اسلام کا فلسفہ حج

گزشتہ مضمون کا خلاصہ :عقیدہ و ایمان باہم لازم و ملزوم ہیں اس لیے جس طرح عقائد میں پختہ ہونا ضروری ہے وہیں عملی زندگی سے تعلق رکھنے والے اسلامی احکام پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروی ہے۔ گزشتہ مضامین میں روزہ کی اہمیت و فضیلت انسانی زندگی پر روزہ کے اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا تھا۔ اس مضمون میںالحج اشہر معلومات کی نسبت سے حج سے متعلق بیان کیا جائے گا۔ 
حج کے لغوی معنی ہیں قصد کرنا اور شرعی اعتبار سے مخصوص ایام میں مخصوص جگہ پر مخصوص عبادت کا ارادہ کرنا ۔یعنی اسلامی سال کے آخری تین ماہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ میں حدود حرم میں مخصوص ارکان کی ادائیگی کا ارادہ کرنا۔دیگر بنیادی ارکان کے مقابلے میں حج وہ عظیم رکن ہیں جس میں ہر طرح کی جسمانی و مالی عبادت گویا کہ بقیہ ارکان بھی کسی نہ کسی طرح سے شامل ہیں۔ حج ہر صاحب حیثیت کے لیے زندگی میں ایک مرتبہ فرض کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا ومن کفر فإن اللہ غنی عن العالمین( آل عمران )
صاحب استطاعت لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو (استطاعت کے باوجود ) نہ مانے تو اللہ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : 
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ فَسَکَتَ حَتَّی قَالَہَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُونِی مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلَی أَنْبِیَائِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْء ٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْء ٍ فَدَعُوہُ
حضرت ابوہریرۃ سے روایت ہے کہ آ پﷺ نے ہمیں خطبہ میں ارشاد فرمایا : اے لوگو!تم پر اللہ نے حج فرض کیا ہے پس حج کرو۔ ایک آدمی نے کہا ،یا رسول اللہ !ہر سال ؟ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے تین بار کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم استطاعت نہ رکھتے۔ پھر فرمایا ۔تم سے پہلے لوگوں کو (بے جا) سوالوں کی کثرت اور انبیاء کے بارے میں اختلاف نے ہلاک کیا۔ جب کسی چیز کا حکم دیا جائے تو استطاعت ہونے کی صورت میں اس کوپورا کرو اور جب منع کیا جائے تو چھوڑ دو۔ 
حج کی فرضیت پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے اور جو لوگ اہل خانہ کے لئے خرچ نکالنے کے بعد حج کے سفر پر آنے ، جانے اور رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض کیا گیا۔ استطاعت کے باوجود جو حج نہیں کرے گا اس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت انداز میں تنبیہہ فرمائی۔ ارشاد گرامی ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہُ إِلَی بَیْتِ اللَّہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ أَنْ یَمُوتَ یَہُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا وَذٰلِکَ أَنَّ اللَّہَ یَقُولُ فِی کِتَابِہِ( وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا (ترمذی )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے پاس بیت اللہ تک پہنچنے کے لیے مال تھا اور اس نے حج نہیں کیا اس پر کچھ نہیں ہے کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی، اس لیے کہ یہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے۔ 
اس لیے اس طرف توجہ انتہائی ضروری ہے اگر اتنا مال ہے تو پھر ضرور حج کرنا چاہیے۔ اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ اگر اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اسی کے راستے میں خرچ کریں گے تو یقینی طور پر اللہ رب العزت اس میں اضافہ فرمائیں گے۔ اور جب انسان اس یقین کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو آزمودہ بات ہے کہ اللہ رب العزت غیب سے انسان کے لیے رزق کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ حج کے ذریعے انسان میں بے شمار دینی و دنیاوی معاملات میں تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہی حج کا مقصد اصلی ہے کہ انسان اس عمل کے ذریعے سے اپنی عملی زندگی میں بہتری لائے۔
جب انسان حج کے لئے سفر کرتا ہے، اعزاء و أقارب، مال ودولت ، راحت و سکون سب کچھ اللہ کی محبت میں چھوڑ کر فقط دو سفید چادروں میں لپٹ جاتا ہے۔ حج انسانی مساوات کی سب سے عمدہ مثال ہے جہاں پر ہرطرح کے رنگ و نسل ، ذات و برادری، علاقائی و لسانی امتیازات یکسر ختم ہوجاتے ہیں اور سب کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے ’’اے اللہ ہم حاضر ہیں ۔‘‘نتیجے میں حج انسان کی زندگی میں انقلابی طور پر تبدیلیاں لاتاہے اور انسان کوروحانی طور پر پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو معافی کے بہترین انعام سے نوازتے ہیں ۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَنْ حَجَّ لِلَّہِ فَلَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہٗ(بخاری ، کتاب الحج) 
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا جس نے حج کیا، جھگڑا اور گناہ نہیں کیا وہ ایسے (گناہوں سے پاک ) لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسی دن اس کو پیدا کیا ہو۔
حج سے گزشتہ گناہ تو معاف ہو ہی جاتے ہیں آئندہ کے لئے بھی حج انسانی زندگی میں بہت ساری تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ حاجی کے لئے ضروری ہے ،جن چیزوں کا مظاہرہ دوران حج کیا انہی چیزوں کو آئندہ زندگی میں شامل رکھے ۔ 
بعض غیرمسلم بیت اللہ کا طواف اور اس کی طرف رخ کرکے عبادت کو اپنی کفریہ عبادات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ، یہاں یہ بات پر سمجھ لینی چاہیے کہ مسلمان کی عبادت کا مقصد اللہ رب العزت کی رضا ہے وہ جس چیز کا حکم دے اس پر عمل کرنا عبادت ہے خواہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز کا حکم ہو یا پھر بیت المقدس کی طرف ۔ گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اللہ کے احکام کی پیروی اصل عبادت ہے۔ اس بات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واضح فرمادیا۔امام بخاریؒ نقل فرماتے ہیں ۔حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو مخاطب کرکے فرمایا :
إنی أعلَمُ أنک حجَرٌ، لا تضُرُّ ولا تنفَعُ، ولولا أنی رأیتُ النبیَّ صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم یُقَبِّلُک ما قبَّلتُک(صحیح البخاری)
میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگرمیں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا
حج کے انسانی زندگی پراثرات
توحید 
حج انسان کو توحید کا سبق دیتا ہے کہ پوری دنیا سے انسان ہر طرح کے امتیازات ختم کرکے احرام کی دو چادروں میں میدان عرفات میں جمع ہوجاتے ہیںجو اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب ایک ہی معبود کے بندے ہیں اور اس ذات کے نزدیک سب برابر ہیں کسی کوکوئی فوقیت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں اللہ کے اسی حکم کی تشریح فرمائی کہ کسی گورے کو کالے پر یا کسی عربی کو عجمی پر کسی طرح کی کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ کے۔ یہ بات پھر اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر اللہ کا پسندیدہ بندہ بننا ہے تو تقوی ٰ اختیار کرنا پڑے گا ، اللہ کو ایک ماننا پڑے گا اور تمام انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا پڑے گا تب بھی جا کر اللہ رب العزت کا قرب حاصل ہوگا۔ 
عبادت
حج عبادت کی ایک خصوصی ورکشاپ ہوتی ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنی آئندہ زندگی کو اللہ رب العزت کی بندگی میں بہتر طریقے سے گزارنے کی عملی مشق کرتا ہے ۔ تقاضا اس بات کا ہے کہ اس مشق کو اپنی زندگی میں پوری طرح سے شامل کرلیا جائے تاکہ انسان اللہ کے ان دوستوں میں شامل ہو جائے جن کو کوئی خوف اور پریشانی نہیں ہے۔ ایک بات یہ بھی یاد رہے کہ عبادت کے کسی بھی درجہ پر جاکر انسان یہ نہ سوچے کہ میں نے بہت بڑا مقام حاصل کرلیا ہے کیونکہ اسی غلط فہمی نے ابلیس کو مردود کروا دیا۔ اللہ کے دوستوں کا یہ حال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے وقت رورہے تھے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا موت کے بعد کے مراحل سے ڈرتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہ انسان ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا وہ عمر ہوتا۔ اس لیے بھرپور عبادت کرنے کے بعد بھی اللہ کے فضل سے نجات کا متمنی رہنا ضروری ہے۔ 
بھائی چارہ:
حج انسانی بھائی چارے کا ایک بے نظیر مظاہرہ ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مہاجرین و انصار کے درمیان اخوت قائم کی ۔ حج سے انسان کو سبق ملتا ہے کہ میدان عرفات و منی و مزدلفہ کی طرح اپنی روزمرہ زندگی میں بھی ایسے ہی اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کیا جائے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوا جائے۔ جب تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہوجائیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت کسی بھی مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچا سکتی اسی کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اگر آج سب لوگ اس رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو پوری دنیا میں اسلام کے غلبے کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی لیکن شرط وہی ہے کہ اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیا جائے۔ 
صبر و تحمل :
انسانی معاشر ہ مختلف طبیعتوں کے اجتماع سے وجود میں آتا ہے جس میں ہر بات کو الگ انداز سے دیکھا جاتا ہے اور اس پر مختلف ردعمل سامنے آتا ہے۔ حج سب سے زیادہ مختلف طبیعت کے لوگوں کا اجتماع ہے جہاں انسان ایک دوسرے کے رویے کو تحمل کے ساتھ برداشت کرتا ہے ۔ اسی طرح عام زندگی کے مقابلے میں بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی اللہ کا صابر و شاکر بندہ بننے کی عمدہ مشق ہے۔ انسان متعدد ایام اس ماحول میں رہ کر اس سے استفاد ہ کرتا ہے جس کا اجر و ثواب کے ساتھ ساتھ آئندہ زندگی پراثر ہونا ضروری امر ہے۔ 
ایثار و قربانی:
حج میں بدنی عبادت کے ساتھ ساتھ مالی عبادت بھی شامل ہے جس میں زاد راہ کے اخراجات کے علاوہ قربانی کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ انسان اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ یہ مال اللہ رب العزت نے دیا ہے اور میں نے اسی کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اس سے انسان کے دل میں مال کی محبت نکل کر اللہ کی محبت جگہ بنا لیتی ہے۔ 
قربانی حج ہی کا ایک اہم رکن ہے جو ہر حاجی پر واجب ہوتی ہے ۔علاوہ ازیں ہر صاحب نصاب مسلمان پر بھی قربانی کرنا واجب ہے۔ آئندہ مضمون میں انشاء اللہ قربانی کے متعلق گفتگو ہوگی۔
حج انسان سے اس بات کا بھرپور تقاضا کرتا ہے کہ آئندہ کی زندگی کو درست کیا جائے ، اگر انسان آئندہ زندگی میں وہی جھوٹ وفریب، دھوکہ دہی ، رشوت وسود خوری جیسے قبیح اعمال کرتا رہے تو پھر اس کی حج والی فرضیت تو ادا ہوگئی لیکن اُخروی نجات مشکوک ہوجائے گی۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تمام چیزیں باہمی معاملات سے تعلق رکھتی ہیں جن کی معافی صرف متعلقہ افراد سے ہی ممکن ہے۔ ان تمام چیزوں سے پرہیز ضروری ہے نہ کہ ان چیزوں میں ملوث ہوکر اپنی حج جیسی عظیم عبادت پر لوگوں کو تیر برسانے کا موقع دے۔ دیگر لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ اس کے برے اعمال کی وجہ سے اس کے نیک عمل پر طعن و تشنیع کرنا اس عبادت کی تضحیک ہے جس سے احتراز لازم ہے ۔ 
ہمارے اندر ایک بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کی صرف بری باتیں نظر آتی ہیں اور اپنی صرف اچھی باتیں۔ یہ طرز عمل معاشرتی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ اس طرح ہر انسان دوسرے کی اصلاح میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنی اصلاح نہیں کرپاتا اور معاشرہ بدسے بد تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کی اچھائیوں پر نظر رکھیں، برائیاں اگر ہوں ان کا چرچا کرنے کی بجائے ان سے سبق حاصل کریں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے