پاکستان چونکہ کلمہ طیبہ لاالٰہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے جہاں اقلیتی برادری کو آئین میں اسلامی حقوق تو میسر ہیں ہی اس کے ساتھ عالمی قوانین کے تحت بھی ان کو دوہرے حقوق میسرہیںان کو اکثریت اوراقلیت کے ووٹ کا بھی حق حاصل ہے
ہم پاکستان میں بطور مسلمان اکثریت میں ہیں لہٰذا ہمارے اوپر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہمارے آئین ہی نہیں اسلامی تعلیمات کا بھی لازمی جزوہے،ہمارے اکابرین اور اسلاف کے حسن سلوک اور رواداری کے نتیجے میں غیرمسلموں کی ایک کثیر تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئی
ہائی لائٹس
میں گزشتہ ایک دہائی سے ایک پرامن اسلامی معاشرے کے لئے کوشاں ہوں الحمدللہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کامیابی بھی عطا کی،مجلس صوت الاسلام جو کہ خالصتاً نوجوانوں کی اصلاحی تنظیم ہے اس کے پلیٹ فارم سے کئی پروگرامز منعقد کئے جن میں عالمی سیرت کانفرنس2011،علماء امن کنونشن2012اور 2015کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلے قابل ذکر ہیں،ان پروگرامز میں مقررین نے اور خود راقم نے بھی امن ورواداری ،بھائی چارگی اور بقائے باہمی کو موضوع بنایا،بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیا اور دنیا کو پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق سے آگاہی دی جبکہ ایک پرامن اور اصلاح پسندمعاشرے کی جدوجہد میں گزشتہ 8سال سے جاری ’’تربیت علماء کورس اور تربیت خطباء کورس‘‘ کے تحت سالانہ 200نوجوان علماء اور خطباء پر مشتمل بیجز فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور الحمدللہ اس وقت ان کورسز سے تربیت یافتہ 2000سے زیادہ نوجوان ملک اور بیرون ملک منبر رسول اورکلیدعہدوں پر فائز ہیں جو اسلام کی تعلیمات اس کی اصل روح کے مطابق آگے منتقل کرنے میں مصروف کار ہیں
اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے بھائی بہنیں بہت سے مواقع پر عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں اور کئی مواقع پر بستیوں کی بستیاں جلادی جاتی ہیں اور سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس قبیح عمل کو اسلامی خدمت کا نام دے کر ہمارے مذہب کو بدنام بھی کیا جاتا ہے، یہ صورت حال ہمارے لیے باعث تشویش ہے اور اس کے تدارک کے لیے ہمیں سرگرم کردار ادا کرنا ضروری ہے
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا ، وہ ایک مقدس امانت ہے أچونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے ، جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی جس میں جمہوریت ، آزادی ، مساوات ، رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے ، پوری طرح عمل کیا جائے گا ۔جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے ، ترتیب دے سکیں۔جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں ۔جس میں وہ علاقے جو اس وقت پاکستان میں شامل یا ضم ہیں اور ایسے دیگر علاقے جو بعد ازیں پاکستان میں شامل یا ضم ہوں ایک وفاق بنائیں گے جس میں وحدتیں ، اپنے اختیارات و اقتدار پر ایسی حدود اور پابندیوں کے ساتھ جو مقرر کر دی جائیں ، خود مختار ہوں گی۔جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات ، قانون کی نظر میں برابری ، معاشرتی اور سیاسی انصاف اور خیال ، اظہار خیال ، عقیدہ ، دین ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی ۔جس میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔جس میں وفاق کے علاقوں کی سالمیت ، اس کی آزادی اور زمین ، سمندر اور فضا پر اس کے حقوق مقتدر کے بشمول اس کے جملہ حقوق کی حفاظت کی جائے گی تا کہ اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کر سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں اور بین الاقوامی امن اور بنی نوع انسان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا پورا حصہ ادا کر سکیں۔لہٰذا ، اب ، ہم جمہور پاکستان؛قادرِ مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ؛ پاکستان کی خاطر عوام کی دی ہوئی قربانیوں کے اعتراف کے ساتھ ؛بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدل عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہوگی اس جمہوریت کے تحفظ کے لیے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کر کے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں۔بذریعہ ہذا ، قومی اسمبلی میں اپنے نمائندوں کے ذریعے یہ دستور منظور کر کے اسے قانون کا درجہ دیتے ہیں اور سے اپنا دستور تسلیم کرتے ہیں۔
یہ تمہیدہے وطن عزیز ارض پاک کے اس متفقہ آئین کی جس میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔اس آئین میں اکثریت اور اقلیت کے حقوق کا مکمل احاطہ اور حدود وقیود قائم کردی گئیںہیں،اب اس سے روگردانی نہ صرف قابل سزاجرم ٹھہرتی ہے بلکہ بغاوت کے زمرے میں بھی آتی ہے۔چونکہ میرا موضوع آج پاکستان کی اقلیت ہیں اس لئے ادھر ادھر بھٹکنے سے بہتر ہے کہ میں اپنے اصل موضوع پر آؤں۔میں بذات خود یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیت کو جتنے حقوق حاصل ہیں شاہد ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں اس طرح کے حقوق اور ان کی حفاظت اقلیت کو نصیب ہو،اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پاکستان چونکہ کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ کے نام پر وجود میں آنے والی دوسری بڑی اسلامی ریاست ہے۔جہاں ہماری قلیتی برادری کو آئین میں اسلامی حقوق تو میسر ہیں ہی اس کے ساتھ عالمی برادری میں ایک منفرد مقام اور ممبر ملک ہونے کے ناطے پاکستان اقلیتوں کے عالمی قوانین کا بھی پابند ہے۔یعنی ہماری اقلیتوں کو دوہرے حقوق میسر ہیں۔اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ارض پاک میں بسنے والی اکثریت کو تو حق رائے دہی کا صرف ایک حق حاصل ہے جبکہ اقلیتی برادری کو دوہرے ووٹ کا بھی حق ہے۔مزیدبرآں وطن عزیز میں جہاں جہاں یہ برادری آبادورہائش پذیر ہے وہاں گزشتہ ایک دہائی سے نہ صرف سیکورٹی کے فل پروف انتظامات ہیں بلکہ ان کی بنیادی ضروریات کابھی ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے۔آپ حیران ہوں گے کہ1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام رفاہی تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لئے تھے۔ اس سے پہلے مسلمان رفاہی ادارے بھی ملک بھر میں تعلیمی ادارے چلاتے تھے اور عیسائی مشنری بھی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد استثناء ہے کہ کسی مسلمان رفاہی ادارے کو اس کے تعلیمی ادارے واپس نہیں کئے گئے لیکن تمام عیسائی مشنری تنظیموں کو ان کے تعلیمی ادارے واپس کر دئیے گئے اور آج یہ ادارے اس ملک میں اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی اور مخصوص نصابِ تعلیم کے تحت چل رہے ہیں۔ ہر سال قومی تہوار پراقلیتی ادیبوں، اداکاروں اور فنکاروں کی حوصلہ افزائی کے لئے ایوارڈز دیئے جاتے ہیں جن میں نقدی بھی شامل ہوتی ہے۔ اقلیتی مریضوں کو علاج کے لئے اِمداد اور وظیفہ ملتا ہے۔ اقلیتی تہواروں پر سرکاری ملازمین کو رخصت ملتی ہے۔کرسمس پر مسلمانوں کے برابر دو چھٹیاں ہوتی ہیں اور وزیراعظم کی طرف سے نقد رقم کا تحفہ دیا جاتا ہے ،تہواروں کو ریڈیو اور ٹی وی پرنمائندگی ملتی ہے، گورنر ہاؤس میں اقلیتی کانفرنسیں منعقد ہوتی اور بھرپورطریقے سے تہوار منایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بیواؤں اور مستحق بچوں کو خصوصی امداد فراہم کی جاتی ہے۔غرض کہ یوں سمجھ لیجئے پاکستان میں اقلیتیں واقعی مقدس امانت ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی اقلیتوں کو وہ حقوق ومراعات اور آزادیاں میسر نہیں ہیں جو انہیں پاکستان میں دی گئی ہیں۔
کبھی کبھی تو ہمیں اکثریت میں ہونے کے باوجود اقلیت کو ملنے والے حقوق پر رشک آتا ہے۔مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ معاشرہ میں اقلیتوں کو حقوق کے تحفظ اور جان ومال کے لیے کئی قسم کے خطرات کا سامنا ہے اور اسی طرح کی صورتحال کئی دیگر ممالک میں مسلمانوں کو بھی درپیش ہے۔دور جانے کیضرورت نہیں، پڑوسی ملک میں جاری ظلم وستم کی ہر روز کی درجنوں داستانیں کسی سے مخفی نہیں۔ چندایک واقعات ملاحظہ فرمائیے۔1969ء میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں 660افراد لقمہ اجل بنے اور 1000سے زاہدزخمی جبکہ 48000کو لوٹاگیا۔نیلی قتل عام بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جب 1983میں آسام میں صرف 6گھنٹوں کے اندر ایک ہزار سے افراد کونہ صرف زندہ جلایا گیا بلکہ کئی کودریاؤں کی بے رحم موجوں کی نذر کردیا گیا۔اسی طرح ہاشم پورہ قتل عام میں مئی 1987 کو میرٹھ شہر میں اتر پردیش کی پولیس نے 42 مسلمان نوجوان اٹھائے اور گولیاں مار کر ایک ند ی میں بہادیا۔1992کے ممبئی فسادات جو تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر شروع ہوئے ان میں 900سے زاہد افراد لقمہ اجل بنے۔اس کے علاہ گودھرا ریل سانحہ، وادودار،پھر 2014کے آسام مسلم کش فسادات اور دیگر سیکڑوں چھوٹے چھوٹے واقعات ایسے ہیں جن کی ایک لمبی فہرست ہے،حالیہ واقعات گزشتہ ادوار میں رونماہونے والے واقعات پر بھی بھاری ہیں کہ اب مسلمانوں کو ان کے مذہبی عقائد سے روکنا اور زبردستی ہندوبنانے کی ایک خوفنال لہرجاری ہے۔افسوسناک امریہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار اس ملک میں مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیت بھی محفوظ نہیں رہی،عیسائیوں کے چرچز اور تعلیمی اداروں ،سکھوں کی مقدس عبادت گاہوں پر حملے،(دلت) نچلی ذات کے ہندوؤں کا قتل عام ایسے واقعات ہیں جو اس کے ماتھے پر ایک کلنک ہیں۔
اس کے مقابلے میں اگر آپ پاکستان میں ہندوؤں کے حقوق اوران کی عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں کے تحفظ پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے بلکہ کئی مثالیں موجود ہیں ،مسلمان سیکورٹی اہلکاروں نے ان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے حالیہ سالوں میں بعض علاقوں خصوصاًاندرون سندھ مندروں پر حملے کے چندواقعات پر تو پورے ملک میں ہندو اقلیت سے اظہار یکجہتی کے جلوس نکالے گئے اور حملہ آوروں کی بھرپور مذمت کی گئی۔خودراقم بھی ہندو اقلیت سے اظہاریکجہتی کے کئی جلوسوں میں شریک ہوااور واقعات کی مذمت کی گئی۔اسی طرح برما میں روہنگیا مسلم کے ساتھ جو کچھ ہورہاہے کیا ایسے واقعات قوموں کے درمیان بقائے باہمی کوبرقرار رکھ سکتے ہیں۔وہ روہنگیاجو گزشتہ پون دو صدی سے برمی حکومت کی رعایا تھی آج وہ دنیا کی مظلوم ترین اقلیت بن چکے جن کو مرضی سے کھانے کی اجازت ہے نہ مرضی سے بچے جننے کی آزادی،نہ جینے کا حق ہے نہ مرنے کا۔مارنا مرنا دنیاکے قیام سے چلا آرہاہے مگر اس بیدردی اور سفاکیت سے کسی کو مارنا کہ اس کی نعش کو جلاکر رکھ دیاجائے ،سروں سے فٹ بال کھیلے جائیں ،کیا دنیا کا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت دیتا ہے ،کبھی نہیں ۔اسلام نے آج سے 1400سال پہلے یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ ’’اس انسان کو اللہ تعالیٰ نے آزاد پیدا کیا‘‘ یعنی کوئی کسی کو غلام نہیں بناسکتا،کوئی کسی پر پابندی نہیں لگا سکتا۔مگر تنگ نظری اور تنگ دلی کے ایسے ایسے مناظر دنیا کے سامنے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے اور افسوس صدافسوس کے آج اس مظلوم کے لئے کوئی ملک حتیٰ کہ اسلامی ملک بھی آواز اٹھانے کو تیار نہیں۔حضرت علی ؓ کا قول مبارک ہے کہ ’’دنیا میں غریب ترین شخص وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں‘‘ اس قول سے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت اور غربت کی ایک خوفناک شکل پورے عالم اسلام اور انصاف کے دعویداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
قارئین محترم اسلام امن وسلامتی ،محبت واخوت اور رواداری کا دین ہے جس کی تعلیمات یہ ہیں کہ ’’ایک انسان کا ناحق قتل ،پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔اس تعلیم میں کوئی تفریق نہیں یعنی انسانیت سے انسان ہونا کافی ٹھہرا اس میں مسلمان یا غیر مسلمان ہونا ضروری نہیں۔پیار ے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجایعنی پورے عالم کے لئے رحمت۔خطبہ حجتہ الوداع میں واشگاف الفاظ میں فرماگئے ’’تمام لوگ آدم کی اولاد ہیںاور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔اے لوگو! سنو تمہارا ایک رب ہے ،کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضلیت ہے ۔نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہترہے اور نہ گورا کالے سے۔فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے‘‘۔
ہم پاکستان میں بطور مسلمان اکثریت میں ہیں لہٰذا ہمارے اوپر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہمارے آئین ہی نہیں اسلامی تعلیمات کا بھی لازمی جزوہے۔اگر آپ اسلام کی گزشتہ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اکابرین اور اسلاف کے حسن سلوک اور رواداری کے نتیجے میں غیرمسلموں کی ایک کثیر تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوئی۔آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جو گزشتہ ادوار کی نسبت کئی گنا مشکل اور دشوار گزار ہے ۔وہ عمرلاز جو ہماری وارثت تھی وہ ہم سے چھن چکے ہیں۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہمیں دوسروں کو عمرلاز پڑھانے کی بجائے خود مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کو ان کی یاددلانی پڑتی ہے۔میں سمجھتا ہوں اس وقت ہمیں سب سے زیادہ تبلیغ اپنے مسلمان بھائیوں پر کرنے کی ضرورت ہے ۔کیوں؟ کیونکہ اگر ہمارے اخلاق ،اخلاص،اعمال اور وضع قطع درست ہوں گے،امن وسلامتی والا کی ہر طرح کی بغاوت اور تحریف سے حفاظت کی اور راسخ العقیدگی کو تحفظ دیا۔مادہ پرستی اور خودغرضی کے دور میں قناعت اور ایثار و سادگی ، وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کو عملی نمونہ کے طور پر باقی رکھنے میں بھی دینی مدارس کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
جہاں تک معاملہ جدید علوم اور عصرحاضرکے تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب کا ہے تو اس سے بھی کبھی کسی مدرسے نے انکار نہیں کیا۔مدارس کا ملک کی تمام بڑی سرکاری جامعات سے الحاق ہے جہاں سے طلبہ کو بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں دی جاتی ہیں،لاکھوں طلبہ ہرسال میٹرک ،انٹر،بی اے اور ایم اے کے امتحانات میں شریک ہوتے ہیں اور الحمدللہ امیتازی نمبروں سے پاس بھی ہورہے ہیں جبکہ مدارس کی یہ بھی خواہش اور مطالبہ ہے کہ آغاخان بورڈ کی طرح دینی اداروں کے تعلیمی امتحانات کے نظام کو بھی سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے۔اس حوالے سے پانچوں وفاقی بورڈز پر مشتمل اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے وفاق کی سطح پرہونے والے مذاکرات میں حکومت سے بات چیت بھی کی ہے جس میں یہ مطالبہ بھی رکھا گیا ہے کہ نظام امتحانات کو مربوط اور یکساں معیار پر رکھنے کے لئے حکومتی سطح پرنگراں بورڈ قائم کیا جائے، مرکزی حکومت اس کی منظوری بھی دے چکی ہے مگر معلوم نہیں ابھی تک اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوسکا۔جبکہ مدارس کے نمائندہ وفاقوں کے قائدین صدر پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، ڈی جی آئی ایس آئی، وفاقی وزیر داخلہ، وزیر مذہبی امور اور وزیر تعلیم (اور ان کی متعلقہ وزارتوں) سے ملاقات اور مذاکرات کے ایک طویل سلسلے کے بعد باہمی اعتماد اور اتفاق رائے کے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔
ادھر سندھ میں بھی جناب مراد علی شاہ کے پیشرو قائم علی شاہ کے دور میں مشیر مذہبی امور عبدالقیوم سومرو کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام سے ملاقات اور مذاکرات کئے،مدارس کے دورے کئے ،کئی امور پر اہل مدارس اور حکومت کے درمیان اتفاق بھی پایا جاچکاتھا اور اس امر پربھی اتفاق پایا تھا کہ مدارس کے بارے میں کوئی بھی قدم کوآرڈی نیشن کمیٹی کی مشاور ت اور اسے اعتماد میں لئے بغیر نہیں اٹھایاجائے گا۔ ایسے میں سندھ حکومت کی طرف سے اچانک رجسٹریشن کے حوالے سے ترمیمی بل کا پنڈورا باکس کھولنا حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔سندھ حکومت کو اس بات کا ادارک کرنا چاہئے اگر اس کے اس اقدام کوسندھ اسمبلی میں پذیرائی مل بھی گئی اور بل منظور کربھی لیاگیا تو بھی عوامی اور مذہبی حلقوں میں حکومت کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا جائے گااور نتیجتاً محاذ آرائی جیسی صورتحال یقینی ہوجائے گی۔حکومت کو اس صورتحال سے بچنے کے لئے مذکورہ بل پر نظرثانی کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر اپنے خدشات اور تحفظات دور کرنے چاہئیں۔