گزشتہ کئی ماہ سے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے پورے ملک میںایک تحریک ہے،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے لے چائے خانوں تک یہ موضوع زیر بحث ہے اوررائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک حصے کا موقف ہے کہ بس بہت ہوگیا 30 سال ہوگئے ہیں۔ افغان مہاجرین کو اب اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے۔ دوسرے کا موقف ہے کہ اول افغانستان کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ مہاجرین کو کھلی آنکھوں دھکتی آگ میں جھونک دیاجائے، کسی جذباتی حماقت کی اس معاملے میں کوئی گنجائش نہیں…
افغانوں سے رشتے کے پس منظر میں سب سے بڑا اور پہلا رشتہ کلمہ طیبہ کا بنتا ہے اور یہی وہ رشتہ ہے جوباہمی تعلق کو مضبوط کرتا ہے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیںکہ دیگر ممالک کے مسلمان بھائیوں کو بھی اسی طرح خوش آمدیدکہا جائے جیسے افغان شہریوں کو بغیر کسی دستاویزات کے سرحدعبور کرنے کی اجازت دی گئی،افغان شہریوں کے لئے یہ خصوصی سلوک جہاں کلمے کی بنیا دپر ہے وہیں ان کے ملک میں شورش اوراس کے نتیجے میں لاکھوں شہریوں کو پاکستان میں بطورمہاجرین پناہ دینے کی بنیادی وجہ بھی ہے۔3عشرے گزرنے کے بعد اب یہ روحانی اور انسانی رشتہ خونی رشتوں میں پیوست ہوچکا ہے۔ افغانوں کی پوری ایک نسل یہاں پیدا ہوکر جوان ہوچکی ہے جبکہ ہزاروں پاکستان کی مٹی میں آسود خاک ہیں۔اسی بناء پر شائد اب ان کو پاکستانی شہریت کے مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں ۔دوسرے حصے کا موقف ہے کہ جب سے یہ افغان پاکستان آئے ہیں، اپنے ساتھ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر بطورجہیز لے آئے ہیں ایک بڑی تعداد میں یہ جرائم میں بھی ملوث ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اکثریت نے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر رکھے ہیں اورجب یہ لوگ ملک سے باہر پکڑے جاتے ہیں تو ان کے پاس سے پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی شناختی کارڈ ہی برآمد ہوتے ہیں اور نتیجتاً ان کے جرائم پاکستان کے سر آجاتے ہیں۔
قطع نظر اس بحث کے اگر ہم ایران کے اندر افغان مہاجرین پر نظر ڈالیں تو صورتحال کچھ اور بھی واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔اس ملک نے بھی لاکھوں کی تعداد میں اپنے ہم مسلک افغان شہریوں کو پناہ دے رکھی ہے اور کسی کو واپس بھیجنے پر مجبور کیا جارہاہے نہ ایسی کوئی شکایت، واویلایا غل غپاڑہ سامنے آیا جیسا پاکستان میں مقیم افغانوں کے حوالے سے ہورہا ہے۔ اس کامطلب واضح ہے کہ ایران نے کوئی بندوبست تو کرہی رکھا ہے اور وہ بندوبست اصلاً اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کہ مہاجرین کو باقاعدہ کیمپوں میں رکھا ہوا ہے ان کو ایک ضابطہ کار کے تحت تمام بنیادی سہولیات بھی فراہم کر رکھی ہیں مگر ان کو اپنے کیمپوں سے نکل کر آزادانہ پورے ایران میں گھومنے پھرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں دی گئی ہے۔شائداس لئے وہاں ایسے مسائل نہیں جیسے کہ ہمیں درپیش ہیں۔ہمارے ہاں اس سلسلے میں ہرسطح پرحد سے زائد غفلت برتی گئی۔اسی سلسلے کی ایک مثال بھی ملاحظہ فرمائیے مغربی ممالک میں بھی خصوصاً مسلم ممالک کے پناہ گزین بڑی تعداد میں آرہے ہیں اور ان کو پناہ دی بھی جارہی ہے۔ کسی ملک کی طرف سے زیادہ کسی ملک کی طرف سے کم، لیکن یہ بات ان سب ممالک میں بھی مشترک ہے کہ پناہ دینے والے ممالک ،مسلمان ہوں یا غیر مسلم اور پناہ لینے والے مسلمان ہوں یاغیر مسلم، ان سب پناہ گزینوں کو مخصوص مقامات کے باقاعدہ قانون اور ضابطہ کار کی حدود میں رکھا جاتا ہے،ہر فرد کی مکمل نگرانی اور تمام کوائف کا باقاعدہ ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے، چاہے وہ ایک فرد ہو یا پورا خاندان… اس لیے ان ممالک سے بھی ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہورہی جیسی پاکستان میں افغان مہاجروں کے حوالے سے ہے ۔اس تقابلی جائزے سے اب جو بنیادی خرابی اس سارے منظر نامے میں سامنے آئی ہے وہ گزشتہ تین عشروں میں آنے والی حکومتیں ہیں جنہوں نے اس طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی اور نتیجتاًایک کمزور نظام حکومت ، کرپٹ بیورکریسی ،راشی افسران اور اقرباء پروری نے ملک کو انتشار اور بدنامی کی دلدل میں دھکیل دیا۔اگرشروع دن سے مہاجرین کو ایک مکمل ضابطہ کار کے تحت ان کے کیمپوں تک محدود رکھا جاتا اور تمام بنیادی ضروریات ان تک پہنچائی جاتیں تو شائد آج 30سال بعد ہم اپنے ان مہمانوں کو رسوا کرتے اور نہ خود رسوا ہوتے۔خود وزیرداخلہ اس بات کا بارہا اعتراف کر چکے ہیں کہ سابقہ حکومتوں کی غفلت اور راشی سسٹم کے ذمہ داروں نے 10سے 50ہزار روپے میں ملکی شناخت کو بیچا،پناہ گزینوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹس بناکردئیے مگر کسی موقع پر کسی نے بھی ان ذمہ داروں سے باز پرس نہیں کی جبکہ وزیردفاع تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ 10لاکھ سے زائد سرکاری عہدوں پر افغان مہاجرین براجمان ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ ایک رات میں تو نہیں ہواہوگا اور لازمی طورپر گزشتہ 30سالوں میں گاہے بگاہے یہ لوگ سسٹم میں داخل ہوئے ہوں گے ۔کیا اس غفلت کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔کیا کسی میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ کسی افغان کے جرم میں خود کو بھی شریک جرم ٹھہرا ازخود اپنے لئے سزا طلب کرے۔۔۔
اب جہاں تک افغانوں کی میزبانی کا سوال ہے بحیثیت مسلمان ملک اور مسلم آبادی ہمارا فرض ہے،کیوںکہ ہمارے سامنے ہماری اسلامی تاریخ میں مہاجرین کی مہمان نوازی کی کئی روشن مثالیں موجود ہیں۔مگر ہم نے افغانوں کو پناہ دینے میں جہاں دنیاوی قوانین کو بالائے طاق رکھا وہاں آفاقی قوانین سے بھی روگردانی کی۔ملکی سلامتی اور اپنی غریب پروری کی پردہ داری میں بھی ہم سے کوتاہی ہوئی ۔ہم نے دوسری دنیا کے لئے اپنی راہوں میں کانٹے بوئے۔دوسروں کے مفادات پر نہ صرف اپنے مفادات کو پس پشت ڈالا بلکہ ان پناہ گزینوں کی پروقار واپسی کے لئے بھی کوئی قابل فخر راستہ نہیں نکالا۔
پوری دنیا اور افغانوں کو شکر گزار ہونا چاہیے اس ملک پاکستان کا جو خود قیام سے لے کر آج تک مختلف النوع سازشوں کا شکار ہے۔ جہاں بھوک وافلاس کسی دور میں ختم ہوئی نہ آنے والے دنوں میں دور دور تک آسودگی کی کوئی کرن نظر آتی ہے، اس ملک نے ان تمام تر نامساعد حالات میں دنیا کے ستائے ان مظلوموں کو پناہ دی۔ اگر آج ان میں سے چند لوگ پاکستان کے مفادات کے خلاف دشمن کی گود میں کھیل رہے ہیں تو یہ پوری افغان قوم کے لئے باعث ندامت وشرمندگی اور احسان فراموشی کا بدترین دھبہ ہے اور اگر کوئی کسی افغان کے جرم پر پاکستان کا محاسبہ کرتا ہے تو اس کو پہلے اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں بلا تفریق مذہب ومسلک مہاجرین آتے تو کیا وہ ان کو قبول کرتا؟؟یہ جگر اسی ملک کا ہے جو انہیں 30سال سے پال رہا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان مہاجرین کے معاملے پر سنجیدہ غوروفکر کے بعد فیصلہ کیا جائے کہ انہیں واپس بھیجنا ہے یا ان کے قیام میں توسیع کرنی ہے۔دونوں صورتوں میں احتیاط لازم ہے واپسی کی صور ت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی واپسی باوقار ہو اور یہ پاکستان سے محبت ساتھ لے کر جائیں۔مزید قیام میں اگر توسیع دی جائے تو یقینی بنایا جائے کہ ان کا قیام قواعد وضوابط کے دائرے میں ہو اور ان کے قیام سے ملک کے امن وامان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
افغان مہاجرین کی واپسی… مگرغورطلب پہلو
Please follow and like us: