یقین ہوگیا ہے، پاکستان ہی اسلام کا قلعہ ہے،
آج کے اہم موقع کے اوپر جس میں انبیاء علیہ السلام کے وارثان موجود ہیں میں اپنے عاجز اور فقیر اور گناہ گار بندے کیلئے بہت اعزاز سمجھتا ہوں کہ صوت الاسلام والوں نے ایک ایسے موقع کے اوپر جب پوری دنیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا ہورہا ہے ،بہت سی قسم کی باتیں کی جاتی ہیں ، ہمارے مذہب کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہورہی ہے ، میں مدرسوں کی بات شروع کروں گا میرے حلقہ میں الحمد اللہ دو تحصیل ہیں جمرود تحصیل اور لنڈی کوتل ۔ جہاں تک جتنا میں نے دیکھا ہے ۔اس میں دیوبندیوں کے بھی مدرسے ہیں، بریلوی کے بھی ہیں اور اہل حدیث کا بھی ہے اور اس تناظر سے فاٹا میں اگر امن ہے تو وہ جمرود اور لنڈی کوتل کی تحصیلوں میں ہے، اس سے آپ اندازہ لگائیں الحمد للہ کہ جمرود اور لنڈی کوتل کی تحصیل کے حلقے سے ایک بھی آئی ڈی پی نہیں ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہاں جو لوگ ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرتے ہیں صرف ثواب کی نیت سے کرتے ہیں ،ادھر کوئی فرقہ بندی یا مسلکی جھگڑا نہیں ہے، میں آپ کو یہ بھی بتائوں کہ سب سے زیادہ سکھ کمیونٹی جو ہے وہ بھی ہمارے علاقے میں ہے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ تیراہ اور خیبر ایجنسی میں سکھ ہیں ۔وہاں کام کررہے ہیں، ان کی دکانیں بھی ہیں، ان کا ہمارے غموں میں اور خوشیوں میں اسی طرح آنا جانا ہے جیسا کہ ہمارے باقی مسلکوں کے لوگوں کا ہے۔ مذہب کا ہے ہمارے اسلام کا۔ 21ویں ترمیم کے حوالے سے میں اس لیے بات کروں گا کہ میں ایکشن پالیسی کمیٹی کا ممبر رہا ہوں، اس کمیٹی میں جے یو آئی کی طرف سے اکرم درانی صاحب اور سینیٹر صالح شاہ صاحب تھے اور جماعت اسلامی کی طرف سے صاحبزادہ طارق اللہ صاحب تھے۔ اسی وقت کمیٹی میں ان کے جو تحفظات تھے وہ دور کرائے گئے اور وہ مان گئے کہ مدرسے جو ہیں وفاق المدارس میں رجسٹرڈ ہونے چاہئیں اور جو لوگ مدرسوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں (سب سے پہلے تو ان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ پیسے اللہ کی راہ میں خرچ ہورہے ہیں) وہ ریکارڈ ہونا چاہیے اور مدرسے میں جو طالب ہیں ان کا بھی ریکارڈ ہونا چاہیے کہ کون ہے اور کہاں سے ہے ،تو اس وقت یہ وہاں تسلیم کرائی گئی اور ان شاء اللہ تعالیٰ میں آپ تمام علماء اور بزرگوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں ہوئی کہ مدرسوں کو یا مذہب سے تعلق کی بنیاد پر کسی کو کوئی نقصان پہنچے ایسا کچھ نہیں ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اوپر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم جب قانون بنانے کیلئے بیٹھتے ہیں تو سب سے پہلے ان کا تحفظ کریں ایسا قانون نہ بنائیں جس سے ان کو نقصان پہنچے۔ قبائلی علاقوں سے متعلق میں یہ کہوں گا خاص کر تقریری مقابلے کے حوالے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کہوں گا کہ میں قبائلی ہوں اور وہاں کا نمائندہ بن کر آیا ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے خدمت کیلئے قبول کرے ۔قبائلیوں کی تاریخ تو پوری دنیا کو پتہ ہے اگر آج کوئی کہتا ہے کہ قبائلی انتہا پسند ہیں تو غلط کہتا ہے، قبائلیوں کی تاریخ یہ رہی ہے کہ آج بھی اگر آپ تبلیغ کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں اکثریت قبائلیوں کی ہیں ۔اسی سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قبائلیوں کا مذہب کے ساتھ کتنا لگائو ہے اور یہ قبائلی مغربی سرحد کا بغیر تنخواہ کے محافظ ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔ میں آج کے اس اہم پروگرام میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ آپ اللہ والے ہو اور آپ کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں۔ آپ اس ملک کے لئے دعا کریں، مذہب کی تو آپ نے ویسے بھی اپنے اوپر ذمہ داری لی ہے اور یہ آپ کیلئے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ رتبہ دیا ہے کہ آپ مذہب کیلئے کام کریں میرے خیال میں اس سے بڑا رتبہ اور کوئی نہیں ہے ۔جن حالات میں ہم آج ہیں اور جس حالات سے گزر رہے ہیں تو آپ لوگ دعائیں کریں کہ حکومت نے جو پالیسی بنائی ہے وہ کامیاب اور جو اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ ناکام ہوجائیں اور ہمارا ملک جسے ہم سب چاہتے ہیں کہ اسلام کا قلعہ بنے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس پروگرام میں شرکت کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اس سے پہلے جو کمی تھی وہ دور ہوگی اور پاکستان اسلام کا قلعہ بنے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔