اوریا مقبول جان

مغرب کا اسلام کی طرف بڑھتا ہوا رجحان

وہ جو مغرب کے تعیش اور رنگارنگ تہذیب کے دلدادہ تھے انہیں ایک بار پھر اپنا خوف بھرا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔ طرح طرح کے الزامات اور فقرے کسے گئے۔ یہ اعداد و شمار تم نے کہاں سے لیے، یورپ کے بارے میں تمہیں کیا پتہ، تم مسلمانوں کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہو، تم نے تمام معلومات یوٹیوب کی ایک فلم سے لے کر کالم لکھ ڈالا اورنام بھی کیا رکھا ’’مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے‘‘ واہ، تم سے پہلے جمال الدین افغانی اور علامہ اقبال بھی پوری دنیا میں مسلمانوں کی برتری کے خواب دیکھتے قبر میں جا سوئے، تم ایک کاہل، خواب دیکھنے والے دانشور ہو جو مسلمان قوم کو گمراہ کر رہے ہو۔ ہم مغرب میں رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ ہے وہاں سبگ چل رہا ہے۔ ٹھیک ٹھاک، عیش و عشرت بھی ہے اور آسائش بھی۔ ایسے بہت سے فقرے مجھے اپنے گزشتہ کالم کے جواب میں ملے جس میں میں نے مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور یورپ کے بدلتے ہوئے نقشوں کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ 
مغرب کے ماحول میں گم میرے ان دوستوں کو شاید علم نہ ہو کہ دنیا میں آبادی کو کم کرنے کا پروگرام مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے خوف کی وجہ سے 1947ء میں اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ جان مارشل نے پیش کیا تھا جس کی بنیاد سی آئی اے کی ایک تفصیلی رپورٹ اور قومی سلامتی کی یادداشت NSSM200 تھی۔ جس میں کہا گیا تھا ’’سیاہ فام افریقیوں میں اسلام کی اپیل قدرتی ہے۔ اسلام بھائی چارے کا مذہب ہے اور مغربی افریقہ میں محمدن ازم کا ایک جتھہ موجود ہے اور ساحلی علاقوں کے نیگرو، روز افزوں اسلام قبول کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک اور سیاہ فام مہدی کے ظہور سے چوکنا رہنا چاہئے‘‘ لیکن اس پروگرام کے تحت جن مانع حمل ادویات نے جنم لیا اور زندگی میں ذمے داری کے بغیر لذت و سرور کی زندگی کا فروغ ہوا اُس نے مغرب کی آبادیوں کو ناپید کرنا شروع کردیا۔ 
میرے ان کرم فرمائوں کے لئے عرض ہے کہ اس خطرے کی گھنٹی اس صدی کے آغاز میں بج اٹھی اور 2006ء تک اس پر تحقیقات ایک ایسے نہج پر جا پہنچیں کہ اقوام متحدہ نے کہا کہ ’’دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شرح افزودگی اتنی کم ہوگئی ہے کہ انہیں افراد کی وہ مقدار ہی میسر نہیں جو انسانی آبادیوں اور تہذیبوں کو آگے بڑھا سکتی ہے اور 2025 تک ان کے مٹنے کا شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا‘‘ یہ تمام رپورٹیں اور اقوام متحدہ کی وارننگ 28 جولائی 2007 کے اکنامسٹ میں تمام تر تفصیلوں کے ساتھ موجود ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق آبادی کی کمی کا شکار سینٹرل یورپ، جاپان، روس، اٹلی اور اسپین کے علاقے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق ایک بوڑھے کے مقابلے میں چار نوجوان موجود ہیں تو نظام چلتا ہے جب کہ اٹلی اور جاپان میں ایک بوڑھے کے مقابلے میں صرف دو نوجوان رہ گئے ہیں۔ جو حقیقت کی تلاش اور اس خوفناک بحران کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں وہ اکنامسٹ کے ان صفحات پر بوڑھوں کی نگہداشت گھروں میں حالتِ زار دیکھ لیں اور رپورٹیں پڑھ لیں۔ یوںمالتھس کا وہ آبادی کم کرنے کا نظریہ اتجانی زندگی کی بساط اُلٹ رہا ہے۔ خصوصاً مغرب اور ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے ختم ہونے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ 
اب آتے ہیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور یورپ میں ان کا اثر و نفوذ۔ 
کاش میرے یہ ناقدین سی آئی اے کی ویب سائٹ پر جا کر ہر ملک کے فیکٹ شیٹ پڑھ لیتے۔ لائبریری آف کانگریس، اور ان تمام ممالک میں چھپنے والی مردم شماریوں کو دیکھ لیتے تو انہیں علم ہوتا کہ یورپ میں مسلمانوں کی آمد کس زور و شور سے جاری ہے۔ اس لئے کہ مغرب کے اپنے پاس کاروبارِ زندگی چلانے کے لیے اتنے لوگ نہیں کیونکہ ان کی نسلوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ لذت اور آسودگی سے جینا اور مر جانا ہے۔ 8 اگست 2009 ء کے ٹیلیگراف میں آڈرائن مارئیکل نے یورپ میں مسلم آبادی کے بڑھتے ہوئے خوف پر ان تمام اعداد و شمار کو جمع کیا ہے اور اپنے مضمون کا عنوان Demographic Bomb یعنی ’’بدلتی ہوئی آبادی کا ٹائم بم‘‘ رکھا ہے۔ امریکا کے ایک بہت بڑے تحقیقی PEW تک ڈیڑھ کروڑ کمی آجائے گی لیکن اب وہ محسوس کر رہا ہے کہ ایک کروڑ کا اضافہ ہوگا اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی۔ اسی مضمون میں امریکی ائیر فورس کی ایک تحقیق اور کرسٹو فرکالڈریل کی ایک تفصیلی تحقیق کی بنیاد پر رکھا گیا ہے کہ اس صدی کے بیچ یعنی 2050 ء تک مسلمانوں کی آبادی خصوصاً فرانس اور ممکن ہے کہ تمام یورپی ممالک میں غیر مسلموں سے زیادہ ہو جائے گی۔ یورپی پارلیمنٹ کے لئے ہنگری کے ایک مشہور معاشیات دان کاروے لورینٹ نے ایک مقالہ تحریر کیا ہے کہ جس کے مطابق اس وقت مسلمان مارسیلز اور روٹرڈیم میں 25 فیصد، مالمو میں 20 فیصد، برسلز اور برمنگھم میں 15فیصد اور لندن میں 10 فیصد ہیں۔ یہی وہ خوف ہے کہ اسرائیل نے جولائی 2004ء میں یورپی ممالک کو خبردار کیا تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ تمہارے ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہونگے اور یہ بڑا تلخ تجربہ ہوگا۔ بی بی سی کی ویب سائٹ پر جایئے اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی رفتار کا خوف ملاحظہ کیجئے۔ عیسائیوں کے گرجے بک رہے ہیں اور ان کی جگہ مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں۔ کیا کسی کو برطانیہ میں ایک ہزار مساجد کا ہونا اعداد و شمار کا دھوکا لگتی ہیں۔ ورلڈ اکنامک اٹھا کر دیکھ لیں۔ بارنس اینڈ نوبل کا انسائیکلو پیڈیا دیکھ لیں، کیمرج کی فیکٹ فائنڈر دیکھ لیں آپ کو میرے اعداد و شمار کا ایک ہلکا سا اشارہ ہے۔ 
مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حوالے سے بات کی جائے ہمارے ہی مغرب زدہ مسلمان بھائی جو یورپ کے رنگ میں اس طرح رنگے ہوئے ہیں اور ان کا مسائل کو دیکھنے کا رویہ ایسا ہے جیسے آج اگر مغرب کے نوجوان کو کہا جائے تمہاری نسل ختم ہورہی ہے تم بچے زیادہ پیدا کرو تو وہ کندھے اُچکا کر کہے گا سب بکواس ہے، اور اگر سچ بھی ہے تو میں اپنی زندگی کیوں خراب کروں۔ میرے یہ دوست بھی اس سارے خوف کو ایک پروپیگنڈہ، مسلمانوں کا خواب اور غیر منطقی بے عملی سے تعبیر دیتے ہیں۔ گورا اپنی لذتِ بے پناہ کو چھوڑ کر خاندانی زندگی کی طرف مائل نہیں ہو پاتا اور زندگی کا نظام چلانے کے لئے انسان چاہئیں۔ دو ہی راستے ہیں۔ اگلے پچاس ساٹھ سالوں تک اپنے یورپ کو ویران کرلو، جس میں بوڑھے اس انتظار میں ہوں کہ کب موت آتی ہے یا پھر زندگی کو مانگ تانگ کے مسلمان مہاجرین سے چلاتے رہو۔ 
یہ تو خیر یورپ کو اس کے اعمال کا نتیجہ مل رہا ہے لیکن اس بات کا شاید میرے ان کرم فرمائوں کے پاس کوئی جواب نہ ہو کہ اس وقت دنیا میں واحد مذہب اسلام ہے جس میں یورپ اور امریکا کے لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر شامل ہور ہے ہیں۔ وہ الیسکوتھ جو 1920 میں برطانیہ کا وزیراعظم تھا، جس نے لارنس آف عربیہ کے ذریعے مسلم اُمہ کے ٹکڑے ٹکڑے کیے، تماشہ دیکھئے اُس کی پوتی ایما کلارک نے اسلام قبول کیا تو اس نے اپنے ساتھ سینئر بیوروکریٹ فرینک ڈربن کے بیٹے احمد ڈربن اور بی بی سی کے ڈائریکٹر لارڈ جانتھن برٹ جو اب یحیٰ برٹ ہے، کو لے کر ایک پریس کانفرنس کی۔ جس میں 14200 ایسے لوگ شامل تھے جو بڑے اور معزز خاندانوں سے تھے جنہیں لارڈ یا نائٹ کہا جاتا ہے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان لوگوں نے ایک Muslim Regenration committee بنائی ہے جو گارڈن آف اسلام کے نام سے اسلامی کلچرل سینٹر بنا رہے ہیں۔ ایما کلارک نے کہا کہ برطانیہ کو صرف ایک میلکم ایکس کی ضرورت ہے، پھر دیکھیں کیسے سفید فام انگریز جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ طالبان کی قید میں مسلمان ہونے والی ایوان ریڈلی کے ساتھ مجھے نیوہیم، لندن میں ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ اُس نے جو باتیں کیں ان کا خلاصہ بس یہ تھا کہ مغر ب کے لوگوں کے ذہنوں میں اس وقت جو سوال اٹھ رہے ہیں ان کا جواب صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ میں اعداد و شمار کا کھیل نہیں کھیلنا چاہتا تھا اور نہ ہی اسلام کی حقانیت کو کسی اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔ اس کائنات میں اگر ایک بھی مسلمان نہ ہو تو میرے اللہ کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں آئے گا ۔ اور اگر سب کے سب مسلمان ہو جائیں تو یہ ان کی خوش قسمتی ہے میری معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کی روز افزوں ترقی کے تناظر وسیع پیمانے پر دعوتی کام کی ضرورت ہے اسلام کی عمدہ تعلیمات کونسل نو تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور اسلام ہی دنیا کا مقدر سنوار سکتا ہے اور دکھی انسانیت کو راہ نجات دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے