وزیر اعظم پاکستان جناب سید یوسف رضا گیلانی نے اٹھارہویں ترمیم پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے بہت تاریخی بات کہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ہم اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کے بجائے اداروں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ادارے مضبوط ہوں گے تو شاید کرسی بچ جائے۔ کرسی کی نوعیت اور تاریخ پر کتب میں بہت دلچسپ اور عبرت انگیز معلومات پائی جاتی ہیں، ان معلومات میں چند ایک اہم باتیں اپنے قارئین کی دلچسپی اور جناب وزیر اعظم کی اس اہم بات کے حوالے سے پیش خدمت ہیں۔
کرسی عربی زبان کا لفظ ہے اور عبرانی میں کِسّہ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ صرف دو دفعہ آیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں آیت نمبر۲۵۵ میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر آیا ہے۔ ایک دوسرے مقام سورۂ ص کی آیت نمبر۳۳ میں سلیمان علیہ السلا کی کرسی کا ذکر آیا ہے۔
سورۂ بقرہ میں جس کرسی کا ذکر آیا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کرسی ہے، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اس کی (اللہ کی) کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کی گنجائش ہے‘‘۔
جس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر آیا ہے اس کے مقام اور اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آیت الکرسی کو قرآن کریم کی عظیم ترین آیت قرار دیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بڑے فضائل وبرکات بیان ہوئے ہیں۔ نبی ﷺ نے قرآن کریم کی ساری آیات سے اس آیت کو افضل ترین قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی کرسی اتنی بڑی ہے کہ اس کے اندر ساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں۔ اللہ جل شانہ نشست وبرخاست اور حیّز ومکان سے بالاتر ہیں، لہٰذا اس قسم کی ہیئت کو انسان اپنے معاملات پر قیاس نہیں کر سکتا اور نہ کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی کرسی کی کیفیت وحقیقت کا ادراک انسانی عقل سے ماورا وبالاتر ہے، البتہ مستند روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان ہے جو تمام آسمانوں اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال (اللہ) کی کرسی کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ عرشِ الٰہی کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ۔
غرض یہ ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی اور مضبوط ترین کرسی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہے، جس کو نہ کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور نہ کبھی زوال آسکتا ہے۔ ہمارے لئے ان تعلیمات میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ روئے زمین پر جتنی بھی اقتدار اور سلطنت کی کرسیاں ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت ومنشا کی منت پذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں اپنے کلام پاک میں فرمایا ہے اور وہ جسے چاہے عزت دیدے اور جسے چاہے ذلیل کر دے۔ اللہ کے ہاتھ میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے‘‘۔
اب اگر کوئی اس دنیا میں اپنی کرسی مضبوط کرنا چاہتا ہے یا اداروں کو تقویت پہنچانے کا آرزومند ہے تو اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اپنی کرسئی اقتدار کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر استعمال کرے، جو لوگ اقتدار اور حکومت وسلطنت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھتے ہیں ان کی ہر وقت کوشش ہوتی ہے کہ اس عارضی مدت اقتدار میں انفرادی اور اجتماعی امور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں طے کریں۔ اسلام میں رموزِ خسروانہ کی پہچان کے لئے بنیادی عناصر امانت، صداقت اور سماجی عدل وانصاف ہے، جس حکومت میں عوام کو عدل وانصاف ملتا ہو وہ حکمران اور ان کی کرسیاں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ عوام محبت واشتیاق کے ساتھ ان کی کرسیوں کو کندھا دیئے ہوئے ہوتے ہیں، ایسے حکمرانوں پر جو عدل وانصاف کے ساتھ حکمرانی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا سایہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سائے کا کوئی ثانی نہیں۔ حدیث شریف کے مطابق قیامت کے دن حشر کے میدان کی گرمی سورج کے سوا نیزے پر آنے کی وجہ سے بہت زیادہ ہوگی۔ اس دن اس حدِ نگاہ تک پھیلے ہوئے میدان میں اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، اللہ کے سائے کے نیچے سات قسم کے لوگ ہوں گے جن میں ایک قسم ان مسلمان حکمرانوں کی ہوگی، جنہوں نے کرسیٔ اقتدار پر بیٹھ کر عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی ہوگی‘‘۔
کسریٰ کے حکمرانوں میں نوشیرواں عادل کا ذکر دنیا کی تواریخ میں آج تک کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نبی ﷺ نے بھی آپ کا ذکر اچھے الفاظ میں فرمایا ہے۔ آج بھی عدل وانصاف کے ذکر کے ساتھ اہل بصیرت کے قلوب واذہان میں نوشیرواں عادل اور بغداد (باغِ داد) کا خیال آتا ہے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ باغ داد کے معنی ہیں انصاف والا باغ۔ کہتے ہیں کہ اسی باغ میں بیٹھ کر نوشیرواں عادل لوگوں کو انصاف دلانے کے لئے عدالت لگایا کرتے تھے۔
اسلامی تاریخ میں آج بھی ان حکمرانوں کا ذکر عزت واحترام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو بالخصوص اور دنیا کو بالعموم حکمرانی کے اصول اور عدل وانصاف جناب خاتم النبیین ﷺ کی تعلیمات سے ملا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سطح زمین پر بہترین نظام حکومت جناب رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں تھا۔ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں عدل وانصاف کی فراوانی کی وجہ سے زلزلے رک گئے تھے۔ نبی ﷺ اور خلفائے راشدین کی اطاعت میں مسلمانوں کے ہاں عمر بن عبد العزیزؒ، صلاح الدین ایوبیؒ، ہارون الرشیدؒ، محمود غزنویؒ، شہاب الدین غوریؒ اور دیگر بہت سارے حکمران پیدا ہوئے جن کے نام عدل وانصاف ودیگر اسلامی شعائر کی پابندی واحترام کی وجہ سے آج بھی زندہ وتابندہ ہیں۔
اسلامی تاریخ میں جب حکمرانوں نے عدل وانصاف کی ترویج میں کوتاہی شروع کی تو ان کا زوال شروع ہوا اور بات یہاں تک پہنچی کہ وہ اقوام جو غیر مسلم تھے لیکن اپنی حکومتوں کو عدل وانصاف پر قائم رکھا، دنیا پر غالب آئیں۔ اگر آج بھی مسلمان قرآن وحدیث کے مطابق اپنے امور چلانا شروع کر دیں تو کم از کم ہم غیر اقوام کے غلام نہیں ہوں گے۔
اللہ کی ذات بہت غیور ہے، وہ کبھی اپنے سچے پیروکاروں کو ذلیل نہیں کرتا، بلکہ اپنے پیروکاروں سے صاف الفاظ میں خطاب فرماتا ہے کہ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیا، ان کو ہم زمین کی خلافت عطا کریں گے‘‘ ایمان اور نیک عمل میں بہت سارے اعمال اور معاملات شامل ہیں، لیکن ان سارے امور اور اعمال کا دارومدار انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی کے سارے شعبوں میں عدل وانصاف کی کارفرمائی اور فراوانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچے ایمان اور بے لوث عمل صالح کے بغیر کوئی صحیح معنوں میں عدل وانصاف کر ہی نہیں سکتا۔
اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے جب عدل وانصاف کا نظام لپیٹا تو خوشامدیوں اور چاپلوسوں کی ایک ایسی فوج ظفر موج سامنے آئی، جنہوں نے وقت کے حکمران پر عادلانہ تنقید کرنے والوں کو ان کے دشمنوں اور مخالفین میں شمار کروایا۔ حکمرانوں اور بادشاہان وقت کو ایسے درباری علماء بھی میسر آئے، جنہوں نے ان حکمرانوں کو بھی اللہ کا سایہ قرار دیا جن کی سلطنت میں خلق خدا کو انصاف کا شائبہ تک نہیں ملتا تھا۔ حکمرانوں کو یہ حدیث حرزِ جان بنانا چاہئے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اقتدار اللہ کا سایہ ہوتا ہے، جو اس کی (اقتدار کی) اہانت اور تذلیل کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس حکمران کو ذلیل کرتا ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنت اور اقتدار اللہ کا سایہ ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ کا سایہ بنی نوع انسان کے لئے رحمت کا باعث ہوتا ہے نہ کہ زحمت کا، اب عام انسان بھی یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان پر مہربان ہو کر اسے کرسیٔ اقتدار پر پہنچاتا ہے تو کیا وہ زمین پر اس عظیم کرسی کا سایہ نہیں ہوتا جو عرش پر مستوی ہے، لیکن اتنی عظیم امانت کو اگر کوئی ضائع کرنے پر آجائے تو لامحالہ ذلت ورسوائی اس کا مقدر بنتی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، نمرود، شداد، فرعون یا آج کے وہ حکمران جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی امانتِ اقتدار کو اس طرح نہ برتا جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو ان میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ماضی قریب پر نظر ڈالئے کیسے کیسے لوگ! ایسے ویسے ہو گئے۔
لہٰذا اگر کوئی بھی آدمی جس کو کوئی امانت اللہ کی طرف سے سونپی گئی ہے اور وہ اس امانت کا کما حقہٗ خیال نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ وہ امانت اس سے چھین لیتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتا ہے۔
اگر کوئی چاہتا ہے کہ میری کرسی مضبوط رہے، ادارے ترقی کریں، ملک میں امن وامان اور محبت وشفقت کے زمزمے ہوں، تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول جناب خاتم النبیین ﷺ کی تعلیمات کے بغیر ایں خیال است ومحال است وجنوں۔
اقتدار کی کرسی…دائمی یا عارضی
Please follow and like us: