باراک اوباما کے دورۂ بھارت کے شیڈول ہونے سے لیکر اختتام پذیر ہونے تک دُنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا میں کئے گئے مذاکروں، بحثوں اور تبصروں کو بالعموم اور بھارت و پاکستان کے اخبارات و میڈیا کے تبصروں کو بالخصوص اگر تحریری صورت میں لایا جائے تو اچھی بھلی کتاب کی اشاعت ممکن ہو سکے گی، اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ اِس وقت سائنسی، صنعتی اور اقتصادی و معاشی لحاظ سے امریکہ کو دُنیا میں جو مقام حاصل ہے وہ دُنیا کے کسی اور ملک کو حاصل نہیں۔ دُنیا بھر سے مختلف علوم و فنون کے ماہر لوگ اپنے فن کی قدردانی کروانے اور اِس کے عوض اچھے مول حاصل کرنے کی غرض سے امریکہ ہی کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔امریکہ میں محنت و مشقت کے نتیجے میں زندگی گزارنے کے لئے جو انفرااسٹرکچر قائم ہوا ہے، بعض یارانِ نکتہ داں اُسے زندگی کی بنیادی سہولیات کی بہترین صورت میں فراہمی کی بناء پر جنت ارضی سے تشبیہ دیتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر سے تقریباً ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ کہیں امریکی گرین کارڈ کا حصول ممکن ہو جائے ۔ اِس کارڈ کے حصول کو شاید آج کل بڑی کامیابی بھی تصور کیا جاتا ہے۔
یہ اور بہت ساری دیگر باتوں کی وجہ سے امریکی صدر جب کبھی امریکہ سے باہر کسی قطعہ ارض پر قدم رکھتا ہے تو آج کے عالمی حالات میں اہلِ نظر کی اُس پر گہری نظر اِس لئے پڑتی ہے کہ امریکی صدر کے بیانات اور اقدامات سے پوری دُنیا کی سیاسیات و اقتصادیات بالعموم اور اُس خطہ پر بالخصوص بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اِس کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں لیکن امریکی ڈالر (امریکی اقتصادیات و تجارت) اور ٹیکنالوجی دو ایسے اہم عوامل ہیں جو "ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں" کے مصداق پوری دُنیا کو متاثر کررہی ہے۔
پھر اگر امریکی صدر کا دورہ ایسے خطے کا ہو جہاں دو ایسے روایتی حریف ملک جن کا مصداق دُنیا میں کہیں اور نہیں پایا جاتا، بستے ہوں تو اُن ممالک اور دُنیا بھر کی میڈیا کے کان اُس وقت تک کھڑے رہتے ہیں جب تک اُس دورے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہ جائے اب جبکہ امریکی صدر کا دورۂ بھارت کب کا مکمل ہو چکا اور امریکی صدر کئی اور ممالک میں گھوم کر اپنے ملک پہنچ بھی چکے، لیکن امریکہ، بھارت اور پاکستان میں میڈیا کے ذریعے اِن ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی و اسٹریٹجک ماہرین کے تبصرے اور بحثیں رکنے کا نام نہیں لیتیں۔ بھارت اور پاکستان کے تبصرہ نگاروں کے تجزیے پڑھتے ہوئے ہم جیسا ایک عام آدمی بہت آسانی کے ساتھ یہ محسوس کر سکتا تھا کہ بھارت کے حکمران امریکی صدر کے دورۂ بھارت سے ہر لحاظ سے روایتی بنیابن کر خوب خوب فائدے اُٹھانا چاہتے ہیں۔ اِس سلسلے میں سب سے بڑا فائدہ نفسیاتی تھا۔ بھارت ، پاکستان اور دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہا تھا کہ دیکھو، بھارت کتنا بڑا ملک ہے کہ دُنیا کا سُپر پاور اُس کا چار روزہ دورہ کر رہا ہے اور اِس کے ساتھ ہی امریکہ کا نان نیٹو اتحادی، دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی اور اِس جنگ میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اُٹھانے والا بھارت کے پڑوس میں دو قدم کے فاصلے پر واقع پاکستان امریکی صدر کے قدومِ میمونہ سے محروم رہ گیا ہے۔
بھارت کو اِس دورے سے دوسرا فائدہ اقتصادی ، معاشی اور تیکنیکی لحاظ سے ہوا ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کو سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدہ سے ناقابل یقین فوائد حاصل ہونگے۔ اِس سے نہ صرف بھارت کو اپنے وسیع انفرااسٹرکچر کیلئے توانائی کی فراہمی آسان اور ممکن ہو جائیگی بلکہ بھارت نیو کلیئر سپلائرز گروپ کے ساتھ لین دین کی اجازت ملنے کی وجہ سے اُن سے اپنے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پروگرام کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کے مواقع حاصل کرے گا۔ اِس کامیابی کے ذریعے بھارت نہ صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرکے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی سعی کرے گا بلکہ پاکستان کے حقیقی اسٹرٹیجک اتحادی چین کو بھی آنکھیں دکھانے کی پوزیشن میں آجائیگا۔
اقتصادی اور معاشی لحاظ سے امریکہ اور بھارت دونوں تجارت اور مارکیٹ کی دستیابی اور لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور زیادہ سے زیادہ بھارتیوں کی امریکہ منتقلی کی صورت میں ناقابل یقین فوائد تو حاصل ہوں گے ہی، اس کے ساتھ امریکہ میں بھارتی لابی جو پہلے ہی وہاں بہت مضبوط ہے، مزید مضبوط ہو کر پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں لیکن امریکی صدر کے اِس دورۂ بھارت کی سب سے اہم اور بہت وحشت ناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے عالمِ اسلام اور پاکستان کو بالخصوص پوچھنا تو درکنار، اطلاع تک دینا ضروری نہیں سمجھا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کیلئے بھر پور امریکی حمایت فراہم کی جائیگی۔
اس اہم اقدام کے حوالے سے ہمارے ذمہ دار اور باخبر تبصرہ نگاروں نے اِس نکتے کو زیر بحث رکھا کہ امریکہ کو پاکستان کا بحیثیت اتحادی خیال رکھنا چاہئے تھا۔ چونکہ بھارت سلامتی کونسل کی کشمیر پر قردادوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتا رہا ہے لہٰذا ایسے ملک کو کس اخلاقی بنیاد پر ممبر بنانے کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا کہ پاکستان کو اِس حوالے سے بھر پور احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ جبکہ بعض تجزیہ نگاروں نے اِس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان کی کابینہ اور پارلیمنٹ نے قراردادیں منظور کر کے اپنی طرف سے گہری تشویش کا اظہار ریکارڈ کرایا۔ جبکہ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے امریکی صدر کے دورۂ بھارت کے دس دن بعد عالمی میڈیا کے سامنے کہا کہ پاکستان کو امریکی صدر کے اعلانِ حمایت بھار ت دربارۂ رکنیت سلامتی کونسل پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ امریکی حکومت کو اب تک پاکستان کے سفارتی ذرائع سے کوئی باقاعدہ احتجاج موصول نہیں ہوا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی اپنی جگہ پر صحیح بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ سیاست بھی ہو سکتی ہے۔ اس میں اختلاف اور مفادات کی جنگ بھی ہو سکتی ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ بھارت کا سلامتی کونسل کا ممبر بن جانا کوئی معمولی خبر نہیںا ورنہ ہی پاکستان اور عالمِ اسلام کو ٹھنڈے پیٹوں اس کوبرداشت کرنا چاہیے۔ امریکہ اوربھارت کے حواری لاکھ تاویلات پیش کریں کہ بھارت کو ویٹو کا حق حاصل نہ ہو گا البتہ رکنیت دی جائیگی۔ اوّل تو یہ بات بہت خطرناک ہے کہ بھارت مستقل رکن کی حیثیت سے اقوام متحدہ میں بیٹھے۔ کیونکہ اس حیثیت میں وہ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف لابنگ کر کے جو کردار ادا کرے گا اُسے عقل کا اندھا عام پاکستانی بھی سمجھ سکتا ہے۔ پھر اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل تین چار برس بعد یہی امریکہ یہ نہیں کہے گا کہ چونکہ اب بھارت نے تین چار برس تک سلامتی کونسل کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا دُنیا کے معاملات کو "سنوارنے" کے لئے اِس کو مستقل ویٹو پاور کی حیثیت سے نشست دینا اقوام عالم کے مفاد میں ہے۔
لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ اُس لمحۂ منحوس کے آنے سے پہلے عالمِ اسلام کو کم از کم اپنی بقا اور اپنے دینی اور عالمی مفادات کے تحفظ کے لئے او آئی سی کی سطح پر ایک امت بن کر بھر پور انداز میں امریکہ بہادر کو اور دیگر مستقل ممبران بالخصوص چین کو شف شف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دوٹوک انداز میں یہ باور کرا کر منوانا ہوگا کہ سلامتی کونسل کی حقیقی معنوں میں توسیع تب ہوگی جب دُنیا کے ۵۷ اسلامی ممالک کو بھی نمائندگی کا موقع دیا جائیگا۔عالم اسلام کی سلامتی کونسل میںنمائندگی کے ترکی یا پاکستان سے بڑھ کراور کوئی ملک زیادہ استحقاق نہیں رکھتا۔ پاکستان پہلے بھی اقوام متحدہ میں عالمِ اسلام کی نمائندگی کر چکا ہے۔
اگر چہ بھارت امریکی صدر کی حمایت پر پھولے نہیں سماتا لیکن اُس کو معلوم ہے کہ دُنیا کے بہت سارے ممالک کے علاوہ عالمِ اسلام اور چین اِس معاملے پر تحفظا ت اور خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے مختلف ممالک کے ساتھ اس سلسلے میں کئے جانے والے مذکرات تعطل کا شکار ہیں لہٰذا بھارت اور امریکہ کو اتنی زیادہ بغلیں جھانکنے کی ضرورت نہیںکیونکہ اِس قسم کی تبدیلی اتنی جلدی اور آسانی سے ہرگز نہیں آئیگی۔
لیکن عالمِ اسلام کے کرتا دھرتاؤں کیلئے یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ عالمِ اسلام کے سارے اہلِ نظر، اہل دانش اور صاحب بصیرت اور صاحب اختیار لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ خدانخواستہ اگر بھارت امریکہ کی آشیرباد کے ساتھ سلامتی کونسل کا ویٹو پاور رکن بن گیا تو اِس کے بعد کے عین ممکنہ مناظر کیا ہوں گے۔
میں اُن ’’حادثات کا جو ابھی پردۂ افلاک میں ہیں‘‘ ہلکا سا عکس اپنے اپنے آئینہ ادراک پر مرتسم ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ کیونکہ مجھے عین الیقین کی حد تک یقین ہے کہ الکفر ملۃ واحدۃ کے مصداق امریکہ، فرانس ، برطانیہ اور روس اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں سب یک جاں و دوقالب ہیں۔ چین کی اپنی اسٹرٹیجک مجبوریاں ہیں اور بعض اوقات اللہ تعالیٰ بعض غیر مسلموں سے بھی بالواسطہ طور پر اسلام کی حمایت کا کام لے لیتا ہے۔
لہٰذا اگر امریکہ آج بھارت کو ہر قسم کی مدد فراہم کررہا ہے تو اِس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں۔ اِس کی بہت ساری دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اسلام اور مسلمان ممالک کے خلاف عالمی مسائل میں اِن کا مؤقف ایک ہے اور اسلاموفوبیا اِن سب کی قدر مشترک ہے۔ امریکہ ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں ۱۱؍۹ کے بعد قرآن کریم کی بے حرمتی، خاتم النبیینؐ کے خاکے اور پردہ و حجاب اور دیگر اسلامی شعائر کے خلاف باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے مذموم مہم چلاتے رہے ہیں۔
اب امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ھندوستان کو سلامتی کونسل کی رکنیت دلانے پرمتفق و متحد ہیں۔ ھندوستان کے سلامتی کونسل میں داخل ہونے کے بعد اسلام فوبیا کے شعلے اور بھی تیز ہو نے کے خدشات موجود ہیں۔ اِس لئے کہ بھارت تو پاکستان کو جنم جنم کا مخالف اور بھارت ماتا کی تقسیم کا سزاوار سمجھتا ہے، کشمیر کے مسئلہ پر پہلے روس ویٹو کرتا رہا ہے اب روس کے ساتھ امریکہ اور بھارت کی طاقت شامل ہو جائیگی تو یہ عین ممکن ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے دفاتر سے ہمیشہ کیلئے دیس نکالا مل جائے۔
یہ بڑے ممالک، مسلمان ملکوں کی مدد اُس وقت اور حد تک کرتے ہیں جہاں تک اِن کے تجارتی اور دیگر مفادات ساتھ دیتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے سنجیدہ قومی اور دینی مفادات اور اقدار کے تحفظ کی بات آتی ہے، اِن کا ووٹ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف پڑا ہے، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ روس، ایران سے نیوکلیئر پلانٹ کے عوض اربوں ڈالر کی تجارت کر چکا ہے لیکن ایران کے خلاف امریکی اور مغربی دائرہ تنگ کرنے کے لئے روس اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔ اِسی طرح بھارت، ایران کے ساتھ تجارتی میدان میں وسیع تعلقات کا حامل تھا اور ایران اِسی وجہ سے مقبوضہ کشمیر وغیرہ کا نام بہت احتیاط سے لیتا تھا لیکن عید الاضحی کے خطبے میں ایران کے مذہبی رھنما آیت اللہ خامنائی نے دُنیا کے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کرے تو اس پر بھارت نے نئی دہلی میں ایران کے ناظم الامور کو بُلا کر شدید احتجاج کیا اور اِس کے ردِعمل میں اقوام متحدہ میں ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ووٹنگ میں غیر جانبدار رہا۔ بھارت کا یہ رد عمل تو ایران کی طرف سے مظلوم کشمیریوں کی زبانی مدد کی اپیل پر تھا اگرکل کلاں ایران نے واقعی کشمیر کے " مستضعفین" کی کوئی سفارتی اخلاقی یا مالی و مادی مدد کی تو بھارت سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے ہر فورم پر ایران کے خلاف ووٹ دے گا۔
امریکہ، فرانس، برطانیہ، روس اور مستقبل کے رکن بھارت اور جرمنی سلامتی کونسل میں مِل کر عالم اسلام کے مفادات کے خلاف تو جو کچھ کریں گے وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں لیکن مجھے تو یہ خطرہ ہے کہ یاسر عرفات اور شیرون کے درمیان اوسلو معاہدہ کی طرح جس کی ایک شق یہ تھی کہ ریڈیو فلسطین سے سورۂ بقرہ کی تلاوت نہیںکی جائیگی۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ سورۂ بقرہ میں یہودیوں کے سارے اعمالِ سیۂ کا ذکر ہے، اب خدشہ ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننے کے بعد قرآن کریم خاص کر اُن آیات جن میں یہود و مشرکین اور جہاد وغیرہ کی تعلیم ہے، کے بارے میں وہی طرز عمل اختیار کرے جو بھارت نے اُس وقت اختیار کیا تھا جب جنرل ضیاء الحق کے سلامتی کونسل سے خطاب کے دوران تلاوت قرآن کے بارے میں اختیار کیا پتہ نہیں کیا اختیار کیا تھا۔ لہٰذا عالمِ اسلام بالخصوص پاکستان کو ابھی سے اس کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور اِس کا بہترین راستہ او۔آئی۔ سی کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب، ترکی، ایران، مصر، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ممالک قیادت کرتے ہوئے چین اور دیگر ایسے ممالک کے ساتھ رابطہ کرنا شروع کردے جو امریکی بالادستی اور چیرہ دستیوں کے خلاف ہیں، ورنہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بھارت سلامتی کونسل کی رکنیت کے حصول کے بعد جنوبی ایشاء کے لئے ایک نئے سامراج و استعمار کی صورت میں نمودار ہوگا۔