لی‘ ابھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ سے باہر تشریف نہ لائے تھے کہ آیت قرآنی نازل ہوگئی کہ ’’امانت لوٹا دی جائے‘‘۔ آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو چابی دی اور عثمان کو واپس کر دینے کا حکم فرمایا۔ حضرت علیؓ نے عثمانؓ کو چابی واپس کرتے ہوئے ان سے معذرت بھی کی، اس پر عثمان بولے۔ کیا خوب! مجھ سے زبردستی کی اور مجھے تکلیف پہنچائی، اب معذرت پیش کرنے آگئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ تم سے معذرت اس لئے کر رہا ہوں کہ تمہارے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی عثمان بن طلحہ نے اسلام قبول کر لیا۔ وہ دن سو آج کا دن کعبۃ اللہ کی چابی عثمان کے خاندان میں ہے۔
اسلام نے تمام دنیا کی اقوام وملل کے ساتھ عدل و رواداری اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے‘ جزیرۃ نما عرب کے مشرکین اور جملہ باشندگان عرب میں سے کون تھا جس نے تکلیف اور ایذا رسانی کا رویہ نہ اختیار کیا ہو، لیکن جب اس سرزمین پر مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا تو انہیں حکم ملا کہ دیکھو کسی کی سابقہ دشمنی اور اس کی دیرینہ عداوت تمہیں اس عدل کے راستے سے نہ ہٹا دے، دیکھو عدل کرو۔ وہ دن ہے اور آج کا دن مسلمانوں کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ وہ جفا کشیوں سے درگزر کر رہے اور دشمنوں سے بدلہ لینے سے گریزاں ہیں اور اہل عداوت سے بھی عدل نبھانے پر مجبور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس میںمسلمانوں کی کمزوری کو بھی دخل ہو‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا حکم مسلمانوں کی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے وہ کبھی وہ نہیں کرسکتے جو ان کے دشمن ان کے ساتھ کرسکتے ہیں!
آفتاب اسلام کے طلوع سے پہلے ساری دنیا اندھیروںمیں بھٹک رہی تھی‘ دنیا میں کہیں علم کا، مذہب کا، اخلاق کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ظالم اور جابر حکمراں طاقت کے ذریعے لوگوں کے جسموں پر حکمران بنے ہوئے تھے، ادھر مسلم مجاہدین مذہب واخلاق کی اعلیٰ قدروںکے حامل تھے، ایک متحرک اور زندہ دین پر عمل پیرا تھے۔ ان کے اخلاق شائستہ اور ان کے رویئے مہذب تھے۔ وہ دین اسلام کی اخلاقی تعلیم کا ایک حسین پیکر تھے۔ وہ دن کے شاہسوار اور رات کے راہب تھے۔ جنگوں میں ان کا مقابلہ ظالم حکمرانوںکے فوجی دستوں سے ہوتا تھا، جوں ہی عیاش اور بداطوار فوج نے شکست کھائی عوام الناس نے انہیں خوش آمدید کہا اور برضا ورغبت ان کی حکمرانی بھی قبول کی اور ان کا دین بھی اختیار کرلیا۔ مسلمانوںکو اپنی وسیع فتوحات کے سلسلے میں کسی بھی مقام پر عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
حضرت ابوعبیدہؓ شام کی فتح سے فارغ ہوکر بیت المقدس کی جانب متوجہ ہوئے۔ صلح کا نام وپیام شروع ہوا بیت المقدس کے عیسائیوں نے شرط لگائی کہ معاہدہ صلح خلیفہ وقت کی جانب سے تحریر ہونا چاہئے۔
مدینہ منورہ سے ستوئوں کا ایک تھیلہ، ایک اونٹ، ایک غلام، ایک لکڑی کا پیالہ ہمراہ لے کر مسلمانوں کا خلیفہ بیت المقدس کی جانب روانہ ہوا۔ کبھی غلام اونٹ کی مہار پکڑ کر چلتا اور فاروق اعظم ؓ اونٹ پر سوار ہوتے اور کبھی اونٹ کی مہار خلیفہ کے ہاتھ میں ہوتی اور خادم اونٹ پر سوار ہوتا۔اسی طرح اونٹ کی مہار تھامے خلیفہ وقت بیت المقدس میں داخل ہوتے ہیں۔ امان نامہ لکھوایا کہ ’’یہ وہ امان نامہ ہے جو امیر المومنین عمرؓ نے ایلیا والوں کو دیا ہے۔ ایلیا والوں کی جان‘ مال، گرجے، صلیب، بیمار، تندرست سب کو امان دی جاتی ہے، ہر مذہب والوں کو امان دی جاتی ہے۔ ان گرجوں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ گرائے جائیں گے، یہاں تک کہ ان کے احاطوں کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
اسلامی تعلیمات واعتقادات ،تصورات وافکار اور اخلاق واعمال پر عمل کرکے دنیا کا سب سے بہترین اور سب سے عمدہ اور نفیس انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ انتہاء پسند نہیں ہوتا متوازن اور معتدل ہوتا ہے۔ یہ پرتشدد اور سخت گیر نہیں ہوتا پیکر رحم وکرم ہوتا ہے۔ یہ کسی پر ظلم نہیں کرتا‘ مظلوموںکو ظلم سے نجات دلاتا ہے۔ یہ قتل نہیں کرتا لوگوں کی جان بچاتا ہے‘ یہ فساد نہیں پھیلاتا اصلاح کرتا ہے۔ یہ کسی کے ساتھ برائی نہیں کرتا‘ برائی کرنے والوں کا ہاتھ پکڑتا ہے۔یہ سراپا خیر اور رحمت وکرم ہوتا ہے۔ یہ فرشتہ ہوتا ہے جو آسمانوں میں بسنے والے کروبیوں پر بھی سبقت لے جاتا ہے۔
یہ محض خیال آفرینی نہیں‘ تاریخ کی ایک روشن حقیقت ہے‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی سیرت وکردار کے حامل اور اسی اخلاق کے پیکر مجسم تھے۔ ایسے لوگ دنیا میں نہ اس سے پہلے کبھی وجود میں آئے اور نہ چشم فلک پھر ایسے لوگ کبھی دیکھے گی۔ اس وقت کی معلوم دنیا ان کے چہرے دیکھ کر ایمان لے آئی اور ان کی سیرت وکردار کے سامنے سرنگوں ہوگئی اور ان کی عظمت کردار کے سامنے بے بس نظر آنے لگی۔
دنیا ان کے اخلاق وکردار کے سامنے زیر ہوگئی تھی۔ عراق‘ شام اور فلسطین مشرقی باز نطینی (Bygantane) سلطنت کا حصہ تھی۔ رومن ایمپائر قائم تھی۔ لیکن درون خانہ حال کیا تھا۔ معاشرے میں کثیر الجہتی (Plurality) ناپید ہوچکی تھی‘ اس قدر عظیم الشان سلطنت میں جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ (Constantcnople) تھا ایسی صورت میں بھی انسانوں کے دو ہی طرح کے طبقات بستے تھے حاکم اور محکوم ،اشرافیہ اور عوام الناس! اشرافیہ نائونوش میں مست دولت وثروت کے سیلاب میں سرتاپا غرق ظلم وجبر ان کا شیوہ‘ ستم گری اور ناانصافی ان کے طرز حکمرانی کا زریں اصول! لباس آہن میںملبوس افواج کے لشکر جو عوام کو پائوں تلے روندتے ہوئے گزرجاتے تھے۔ عوام صرف ٹیکس ادا کرتے تھے‘ امراء کے پر شکوہ قصور کی تعمیر میں جبری مشقت سرانجام دیا کرتے تھے۔ ادھر اہل مذہب بھی حکمرانوں کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ بنے ہوئے تھے۔ مذہب بے روح اور بے جان! پادریوں اور راہبوں کے ہاتھوں میں ایک بے گور وکفن لاشہ‘ نان جویں کو ترستے ہوئے عوام ،اخلاق، تہذیب اور شائستگی سے عاری معاشرتی زندگی کا ڈھانچہ! زندگی کا یہ نقشہ تھا جب جماعت صحابہ نے ان علاقوں کا رخ کیا۔ رومی فوجوں سے ضرور لڑائیاں ہوئیں لیکن جوں ہی فوجوں کو شکست ہوئی لوگوں نے آگے بڑھ کر آنے والوں کو خوش آمدید کہا اور ان کی سیرت وکردار کے سامنے دیدۂ دل فرش راہ کردیا۔ مسلمان گورنر مقرر ہوگئے اور زمینیں مزارعت پر اصل مالکوں کو واپس دیدی گئیں‘ ہر ایک نئے نظام پر خوش اور شاد کام لوٹ گیا۔ سوال یہ ہے کہ مختصر سی مسلمانوں کی فوج کی عوامی مزاحمت کیوں نہ ہوئی؟ اسی سوال کے جواب میں یہ جواب بھی ملتا ہے کہ اسلام تشدد اور جبر سے نہیں مسلمانوں کے اخلاق وکردار سے پھیلا ہے۔
مغربی تہذیب کے تانے بانے سب کے سب یونانی تہذیب سے جاملتے ہیں‘ یونان کی سرزمین ایک استخوانی پنجے کی طرح سمندر میں اتری ہوئی ہے۔ اونچے اونچے پہاڑ اور دریا اور ان کے درمیان وادیاں اور ان وادیوں میں بسنے والے لوگ جدا جدا بستیاں بناکر رہتے تھے۔ یہ آبادیاں شہری حکومتیں کہلاتی تھیں۔ یہی بڑے بڑے فلسفی ارسطو اور سقراط پیدا ہوئے اور اپنے فکری سرمایہ اور فلسفیانہ تصورات وافکار میں دنیا میں غلغلہ بلند کیا۔ اسی سے سرزمین یونان میں وہ فلسفی پیدا ہوا جس نے سورج گرہن کی پیشن گوئی کی جو پوری ہوئی۔ جس نے اہرام مصر کے سائے سے ان کی بلند قامتی کا حساب لگایا اور جس نے سمندر میں جہازوں کے درمیان فاصلہ ناپنے کا قانون وضع کیا۔ یعنی طالیس (THALES) یونانی بت پرست تھے۔ انہوں نے ایک عظیم الشان مجسمہ بنایا تھا جو (HELLEN OF TROY) کے نام سے متعارف ہوا اور اسی سے یونانی تہذیب وتمدن کو Hellenistic Cultureکا نام دیا گیا۔ یونانی شراب کے رسیا اور کھیل تماشوں کے شوقین اور ’’بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘کے اصول پر دل وجان سے عمل پیرا تھے۔ کھیلوں کیلئے اسٹیڈیم بنائے گئے تھے جس میں انسانوں کا درندوں سے مقابلہ منعقد ہوا کرتا تھا اولمپیا میں سالانہ کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے جس کی یاد گارOlympic Gamesکی صورت میں آج بھی موجود ہیں۔
یونان کا زوال ہوا تو رومن ایمپائر نے اپنا تخت اقتدار ہیلنی تہذیب وثقافت کے پامال کھنڈرات پر بچھایا۔ گویا رومن ایمپائر بھی ہیلینی تہذیب Hellenistic Cultureہی کا ایک تسلسل تھی‘ رومی بھی بت پرستی‘ مے نوشی اور عیش کوشی کے دلدادہ تھے۔ جب 325ء میں مسیحیت کی دعوت وتبلیغ رومی افواج میں سرایت کرگئی تو شاہ روم کانسٹینٹائن نے عیسائیت قبول کرلی۔ مسیحیت پال کی کوششوں سے پہلے ہی رومی رنگ میں جاچکی تھی‘ اب یہ رنگ مزید گہرا ہوگیا۔ سولہویں صدی میں جب رینائنس (Renaiance) یعنی ’’تحریک احیاء علوم ‘‘کے دور کا آغاز ہوا جو دراصل وہ سبق تھا جو مسیحیوں اور یہودیوں نے اندلس میں مسلمانوں سے پڑھا تھا۔ جہاں بہت بڑے بڑے ربیوں اور احبارنے علامہ ابن حزم جیسے مسلمان علماء کی شاگردی کی تھی۔ 999ء میں قرطبہ سے پڑھ کر ایک پادری مغرب میں پہنچا تھا اور اس نے آکر سب سے پہلا عربی مدرسہ قائم کیا تھا۔ اندلس میں امام مالکؒ کی کتاب ’’المدونہ ‘‘مملکت کے قانون جاریہ کے طور پر نافذ العمل تھی۔ انگریزی لفظ کوڈ (Code) اسی المدونہ کا ترجمہ ہے۔ اس پس منظر میں احیائے علوم اور تحریک اصلاح مذہب کا آغاز ہوا اور یورپ نے قرون مظلمہ کی تاریکیوں سے نکل کر روشنیوں کے سفر کا آغاز کیا۔ مسلمانوں سے اہل مغرب نے بہت کچھ سیکھا تھا لیکن اس کے اعتراف سے ہمیشہ کنی کتراتے رہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ فکرونظر سے اور طرز حیات میں ان کا امام رومی تہذیب اور اسی کی پیش رو ہیلینی تہذیب Hellenistic Cultureہی تھی۔ جدید مغربی تہذیب کی بلند وبالا عمارت اسی پرانی رومی اور یونانی تہذیب کی بنیاد پر استوار ہوتی ہے۔
یونانی تہذیب ایک مادہ پرست تہذیب (Materialistic civilegation) تھی یعنی ان کے یہاں دنیا اور حصول دنیا کا شوق غالب اور دنیاوی ترقی ہی زندگی کا ماحصل تھی اور وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا معاشرہ طبقاتی معاشرہ تھا جو اشرافیہ محکومین اور غلاموں میں بٹا ہوا تھا۔ وہ اپنی قوم کو ایک اعلیٰ اور برتر قوم اور دیگر اقوام کو فروتر سمجھتے تھے۔ یونانی تہذیب کے کھنڈرات پر جورومن سلطنت وجود میں آئی تو انہوں نے ان تمام تصورات کو جوں کا تون اپنالیا۔ روم کے مغربی حصوں کے لوگ رومن سلطنت کے مشرقی حصے کے لوگوں کو بھی حقیر سمجھتے تھے۔
یہ تمام تصورات وافکار جوںکے توں موجودہ مغربی تہذیب کا سرمایہ افتخار ہیں۔ وہی مادیت میں انہماک اور وہی ابنائے مغرب کا فخروغرور کہ مغربی اقوام کی ہر بات عمدہ اور معقول اور مشرقی اقوام خود بھی نامعقول اور ان کی فکر و سوچ بھی فروتر۔ حال ہی میںیورپی یونین کے ایک اجلاس میں ترکی کی یورپ میں شمولیت کے موضوع پر ایک مندوب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہوگا کہ مغربی زعماء کے درمیان ایک مشرقی مسلمان ملک کا نمائندہ بیٹھا ہوا ہو‘‘ گویا مغرب کا ذہن معاندانہ اور انتہا پسندانہ ہے ، انہوں نے اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر ترکی کو یورپی یونین میں شامل نہیں ہونے دیا ، ترکی کی بھی یہ کوشش کار آمد ثابت نہیں ہوئی ظاہر ہے کہ یہ نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہونے دیا گیا۔
ملت یہود نے یونان اور رومی تہذیب کے سامنے سرافگندہ کر دیا تھا۔ ان کے مذہب میں تمام افکار وتصورات سرایت کرگئے جو یونانی تہذیب میں موجود تھے۔ ان کا مذہب اور ان کی سوچ اور فکر Hellenisti Cultureکی ترجمان بن گئی تھی۔ وہی مادیت میں استغراق اور وہی قومی افتخار ان میں بھی سرایت کرگیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم اللہ کا پسندیدہ گروہ اور اس کی منتخب کردہ قوم ہیں۔ بنی اسرائیل خدا کے اور خدا بنی اسرائیل کا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام دنیا کی غیر یہودی اقوام ان کے نزدیک Gentileقرار پائیں اور ان کے نزدیک دنیا بھر کے غیر یہودی اس قابل بھی نہ رہے کہ وہ انسان کہلاسکیں اس لئے انہوں نے کہا کہ تمام غیر یہودی لوگ انسان نہیں بلکہ حیوان ہیں انہیں خدا نے انسانی شکل میں اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ خدا کی منتخب قوم یہود کو ان جانوروں سے خدمت لینے میں آسانی ہو۔ اس لئے یہودی کے لئے غیر یہودی کا مال لے لینا بالکل جائز ہے اور اس کے ساتھ دھوکہ کرنا اور اسے نقصان پہنچانا ان کے باطل نظریات کی روسے روا ہے۔
مسیحیت نے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا اور رومی تہذیب کی گود میں پروان چڑھی۔ ان کے یہاں ساری کی ساری انسانیت اپنے باپ آدم کے گناہ کا بوجھ سر پر اٹھائے پھررہی ہے اور ہر شخص پیدائشی گنہگار ہے۔ اس گناہ سے نجات حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے مسیح کے نام پر بتپسمہ لینا۔ بنابریں دنیا بھر کے سارے غیر مسیحی جنہوں نے بتپسمہ نہیں لیا ہے وہ ازلی گنہگار ہیں ان کی آزاد مرضی (Free Will) ختم ہوچکی ہے‘ یعنی ان کا اچھے کام کرنے کا اختیار اور قوت ارادہ ختم ہوگئی ہے۔
یہود بے بہبود اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی ایک نفسیاتی الجھن سے دوچار رہے‘ جس کے زیر اثر وہ خود بھی تباہی وبربادی سے دوچار ہے اور یہ ہر دور میں اقوام عالم کی بربادی کیلئے بھی تانا بانا بنتے رہے۔ ان کی دوستی پر فریب ان کی قربت سراسر عیاری ومکاری اور ان کا تعاون ہلاکتوں کا پیش خیمہ بنتا رہا ہے۔ اب دیکھیے 60 کی دہائی میں جو عیسائی پادریوں نے مل کر دم عیسیؑ کی معافی کا اعلان کیا ہے یہ کیا گل کھلاتا ہے۔
یہود کے خمیر میں ہی دشمنی اور عداوت رچی بسی ہے وہ جملہ اقوام عالم سے دشمنی رکھتے ہیں‘ دوستی کے پردے میں دشمنی کرتے ہیں اور ہر طرح کے میثاق اور معاہدوں کی خلاف ورزی ان کا ہمیشہ کا شیوہ رہا ہے۔ ان کا اپنے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ اللہ کے فرزند اور اس کی چنیدہ قوم ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام اور ملتوں میں سے منتخب کرکے اپنا محبوب بنایا ہے۔ اس نے دنیا کی تمام اقوام کو ان کا تابع فرمان بنایا ہے۔ اصلاً انسان وہی ہیں باقی تمام قومیں جانور ہیں جنہیں اللہ نے محض اس لئے انسانی صورت عطا کردی ہے کہ قوم یہود کو ان سے خدمت لینے میں آسانی ہو۔
اللہ کے محبوب اور منتخب بندوں اور اس کے پیارے فرزندوں کو پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے علاوہ دنیا بھر کی قوموں سے جو سلوک چاہے روا رکھیں۔ غیر اقوام کے معاملہ میں ان پر کوئی دینی اخلاقی اور قانونی پابندی نہیں ہے وہ جس طرح کا سلوک ان کے ساتھ مناسب سمجھیں کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم نے آل عمران میں یہ شہادت ثبت کردی ہے کہ ان کا کہنا ہے کہ امیین کی کسی معاملے میں ان پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ امیین(غیر یہودیوں) کے بارے میں جھوٹ بولنا خیانت کرنا بددیانتی کرنا جھوٹی گواہی دینا ان کا مال لے کر مکرجانا‘ دھوکہ اور فریب دہی کا معاملہ کرنا بالکل جائز درست اور روا ہے۔ قرآن کریم نے ان کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر ان کے ذمے تمہارا ایک دینار بھی لازم ہو تو وہ ہرگز تمہیں واپس نہیں کرینگے‘ سوائے اس کے کہ تم اپنا پیسہ وصول کرنے کیلئے ہروقت ان پر سوار ہوجائو۔
تالمود میں ہے کہ یہود کی ارواح روح الٰہی کا جز اور اس کا حصہ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بیٹا باپ کا جزٔ اور اس کا حصہ ہوتا ہے۔ ہر یہودی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ دنیا میں غیر یہودیوں کے غلبہ اور اقتدار میں مزاحم ہو اور اپنی پوری توانائی اس کے زوال اور بربادی میں صرف کردے۔ اللہ کے یہاں یہودی کا مرتبہ فرشتوں سے بھی زیادہ ہے۔ کسی غیر یہودی کا یہودی کو مارنا اللہ کی عزت کو پامال کرنا ہے۔ کیونکہ یہودی اور غیر یہودی میں وہی فرق ہے جو انسانوں اور جانوروں میں ہے۔
یہ صرف ایک کتاب کی عبارت نہیں بلکہ یہودی نفسیات کا حصہ اور اس کی طبیعت کا لازمہ ہے اور اسی انانیت خود پرستی اور نسلی غرور وتفاخر نے انہیں بھی برباد کیا اور وہ دوسری اقوام کی بربادی کا بھی سبب بنتا ہے۔ دیکھیے اقوام مغرب سے ان کی رفاقت کیا رنگ لاتی ہے۔ اس کا کچھ نمونہ تو مشرق وسطیٰ میں ہمارے سامنے آچکا ہے۔
طلوع اسلام کے وقت جزیرہ نمائے عرب میں یہود جا بجا موجود تھے۔ یہود جزیرۂ نمائے عرب میں اس لیے آکر بس گئے تھے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں نبی آخر الزماں کے آنے کی بشارتیں پڑھی تھیں وہ ا سلئے یہاں آکر بس گئے تھے کہ جب پیش گوئیوں کے مطابق یہ نبی آئینگے وہ اس کی مدد سے اہل عرب سے جنگ کرکے انہیں جزیرۂ عرب سے نکال دینگے۔ اسی لئے انہوں نے مختلف مقامات پر اپنے مضبوط قلعے بنالیئے تھے اور ان میں ہتھیار بند ہوکر بیٹھ گئے تھے۔
ایک رائے کے مطابق یہودی جزیرہ نمائے عرب میں حضرت دائود علیہ السلام کے زمانے میں ہی داخل ہوگئے تھے ایک اور رائے یہ ہے کہ یہود نے عرب کی جانب ہجرت حزقیال کے زمانے میں کی تھی جبکہ خزقیال مملکت یہودا کے حکمران تھے (۷۱۷۔۶۹۰ق م) لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہودی ۷۰ء میں اس وقت جزیرۂ عرب میں داخل ہوئے جب رومیوں نے ان کو تاخت وتاراج کیا۔
ان کا خیال تھا کہ نبی منتظر بنو اسرائیل میں سے ہوگا۔ وہ ایک مکمل اور جامع اور آخری شریعت لے کر مبعوث ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے انہیں غلبہ اور اقتدار عطا فرمائے گا۔ اس مرکز میں طاقت حاصل کرکے وہ بنو اسرائیل کی مملکت قائم کرینگے لیکن جب نبی آخر الزماں تشریف لائے تو وہ ان کی عداوت اور دشمنی پر کمربستہ ہوگئے صرف اس لئے کہ وہ بنو اسرائیل میں مبعوث نہیں ہوئے ۔یہودنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں تمام اخلاقی اور قانونی حدود پامال کردیں اور کوئی مکرو دسیسہ ایسا باقی نہ چھوڑا ہو جو انہوں نے آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے اختیار نہ کیا ہو۔ اہل عرب کو عام طور پر اور قریش مکہ کو بطور خاص آپ کے خلاف بھڑکاتے رہتے اور جہاں دیکھتے کہ آتش عداوت سرد پڑرہی ہے فوراً اس کو پھر سے بھڑکانے پر کمربستہ ہوجاتے۔
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپؐ نے ان یہود کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا ان کو امن وامان کی ضمانت دی ان کے حقوق تسلیم کئے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرکے ان کو مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی ریاست کا شہری تسلیم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بھی قبول اسلام کی دعوت دی لیکن انہوں نے آپؐ کے ساتھ کینہ اور عداوت کا طریقہ اختیار کیا اور ماسوا چند یہودیوں کے کسی نے بھی اسلام قبول نہ کیا‘ حضرت عبداللہ بن سلامؓ ایک یہودی عالم تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم ایک زمانے سے نئے نبی کی آمد کے منتظر تھے‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبا پہنچے۔ میں اس وقت اپنے نخلستان میں کام میں مصروف تھا۔ میری پھوپھی میرے پاس ہی بیٹھی تھی جب مجھے خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا پہنچ گئے تو میں نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا میری پھوپھی بولی۔ اللہ تجھے رسوا کرے! اگر کوئی تجھے موسیٰ بن عمران کے آنے کی خبر دیتا تو شاید تو اس سے زیادہ کچھ نہ کرتا۔ میں نے کہا کہ پھوپھی یہ نبی موسیٰ بن عمران کے بھائی ہیں۔ وہی دین لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو وہ لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ پھوپھی بولیں اے بھتیجے کیا یہ وہی نبی ہیں جن کے بارے میں ہمیں خبر دی گئی ہے کہ وہ قیامت کے قریب مبعوث ہوں گے۔ میں نے کہا کہ جی ہاں یہ وہی نبی ہیں۔
عبداللہ بن سلام بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اسلام قبول کرلیا اور میرے اہل خانہ بھی اسلام لے آئے۔ لیکن میں نے اپنا اسلام یہودیوں سے مخفی رکھا۔ میں نے خدمت اقدس میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہود بہت ضدی اور جھوٹے لوگ ہیں۔ اگر آپ مجھے اپنے گھر میں چھپالیں پھر انہیں بلاکر ان سے میرے بارے میں دریافت کریں کہ وہ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں اور انہیں میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہ بتائیں کیونکہ جوں ہی انہیں میرے اسلام کا پتہ چلے گا‘ وہ میرے عیوب بیان کرینگے اور مجھے جھوٹا ٹھہرائیں گے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے گھر میں چھپالیا اور انہیں بلاکر میرے بارے میں دریافت کیا کہ حصین بن سلام کے بارے میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے سردار اور ہمارے بہت بڑے عالم ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی میں فوراً باہر آگیا اور میں نے کہا کہ اے قوم یہود اللہ سے ڈرو اور جو اللہ کی جانب سے ہدایت آئی ہے اسے قبول کرو۔ قسم بخدا یہ ہی رسول ہیں جن کا نام اور اوصاف تم تورات میں پاتے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں۔ میں آپؐ پر ایمان لاچکا ہوں اور اس پیغام کی تصدیق کرچکا ہوں جو آپؐ لے کر آئے ہیں۔ وہ یکلخت بولے تو جھوٹا ہے‘ شیطان ہے اور شیطان زادہ ہے‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دیکھیے میں نے آپ کو کیا بتلایا تھا کہ یہود غدار جھوٹے اور مکار ہیں!۔
غرض حضرت عبداللہ بن سلام مع اہل خانہ اسلام لے آئے۔ ان کی پھوپھی خالدہ بنت الحارث نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ یہودیوں نے عبداللہ بن سلام سے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل کو چھوڑ کر اہل عرب میں کوئی رسول مبعوث ہوجائے یہ بادشاہ ہیں یہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اپنی اس طبیعت اور اس مزاج کے ساتھ یہودیوں نے اسلام کی عداوت ودشمنی اختیار کی اور ہر وہ کام کیا جس سے اسلام کا راستہ روکا جائے اور اہل اسلام کو تکلیف پہنچائی جائے۔
تہذیب مظاہر تہذیب کا نام نہیں ہے بلکہ تہذیب ان اصولوں اور ان اخلاقی معیارات کا نام ہے جن پر عمل کرنے اور جنہیں زندگی کے ہر پہلو میں بروئے کار لانے سے قومیں اور ملتیں تشکیل پاتی بنتی سنورتی اور نشوونما پاتی ہیں۔ پھر ان کے رہن سہن بودوباش اور علوم فنون میں ان اساسی اصولوں اور قدروں کے نتیجے میں جو اثرات نمایاں ہوتے ہیں وہ مظاہر تہذیب کہلاتے ہیں ‘معاشرتی اقدار پر استوار ہونے والی تہذیبی نیرنگیاں تمدن بن جاتی ہیں۔
انسان کو جانچنے اور انسانی معاشروں کو پرکھنے کیلئے ناگزیر ہے کہ اولاً ان تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے جن کے نتیجے میں یہ معاشرے وجود میں آئے اور اس انسان نے جنم لیا ہے اور آدمی سے انسان بن گیا ہے۔ یہ وجود جس کی کھال بالوں سے بے نیاز بشریت کا لباس پہنے ہوئے دو ٹانگوں پر استوار ہے اس نوع کا نام آدمی ہے جو اس کے رنگ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس آدمی کے اندر جو شعور موجود ہے جو احساسات موجود ہیں اور جو خیالات کا سمندر اس کے ذہن میں موجزن ہے اور جو افکار اس کے نہاں خانۂ وجود میں تیرتے ہیں یہ وہ عناصر ہیں جو اس کو آدمی سے انسان بناتے ہیں۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے۔
؎آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
تہذیب وہ کارخانہ ہے جس میں آدمی انسان بنتا ہے۔ ہر تہذیب ایک نئی طرز کا انسان وجود میں لاتی ہے اور اسے ایک جداگانہ تشخص عطا کرتی ہے۔ وِل دیوراں نے ایک بہت ہی وقیع اور عمدہ کتاب تصنیف کی ہے اور تہذیب کی کہانی نقش قرطاس بنائی ہے۔ لیکن تاریخ عالم میں ایک مفکر ایسا بھی گزرا ہے جو ہتھیلی پر چراغ رکھ کر دن کی روشنی میں انسان کو تلاش کررہا تھا وہ صدا لگارہا تھا۔ ’’انسانم آرزواست ‘‘کسی نے کہا کہ یہ مخلوق جس کی تمہیں تلاش ہے نہیں ملتی‘ اس نے کہا کہ جو نہیں ملتا مجھے اسی کی جستجو ہے۔
یہ عظیم مفکر اگر طلوع اسلام کے وقت موجود ہوتا تو اس کی امید برآتی اور وہ اپنی آنکھوں سے کامل انسانوں کا ایک معاشرہ چلتا پھرتا دیکھ لیتا یا وہ کیا دیکھ لیتا ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کیسے انسان تھے۔
دنیا میں یوں تو بے شمار تہذیبیں گزری ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے دو ہی تہذیبیں موجود ہیں ایک اصولی تہذیب اور ایک مظاہر پرست تہذیب‘ ایک روحانی تہذیب اور ایک مادی تہذیب ایک اسلامی تہذیب اور ایک جاہلی تہذیب۔
روحانی اور اصولی تہذیب ان اصولوں پر استوار ہوتی ہے جن کی اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے والے پیغمبر اصول بنیاد قائم کرتے ہیں‘ یہ تہذیب اصولوں پر استوار ہوتی اور اس کی اصول روحانی بنیادوں پر استوار ہوتے ہیں اس لیے یہ تہذیب اصولی تہذیب اور روحانی تہذیب کہلاتی ہے اور چونکہ اس تہذیب میں انسان اپنے وجود کو اپنے اندر پوشیدہ تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ خالق حقیقی کی بندگی کی جانب متوجہ کردیتا ہے اس لیے یہ اسلامی تہذیب کہلاتی ہے۔
جو تہذیبیں اللہ سے کنارہ کش ہوکر اور اللہ کے رسولوں کے احکام سے روگردانی کرکے وجود میں آتی ہیں ان سب کا خمیر ایک ہی ہوتا ہے وہ سب ہی مظاہر پرست ہوتی ہیں وہ سب مادہ پرست ہوتی ہے اور وہ سب کافرانہ تہذیبیں ہوتی ہیں چونکہ ان سب کی اساس بنیاد ایک ہی ہے اس لیے یہ سب درحقیقت ایک ہی ہیں اور یہ وہی بات ہے جس کو اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ چونکہ ان تمام تہذیبوں کا خمیر ایک ہی اور ان کی نشوونما کا مواد ایک ہی ہے‘ اس لیے یہ اپنی اساس اور بنیاد اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک ہی ہیں۔ چونکہ یہ تہذیب اصولوں سے عاری ہوتی ہیں اور ان کے درمیان آپس میں کوئی اصولی فرق نہیں ہوتا اس لیے یہ مظاہر تہذیب پر جان دیتی ہیں۔ ایک قومی پرندہ ایک قومی درخت اور ایک قومی عجائب گھر اور ایک قومی رنگ۔
اسلام ایک اصولی اور روحانی تہذیب ہے۔ یہاں زندگی کے ہر ہر مرحلے میں اصولوں کی حکمرانی ہے اور روحانی اقدار ہر شئے پر غالب اور بالادست ہیں۔ یہ تہذیب جن افراد کی تصویر گری کرتی ہے۔ قرآن کریم میں جا بجا اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ ’’یہ اللہ کے بندے ہیں جو زمین پر قدم بھی آہستگی اور نرمی سے رکھتے ہیں یہ اس قدر متواضع اور اللہ کے عاجز بندے اور اس کے اس قدر فرماں بردار بندے ہوتے ہیں کہ انہیں اللہ کی بنائی ہوئی زمین پر زور سے اور قوت سے پیر رکھنا بھی گوارا نہیں ہے۔یہ اپنے ابنائے نوع کے ساتھ نرمی سے اور محبت سے پیش آتے ہیں اور اگرکوئی نادان کسی وقت الجھ پڑے تو یہ سلامتی کے ساتھ وہاں سے گزر جاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی جھگڑے میں نہیں الجھتے یہ تو ساری ساری رات اللہ کے سامنے سرجھکاکر اور سرنگوں ہوکر گزار دیتے ہیں۔‘‘
کہاں یہ نقشہ اور کہاں انتہا پسندی‘ تشدد پسندی اور دہشت گردی! ان باتوں کا اسلام سے اس قدر تضاد اور بعد ہے جیسے آگ اور پانی ‘روشنی اور تاریکی!
انتہا پسندی‘ یعنی بات کے کسی پہلو کی جانب عدم اعتدال کے ساتھ جھک جانا اور مائل ہوجانا۔ ہر بات میں اور زندگی کے ہر معاملہ میں ایک درمیانی لکیر ہے جو راہ اعتدال کہلاتی ہے۔
اسلام اعتدال کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کے ماننے والے امت وسط کہلاتے ہیں کہ یہ ہر معاملے میں اعتدال پر قائم اور درمیانی خط پر قائم ہیں۔ اس امت کے افراد کو شب و روز میں پانچ مرتبہ بار بار اس دعا کے دھرانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اھدناالصراط المستقیم مزید برآں یہ دعا فرد کیلئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کیلئے بلکہ تمام انسانوں کیلئے ہے جو مسلمان شب وروز میں کم ازکم سترہ مرتبہ یہ دعا مانگتا ہو وہ انتہا پسند کیونکر ہوسکتا ہے۔
انتہا پسندی اختیار کرنے والا جب یہ دیکھتا ہے کہ لوگ اس کی اس انتہا پسندانہ رائے سے اتفاق نہیں کرتے تو اس میں سختی اور تعنت پیدا ہوتا ہے جو تشدد کی جانب لے جاتا ہے۔
دہشت گردی کا مطلب ہے کہ کسی انسان کی جان ومال پر اپنے مفروضہ مقاصد کے حصول کیلئے بلاجواز زیادتی کرنا۔ مسلمان کبھی تاریخ میں نہ انتہا پسند ہوئے ہیں اور نہ دہشت گرد۔
غالباً سب سے پہلے دہشت گردی کا لفظ بائبل میں استعمال ہوا ہے
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہودیوں کے دو بڑے فرقے تھے۔صدوقی(SADDUCEES)اور دوسرے فریسی (Pharisees)صدوقی بعث بعدالموت مرنے کے بعد زندگی کے قائل نہ تھے جبکہ فریسی اس کو تسلیم کرتے تھے۔ دونوں فرقوں کے درمیان اس موضوع پر مباحث گرم رہتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے قم باذن اللہ مردوں کو کھڑا کردیا۔ موجودہ مسیحیت کا بانی پال بھی مرنے کے بعد زندگی کا قائل تھا۔ پال سلطنت روما کا ایک شہری اور مذہباً یہودی تھا۔ اس نے عیسائیوں پر خوب ظلم وستم کیا وہ عیسائیوں کی تلاش میں شہر در شہر پھرتا تھا اور انہیں سخت سزائیں دلواتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ دمشق کے راستے میں اس نے حضرت عیسیٰؑ کی پکار سن لی تو اس نے عیسائیت اختیار کرلی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہودی اس کی عداوت اور دشمنی پر اتر آئے۔ یہودیوں نے شکایت کرکے پال کو پکڑوادیا۔ اس نے جیلر کو یونانی زبان میں مخاطب کیا۔ تو اس پر جیلر نے کہا کہ اچھا تم تو یونانی زبان بولتے ہو۔ پھر تو تم وہ مصری تو نہ ہوئے جس نے اپنے ساتھ چار ہزار افراد ملالیے تھے جو سارے مسلح دہشت گرد تھے۔ (Acts-21:37) (ARMED TERRORISTS)پال نے جواب دیا میں تو یہودی ہوں‘ طرموس میں پیدا ہوا ہوں اور ایک اہم شہر کا باشندہ ہوں۔
واضح رہے کہ رومن ایمپائر کا شہری ہونا ایک بڑا اعزاز تصور ہوتا تھا اور بہت عزت واحترام کے لائق سمجھتا تھا اسے افسران بالا سے پوچھے بغیر پولیس چھوتے ہوئے بھی ڈرتی تھی۔ جیسے آج کل امریکی شہریت جس کے حصول کیلئے وہ پاکستانی بھی بے قرار رہتے ہیں جو یہاں امریکہ کو برا کہتے ہیں۔ اس وقت یہودیوں کا بھی یہی کردار تھا کہ وہ رومن ایمپائر کا شہری ہونا بہت بڑی نعمت خیال کرتے تھے جیسا کہ بائبل میں پال کے واقعات کتاب الاعمال میں بیان کئے گئے ہیں۔
ذرا تاریخ کے صفحات تو پلٹ کر دیکھیے۔ اوراق تاریخ مغرب کا ہر صفحہ خون چکاں ہر سطر پر تشدد اور ہر ہر لفظ انتہا پسندی کی کامل داستان اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے نظر آتا ہے۔
اہل یونان بڑے متکبر خودسر بت پرست تھے۔ ان کا معاشرہ ایک طبقاتی معاشرہ تھا ارباب ثروت حکمراں تھے باقی محکوم اور غلام‘ غلاموں کے سرے سے کوئی حقوق نہیں تھے ان پر ہر ظلم وستم روا تھا۔ اہل یونان کھیل تماشے کے بڑے رسیا تھے ہر طرف بڑے اسٹیڈیم تعمیر کئے گئے تھے جن میں انسانوں کا جانوروں اور درندوں سے مقابلہ ہوتا تھا اور ارباب ثروت ان کھیلوں سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ شعر وشاعری کے دلدادہ‘ لہو ولعب کے شوقین اور اپنی قوم کی سربلندی اور افتخار کے نشہ میں سرشار‘ بت پرستی ان کے رگ وپے میں رچی بسی تھی۔ وہ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘کے قائل تھے۔ ان کے نسلی غرور اور قومی افتخار کا یہ عالم تھا کہ اس دنیا کی کسی قوم کو اپنا ہم پلہ نہ گردانتے تھے۔ انہوں نے جس تہذیب کو نشوونما دیا وہ خالص مادی اور بُت پرستانہ تہذیب تھی اور ہیلن آف ٹرائے کی جانب نسبت کرتے ہوئے HELLENISTIC CULTURE کہلاتی ہے۔
یونانیوں کے بعد رومی آئے اور یونان کے کھنڈرات پر رومن ایمپائر کی عظیم عمارت استوار ہوئی رومی اس فخر ونخوت اور قومی غرور کا شکار تھے جس میں پہلے یونان کے لوگ مبتلا رہ چکے تھے۔ انہیں بھی وہی قومی امتیاز کا غرہ تھا اور وہ اپنے سوا تمام عالم میں کسی کو اپنا ہمسر اور ہم پلہ نہیں جانتے تھے حتیٰ کہ عراق اور شام جو رومن ایمپائر میں شامل ہوچکے تھے وہ رومن ایمپائر کے مشرقی علاقے گردانے جاتے تھے اور انہیں مغربی رومن ایمپائر میں وہ اعلیٰ مقام حاصل نہ تھا جو اس ایمپائر کے اہل مغرب کو تھا۔
آج کا مغرب اسی ہیلنٹسی کا وارث اورامین اسی رومن ایمپائر کے فخرونحوت کا علم بردار اور اسی رومی یونانی اور رومی مادیت پرستی پر عمل پیرا ہے۔ یہودیت اور عیسائیت بھی اسی تہذیبی ماحول میں پروان چڑھے ہیں اور اسی رنگ میں رنگے لگتے ہیں۔
بات سے بات نکل آتی ہے۔ دنیا کے تینوں عظیم آسمانی مذاہب…یہودیت ‘عیسائیت اور اسلام کا سر رشتہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت سے جڑا ہوا ہے۔
قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جامع کمالات صاحب اوصاف حمیدہ اور عمدہ اور بہترین اصولوں کے مؤسس ہونے کے اعتبار سے مرکز عظیم قرار دیا ہے۔ انہوں نے دنیا میں توحید حقیقی کی اساس قائم کی۔ ہر نوع کے شرک خفی اور شرک جلی سے مبرا اور پاک عبودیت الٰہی اور اللہ کی والہانہ بندگی کا نظریہ قائم کیا۔ بندوں کو تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات پر اس کے لئے سراپا شکر وسپاس بن جانا چاہئے اور اللہ کے بندوں کو اپنی زندگی رضائے الٰہی کیلئے تج دینی چاہئے۔ تینوں مذاہب جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے ہیں ان کی حقانیت کا معیار صداقت خود حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ دیکھنا چاہئے کہ تینوں مذاہب میں کون سا مذہب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنائے ہوئے ہے اور کون ان پر عمل پیرا نہیں ہے اور محض ان سے اپنی نسبت قائم کرتا ہے ۔ یہی کسوٹی ہے جس سے معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے اور ان کے پیروکار کس مذہب کے لوگ ہیں۔
تورات کی تعلیمات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اولوالعزم پیغمبر ہونے اور مرکز ہدایت ہونے کا پہلو کوئی خاص نمایاں نہیں ہے۔ تورات میں جو پہلو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کا زیادہ نمایاں اور زیادہ واضح ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام (ABRAHM) بنو اسرائیل کے جد امجد (PATRIARCH) ہیں انہیں بنو اسرائیل کی شان وشوکت اور دنیاوی اقتدار واختیار کا بہت خیال ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بابل کے شہراُر (UR) میں پیدا ہوئے تھے۔ بابل (BABYLONIA) ایک زمانے میں تہذیب وثقافت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ بابل کے باشندے بت پرست اور کواکب پرست تھے اور تین خدائوں کے ماننے والے تھے۔ عقیدہ تثلیث عیسائی دنیا میں کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے بلکہ تین خدائوں کا تصور قدیم مصر میں بھی موجود تھا بابل میں موجود تھا اور ہندوستان میں پایا جاتا تھا بلکہ ہندوستان میں تو ’’تری مورتی ‘‘کی آج تک پرستش ہوتی ہے۔ ہند کی سرزمین تو خدائوں اور دیوتائوں کا ہمیشہ ہی مرکز رہی ہے۔ ہندوئوں کے یہاں تو ہر شئے خدا ہے۔ بقول شاعر
حقیقت ہر شئے کی ایک ہے خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں
کیا بعید ہے کہ جب آریا ہندوستان آئے انہوں نے تثلیث کا عقیدہ ہندوئوں سے اخذ کیا ہو اور جب انہوں نے واپسی کا سفر اختیار کیا تو تصور تثلیث ساتھ لے گئے ہوں اور ان سے اقوام عالم میں پھیل گیا ہو۔
زمین دھرتی ماں ہے۔ ہندو تہذیب میں اور مصری تہذیب اور کلدانی اور سمیری تہذیبوں میں زمین دھرتی ماں ہے۔یونانیوں نے اس دھرتی ماں کو ہیلینا کا نام دیا اور ٹرائے کے مقام پراس کا عظیم مجسمہ بنایا اور اس کی پرستش شروع کردی۔ یہی ہیلین آف ٹرائے ہے جس پر تہذیب یونان کو ہیلنیٹ کلچر (HELLENISTIC CULTURE) کا نام دیا گیا ہے۔
زمین سے پیداوار کے حصول کا ذریعہ بیل ہے۔ جسے مصری تہذیب اور دیگر تہذیبوں میں بعل کہا گیاہے۔ یہ بعل مرد خدا بن گیا اور زمین مادہ خدا بن گئی‘ پھر زمین کے بارے میں تصور کیا گیا کہ یہ کنواری ہے اور اس کنواری سے فرزند خدا نے جنم لیا۔ مصر میں سورج دیوتا کی پرستش ہوتی تھی مصر کے بادشاہ سورج دیوتا کا اوتار اور اس کا انعکاس تصور ہوتے تھے اس لئے مصر کا بادشاہ فرعون یا فیراع کہلاتا تھا۔
آمدم برسر مطلب! آگ کے گل بر گلزار بن جانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہجرت فرمائی اور کنعان تشریف لائے‘ اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کو دریائے اردن کے کنارے بٹھایا اور ایک مرکز دعوت قائم کیا اور دوسرا مرکز دعوت دین کنعان قائم ہوا اور پھر کچھ عرصہ بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لاکر وادیٔ بکہ کے بے آب وگیاہ چٹیل میدان میں فروکش کیا۔ پھر دونوں باپ بیٹوں نے دنیا کے بتکدے میں سب سے پہلا خدا کا گھر بنایا۔
دنیا کے بتکدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
اب پوری دنیا میں یہی مرکز توحید ہے۔ یہی ساری دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قائم کردہ مراکز میں واحد مرکز ہے جو ملت ابراہیم کا امین ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحٰق علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل ہے۔ ان کے بارہ بیٹے ہوئے جو بنو اسرائیل کہلائے۔ کنعان میں قحط پڑا یہ 75 آدمیوں کا قافلہ ہجرت کرکے مصر چلاگیا۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے مقامی لوگوں قبطیوں کا غلام بن گیا۔ بنو اسرائیل مصر میں اہل مصر کی غلامی کرتے رہے اور بلا اجرت ان کی بلند وبالا عمارتیں تعمیر کرتے رہے اور ان کے ظلم وستم کا ہدف بنے رہے۔
اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر اور اولوالعزم پیغمبر مبعوث ہوئے ۔انہوں نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی۔ بڑے ہوئے تو مدین پہنچ گئے اور دس سال حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں وہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور نبوت کے منصب پر فائز ہوگئے۔
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا
دم عارف نسیم صبح دم ہے
اسی سے ریشۂ معنی میں نم ہے
اگر کوئی شعیب آئے میسر
شبانی سے کلیمی دو قدم ہے
جیسا کہ بیان ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت تورات میں اس بیان سے بہت مختلف نظر آتی ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کو مرکز ہدایت اور اولوالعزم پیغمبر بتایا ہے۔ تورات میں ان کا پہلے پہلے نام ابرام بتایا گیا ہے۔ پھر ’’جب ابرام نناوے برس کا ہوا تب خداوند ابرام کو نظر آیا اور اس سے کہا کہ میں خدائے قادر ہوں تو میرے حضور میں چل اور کامل ہو اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد باندھوں گا اور تجھے بہت زیادہ بڑھائوں گا۔ تب ابرام سرنگوں ہوگیا اور خدا نے اس سے ہم کلام ہوکر فرمایا کہ دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا۔ اور تیرا نام پھر ابرام نہیں کہلائے گا بلکہ تیرا نام ابراہام ہوگا کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرادیا ہے۔ اور میں تجھے بہت برومند کروں گا اور قومیں تیری نسل سے ہوں گی اور بادشاہ تیری اولاد میں سے برپا ہوں گے۔ اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کی سب پشتوں کیلئے اپنا عہد جوابدی عہد ہوگا باندھوں گا تاکہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا رہوں۔ اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے ایسا دوں گا کہ وہ دائمی ملکیت ہوجائے اور میں ان کا خدا ہوں گا۔ (پیدائش 17‘1‘8)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند کی طرف سے بشارت دی گئی کہ تیری اولاد ستاروں کی مانند کثرت سے ہوگی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہودیوں کی تعداد ہمیشہ بہت کم رہی ہے کسی زمانے میں بھی ان کی نسل اتنی نہ بڑھی کہ کہا جاسکے کہ وہ ستاروںکی مانند بکثرت ہوگئے۔ ستاروں کی مانند بکثرت اولاد اسماعیل ہوئی نہ اولاد اسحاقؑ اور ابدی عہد بھی اسماعیل کی اولاد میں تشریف لانے والے پیغمبر آخر الزماں سے باندھا گیا کیونکہ تورات کو صرف یہودی ابدی عہد مانتے ہیں جو کہ انتہائی قلیل تعداد میں ہیں عیسائی تو تورات کو ابدی عہد نہیں بلکہ اسے عہد قدیم قرار دیتے ہیں ‘جب اولاد اسمعیل اولاد اسحاق کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے اور جب ابدی عہد بھی تورات کے بجائے قرآن ہے توارض موعود کا وعدہ بھی اولاد اسمعیل سے ہوا نہ کہ اولاد اسحاقؑ سے بلکہ اولاد اسحاقؑ نے اپنی خوشی اور اپنی مرضی سے اولاد اسمعیل کے حوالے کردیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے معاہدہ صلح کرکے یروشلم اور ارض موعود کو ان کی تحویل میں دیدیا تھا جو مسلسل مسلمانوں کی تحویل میں رہی اور اب 1948ء میں سازشوں اور بدعہدیوں کے نتیجے میں یہودیوں کے قبضے میں آئی ہے۔
یہودی کہتے ہیں کہ وہ چار ہزار برس پہلے اس سرزمین موعود میں آباد تھے اس لیے یہ سرزمین ان کی ہے اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح مانا جائے تو پھر یہ بھی ماننا چاہئے کہ اسپین پورا کا پورا ملک مسلمانوں کو ملنا چاہئے کہ مسلمان بھی وہاں رہ چکے ہیں اور حکومت کرچکے ہیں اور پورے ہندوستان پر حکومت کرچکے اور وسط ایشیا کے ملکوں میں آباد رہے ہیں اور حکمراں رہے ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے۔ یعقوب کا لقب اسرائیل تھا اس لئے یہ بنو اسرائیل کہلائے تورات کا بیان ہے کہ ابراہام کے بیٹے اضحاق اور اسمعیل تھے۔ اضحاق کے بیٹے عیسو اور اسرائیل تھے۔ اسرائیل کے بارہ بیٹوں کے نام یہ ہیں: روبن ‘شمعون ‘لاوی ‘یہودا ‘اشکار اور زبولون ‘دان یوسف ‘بنیمین‘ نفتالی‘ جد اور آشر‘ یہودی یہودا کی طرف منسوب ہوکر یہود کہلائے۔
بنو اسرائیل ابھی کنعان میں ہی فروکش تھے کہ انہیں قحط سالی نے آپکڑا یہ پچھتر آدمی ہجرت کرکے مصر پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو اقتدار واختیار حاصل ہوگیا تھا۔ مصر میں یہودی رہتے رہے اور رفتہ رفتہ مصریوں کے غلام بن گئے اور اس ذلت آمیز غلامی سے حضرت موسیؑ نے انہیں نجات دلائی اور انہیں لے کر سرزمین سینا پہنچ گئے یوشع کے زمانے میں کنعان کی زمین فتح ہوئی۔
تورات کا بیان ہے اور خداوند کے بندے موسیؑ کی وفات کے بعد ایسا ہوا کہ خداوند نے اس کے خادم نون کے بیٹے یشوع سے کہا۔ میرا بندہ موسیؑ مرگیا۔ سو تو اب اٹھ اور ان سب لوگوں کو ساتھ لے کر اس دریا کے پاراس ملک میں جا جسے میں ان کو یعنی بنی اسرائیل کو دیتا ہوں۔ جس جس جگہ تمہارے پائوں کا تلوا ٹکے اس کو جیسا میں نے موسیٰ سے کہا میں نے تم کو دیا ہے۔ بیابان اور اس لبنان سے لے کر بڑے دریا یعنی دریائے فرات تک حتیوں کا سارا ملک اور مغرب کی طرف بڑے سمندر تک تمہاری حد ہوگی۔(یشوع1:1۔5)
باپ کے بارے میں بیٹی کی گواہی سے بڑھ کر کس کی گواہی ہوگی‘ حیی بن اخطب مدینہ میں بنو نضیر کا سردار تھا اور ان کا بڑا عالم تھا۔ اس نے ہجرت نبویؐ کے آغاز میں جب ابھی اسلام مدینہ منورہ کی نئی ریاست میں قدم جمارہا تھا۔ یہودیوں کو مشورہ دیا تھا کہ دن کے آغاز میں جائو اور مسلمانوں کے سامنے اسلام قبول کرلو اور شام کو کہہ دو کہ اسلام صحیح دین نہیں‘ میں پھر یہودیت کی طرف واپس لوٹتا ہوں تاکہ نئے نئے اسلام لانے والے اسلام سے اکھڑ جائیں اور یہ سمجھیں کہ جب یہودی جو اہل کتاب ہیں اور مذاہب وادیان کی حقیقت سے زیادہ آگاہ ہیں‘ انہیں اس دین کے صحیح ہونے پر بھروسہ نہیں ہے تو ہم کیا اسلام قبول کریں۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو ایک گونہ شکست ہوئی تو یہود نے پروپیگنڈہ شروع کیا کہ اگر سچا دین ہوتا تو یوں پسپا نہ ہونا پڑتا‘ معلوم ہوا کہ یہ دین سچا دین نہیں ہے۔
حیی بن اخطب کو اللہ سے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص دشمنی اور عداوت تھی اور اس عداوت کی بنیاد یہودیوں کا نسلی تفاخر اور اپنے دین پر غرور تھا۔ یہود خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ وہ اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پہچانتے تھے۔ مگر اس کے باوجود عداوت رکھتے تھے‘ ان کا خیال تھا کہ آخری رسول یہودیوں میں مبعوث ہوں گے اور انہیں سیادت وسلطنت دلائیں گے‘ عرب میں آخری رسول کا مبعوث ہونا انہیں کیوں کر گوارا ہوسکتا تھا۔
ان کی بیٹی کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو عمر وبن عوف کے محلے میں قبا پہنچے تو ابا حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر بن اخطب اندھیرے گھر سے نکل گئے‘ شام کو سورج غروب ہونے کے بعد ملے۔ میں ان کی لاڈلی بیٹی تھی‘ میری جانب بھی دھیان نہیں دیا۔ دونوں بہت تھکے ہوئے مضمحل اور پریشان حال اور آزردہ خاطر نظر آرہے تھے۔ چچا نے ابا سے کہا کیا یہ وہی ہے؟ ابا بولے :ہاں وہی ہے۔ چچا نے پوچھا‘ اچھی طرح پہچان بھی لیا‘ پوری طرح جانچ بھی لیا۔ ابا نے کہا کہ خوب اچھی طرح۔ چچا نے پوچھا کہ پھر کیا ارادہ ہے؟ ابا بولا قسم ہے جب تک میرے دم میں دم ہے‘ میں اپنی عداوت اور دشمنی پر برقرار رہوں گا۔
ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبا پہنچے تھے اور ابھی تک مدینہ منورہ میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے ‘یہود سے کوئی معاملہ بھی پیش نہیں آیا تھا۔ ایسی عداوت ایسی دشمنی کہ جب پہچان لیا کہ اللہ کے رسول ہیں اور وہی آخری پیغمبر ہیں جن کی آمد کی خبریں وہ اپنے انبیاء کی زبانی سنتے رہے ہیں تو ایسے ہوگئے جیسے اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ہوں جیسے برسوں کے بیمار ہوں‘ یہ تکبر کی بیماری تھی! یہ قومی تفاخر کا مرض تھا! یہ وہ آزار تھا جس نے ابلیس کو برباد کیا!
بیٹی کون ہے۔ یہ ہیں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا …اس دشمن خدا حیی بن اخطب کی بیٹی اور ابو یاسر کی بھتیجی…باپ اور چچا دونوں ہی صفیہ کا دم بھرتے تھے اور ساری اولاد میں سب سے زیادہ محبت صفیہ پر نچھاور کیا کرتے تھے۔
مدینہ منورہ سے دو سو میل کے فاصلے پر نہایت زرخیز زمین واقع ہے‘ یہاں نخلستان بکثرت ہیں۔ انہی نخلستان کے کنارے پر بنو نضیر کا ایک بہت بڑا قلعہ ہے اوپر برجیاں بنی ہوئی ہیں جن میں اسلحہ بھی موجود ہے اور غذائی ذخیرہ بھی اگر چاہیں تو مہینوں اپنے قلعے میں بند رہ کر گزارہ کرسکتے ہیں‘ اسی قلعہ کا نام ’’خیبر ‘‘ہے۔ سرزمین میں یہودیوں کی قوت وطاقت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ یہودیوں کو ان کی عہد شکنیوں اور دشمن کے ساتھ سازشوں کے نتیجے میں مدینہ منورہ سے نکالا گیا تو وہ بھی یہیں آبسے۔ اور ان کی طاقت میں مزید اضافہ ہوگیا وہ یہاں محفوظ قلعے میں قبائل عرب کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہتے تھے‘ انہی کی سازشوں سے غزوۂ احزاب کا واقعہ پیش آیا۔ ان کا سردار حیی بن اخطب بنو قریظہ کے ساتھ معرکہ میں مارا گیا۔ ابو رافع سلام بن ابی الحقیق اس کا جانشین ہوا۔ یہ بہت بڑا تاجر تھا اور قبائل عرب میں بہت اثرورسوخ رکھتا تھا۔ قبیلہ غطفان ان کے زیر اثر تھا سن 6ہجری میں سلام نے خود جاکر بنو غطفان اور آس پاس کے قبائل کو مسلمانوں سے جنگ کیلئے آمادہ کیا۔ لیکن ایک صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کا نام عبداللہ بن عتیک ہے کے ہاتھوں رات کو سوتے ہوئے اپنے ہی قلعہ میں مارا گیا۔ یہودیوں کی سازشیں جاری رہیں اور انہوں نے مدینہ منورہ پر ایک زبردست حملہ کی تیاریاں مکمل کرلیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے مصالحت کی بہت کوششیں فرمائیں۔ آپؐ نے بہت عفوودرگزر سے کام لیا۔ بہت حسن سلوک کا مظاہرہ فرمایا لیکن یہود باز نہ آئے‘ بالآخر خیبر کا معرکہ پیش آیا اور خیبر فتح ہوگیا۔
اس وقت کے جنگی قوانین کے مطابق یہودی عورتیں غلام بن گئیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ آپؐ کے حصہ میں آئی کیونکہ دستور تھا کہ سردار کی بیٹی سردار کو ملے۔
کہیں دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہے کہ مفتوح قوم کے سردار کی بیٹی کی وہ عزت افزائی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کے ساتھ اختیار فرمائی۔ کہیں دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہے کہ دشمن کی اولاد سے ایسا خوبصورت معاملہ ہوا ہو جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ سے کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کردیا‘ اپنی اونٹی پر بٹھالیا اور اپنی ردائے مبارک آپ پر ڈال دی اور آپ سے نکاح فرمالیا اور اعلان فرمایا کہ جس کے پاس جو ہو لے آئے‘ کوئی پنیر لے آیا۔ کوئی کھجور اور کوئی کچھ اور ‘چمڑے کا دستر خوان بچھایا گیا۔ اس پر یہ چیزیں پھیلادی گئیں‘ یہ صفیہ کا ولیمہ تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صفیہ کو بہت محبوب رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے دیکھا کہ صفیہ رو رہی ہیں۔ آپؐ نے وجہ دریافت فرمائی ۔ بتایا کہ عائشہؓ اور زینبؓ کہتی ہیں کہ ہم ازواج میں سب سے افضل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان سے کہو کہ تمہارا باپ ہارونؑ ہے تمہارا چچا موسیٰؑ ہے اور تمہارا شوہر محمدؐ ہیں۔
خیبر کی فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں مقیم رہے نہ کسی پر کوئی داروگیر ہوئی اور نہ کسی سے باز پرس‘ سب سے معاملہ عفو ودرگزر کا ‘ مہربانی اور حسن سلوک کا رہا لیکن اس کے باوجود یہودیوں کی عداوت میں کمی نہیں آئی‘ ان کا طرز عمل اسی طرح شرانگیز اور مبنی بر عداوت رہا۔
ایک روز زینب نے جو سلام بن مشکم کی بیوی اور مرحب کی بھاوج تھی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔ آپؐ نے اپنے الطاف کریمانہ سے اس دعوت کو قبول فرمایا۔ زینب نے کھانے میں زہر ملایا ہوا تھا۔ آپؐ دست کش ہوگئے لیکن آپ کے ایک صحابی بشر بن براریہؓ کھانا کھاکرشہید ہوگئے۔ زینب کو بلاکر پوچھا گیا اس نے اقرار کرلیا کہ ہاں اس نے زہر ملایا تھا۔ یہود بولے کہ ہم نے زہر اس لئے ملایا کہ اگر آپ نبی نہیں ہیں تو اس زہر سے مرجائیں گے تو ہماری جان چھوٹ جائے گی اور اگر آپؐ نبی ہیں تو آپؐ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے اپنی ذات کا انتقام نہیں لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی انتہا پسند نہیں ہوسکتے اور نہ دہشت گرد ہوسکتے ہیں! یہ خود ہمیشہ اپنے انتہا پسند اور اپنے دہشت گرد مسلمانوں کے اندر داخل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جیسے آدمی اپنی اولاد کو پہنچانتے ہیں۔ کیونکہ وہ صدیوں سے اپنی کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ پڑھتے آرہے تھے‘ انہیں معلوم تھا کہ ایک آخری رسول مبعوث ہونے والے ہیں اور وہ جزیرہ نمائے عرب میں مبعوث ہوں گے‘ اسی لیے تو ان میں سے بہت سے لوگ مدینہ منورہ آکر بس گئے تھے۔ انہیں آپؐ کی علامت معلوم تھیں‘ آپ کے اوصاف وخصائص سے واقف تھے لیکن محض اس حسد اور اس عداوت کی بنا پر قبول اسلام سے گریز کیا کہ آخری پیغمبر اولاد اسحٰق میں کیوں مبعوث نہیں اور فرزندان اسمعٰیل میں کیوں مبعوث ہوگیا! حالانکہ انہیں یہ بات بھی پہلے سے معلوم تھی کہ پیغمبر آخر الزماں کو اسماعیل کی اولاد میں مبعوث ہونا ہے ورنہ پھر انہوں نے آخری نبی کے استقبال کیلئے مدینہ منورہ آکر بس جانے کو کیوں ترجیح دی تھی!
مگر انہوں نے نہ صرف یہ کہ محض اپنی قلبی عداوت کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی توانائیاں اسلام کی وسعت کو روکنے میں صرف کردیں اور کوئی دقیقہ ایسا فروگزاشت نہیں کیا جس سے وہ اسلام اور مسلمانوں کو کوئی گزند پہنچاسکتے ہوں۔
وہ نئے اسلام قبول کرنے والوں میں بدگمانی پیدا کرنے اور انہیں دین اسلام سے بیزار کرنے کیلئے صبح کو ایمان لاتے اور شام کو اظہار کفر کردیتے تاکہ نو مسلموں کے دلوں میں یہ تاثر پیدا کرسکیں کہ یہود اہل کتاب ہیں اور علم وعمل وفضل رکھتے ہیں ضرور انہوں نے کوئی غیر مناسب بات دیکھی ہوگی جو وہ اسلام قبول کرکے اسلام سے پھرگئے۔ وہ اس لئے بھی اسلام قبول کرلیتے تھے تاکہ مسلمانوں کے راز معلوم کرسکیں اور پھر مسلمانوں پر گھر کے بھیدی کی طرح حملہ آور ہوسکیں۔
بنو قینقاع یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ منورہ میں آباد تھا ان کے علماء کی ایک جماعت سعد بن حنیف‘ زید بن لصیت‘ نعمان بن اوفی‘ عثمان بن روفی رافع بن حریمہ رفاقہ بن زید اور کنانۃ بن صوریا نے اسی لیے اسلام قبول کیا تھا کہ وہ اسلام کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دسیسہ کاری سے کام لے کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں ان کے دلوں میں شکوک وشبہات کے بیج بوئیں اور کسی طرح مسلمانوں کو اللہ کے رسول سے بدظن کردیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اونٹنی تھی‘ ایک روز وہ گم ہوگئی‘ صحابہ کرامؓ اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے یہودیوں کی جماعت نے برملا کہنا شروع کردیا کہ اچھے نبی ہیں کہتے ہیں کہ میرے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں‘ انہیں اپنی اونٹنی کا تو علم نہیں ہے یہ آسمان کی باتیں کیا بتائیں گے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حقیقت یہی ہے کہ مجھے انہی باتوں کا علم ہوتا ہے جن سے اللہ مجھے آ گاہ کردیتا ہو۔ جائو فلاں وادی میں میری اونٹنی موجود ہے اس کی نکیل ایک درخت کی شاخ میں پھنس گئی ہے صحابہ گئے تو اونٹنی اسی حالت میں اس وادی میں موجود تھی!۔
عبداللہ بن ضیف اور عدی بن زہد کا تعلق بنو قینقاع سے تھا اور حارث بن عوف بنو قریظہ کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا‘ رات کو بیٹھ کر طے کیا کہ ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب اسلام لے آتے ہیں اور شام کو یہ کہہ کر اسلام خیبرباد کہ دینگے کہ ہمیں اس دین میں کوئی خیر کا پہلو نظر نہیں آیا۔ اس طرح نو مسلموں کی ایک جماعت دین اسلام سے بدظن ہوجائے گی۔
دشمنان اسلام کو پندرہ صدیوں کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو برباد کرنے کی کون کون سی تدبیر مؤثر اور کارگر ثابت ہوسکتی ہیں۔ آج بھی مسلمانوں میں سے ایسے کمزور مسلمان تلاش کئے جاتے ہیں جن کی ذہنی تربیت (Brain-washing) کے بعد انہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاسکے‘ ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا جاتا ہے اور دولت دنیا ان کے قدموں میں لا ڈالی جاتی ہے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان کے بہترین آلہ کار بن سکیں۔ خود بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دسیسہ کاری کی غرض سے مسلمانوں کی صفوں میں ان کے خیرخواہ بن کر داخل ہوجاتے ہیں اور ان کو اسلام سے دور کرنے کی سعی وتدبیر کرتے ہیں۔
عرب کے لوگ ان پڑھ اور جاہل تھے وہ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دین جدید کی تعلیم کیلئے موجود ہوتے کہ یہودی علماء مجلس میں آجاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے کہ فلاں معجزہ دکھائیے‘ اگر آپ یہ معجزہ دکھادیں گے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔ اگر ایسا ہوجائے کہ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے کوئی تحریری پیغام آجائے کہ آپ اللہ کے رسولﷺ ہیں تو پھر ہمارے لئے ایمان لانے میں کوئی عذر باقی نہ رہے گا۔ وہ دراصل نئے اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں یہ شک ڈالنا چاہتے تھے کہ اگر یہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہوتے تو معجزہ دکھادیتے۔ اب اگر یہ معجزہ نہیں دکھاسکتے تو یہ گویا اللہ کے رسول ہی نہیں ہیں۔
رافع بن حریمہ ایک یہودی عالم تھا ایک دن وہ دربار رسالت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا اے محمد! آپ اپنے اللہ سے کہیں کہ ہم سے خطاب کرے اور ہمیں بتائے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ وہی بات جو انہوں نے نبی موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلائو۔ تب ہی ہم تم پر ایمان لائیں گے۔ اسی طرح دو یہودی علماء آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد اگر آپ دعویٰ نبوت ورسالت میں سچے ہیں ذرا بتائیے تو کہ قیامت کب آئے گی؟
دور جدید میں بڑی طاقتیں چھوٹے اسلامی ممالک پر معاشی تجدیدات (SANCTIONS) عائد کرتی رہتی ہیں۔ زمانہ نبوتؐ میں موجود یہود نے بھی مسلمانوں پر معاشی تجدیدات عائد کیں ان کے انصار کے دونوں قبائل سے اسلام سے قبائل حلیفانہ اور دوستانہ تعلقات تھے انہوں نے ان پرانے تعلقات کو اسلام کے خلاف میں کام لانے کی سعی کی۔ انصار صحابہ میں سے جو مالدار تھے انہیں سمجھایا کہ یہ تحریک (اسلام) ابھی اپنے آغاز میں ہے معلوم نہیں کیا انجام ہوگا تم اس طرح بے دریغ اس تحریک پر مال نہ لٹائو۔ کل کلاں کو یہ تحریک ناکام ہوجائے تو تم فقیر ونادار رہ جائو گے اور پھر تمہارا سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔
یہ بظاہر نصیحت اور خیر خواہی تھی اور حقیقت میں یہ مسلمانوں کی مالی مدد کو بند کرانا تھا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سردار تھا اس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا اور درحقیقت وہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کیلئے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوا تھا اس نے انصار سے کہا کہ رسول اللہ کے گرد جو جماعت ہے یہ بھوکے ننگے فقراء ہیں‘ ذرا پیٹ بھرے گا تو یہ بھی چھٹ جھائے گا تم کیوں اپنا مال بے دریغ ان پر لٹارہے ہو؟
اسلام سے پہلے عرب کی سرزمین شعروشاعری کا چرچا تھا‘ شاعر صرف شاعر نہ تھے بلکہ وہ لسان العرب تھے‘ وہ قوم وملت کے ترجمان تھے وہ جنگ وجدال میں سپہ سالاروں کے دل گرماتے تھے‘ سورمائوں کی موت پر ان کے مرثیے نظم کرتے تھے اور گزشتہ واقعات وحوادث کو منظوم صورت میں بیان کرتے تھے اور قبیلوں کے خصائل اور اوصاف کو اجاگر کرتے تھے اور دشمنوں کے خلاف پروپیگنڈے کی مہم چلاتے تھے۔ اسلام کے بعد ان کے کلام کا رخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو پر مبذول ہوگیا۔ اب ان کی ساری توجہ مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور ان کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے پر مرکوز ہوگئی۔ انہوں نے وہ سارے کام انجام دیئے جو دور جدید میں میڈیا کے بڑے نامور تبصرہ نگار اور نامہ نگار کرتے ہیں اور جس طرح دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مقالے سپرد قلم کئے جاتے ہیں۔
اوس اور خزرج انصار کے دونوں قبائل کے درمیان اسلام سے پہلے ایک بڑی جنگ برپا ہوئی تھی جس میں دونوں جانب کے بڑے بڑے زعما‘ مارے گئے تھے۔ یہود نے شعراء کا ایک گروپ تشکیل دیا کسی نے اوس کی مجالس میں جاکر ان کے زعماء کے مارے جانے اور ان کے لیڈروں کے قتل کا درد بھرے انداز میں ذکر کیا اور کسی نے خزرج میں جاکر ان کے بڑوں کے مارے جانے کے مرثیے پڑھے۔ یہاں تک کہ دونوں قبائل نے ہتھیار اٹھالیے اور ایک دوسرے سے مقابلے کی ٹھان لی۔ اس نازک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انتہائی مؤثر اور دلنشیں خطبہ ارشاد فرمایا۔
’’اللہ اللہ! اے اہل اسلام! ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم دور جاہلیت کی باتیں دوہرارہے ہو۔اللہ نے تمہیں اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور تم جاہلیت کی طرف پلٹ جانا چاہتے ہو‘ اللہ نے تمہیں عزت بخشی اور تمہیں مکرم بنایا اور تم پھر سے کفر کی کھائی میں گرنا چاہتے ہو۔ اللہ نے تمہیں کفر سے نجات دی اور تمہیں آپس میں بھائی بھائی بنادیا‘ تم جہنم کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے اللہ نے تمہیں نجات عطا فرمائی!‘‘
یہ خطبہ سننا تھا اوس اور خزرج کے لوگوں کے جسموں میں سنساہٹ سی پھیل گئی اور ان کے دل لرزا رہ گئے‘ وہ ایسے ہوگئے جیسے دھکتے ہوئے جہنم کے الائو میں گرنے ہی والے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دامن پیچھے سے پکڑکر انہیں اس میں گرنے سے بچالیا۔
جنگ بدر میں کفار مکہ کو شکست ہوگئی ان کے بڑے بڑے سورما قتل ہوگئے‘ کعب بن اشرف بیتاب وبے قرار ہوگیا کہ عرب کے ایسے نامور سرداروں کو ایسے بے کس اور مظلوم لوگوں نے مارڈالا جن کی تلواریں کند ہیں اور جن کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہے۔ اس نے شاعری کو اپنے اظہار حسد کا ذریعہ بنایا اور اس شاعری کے ذریعے قریش مکہ کو غیرت دلائی کہ یہ کیا ہوگیا‘ا شعار میں مسلمان عورتوں پر تہمتیں لگائیں اور ہر نوع کی مسلمانوں کی بدگوئی کی۔ یہی نہیں بلکہ قریش کے لوگوں کو سودی قرض دیئے کہ مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے جنگی تیاری کریں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج طاقتور قوتیں مسلمان کے برخلاف اپنی قوت وطاقت کو اکٹھا کرتی ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے مالی مدد بہم پہنچاتی ہیں اور ساری دنیا میں لڑنے والوں کو ہتھیار فراہم کرتی ہیں۔ صرف واقعات وحالات کی صورتیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن ذرا غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہر واقعہ اور حادثہ کے پس پردہ کوئی نہ کوئی کعب بن اشرف چھپا ہوا ہے۔
بعض اہل کتاب نے اسلام صرف اس لئے قبول کیا تھا کہ وہ اسلام کے پردہ میں چھپ کر اسلام کے خلاف سازشیں کریں اور مسلمانوں کو اندر سے نقصان پہنچاسکیں۔ جب اسلام کے فاتحین کا غلبہ اور اقتدار قائم ہوگیا تو ہر جانب سے اور ہر طرف سے مکروفریب اور دھوکہ دہی کا ایک بازار گرم ہوگیا‘ اس میں ارض عجم کے سازشی عناصر بھی تھے اور روم کے شکست خوردہ مسیحی بھی تھے اور دنیا بھر میں مکروفریب چالبازی اور مکاری کی طویل تاریخ رکھنے والے یہودی بھی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان فتنوں اور شر اور فساد کی آگ بھڑکانے میں اپنی تاریخ میں حاصل ہونے والے طویل تجربات کو آزمایا۔ یہاں تک کہ جہاں کہیں مکروفریب کی چادر پھاڑ کر اصل حقیقت تک رسائی حاصل کی جائے گی‘ وہاں ایک مکروہ تاریخی چہرہ نظر آئیگا۔
تاریخ عالم میں انہوں نے ہمیشہ جھوٹ مکر اور فریب سے کام لیا ہے۔ دنیا بھر کے معاشروں میں یہ ہمیشہ انتہائی حقیر اور ذلیل اقلیتوں کی صورت میں رہے ہیں اور اپنے محسنوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے ہیں ان کی عادت یہ ہے کہ جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کے رسوم ورواج اور عادات وخصائل اختیار کرلیتے ہیں اور ان کے وسائل رزق پر قبضہ کرلیتے اور ان کے ذرائع آمدن پر قابض ہوجاتے ہیں۔ عرب میں وہ ایسے رہتے تھے جیسے بالکل عرب ہوں عربی زبان روانی سے بولتے تھے اہل عرب کے مزاج میں دخیل تھے اور انہیں اپنے سودی نظام کے جال میں پوری طرح جکڑا ہوا تھا اندر سے پکے یہودی اور باہر سے عرب!
اگر ان کی ماکرانہ چالوں اور پرفریب سازشوں کا حال دیکھنا ہو تو ذرا دیر کیلئے فرانس چلئیے! وہاں کے باشندوں کو جب ان کے مکروفریب کے رازہائے سربستہ منکشف ہوئے تو انہوں نے ان کے اوپر ظلم وتشدد شروع کیا اور ان کا قتل عام کیا۔ ایک یہودی نے اس کا شکوہ حا فام سے کیا۔ اس حافام جو پروگرام ملت یہود کو دیا وہ بڑا چشم کشا ہے۔ یہ 1489ء کا واقعہ ہے۔ یہ حافام شامور تھا اور اس نے فرانس کے شہر ارل سے یہ تحریر جاری کی تھی۔
’’موسیٰ کے ماننے والے پیارے بھائیو! ہم نے تمہاری تحریر پڑھی اور تمہارے اوپر ہونے والے ظلم وستم سے آگاہ ہوئے۔ تم نے ہمیں بتایا ہے کہ شاہ فرانس تمہیں مسیحیت قبول کرنے پر مجبور کررہا ہے اور تم اس آزمائش کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہو تو تم بلاشبہ مسیحی بن جائو۔ یعنی ظاہر مسیحی اور بباطن شریعت موسوی پر عمل پیرا کٹر یہودی رہو!مسیحی تمہارا مال چھین رہے ہیں! تم اپنی اولاد کو تجارت اور کاروبار میں لگائو تاکہ آگے چل کر وہ مسیحیوں کے مال چھین لیں۔ وہ تمہاری زندگی پامال کررہے ہیں تو اپنے اولاد کو ڈاکٹر اور طبیب بنائو تاکہ وہ ڈاکٹر اور طبیب کے روپ میں مسیحیوں سے حق حیات سلب کرلیں! وہ تمہارے معابد مسمار کررہے ہیں تم اپنی اولاد کو راہب اور پادری بناکر معاہدین میں داخل کردو تاکہ وہ ان کی عبادت گاہیں مسمار کردیں۔ تم نے کہا کہ وہ ہر طرح سے تمہارے اوپر ظلم وستم روا رکھتے ہیں تم اپنی اولاد کو وکیل اور جج بنادو تاکہ وہ قانونی پیشہ اختیار کرکے مسیحیوں کا عرصہ حیات تنگ کردیں!
یہ نسخہ آزما کر دیکھو! تم جلد ذلت ورسوائی سے نکل کر قوت وطاقت کے بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوجائوگے!
بالکل یہی پروگرام مسلمانوں کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا۔ حالانکہ دنیائے اسلام میں ان کو ہر طرح کی سہولتیں اور آسانیاں حاصل تھیں۔ تاریخ کے طویل ادوار میں انہوں نے غیر یہودی اقوام کی تباہی اور بربادی کے جو خفیہ طریقے سیکھے تھے اس میں انہیں خوب مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ مذاہب اور عقائد میں فساد پیدا کرنا‘ نئے نئے فرقے پیدا کرنا۔ شکوک وشبہات ابھارنا‘ جنگوں کا بازار گرم کرنا‘ فرقوں اور گروہوں کو باہم لڑانا‘ سازشوں کے جال بچھانا‘ مال اور عورت کے جال پھیلاکر گمراہ کرنا‘ اخلاق برباد کرنا‘ تعلیمی نظام میں فساد وبگاڑ پیدا کرنا اور آئے دن نئے خیالات وافکار پیدا کرکے انہیں پھیلانا اور قوموں اور ملتوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور ہر طرف بکثرت جھوٹ پھیلانا اور کذب بیانی سے کام لینا۔
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت میں تینوں اعدائے اسلام شریک تھے‘ عجمی سازش‘ یہودی فریب کاری اور مسیحی دسیسہ کاری‘ ابو لولؤفیروز مجوسی محض ایک ہتھیار تھا جس کو استعمال کرنے والے پس پردہ چھپے ہوئے تھے!
کوفہ اور بصرہ شہر فتنوں کی رزم گاہ اور سازشوں کی پناہ گاہ بن گئے تھے‘ یہاں اعدائے اسلام نے اپنی خفیہ چھائونیاں بنالی تھیں۔ کوفہ میں ایک گروہ پیدا ہوچکا تھا جو قریش کے فضل وکمال کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس گروہ کا سرخیل مالک بن حارث تھا جو اشتر کے نام سے مشہور ہوا۔ بصرہ میں بنو عبدالقیس نے فساد مچایا ہوا تھا۔
یمن میں موجود یہودیوں نے ان دونوں شہروں کی یہ خبریں بڑی دلچسپی اور شوق سے سنیں اور عبداللہ بن سباء کو جو کالی عورت کے فرزند کے نام سے مشہور تھا یمن سے بصرہ پہنچا اور بظاہر اسلام قبول کرنے کا دعویٰ کیا اور اس نے بنو عبدالقیس کی اس فسادی ٹولی کے پاس قیام کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کے فساد کے ڈر سے اس کے بصرہ سے باہر جانے پر پابندی لگادی تھی۔ عبداللہ بن سبا نے اپنے قیام بصرہ کے دوران ایک خفیہ تحریک منظم کی اور اس نے اپنی اس سازشی تحریک کے دو بنیادی اور اساسی نکات متعین کئے۔
(1) رجعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ۔ اس نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ عیسیٰ تو دنیا میں واپس تشریف لائیں اور محمد تشریف نہ لائیں!
(2) دوسرا اصول اس نے یہ وضع کیا کہ ہر نبی کا وصی ہوتا ہے اور محمد کے وصی علی ہیں۔
بہت سے فسادی اور شرپسند عبداللہ بن سبا کے گرد اکٹھے ہوگئے اور مختلف خفیہ جماعتیں منظم کی گئیں جن سب کا مشترکہ مطالبہ یہ تھا کہ علی کو خلیفہ مقرر کیا جائے کیونکہ وہ وصی رسول اللہ ہیں۔
جب بصرہ میں اس خفیہ تحریک نے جڑیں بنالیں تو عبداللہ بن سبا کوفہ پہنچا۔ یہاں آکر اس نے مالک بن حارث اشتر سے تعلقات استوار کرلئے اور یہاں اس نے اس خفیہ جماعت کی شاخیں قائم کردیں۔ پھر یہ مصر پہنچا اور یہاں بھی اس نے اپنی تحریک کا مرکز قائم کیا اور تحریک کے ان تمام مراکز کے درمیان خطوط اور پیغامات کے ذریعے رابطہ قائم رہا۔
جب اس خفیہ جماعت کو فتنہ پرور اور شریر نوجوانوں میں خوب فروغ مل گیا تو اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک زبردست پروپیگنڈہ کا آغاز کیا اور انہی تین مراکز سے حضرت عثمانؓ کے خلاف ایک مسلح بغاوت شروع کردی گئی۔
اور پھر وہ کچھ ظاہر ہوا جو اسلامی تاریخ میں فتنۂ کبری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے!
پھر جب حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوگئی یہ سارے باغی حضرت علیؓ کے گرد اکٹھے ہوگئے اور پھر سلسلے وار وہ تمام واقعات پیش آئے جن کے پس پردہ یہی خفیہ ہاتھ اپنی دسیسہ کاری کے ہنر دکھاتے رہے!
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یشوع کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا اور یشوع کے ساتھالیعزر بن ہارون کو تورات کا متولی بنادیا تھا۔ یشوع کی سربراہی میں بنی اسرائیل نے دریائے اردن عبور کیا اور فلسطین کے بعض علاقے فتح کرلیئے اور ان علاقوں کو انہوں نے اسباط میں تقسیم کردیا۔ سوائے بنی لادی کے کہ وہ دینی خدمات کیلئے مخصوص کردیئے گئے اور اولاد ہارون کو کہانت سپرد ہوگئی۔ البتہ بنولادی اور بنو ہارون کی شہری زمینیں دی گئیں تاکہ وہ شہر میں رہیں اور دینی فرائض انجام دیں ‘یشوع نے بڑی استقامت سے اکتیس برس بنی اسرائیل کی سربراہی کی۔
یہ زمانہ جو یشوع سے شروع ہورہا ہے دور قضاۃ (قاضیوں کا زمانہ) کہلاتا ہے۔ فلسطین کے گردوپیش میں بڑی بڑی بادشاہتیں اور عظیم حکومتیں قائم تھیں اور بڑی طاقتور قومیں بستی تھیں۔ بنو اسرائیل اپنے طبعی خصائل کی بنا پر اور اپنی عددی کی وجہ سے ان اقوام کے سامنے دبے رہتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ وعدہ کہ تیری اولاد ستاروں کی مانند بکثرت ہوگی کسی بھی زمانے میں بنی اسرائیل پر صادق نہیں آیا کہ یہود ہر دور اور زمانے میں قلیل تعداد میں رہے ہیں۔ پھر یہ کہ یہودیوں سے کوئی پوچھے کہ وعدے کا مصداق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت اسمعیل کیوں نہیں؟ جبکہ حضرت اسحق تو حضرت اسماعیل کے کافی عرصے بعد پیدا ہوئے۔پھر اسحق کے بعد یعقوب ہوئے اور یعقوب کا لقب اسرائیل ہو ا اور ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی۔
سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ اللہ کے سرزمین موعود کے وعدہ کا تعلق بنو اسرائیل سے جوڑنے کی کیا منطق ہے۔ اسمعیل کی اولاد کیوں نہیں؟ کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کے پہلے فرزند ہیں اور ان کی اولاد بھی بکثرت ہوئی اور ان کی ملت بھی اکناف عالم میں پھیل گئی جبکہ بنو اسرائیل نہ کبھی تعداد میں زیادہ ہوئے اورنہ ان کے دین ومذہب کو کبھی اقوام عالم میں کوئی پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ ہمیشہ مقہور ومغلوب اور ستم رسیدہ ہی رہے۔
فلسطین کے گردوپیش میں بڑی بڑی بادشاہتیں قائم تھیں اور طاقتور قومیں آباد تھیں۔ بنو اسرائیل اپنے طبعی خصائل اور قلیل تعداد میں ہونے کی بناء پر ان کے سامنے مغلوب رہتے تھے۔ سموئیل نبی کے عہد میں بنی اسرائیل فلسطینیوں سے لڑنے نکلے اور شکست کھائی اور چار ہزار اسرائیلی قتل ہوگئے۔ اس پر وہ اپنے عقیدے کے مطابق خداوند کا صندوق اٹھاکر میدان جنگ میں لے آئے تاکہ خداوند ان کے درمیان آکر ان کو دشمنوں سے بچائے۔ عہد کا صندوق لشکر گاہ میں آگیا اور اسرائیلی بہت زور سے نعرہ زن ہوئے جس پر فلسطینیوں نے ان پر دوبارہ حملہ کردیا اور بنو اسرائیل نے دوبارہ بھی شکست کھائی اور تیس ہزار اسرائیلی اس جنگ میں مارے گئے اور خداوند کا صندوق بھی چھین کر لے گئے۔ (سموئیل اول ۴:۲۲)
سموئیل بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے اپنے دو بیٹوں ’’یوئیل ‘‘اور ’’ابی ‘‘کو قاضی مقرر کردیا۔ ان دونوں نے عدل وانصاف کے بجائے ظلم اور رشوت کا بازار گرم کردیا۔ اس پر بنو اسرائیل قاضیوں کے نظام سے تنگ آگئے اور ان کے دلوں میں اس تمنا نے سر اٹھایا کہ ان کے یہاں بھی دیگر اقوام کی طرح بادشاہ ہوں۔ چنانچہ بنو اسرائیل کے بزرگ سموئیل کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ’’ہمارے لئے بھی بادشاہ مقرر کردیجئے جسے اور قوموں میں بادشاہ ہیں‘‘ سموئیل اگرچہ ان کی اس درخواست سے خوش نہ ہوئے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اور سائول (طالوت) کو بادشاہ مقرر کردیا۔ (سموئیل ۱۔۱۸) غرض سائول بنی اسرائیل کے پہلے بادشاہ مقرر ہوئے اگرچہ بنی اسرائیل انہیں نبی بھی تسلیم کرتے تھے مگر ان پر گناہوں کی تہمتیں بھی لگاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ سائول نے بنی ہارون کے اسی سے زائد افراد عورتوں اور بچوں کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے دائود کو روٹی کھلائی تھی۔
سائول (طالوت) کے انتقال کے بعد حضرت دائود علیہ السلام بادشاہ مقرر ہوئے انہوں نے چالیس برس حکومت کی اور بیت المقدس فتح کرکے اسے اپنا دارالسلطنت بنایا۔ تاریخ بنی اسرائیل میں دائود کی سلطنت بڑی عظیم الشان سلطنت تصور ہوتی ہے۔ یہود اسی عظیم سلطنت کے خواب دیکھ رہے ہیں جو نیل سے لے کر دریائے فرات تک وسیع ہوگئی۔ اسرایل کے اسمبلی ہال کی دیوار پر جگہ جگہ بڑے سنہرے حروف میں Kingdom Of David(سلطنت دائود) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
حضرت دائود علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام تخت نشیں ہوئے۔ یہود کے قول کے مطابق حضرت سلیمان نے کافر عورتوں سے شادیاں کی تھیں اور ان کے زیر اثر وہ (نعوذ باللہ ) دین سے پھر گئے تھے۔ اور اسی حالت میں انتقال کرگئے اور ان کے انتقال کے بعد ان کی حکومت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ بنو یہود اور بنو یامین تو فلسطین ہی میں رہے اور ان کی مملکت یہودا کہلائی جس کا بادشاہ رصبعام ہوا اس نے سترہ سال حکومت کی اور اپنے دور حکومت میں کھلا شرک کیا اور کفر اختیار کیا۔ اس کی حکومت میں اہل لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن جب مصری سات ہزار کا لشکر لے کر حملہ آور ہوئے تو رصبعام بھاگ نکلا اور مصریوں نے سارا ملک لوٹ لیا اور شہر کو اورہیکل کو برباد کردیا۔
’اور رصبعام بادشاہ کے پانچویں برس میں شاہ مصر سیلسق نے یروشلم پر چڑھائی کی اور اس نے خداوند کے گھر کے خزانوں اور شاہی محل کے خزانوں کو لے لیا بلکہ اس نے سب کچھ لے لیا اور سونے کی سب ڈھالیں بھی لے گیا جو سلیمان نے بنائی تھیں۔(1۔ سلاطین ۱۴:۲۱۔۲۷)
اس مملکت کا دارالسلطنت القدس تھا اور ان کے یہاں جبل صھیون (Zion) مقدس تھا۔ ان دو قبائل یعنی یہودا اور بن یامین کے علاوہ باقی دس قبائل یعنی اسباط عشر بیت المقدس سے اٹھارہ میل کے فاصلے پر سکونت پذیر ہوگئے اور اپنی علیحدہ حکومت قائم کرلی جو اسرائیل کہلائی۔ افرائیم کے پہاڑ میں شکیم کی بستی ان کا دارالسلطنت بنی اور انہوں نے جبل جرزیم کو مقدس قرار دیا۔
بنو اسرائیل اپنی عددی قلت کی بنا پر طاقور اقوام سے مغلوب ہوجاتے۔ ان سے معاہدے کرتے اور اپنے خصائل کے زیر اثر عہد شکنی کے بار بار مرتکب ہوتے اور ہر مرتبہ گردوپیش کی غالب قوتیں ان پر ٹوٹ پڑتیں۔ طاقتور قوموں کے یہودیوں کو تباہ وبرباد کرنے کے واقعات متعدد ہیں۔ بہت بڑے اور نمایاں واقعات پانچ ہیں جن میں دو واقعات تو بہت ہی اہم ہیں ایک شاہ بابل بنوکد نضر (NEBUCHADNAZZAR) کا حملہ اور دوسرا انٹیاکس (ANTIOCUS) کا حملہ۔
اہل بابل بنو اسرائیل کو قیدی بناکر بابل لے گئے اور ان کو وہاں تتر بتر کردیا ۔ شمال کی حکومت اسرائیل کے لوگوں کو عراق بابل کے مختلف علاقوں میں منتشر کردیا۔ یہ یہودیوں کے دس گم شدہ قبائل کہلائے۔ مملکت یہودا کے لوگ بھی اسیری اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے۔
دو صدیوں تک یہودی اہل ایران کے غلام رہے یہاں تک کہ سکندر مقدونی نے ایرانی حکومت کو پسپا کردیا ۔۳۳۲ق م میں ملک شام پر تسلط حاصل کرلیا تمام عبرانی اور سامری سکندر مقدونی کے تابع ہوگئے۔ یونانی دور حکومت میں یہودیوں نے یونانی تہذیب اور رسوم ورواج کو اختیار کرلیا اور یونانی تہذیبی رنگ میں رنگے گئے۔
انٹیاکس نے حکم جاری کردیا کہ تمام سلطنت میں یونانی دیوتائوں کی پرستش کی جائے۔ اس نے ہیکل (بیت المقدس) میں بتوں کی قربان گاہ بنادی اور حکم دیا کہ جہاں کہیں تورات یا اس کا کوئی حصہ موجود ہو اسے ضبط کرکے جلادیا جائے اور جو شخص یہودی طریقے کے مطابق عبادت کرتا ہوا پایا جائے اسے قتل کردیا جائے۔ کسی یہودی کی مجال نہیں رہی کہ وہ اپنے وجود کے ساتھ یا اپنے گھر میں یا اپنی زندگی میں کوئی یہودیت کی معمولی سی علامت بھی برقرار رکھے۔ ختنہ ممنوع قرار پائی اور جاسوس مقرر کردیئے گئے کہ جہاں کہیں کوئی معمولی سی کوتاہی بھی یونانی حکومت کے احکام کی خلاف ورزی پائی جائے فوراً قتل کردیا جائے۔ ۱۴۳ق م انٹیاکس نے یروشلم پر حملہ کردیا وہ ہیکل میں داخل ہوا اور تمام مال واسباب لوٹ کر لے گیا اور دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ اس نے ایک بڑا لشکر دوبارہ یروشلم پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کردیا اس عظیم لشکر نے یہودیوں کا قتل عام کیا اور بچوں اور عورتوں کو غلام بناکر لے گئے۔ بعد ازاں انٹیاکس نے یروشلم میں فوجی چھائونی بنائی اور حفاظتی قلعہ تعمیر کیا۔
ان انتظامات کے بعد انٹیاکس نے حکم جاری کیا کہ تمام اقوام اپنے مذہبی طور طریقے ترک کرکے یونانی رسوم ورواج اختیار کرلیں۔ بہت سے یہودیوں نے برضا ورغبت تعمیل کی اور یونانی تہذیب کے رنگ میں رنگے گئے۔ لیکن اس کے باوجود انٹیاکس نے یروشلم میں اعلان کردیا کہ یروشلم میں اور تمام یہودی بستیوں میں سو ختنی قربانیوں کا سلسلہ بند کیا جائے‘ سبات کے دن عام دنوں کی طرح کام کیا جائے ہیکل میں یونانی بت رکھے جائیں اور ان کی پرستش کی جائے بتوں کی قربانی کے جانوروں میں خنزیر کی بھی قربانی دی جائے ختنہ کا سلسلہ فوراً بند کردیا جائے اور موسوی شریعت پر عمل کلتیاً ختم کردیا جائے۔ ان میں سے کسی بھی حکم کی خلاف ورزی کی سزا موت مقرر کی گئی۔محتسب مقرر کئے کہ وہ بستی بستی اور گھر گھر جاکر کہ کہیں ان احکام کی خلاف ورزی تو نہیں ہورہی۔ ختنہ کے حکم کی خلاف ورزی کے جرم میں بچے کو ماں کی گردن سے لپیٹا جاتا اور ماں اور باپ بچے تینوں کو قتل کردیا جاتا۔ غرض یونانی دور میں بنو اسرائیل پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔
یہود کا طریقہ یہ تھا کہ دنیاوی مناصب کے حصول اور حصول زرومال کی خاطر غالب حکمرانوں سے تعلق قائم کرتے اور ان سے عہد ومواثیق کرتے اور پھر انہیں توڑنے کی پاداش میں سزا پاتے تھے۔ انہیں اللہ کے عہد اور مواثیق کے توڑنے میں کوئی تامل نہیں تھا تو حکمرانوں سے عہد تو وہ کرتے ہی توڑنے کیلئے تھے۔ یونانیوں کے بعد رومیوں کا دور آیا یہودیوں نے ان سے بھی معاہدے کئے اور ان سے معاہدہ صلح کرکے ان کے زیر اثر آگئے اور یروشلم پر رومیوں کی حکمرانی قائم ہوگئی۔
۲۶ق م میں رومی حکومت کی جانب سے پنس ہیلٹ یروشلم کا حاکم مقرر ہوا اسی کے دور میں یہودیوں کی مجلس سنہدرین نے حضرت عیسیٰؑ کے کفر کا فتویٰ جاری کیا اور رومی حکومت سے ان کے پھانسی دیئے جانے کا مطالبہ کیا جو رومی حکومت نے بڑے ردوقدم کے بعد قبول کیا اور یسوع مسیح کو پھانسی پر چڑھادیا گیا اور عیسائی عقیدے کے مطابق وہ تیسرے دن زندہ ہوکر اپنے متبعین سے ملے انہیں نصیحتیں کیں اور آسمان پر چلے گئے۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد یہودیوں نے رومی حکمرانوں کے خلاف بغاوتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجہ میں رومی حکومت نے ۷۰ ق م میں ایک عظیم لشکر روانہ کیا جس نے آکر یروشلم کا محاصرہ کرلیا اور جلد ہی اس پر قبضہ کرکے تہس نہس کردیا ہیکل کو برباد کردیا اور اس میں آگ لگادی اور یہودیوں کا ایسا قتل عام کیا کہ گویا انہوں نے عزم کرلیا تھا کہ یہودیوں کا نام ونشان تک مٹادیا جائے۔
تاریخ کے ہر موڑ پر پردہ سیمیں میں پر عبداللہ بن سبا اپنے مکروہ چہرے کے ساتھ نظر آتا رہا! حضرت نامنظور احمد نعمانیؒ کو عبداللہ بن سبا میں اور سینیٹ پال میں مشابہت نظر آئی دونوں یہودی تھی دونوں نئے آنے والے مذاہب کے دشمن تھے دونوں نے نفاق کو اور مکروفریب کو دسسیسہ کاریوں کا ذریعہ بنایا ایک نے عیسائیت کو مسیحیت بنادیا اور دوسرے نے دین اسلام میں فرقوں اور گروہوں کی آبیاری کی!
۲۷۶ھ میں کوفہ میں میمون بن دیصان قداح ظاہر ہوا‘ وہی بظاہر مسلمان اور بباطن منافق اور خبیث یہودی! اس نے بھی وہی ساز بجایا جس پر عبداللہ بن سبا نے جب آل بیت کے نغمے گنگنائے تھے‘ اس نے دین کے سارے حقائق بدل ڈالے‘ نصوص شریعت کو مسخ کردیا اور ظاہر وباطن کا ایک پورا نظام لاکھڑاکیا‘ اس نے کہا کہ ہر چیز کا ایک باطن ہوتا ہے اور ظاہر کی ایک باطنی حقیقت ہوتی ہے۔ یہ علمائے ظاہر چھلکوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور مغز کو نکال کر پھینک رہے ہیں۔
اس نے کھلم کھلا الحاد وزندقہ کی دعوت دی محرمات کو جائز قرار دیا اور بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح کو حلال قرار دیا یہی نہیں بلکہ دہشت گردوں کا ایک گروہ پیدا کیا اور حکمرانوں اور علماء کو گھات لگاکر قتل کرنا شروع کردیا۔
میمون بن دیصان اپنے آپ کو اہل بیت سے منسوب کرتا تھا حالانکہ یہ شلعلع یہودی کا بیٹا تھا‘ یہودیوں کا بڑا عالم اور علم نجوم اور فلسفہ میں بڑی دسترس رکھتا تھا اور مذاہب وادیان پر بڑی گہری نظر تھی اس کو ملت یہود نے اسلام اور مسلمانوں کی بربادی کیلئے معرکہ کارزار میں اتارا تھا اس نے اپنے آپ کو اسماعیل بن جعفر الصادق کے متبعین میں داخل کرلیا اور بظاہر اہل بیت کی محبت کے ترانے سناتا اور بباطن اپنے خبث اور مکرکو مسلمانوں میں پھیلاتا تھا۔ حالانکہ مورخین اور اہل تاریخ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اسماعیل اپنے والد جعفر ہی کی زندگی میں لاولد انتقال کرگئے تھے۔ لیکن میمون بن دیصان نے ان کا نسب گھڑ کر کتنے ہی ائمہ مستورین کو ان کے نسب میں شامل کردیا!
تاریخ گواہ ہے کہ اس ساری جماعت کا حضرت علی اور آل بیت سے انتساب غلط اور جھوٹ ہے‘ اس دور کے بڑے بڑے علماء نے ایک محضر تیار کیا تھا جس میں امام ابوالحسین قدوری ‘ ابو حامد اسفراینی اور ابو جعفر النسفی جیسے بڑے شامل تھے اور ان سب نے ان نسب ناموں کو جھوٹ اور ائمہ مستورین کے آل بیت سے انتساب کو غلط قرار دیا تھا۔
کوفہ میں میمون بن دیصان کی ملاقات ایک اور شیطان سے ہوگئی اس کا نام حمدان قرمط تھا ان دونوں نے مل کر ایک خفیہ تنظیم قائم کی اور دونوں نے اس تنظیم کے ایسے اصول وضع کئے جن سے کام لے کر مسلمانوں کو دین اسلام سے منحرف کیا جاسکے‘ عام مسلمانوں میں امامت اور زندہ پھیلایا جائے اور دین اسلام کے عقائد واعمال کو تباہ وبرباد کیا جائے‘ اس خفیہ جماعت کو آغاز ہی میں نو افراد مل گئے۔ انہوں نے اپنے آپ کو حضرت علیؓ سے منسوب کیا اور ائمہ مستورین کے داعی ہونے کا دعویٰ کیا اور داعیان اہل بیت کے روپ میں مسلم معاشرے میں پھیل گئے۔
دیلمی ایک مشہور مؤرخ ہیں وہ تحریر کرتے ہیں کہ باطنیت کی تحریک خالص یہودی تحریک تھی جس میں مجوسی بھی شامل تھے۔ ان کے اجتماعات خفیہ ہوا کرتے تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ اسلام پر طاقت کے ذریعہ فتح حاصل کرنا ممکن نہیں رہا اس لئے اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ ہم دسیسہ کاری کے ذریعے اہل اسلام میں فتنے اور فساد پھیلاکر اور ان کے عقائد واعمال خراب کرکے انہیں اندر سے کھوکھلا کردیں اور اس کام کیلئے مکروفریب کا اور دھوکہ دہی کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
اس جماعت نے خفیہ طور پر داعی مختلف علاقوں میں روانہ کئے یہ داعی دور دراز کی ایسی بستیوں میں پہنچ جاتے جہاں کے سادہ لوح مسلمان اسے دین اسلام اور اہل بیت سے قلبی محبت رکھتے‘ وہ ان کی اس محبت کو اپنی دسیسہ کاری کیلئے استعمال کرتے اور اپنے آپ کو اہل بیت کا ایک فرد اور ان کا داعی اور فرستاد سے تعاون کراکر انہیں اپنے جال میں پھنسایا کرتے تھے۔
۲۸۰ھ میں ان قرمطیوں نے بڑی قوت حاصل کرلی اور بحرین میں اپنا مرکز قائم کرلیا۔ ۲۸۱ھ میں یہاں ایک شخص ظاہر ہوا جس نے اپنا نام علی بن معلی رکھا اور اپنے آپ کو مہدی آخر الزماں کا نمائندہ قرار دیا۔ لوگوں کو مہدی کا خط پڑھ کر سناتا تھا۔ بالآخر بحرین میں قرامطہ کی حکومت قائم ہوگئی اور انہوں نے خوب اہل اسلام کا خون بہایا۔
ازاں بعد باطنیت کی یہ تحریک شاخ درشاخ ہوگئی اور تمام مسلم علاقوں میں ان کی شاخیں قائم ہوگئیں اور ہر مقام پر نئے نئے فتنے جگاتے اور مسلمانوں کی بربادی کا سامان کرتے۔ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ان کا مال لوٹتے اور مساجد کو شہید کرکے آگ لگادیتے اور حجاج کے قافلوں کے راستوں میں بیٹھ کر انہیں لوٹا کرتے تھے۔
بحرین میں ایک قرمطی حکمران ابو سعید جنابی نے بڑی قوت وطاقت جمع کرلی‘ اس کے بعد اس کا بیٹا ابو طاہر حکمراں ہوا اور شر اور فساد میں اور مسلمانوں کے قتل عام میں اپنے باپ سے بھی آگے بڑھ گیا۔ ۳۱۱ھ میں اس نے سترہ سو جنگجو لے کر اچانک رات کے وقت بصرہ پر حملہ کردیا خوب لوٹ مار کی اور قتل عام کیا اور کثیر مال اور عورتیں اور بچے اپنے ساتھ لے گیا۔ ۳۱۲ھ میں ابو طاہر نے حاجیوں کے قافلوں پر حملہ کردیا‘ ان کی مدد کیلئے خلیفہ کا لشکر آیا تو وہ بھی اس کے ظلم وبربریت کے سامنے ٹھہر نہ سکا‘ حاجیوں کے قتل عام کے بعد ابو طاہر کوفہ پہنچ گیا اور چھ دن تک یہاں قتل وغارت کا بازار گرم کئے رکھا۔
۳۱۷ھ میں قرامطہ کا یہ گروہ حج کے موسم میں مکہ مکرمہ پر حملہ آور ہوا اور خود بیت اللہ میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ ظاہر ہے کہ مقصد وہی تھا جو ابرھہ کا تھا کہ مسلمانوں کو حج کیلئے مکرہ مکرمہ آنے سے روک دیا جائے اور ایسا ماحول پیدا کردیا جائے کہ فریضہ حج ہی ساقط ہوجائے۔
ازاں بعد قرمطیوں نے پہاڑوں کا رخ کیا اور حسن بن صباح نے قلعہ الموت میں اپنی جنت بنالی اور یہاں آنے والوں کو حشیش پلاکر مسلمانوں کے قتل عام کیلئے اور خاص طور پر علماء اور مسلم حکمرانوں کو اچانک اور دھوکہ سے قتل کرنے کیلئے روانہ کیا جاتا تھا۔
یہ سلسلہ سالہا سال اسی طرح جاری رہا۔ یہاں تک ۵۴۹ھ کوہستان کے باطنیوں کے سات ہزار جنگجو تیار کرلئے اور لشکر اسلام پر ٹوٹ پڑے اور مسلمانوں نے ان کا خوب قوت کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان کو شکست دے کر ان کی قوت کو کمزور کردیا۔
۵۵۲ھ میں سبائیوں (قرمطیوں) نے پھر اپنی قوت جمع کی اور حاجیوں کے قافلوں پر ٹوٹ پڑے اور خوب مسلمانوں کا قتل عام کیا‘ یہاں تک امیر حج بھی مارا گیا‘ حجاج نے مصالحت کی پیش کش کی جو اولاً قبول کرلی اور پھر ان کے ہتھیار ڈالنے پر سب کو ایک ایک کرکے مار دیا‘ زخمیوں میں قرمطی گھوم پھر کر دیکھتے اگر کوئی سانس لے رہا ہوتا تو اسے ماردیتے۔ بہت بڑی تعداد میں عالم اسلام سے آئے علماء اور فضلاء شہید ہوئے اور پورے عالم اسلام میں ہر طرف صف ماتم بچھ گئی۔
یہاں تک اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو دو عظیم سپاہی عطا کئے نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ان شہ سواروں نے صلیبی جنگوں میں بھی کار ہائے نمایاں انجام دے کر صلیبی حملہ آوروں کا خاتمہ کیا اور داخلی طور پر یہودی سازش کا بھی تانا بانا بکھیر دیا اور سبائی فتنے کا کافی حد تک قلع قمع کردیا۔