تاریخی لحاظ سے جب امت مسلمہ کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں واضح طور پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کی جدوجہد کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ اگرچہ آج ہمارے ہاں دانشوروں کا ایک گروہ ایسا بھی موجود ہے جو سازشی تھیوری کو رد کرتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کا سارا ملبہ مسلمانوں ہی پر گرانا چاہتے ہیں لیکن جو آدمی بھی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں ہجرت اور وہاں ایک پاک ریاست کے قیام اور آپﷺ کی وفات اور بعد خلفائے راشدہ کے ادوارِ حکومت پر غیر جانبدارانہ اور گہری نظر ڈالے گا تو سازشی تھیوری کا ضرور قائل ہوگا۔
مدینہ منورہ میں یہودیوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کے لائے ہوئے دین کے خلاف ہر ممکن جدوجہد اور سازش کی، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی مرض الموت میں بھی اسی زہر کا اثر تھا جو یہودیوں نے ایک عورت کے ذریعے آپﷺ کو کھلایا تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت اور حضرت علیؓ کے عہد حکومت میں جو شورشیں برپا ہوئیں اس کے پیچھے عبداللہ بن سبا اور یہودیوں کی سازشوں پر سارے مسلمان مؤرخین متفق ہیں۔
جب خلفائے راشدین کے دور مبارک میں صحابہ کرامؓ کے ہاتھوں شام فتح ہوا اور بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو اہل روم (عیسائی) بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑک اٹھے اور یہیںسے صلیبی لڑائیوں کی بنیاد ڈالی گئی جو صلاح الدین ایوبیؒ کے زمانے میں اپنے معراج پر پہنچیں۔ ایوبیؒ فتوحات اور سلطان محمد فاتح قسطنطنیہ کی فتح نے تو دنیا بھر کے عیسائیوں بالخصوص مذہبی طبقہ۷ مسیحیت کو شعلہ جوالہ بناکر رکھ دیا ۔یورپ کے پادریوں نے مذہبی جوش وجذبہ کے تحت پورے یورپ کو اتحادی بناکر مسلمانوں کے خلاف متحرک کرکے بیت المقدس پر قبضہ کرایا۔ اس جنگ کے دوران جب بیت المقدس عیسائیوں کے ہاتھ میں چلاگیا تو فاتح مسیحی افواج نے یہاں جو کچھ کیا وہ ایک مسیحی مؤرخ ریڈورڈ گین کے الفاظ میں آج بھی محفوظ ہے ۔ اس نے لکھا کہ اس جنگ میں مسلمانوں کا اس قدر خون بہایا گیا کہ ان کے گھوڑوں کی ٹانگیں خون میں ڈوب رہی تھیں…
سولہویں صدی میں یورپ میں ایک طرف تماشا ہوا کہ ایک طرف مغرب اپنی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے ذریعے مذہبی جنونیت کے خلاف اٹھ رہا تھا، سائنس اور صنعت کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن ہورہا تھا اور ایک نئی تہذیب تشکیل پارہی تھی جس کے اہم نکات ہیومنزم (Humanism)سیکولرازم،ٹیریلزم، لبرل ازم، کیپٹل ازم وغیرہ تھے۔ اس تحریک کی بنیاد میںعقل وحس اور الحاد اہم کردار ادا کررہے تھے جس کے نتیجے میں چرچ اور پادری کی اہمیت کمزور ہوتی چلی گئی۔ جس کا لازمی اثر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ یورپ میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب اور دشمنی کے جذبات مدہم پڑجاتے…لیکن المیہ یہ ہوا کہ مغرب میں اسلام کو سولہویں صدی سے قبل کی مسیحی پاپائیت پر قیاس کرتے ہوئے انسانی ترقی کے خلاف سمجھا گیا اور چونکہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں نے ایک وراثت (Legacy)چھوڑی تھی۔ بدقسمتی سے وہ مغرب کی نئی الحادی تہذیب میں پہلے سے بڑھ کر شامل ہوگئی ۔ مغربی الحاد، صلیبی روح کو جدید یہودیت نے ہائی جیک کرکے اپنے مقاصد کے لئے ایسی حکمت کے ساتھ استعمال کیا کہ دامن پر کوئی نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ …اس سہہ آتشہ اتحاد نے روبہ زوال مسلمانوں کو آپس میں بھی لڑایا اور اہم کامیابی اس طرح حاصل کی کہ عربوں کو ترکوں کے خلاف لڑاکر مسلمانوں کا وہ ادارہ یعنی خلافت جو اپنی ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود امت مسلمہ کے اتحاد اور تحفظ کا مظہر تھا اور صدیوں سے کسی نہ کسی صورت میں قائم چلا آرہا تھا بہت بری طرح اختتام پذیر ہوا۔
خلافت کے خاتمے نے مسلمانوں کو ایسا کمزور کردیا کہ امت مسلمہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر یورپی ممالک میں ریوڑیوں کی طرح بٹ گئی۔ یہی وہ دور ہے جس میں عظیم عالمی اور تاریخی المیہ رونما ہوا۔ برطانیہ نے سپر پاور کی حیثیت سے دنیا بھر سے اثرورسوخ اور مال ودولت رکھنے والے یہودیوں کو فلسطین میں لاکر بسایا اور اپنی آشیرواو کی چھتری کے نیچے اقوام متحدہ سے باقاعدہ قرار داد کے ذریعے اسرائیل کو دنیا سے تسلیم کرایا۔ پہلی جنگ عظیم سے لیکر 1950ء تک خلافت عثمانی کے انہدام کے بعد مسلمان علاقوں اور ملکوں کو خوب رگیدا خوب لوٹا لیکن بقول اقبال ،حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی، اہل مغرب نے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ذہنی غلام رکھنے کے لئے ان کے سیاسی، قانونی، تعلیمی، عدالتی اور معاشرتی اداروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ اپنی فکر وتہذیب کے حامل ادارے نئے انداز سے تشکیل دیئے۔
لیکن اس کے باوجود اسلام کی متحرک زندہ اور غلامی سے بیزار قوت نے مسلمانوں میں حصول آزادی کے لئے مختلف خطوں میں پرامن اور بعض مقامات پر مسلح مزاحمت کی جس میں علماء اور دینی عناصر نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ دوسری جنگ عظیم میں اہل مغرب آپس میں اس زور سے لڑے کہ وہ اتنے کمزور ہوئے کہ انہیں مسلمان علاقوں اور ملکوں کو بامر مجبوری آزادی دینا پڑی…
اسلامی ملکوں میں آزادی کے بعد مسلمانوں نے کوشش کی کہ آزادی کے شایان شان انتظامات کرکے اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں لیکن یہاں یورپی استعمار امن کا چولا پہن کر اسلامی ملکوں کے اداروں کو سہارا دینے کے لئے آگے بڑھاجس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان ممالک آزادی کے بعد ان کے قابو میں رہیں،اس کے بعد انہوں نے بڑی دور رس پالیسیاں وضع کیں اور انہی پالیسیوں کے تحت انہوں نے مسلمان ملکوں میں اپنی ہر لحاظ سے کوشش کرکے اقتدار بالآخر ان لوگوں کو منتقل کیا جن پر ان کے فکر وتہذیب کے گہرے اثرات تھے۔
سول اور ملٹری بیورو کریسی میں اس طبقے کی سرپرستی اور اعانت کی جن کے ساتھ دور غلامی میں ان کے روابط استوار ہوچکے تھے۔ مسلمان ملکوں میں جمہوریت کے نام پر ایسے سیاسی نظام کو رائج کرنے کی منصوبہ بندی کی جو ان کے مقاصد کی تکمیل میں تو کام آئے لیکن کسی طور بھی اسلامی سیاسی نظام کو آگے بڑھنے کا موقع اگر کہیں اسی مغربی جمہوری نظام کے تحت بھی اسلام کے سیاسی نظام کے امکانات پیدا ہونے کے امکانات پائے جائیں تو جمہوریت پر آمریت کو مسلط کرنے سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
امت مسلمہ ، ماضی، حال اور مستقبل
Please follow and like us: