اسلام کا تصورعلم 

نبی کریم کی نبوت وبعثت‘ قرآن مجید فرقان حمید کے نزول اور اسلام کی آمد سے قبل مذہبی اور علمی روایات واقدار میں فاصلے پائے جاتے تھے‘ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مذہب حصول علم کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرتا ہے‘ اس تصور کا بنیادی اور اساسی سبب پاپائیت اور رہبانیت کے وہ تصورات تھے جو مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے مذاہب میں داخل کرلئے تھے۔
پاپائیت نے تصور علم کی اس لئے نفی کی، تاکہ عامۃ الناس مذہب کی تعلیم کی طرف متوجہ نہ ہوں اور وہ مذہبی روایات واقدار کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق توڑ موڑ کر پیش کر سکیں اور مذہب کو اپنے من پسند دائرہائے زندگی تک محدود ومسدود کر سکیں، جہاں کہیں جب بھی کبھی مذہب کو من پسند دائروں میں مسدود کیا جائے وہاں علم کی حوصلہ شکنی ضروری ہوتی ہے کہ مذہب ان دائروں میں اسی صورت میں بند رہ سکتا ہے جبکہ عامۃ الناس پر علم کے دروازے بند کردیئے جائیں‘ مذہبی روایت وقدر کے طور پر علم اور حصول علم کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
تاریخ انسانیت کا یہ یادگار واقعہ ہے کہ یونان کے شہر ایتھنز کی عدالت میں سقراط بطور مجرم پیش ہوا تھا۔ اُ س پر یہ الزام تھا کہ وہ لوگوں کو علم وآگہی کی تعلیم دیتا ہے اور نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔ عدالت نے اُس کو موت کی سزا سنادی۔ سقراط نے اپنا جرم اور اپنی سزا سن کر صرف یہ کہا ’’آج میں موت سے مغلوب ہورہا ہوں اور تم بدی سے ’’اسے تیس دن جیل میں رکھا گیا اور اسے زہر کا پیالہ دیدیا گیا جو اُس نے پورے سکون واطمینان کے ساتھ پی لیا۔
اسلام نے آتے ہی ’’اقرأ‘‘ کے نعرہ سے بلند ہونے والی تحریک نے اس تصور کو منہدم کرکے رکھ دیا، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس مکمل جامع اور آخری دین متین کے پیروکاروں میں بھی علم‘ اہل علم اور حصول علم کی حوصلہ شکنی کے جذبات واحساسات آج بھی موجود ہیں۔ آج بھی اس دین متین کو جو زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشہ کیلئے جامع اور مکمل ہدایات ربانی کے ساتھ نازل ہوا تھا، چند دائروں میں محدود کرنے اور مسدود رکھنے والوں نے علم‘ اہل علم اور حصول علم کی حوصلہ شکنی کو اپنا طرز زندگی بنا رکھا ہے‘ اس لئے ضرورت ہے کہ اسلام کے تصور علم کو اپنے ذہنوں میں دوبارہ تازہ کر لیا جائے‘ اس تصور علم کی صحیح شکل کو نمو تازہ دی جائے، جو دین متین اور اس کے بنیادی واساسی ماخذ ومصادر یعنی قرآن وسنت نے ہمیں عطا کیا ہے۔
اسلام میں علم کی اہمیت
اسلام کے بنیادی اقدار اور معتقدات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ توحید اسلام کی سب سے اہم بنیادی قدر اور عقیدہ ہے۔
عقیدۂ توحید کے بغیر کوئی شخص اسلام کے دائرے میں داخلے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عقیدۂ توحید کی اس بنیادی اہمیت کے پیش نظر یوں محسوس ہوتا ہے کہ غار حراء میں پہلی وحی کے طور پر نازل ہونے والے الفاظ وکلمات وہ ہوتے جو اس عقیدے کو اختیار کرنے کیلئے براہ راست حکم دے رہے ہوتے‘ عقیدۂ توحید کو بیان کر رہے ہوتے‘ اس کے استدلال کو واضح کر رہے ہوتے ۔
لیکن رب حکیم نے جو انسانوں کا خالق ومالک ہے‘ انسان کی ذہنی کیفیات‘ اس کی نفسیات اور اس کے معتقدات کے اسباب وپس منظر کو وہی جانتا ہے‘ اپنی اسی حکمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی وحی کے لئے ’’اقراء‘‘ کے الفاظ کا انتخاب کیا اور انسان کو روایت علم سے وابستہ کر دیا کہ وہ انسان جو شرک وکفر میں مبتلا ہے‘ اس کی اس ذہنی وفکری گمراہی کا اصل الاصول سبب اس کی جہالت ہے، اگر وہ جہالت کی دبیز تاریکی سے نکل آئے نور علم سے اپنے دل ودماغ کو روشن اور منور کرے تو شرک جیسے جاہلانہ اور احمقانہ نظریات سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔
غار حرا میں اس تصور علم کی بنیاد رکھی گئی اور پھر 23 سال کی مدت میں اس تصور علم کی شاندار اور پُرشکوہ عمارت تعمیر ہو گئی، اس تصور علم کی چند اہم ترین بنیادوں کو اس وقت بیان کیا جائے گا۔
علوم کا اصل سرچشمہ
اسلام کے تصور علم کی اولین بنیاد واساس یہ ہے کہ علوم کا اصل سرچشمہ اللہ کی ذات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ انبیاء علیھم السلام بھی علوم نبوت کے فیض کے لئے سرچشمہ ربانی سے براہ راست بذریعہ وحی سیراب ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ امی تھے۔ یعنی آپ ﷺ نے اس کائنات رنگ وبو میں جو علوم پھیلائے، علم کی بنیادی اقدار اور اس کے اساسی تصورات میں جو انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں‘ وہ کسی انسانی استاد‘ کسی تعلیمی ادارہ‘ یونیورسٹی‘ درسگاہ یا مدرسہ سے اکتساب فیض کا نتیجہ نہ تھیں، بلکہ براہ راست رب کائنات سے کسب واکتساب فیض کے نتیجے میں تھیں اور اس کسب فیض میں رب کریم کی طرف سے یہ اہتمام تھا کہ کوئی بیرونی قوت مداخلت کی جرأت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جب آپ سے پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے تو رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
احیاناً یاتینی مثل صلصلۃ الجرس
(کبھی کبھی یہ وحی مجھ پر اس طرح نازل ہوتی ہے جیسے گھنٹی کی سی آواز اور جب یہ کیفیت مکمل ہوتی ہے تو میں وحی کے الفاظ اپنے قلب میں محفوظ کئے ہوئے ہوتا ہوں)
وحی علم کا اصل منبع ہے
1: علوم کا اصل الاصول منبع اور سرچشمہ اللہ کی ذات اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات ہیں۔
2: اعلیٰ ترین علم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا علم ہے۔ کائنات رنگ وبو کا کوئی علم اس علم سے اعلیٰ قدر نہیں ہو سکتا، یہ حقیقت ایسی پختہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے اگر تمام انسان بھی اس کے خلاف متفق ہوجائیں تو اس حقیقت میں ذرہ برابر شائبہ پیدا نہیں ہو سکتا ۔ حدیث قدسی ہے کہ ’’ میرے کلام کی فضیلت مخلوق کے کلام کے مقابلے میں ایسی ہی ہے جیسے میری ذات کی کبریائی مخلوق کے مقابلے میں‘‘۔
3: اعلیٰ ترین علوم کے بعد دوسرے نمبر پر وہ علوم ہیں جو قرآن وحدیث کو سمجھنے‘ ان سے عملی مسائل کا استنباط کرنے کیلئے ضروری ہیں۔ یا ان سے حاصل ہونے والے مسائل پر مشتمل ہیں۔
4: نزول وحی کی اس کیفیت اور پہلی وحی کے ابتدائی الفاظ
اقرأ باسم ربک الذی خلق۔ ایک اور حقیقت کی جانب ہمیں متوجہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ تیسرے نمبر وہ علوم ہیں جو کائنات رنگ وبو سے متعلق ہیں۔ خواہ ان کا تعلق نیچرل سائنسز ہو یا فزیکل سائنسز سے‘ بائیولوجیکل (حیاتیاتی) سائنسز سے ہو یا سوشل سائنسز (معاشریات) سے‘ کہ یہاں خلق کا فعل موجود ہے اور اس کا فاعل رب کائنات ہے‘ لیکن مفعول مذکور نہیں۔ پڑھو اس پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا‘ کس چیز کو پیدا کیا‘ یہ سوال انسان کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ انسان اپنے اردگرد پائی جانے والی اس کے وسیع تر کائنات پر غور کرے اور دریافت کرے کہ اللہ نے کیا کیا کچھ پیدا کیا ہے۔
گویا اب انسان اس کائنات میں غوروفکر کر کے اس کی تخلیق کے مختلف رنگوں میں غور کریگا اور انواع واقسام کے علوم کے میدان سر کرے گا تو وہ اسی حکم ’’اقرأ باسم ربک الذی خلق‘‘ پر عمل پیرا ہو رہا ہوگا اور یوں علوم کی تیسری نوعیت کی تعمیر کر رہا ہوگا کہ اسلام کا تصور علم صرف مذہبی علم تک محدود نہیں۔
علم خشیت الٰہی کا سرچشمہ
اسلام کے تصور علم کی دوسری اہم بنیاد واساس یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک علم وہ ہے جو اس کے اندر اللہ کا خوف اور اس کی خشیت پیدا کرے۔
ارشاد الٰہی ہے:
انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء
(اللہ کے بندوں میں سے صاحب علم بندے اس سے زیادہ ڈرتے ہیں)
اس تصور کے اندر یہ بات بھی ملحوظ ہوگی کہ قرآن وحدیث کا علم انسان کے اندر سب سے زیادہ اللہ کا خوف اور اس کی خشیت پیدا کرتا ہے، لیکن دیگر سائنسی علوم بھی اللہ کی مخلوقات پر تحقیق کے نتیجے میں اللہ کی قدرت وخالقیت کی معرفت اور اس پر پختہ ایمان پیدا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں اس کے اندر خشیت الٰہی کے جذبات واحساسات پروان چڑھتے ہیں اور اس طرح یہ علوم بھی اس تصور کے تحت علوم کہلانے کے مستحق ہیں۔
علم کے نتیجے میں نفع رسانی
اسلام کے تصور علم کی تیسری بنیاد واساس یہ ہے کہ علم محض کتابیں پڑھ لینے یا کسی فن میں مہارت حاصل کرنے کا ہی نام نہیں، بلکہ وہ ایسا علم ہو کہ جس سے اس کی اپنی ذات بھی فائدہ حاصل کرے اور دوسرے لوگ بھی اس سے بہرہ مند ہوں۔ ایسے علم کو حدیث میں علم نافع کہا گیا:
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
اللھم انی اسئلک علماً نافعاً
(اے اللہ میں تجھ سے علم نافع کا سوال کرتا ہوں)
اللھم انی اعوذبک من علم لاینفع
(اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو فائدہ مند نہ ہو)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ
(تم میں سے بہتر وہ ہیں جو خود بھی قرآن پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھائیں)
یعنی خیر اور بہترین لوگوں میں شامل ہونے کیلئے قرآن کا محض پڑھ لینا کافی نہیں
بلکہ پڑھنے کے بعد اسے پڑھانا بھی ضروری ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہ تمام علوم جو انسانیت کو کسی بھی درجے میں یا کسی بھی شعبہ زندگی میں نفع رسانی کریں علوم کے دائرہ اور تصور علم میں داخل ہیں۔
قرآن کی دعوت غور وفکر سائنسی علوم کا سرچشمہ
قرآن کریم کی تعلیمات پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ قرآن نے جہاں اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی‘ کہیں زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرنے کا حکم ہوا‘ کہیں نباتات کے اگنے پر غور کرنے کی تاکید کی گئی، کسی جگہ نظام شمسی اور خلائی نظام پر غور وفکر کی تلقین کی گئی اور کسی جگہ انسان کو اپنی ذات اور اپنی ذات کی تخلیق میں غور کرنے کا حکم ہوا، اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسلام کا تصور علم سائنسی علوم کو فروغ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے بعد کے پانچ سو سال میں جتنی سائنسی ترقی ہوئی ہے اسلام سے قبل کے پانچ ہزار سال میں بھی اس قدر ترقی نہیں ہوئی تھی۔
علم کے ساتھ ساتھ تربیت اخلاق
اسلام کے تصور علم کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ وہ محض حصول علم اور معلومات کو جمع کرنے پر زور نہیں دیتا، بلکہ وہ حصول علم کے ساتھ ساتھ تربیت اخلاق اور تہذیب وتمدن پر بھی زور دیتا ہے، چنانچہ قرآن حکیم نے ایک سے زائد مرتبہ نبی کریم ﷺ کے فرائض نبوت میں تعلیم کتاب وحکمت کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس کو بھی بیان کیا اور یہ تصور واضح کیا کہ جو علم انسان کے اندر اخلاقی اور تہذیبی ترقی پیدا نہ کر سکے، اس کے نظریات وافکار کو متاثر نہ کرسکے، اس کے عمل وکردار میں صالح انقلاب پیدا نہ کر سکے علم کہلانے کا مستحق نہیں۔ اسی لئے قرآن علم اور عمل کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔
اتا مرون الناس بالبروتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتٰب افلا تعقلون۔
(کیا تم دوسروں کو تو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو‘ جبکہ تم کتاب پڑھتے ہو‘ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے)
کیا آج امت کے علماء، محققین اور دانشور اسلام کے اس تصور علم پر عمل پیرا ہیں کہ ہم تلاوت آیات اللہ کرتے ہیں‘ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، لیکن کہیں اپنی ذات کو تو فراموش نہیں کر دیتے؟
یہ سوال ہم سب کو اپنے آپ سے کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس تصور علم کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی فکر کو ڈھالنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے