گزشتہ مضمون میں حج سے متعلق ذکر کیا گیا تھا کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے ۔ حج کی فرضیت پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے بلکہ اس حکم پر عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ حج ادا کرنا انسان کے اعتقاد کا عملی نمونہ ہے جس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اعتقادات کے ساتھ ساتھ عمل بھی مسلمان کے لیے ضروری قراردیا گیا ہے۔ حج ایک عظیم الشان عبادت ہے جو صاحب حیثیت لوگوں پر زندگی میں ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ حج کے اعمال میں قربانی بھی شامل ہے۔ قربانی کا لغوی معنی ہے قرب حاصل کرنا اور اصطلاحی معنی ہے اللہ کے نام پر خون بہانا ہے اور مقصد اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔تمام حجاج کے لیے قربانی لازم ہونے کے ساتھ ساتھ تمام صاحب حیثیت مسلمانوں کے لیے بھی قربانی کرنا واجب ہے۔دیگر مسلمان قربانی کے ذریعہ حج کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُو اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلٰہُکُمْ إِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗ أَسْلِمُوْا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ (الحج:۳۴)
اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ اللہ نے جو چو پائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام یاد کیا کریں پھر تم سب کا معبود تو ایک اللہ ہی ہے پس اس کے فرمانبردار رہو اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو ۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ جل مجدہ نے قربانی کا حکم اور حکم کی پیروی کرنے والوں کو خوشخبری دی۔ جب اللہ رب العزت نے خوشخبری کا اعلان کردیا تو یقینی بات ہے اللہ رب العزت اپنے اس بندے کو ضرور خوش کریں گے۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے جانور کا خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے(ترمذی)۔
گویا کہ قربانی کی جگہ رقم خرچ کردینا اتنا پسند نہیں جتنا قربانی کے عمل میں اللہ کی خوشی ہے اور پھر یہ ذبح ہوجانے والاجانور بھی تو لوگوں کے کام آتا ہے۔ قربانی کے فلسلفے کے بارے میں فرمایا :
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ کَذَالِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدَاکُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ (الحج:۳۷)
اللہ کو نہ ان کا گوشت اور نہ ان کا خون پہنچتا ہے البتہ تمہاری پرہیز گاری اس کے ہاں پہنچتی ہے اسی طرح انہیں تمہارے تابع کر دیا تاکہ تم اللہ کی بزرگی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور نیکوں کو خوشخبری سنا دو ۔
قربانی کا اصل مقصد گوشت اور خون نہیں اور نہ ہی ان چیزوں کی اللہ کو ضرورت ہے۔ قربانی کا اصل مقصد اللہ رب العزت کی خوشنودی ہے اور جو اس عمل کو پورا کرے گا اس کے لیے یقینی خوشخبری کا حکم فرمادیا۔ معلوم ہوا کہ قربانی کا بنیادی مقصد اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہے اور یہی مقصد تمام عبادات کی اصل ہے۔ مفتی محمد شفیع عثمانیؒ فرماتے ہیں :
عبادات کی خاص صورتیں اصل مقصود نہیں بلکہ کا دل کا اخلاص و اطاعت مقصود ہے۔ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ قربانی جو ایک عظیم عبادت ہے اللہ کے پاس اس کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا نہ وہ مقصودِ قربانی ہے بلکہ مقصودِ اصلی اس پر اللہ کا نام لینا اور حکم ربی کی بجا آوری دلی اخلاص کے ساتھ ہے۔ یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست و برخاست ، روزہ میں بھوکا پیاسا رہنا اصل مقصود نہیں بلکہ مقصود اصلی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل دلی اخلاص و محبت کے ساتھ ہے۔ اگر یہ عبادت اس اخلاص و محبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے، روح غائب ہے مگر عبادت کی شرعی صورت اور ڈھانچہ بھی اس لیے ضروری ہے کہ حکم ربانی کی تعمیل کے لیے اس کی طرف سے یہ صورتیں متعین فرمادی گئی ہیں۔ واللہ اعلم ۔(معارف القرآن ج6،ص:267)
کچھ لوگ اپنے تئیں یہ سوچ لیتے ہیں کہ قربانی کے پیسوں سے لوگوں کی دیگر ضروریات کو پورا کیا جانا یا اجتماعی رفاہی کاموں میں خرچ کرنا زیادہ اہم ہے۔ یہاں یہ سوچ لینا چاہیے کہ کس وقت اللہ رب العزت کی رضا کس عمل میں ہے؟ اگر ہم اللہ رب العزت کی مرضی پر عمل کریں گے تو اپنے خزانوں سے دیگر ضروریات بھی پوری کریں گے۔ اس لیے احکامِ خداوندی کے مقابلے میں اپنی عقل کو ترجیح دیکر قربانی سے اعراض نامناسب عمل ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ یہ بات واضح فرما دیں کہ آپ کے تمام اعمال اللہ کے لیے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذَالِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (الانعام:۱۶۲،۱۶۳)
کہہ دو بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ۔
اس آیت مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا یقین دلا دیا کہ میرا ہر عمل میری مرضی سے نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اور ہمیں یہ سبق دیا کہ تم بھی اپنے اعمال کو اللہ کے تابع کرلو ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت اللہ کا حکم خون بہانے کا ہے تو بلاحیل و حجت خون بہایا جائے اور دیگر معاملات کے لیے حسب استطاعت صدقات و عطیات اور ہدایا دیے جائیں۔ جب ہم اللہ رب العزت کی خواہش کو ترجیح دیں گے تو ہمارے تمام امور میں برکتیں شامل ہوجائیں گی اور حاجتیں خود بخود پوری ہونا شروع ہوجائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تابعداری کے موقع پر شیطانی کاموں میں ضائع ہونے والے اخراجات بھول جاتے ہیں ، شادی بیاہ و دیگر خرافات پر کروڑوں روپے خرچ کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا اور قربانی کرنے میں رفاہی کام یاد آجاتے ہیں۔ ایسی ملمع ساز سوچ یقیناً شیطان کی طرف سے القا کی جاتی ہیں۔
قربانی کا یہ سلسلہ انسانیت کی ابتدا سے مختلف طریقوں سے جاری ہے۔ جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے لخت جگر کواللہ کے ایک اشارے پر ذبح کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے عرش سے ایک دنبہ بھیج دیا اور اس عمل کو قیامت تک لیے جاری فرماتے ہوئے قربانی کو شعائر اسلام قرار دیا اور اہل ثروت افراد پر لازم قرار دے دیا۔
پہلی امتوں میں قربانی کی قبولیت کا معیار یہ تھا کہ لوگ جانور ذبح کرکے میدان میں ڈال دیتے تھے اور مقبول قربانی کو آسمان سے آنے والی آگ کھا جاتی تھی، جن لوگوں کی قربانی قبول نہیں ہوتی تھی ان کو سب کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن امت محمدیہ میں یہ طریقہ تبدیل ہوگیا اور اللہ نے اپنے بندوں کے عیوب پر پردہ ڈال دیا تاکہ یہ بات راز میں رہے کہ کس کی قربانی قبول ہوئی اور کس کی نہیں اور دوسرا یہ کہ اس ذبیحہ سے حاصل ہونے والے گوشت کو استعمال میں لانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ اب یہ گوشت خود بھی کھاؤ اور غرباء و مساکین کو بھی کھلاؤ تاکہ عید کے اس پرمسرت دن میں وہ بھی اللہ کی اس نعمت سے مستفید ہوسکیں۔
قربانی کے بہت سے اخروی فوائد ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کے تمام گناہ ذبح کے وقت خون کے پہلے قطرے کے ساتھ معاف کردیے جاتے ہیں اور قربانی کا جانور قیام کے دن سواری کے کام آئے گا اور یہی جانور ستر گنا بھاری کر کے اعمال کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔ قربانی کے جانور کے جتنے بال ہوں گے اتنی نیکیاں زیادہ کردی جائیں گی۔ غرضیکہ بہت بے شمار اخروی فوائد کے علاوہ دنیاوی اعتبار سے بھی بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔
قربانی سے انسان کی زندگی میں مادیت پرستی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے کہ جب انسان ایک جانور اچھی خاصی رقم خرچ کرکے خریدتا ہے اور پھر اسے محض اس لیے ذبح کردیتا ہے تاکہ اللہ راضی ہو جائے ، اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں نہ صرف جانوربلکہ اپنی تمام خواہشات کو بھی اللہ کی منشا کے مطابق ذبح کردینا چاہیے۔ جب ہم اللہ رب العزت کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دیں گے تو اللہ رب العزت انسان کی خواہشات کو بھی پورا فرمائیں گے۔
اسلام میں مال و دولت اکٹھا کرنا نامناسب عمل سمجھا جاتا ہے اس لیے صدقات، عطیات ، زکوۃ اور قربانی کے ذریعے دولت دوسرے ہاتھوں میں منتقل ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امراء کے مال سے غرباء فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اسی طرح قربانی کے عمل سے ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی وجود میں آتی ہے جس سے تاجر ، ٹرانسپورٹرز ، قصاب غرض ہر طبقے کے لوگ مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔
قربانی کے موقع پر کچھ لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک شیطانی وسوسہ ہے ورنہ کبھی نہیں ہوا کہ جن جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے وہ دنیا میں ناپید ہونا تو دور کی بات ہے کم بھی نہیں ہوتے۔ اسلام کا ضابطہ یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے وہ ہمیشہ سے زیادہ ہوتی رہی ہے نتیجہ یہ قربان کیے جانے والے جانوروں کی تعداد دیگر جانوروں کے مقابلے میں ہمیشہ سے زیادہ رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں حرام جانور وں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اگرچہ حرام جانوروں کا نظام تناسل بھی تیز ہے کہ ایک وقت میں ۶ سے ۸ تک بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ جبکہ حلال جانور ایک وقت میں ایک پیدا ہوتا ہے اور گروہوں کے گروہ نظر آتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قربانی کے موقع پر اللہ کی رضا کے لیے خون بہانا سب سے افضل عمل ہے۔ قربانی کرنا اللہ کاحکم ہے اس کا انکار فسق ہے اور اس میں بے جا تاویلیں کرنا ایمان کے لیے خطرہ کا باعث بنتا ہے۔ قربانی پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی احکام میں عقل کو شرع کے تابع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی ہر قربانی کو قبول فرمائے۔ امین بجاہ النبی الکریم ۔
اسلام کا فلسفہ قربانی
Please follow and like us: