حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے:
اور آپ ان (صحابہؓ) سے اہم کام میں مشورہ کرلیا کریں سو جب فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کریں، بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
اور جنہوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز کو قائم کیا اور ان کے کام باہم مشورے سے ہوتے ہیں اور وہ اس میں سے جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے خرچ کرتے ہیں۔ (سورۃ الشوریٰ، 38,42)
ان دونوں آیات میں خالق کائنات نے یہ حکم دیا ہے کہ جب بھی کوئی اہم مرحلہ درپیش ہو تو چاہئے کہ اپنے خیر خواہوں سے مشورہ کرلیا کرو۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ رسول تو براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہدایات حاصل کرتے ہیں، جب کہ فہم وفراست میں بھی رسول سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے؟ اس کے باوجود فقط مشورہ کی اہمیت بتانے اور اہل ایمان کو ترغیب دینے کے لئے سردار الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو بھی یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اہم کاموں میں مشورہ ضرور کیا کریں۔ مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک کی ایک سورت کا نام ہی ’’شوریٰ‘‘ یعنی مشورے والی سورت ہے۔
مشورے کی اہمیت کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
اپنی انفرادی رائے سے کوئی کامیاب نہیں ہوا اور مشورے کے بعد کوئی ناکام نہیں ہوا۔ (بیہقی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا تو آپ کو یہ نصیحت فرمائی۔
مشورہ کرلیا کریں کیونکہ مشورہ لینے والے کی (من جانب اللہ) مدد کی جاتی ہے اور جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ (طبرانی)
اسلام نے مشورے کو اتنی زیادہ اہمیت اس لئے دی ہے کہ کوئی بھی انسان عقل کل نہیں ہوتا اور جو خود کو ہی عقل کل سمجھتا ہے، وہ سب سے بڑا بے وقوف ہے۔ مشورے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ انسان کی عقل بھی ناقص ہے، تجربہ ومشاہدہ بھی محدود ہے اور علم بھی کامل نہیں، لہٰذا جب ایک انسان کوئی کام کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنے خیر خواہوں سے مشورہ کرتا ہے تو اس کام کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آتے ہیں جن کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں گیا ہوتا، بعض ایسی معلومات سامنے آتی ہیں جو اس کے علم میں نہیں ہوتیں، اسی طرح بعض ایسے ممکنہ نتائج کی نشاندہی بھی ہو جاتی ہے جن پر اس کی نظر نہیں ہوتی۔ مشورے کے نتیجے میں جب اس کام کے مختلف منفی پہلو سامنے آتے ہیں تو یا تو وہ شخص ان منفی پہلوئوں کے تدارک کی کوشش کرتا ہے یا پھر اس کام سے ہی باز آجاتا ہے اور دونوں صورتوں میں وہ ایک بڑے نقصان سے بچ جاتا ہے۔ بعض اوقات مشورے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کام مزید بہتر اور مفید ثابت ہوتا ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ کسی پروجیکٹ میں فلیٹ بک کروانا چاہتے ہیں۔ آپ سوچتے ہیں کہ فلیٹ میری پسند کے مطابق ہے، قیمت بھی کم ہے، قسطیں بھی آسان ہیں، محل وقوع بھی بہترین ہے۔ آپ فلیٹ بک کروانے کے لئے بالکل تیار ہو جاتے ہیں، پھر احتیاطاً ایک دو لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں تو آپ کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ یہ بلڈر دھوکے باز ہے، اس کے فلاں فلاں پروجیکٹ جنہیں چار سال میں مکمل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، آج دس سال گزرنے کے باوجود پروجیکٹ نامکمل پڑے ہیں اور بکنگ کروانے والوں کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں، بلڈر نہ تو فلیٹ مکمل کرتا ہے اور نہ ہی رقم واپس کرتا ہے تو بتائیے کہ کیا اس خبر کی تصدیق کے بعد آپ وہاں فلیٹ بک کروائیں گے؟ یعنی مشورے کی برکت سے آپ لاکھوں روپے کے نقصان سے بچ گئے۔
ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم ہر کام سے پہلے مشورہ ضرور کریں، لیکن اس حوالے سے چند باتوں کو ضرور پیش نظر رکھیں، مثلاً مشورہ ایسے شخص سے کیا جائے جو آپ کا خیر خواہ اور مخلص ہو، کیونکہ ایسا شخص آپ کو وہی مشورہ دے گا جسے اپنے لئے پسند کرے گا۔ دوسرے یہ کہ مشورہ دینے والا عقل مند ہو، بے وقوف شخص آپ کا کتنا ہی خیر خواہ کیوں نہ ہو، وہ آپ کو احمقانہ مشورہ ہی دے گا۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ’’نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے‘‘۔
مشورہ ہمیشہ ایسے شخص سے لینا چاہئے جو صالح اور دیندار ہو، کیونکہ جو شخص دیندار نہیں وہ اللہ اور رسول کے ساتھ مخلص نہیں، حتیٰ کہ خود اپنے ساتھ مخلص نہیں تو کسی اور کے ساتھ کیا ہوگا؟ بے دین شخص سے مشورہ کرنے میں نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے، کیونکہ بے دین کا دل بھی کالا، دماغ بھی کالا، لہٰذا وہ آپ کو کسی معاملے میں روشنی کیونکر دکھا سکتا ہے؟ بے دین شخص آپ کو جو مشورہ دے گا اس میں دینی تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھے گا، لہٰذا ممکن ہے کہ اس کے مشورے سے آپ کو دنیوی فائدہ تو حاصل ہو جائے مگر دین کا نقصان ہوجائے، اس صورت میں تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بے دین شخص آپ کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے اور اس طرح یا تو اپنا مطلب پورا کرلے یا فقط آپ کو پریشان کر کے ہی خوشی محسوس کرے جیسا کہ بعض لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ کسی کو پریشان دیکھ کر خوش ہوتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
دینداری کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس صالح شخص کو اس کام کا کچھ تجربہ بھی ہے! کیونکہ جسے ایک کام کا تجربہ ہی نہیں وہ معقول مشورہ کیسے دے سکتا ہے؟ اس دیندار شخص کو بھی چاہئے کہ صاف بتا دے کہ مجھے اس کام کا تجربہ نہیں ہے، لہٰذا آپ کسی تجربہ کار آدمی سے مشورہ کریں۔
بعض مستشیر یعنی مشورہ لینے والے پہلے حتمی فیصلہ کرلیتے ہیں اور پھر رسمی طور پر مشورہ کرتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ مشیر کے سامنے مکمل حالات کے بجائے یک طرفہ پہلو بیان کرتے ہیں، اگر وہ کام کرتا ہے تو تمام مثبت پہلو اور نہیں کرتا ہے تو صرف منفی پہلو، یہ حماقت ہے۔ اگر کسی عالم، بزرگ وغیرہ سے مشورہ کرتے ہیں تو مشورے کو حکم سمجھتے ہیں جب کہ مشورہ تو مشورہ ہوتا ہے جس پر عمل بھی کیا جاسکتا ہے اور اسے رد بھی کیا جاسکتا ہے، مشورے کے بعد نقصان ہوجائے تو قصور وار مشیر کو ٹھہراتے ہیں گویا کہ خود عقل سے محروم ہیں۔
بعض مشیروں کو بھی مشورے دینے کا شوق ہوتا ہے، خواہ مخواہ ہی بلا طلب مشورے دیتے پھرتے ہیں، جب کہ عقلاء کہتے ہیں کہ جب تک مشورہ طلب نہ کیا جائے اس وقت تک مشورہ نہ دیں، کیونکہ ایسے مشورے کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، بلکہ بعض اوقات تو شرمندگی بھی اٹھانا پڑتی ہے۔ مشیر کو اس بات پر بھی اصرار نہیں کرنا چاہئے کہ اس کا مشورہ لازمی قبول کیا جائے اور مشورہ قبول نہ کرنے کی صورت میں ناراض ہونا بھی جہالت ہے‘ بعض مشیروں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ ’’دیکھا ہمارے مشورے پر عمل نہیں کیا تو پھر نقصان تو ہونا ہی تھا‘‘ بعض مشیر اس بات کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں کہ ’’ہمارے مشورے پر عمل کیا تو کس قدر فائدہ ہوا‘ ہماری مانوگے تو مزے میں رہوگے‘‘ یہ بھی کم عقل کی بات ہے۔ بہرحال مشیر اور مستشیر دونوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کامیابی اور ناکامی اللہ کی جانب سے ہے۔ لہٰذا فائدہ ہونے کی صورت میں اکڑنا اور نقصان ہونے پر دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا سراسر حماقت ہے اور بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے احمقوں کی اس قدر بہتات ہے کہ ’’ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔‘‘
اسلام میں مشورے کی اہمیت
Please follow and like us: