آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے مطالبات

یکم فروری کو اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت منعقد ہونے والی ’’آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس‘‘ کے مطالبات کی بازگشت ملک بھر میں مسلسل سنائی دے رہی ہے اور مختلف مقامات پر دینی حلقے اس سلسلہ میں سرگرم عمل ہیں۔ اس کانفرنس کے مطالبات درج ذیل ہیں:
’’(۱) 29C کے قانون کے خلاف سرگرمیوں کا نوٹس لیا جائے اور اس قانون کے بہرحال تحفظ کا دوٹوک اعلان کیا جائے۔
(۲) ادارہ فزکس کا ڈاکٹر عبد السلام قادیانی کے نام پر رکھنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔
(۳) چناب نگر میں ’’ریاست در ریاست‘‘ کا ماحول ختم کیا جائے۔ حکومت کی دستوری اور قانونی رٹ بحال کرنے کے ٹھوس اقدامات کیے جائیں اور متوازی عدالتیں ختم کر کے ملک کے قانونی نظام کی بالادستی بحال کی جائے۔
(۴) قادیانی چینلز کی نشریات کا نوٹس لیا جائے اور ملک کے دستور اور قانون کے تقاضوں کے منافی نشریات پر پابندی لگائی جائے۔ 
(۵) قادیانی تعلیمی ادارے، انہیں واپس کرنے کی پالیسی عوامی جذبات اور ملک کی نظریاتی اساس کے منافی ہے۔ حکومت اس طرز عمل پر نظر ثانی کرے اور قوم کو اعتماد میں لے۔ 
(۶) دوالمیال چکوال میں قادیانیوں کی فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والے مظلوموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ علاقہ کے مسلمانوں کے مطالبات کو فوری طو ر پر پورا کیا جائے، شہید کے بارے میں ایف آئی آر درج کی جائے، بے گناہ مسلمانوں کو رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے والے حکام کے خلاف کاروائی کی جائے۔
یہ اجتماع حکومت پر واضح کر دینا چاہتا ہے کہ یہ مطالبات رسمی اور وقتی نہیں پوری قوم کے جذبات کے آئینہ دار ہیں، انہیں جلد از جلد منظور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اگر ایک ماہ تک یہ مطالبات منظور نہ کیے گئے اور حکومت کے طرز عمل میں واضح تبدیلی دکھائی نہ دی تو آل پارٹیز ناموس رسالت کانفرنس کی طرف سے ملک گیر تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ ‘‘
کانفرنس کے اعلامیہ میں حکومت کو مطالبات کی منظوری کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے، جس کی نصف مدت گزر چکی ہے، مگر حکومت کی طرف سے اس کا کوئی ردعمل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ اس لیے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ان مطالبات کے لیے رائے عامہ کو منظم و متحرک کرنے کی محنت کی جائے اور تمام مکاتب فکر کو ہر سطح پر متحد کیا جائے۔ گیارہ فروری کو اس سلسلہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی دعوت پر جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں گوجرانوالہ کے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں یہ طے پایا کہ علمائے کرام، تاجر برادری اور سیاسی و دینی کارکنوں کو اس تحریک کی طرف متوجہ کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے گی اور ایک بھرپور احتجاجی کنونشن کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔ مسائل کی سنگینی، مطالبات کی اہمیت او رملک کی عمومی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ علمائے کرام اس حوالہ سے سنجیدگی کے ساتھ متحرک ہوں۔ 
اس مقصد کے لیے اصل ضرورت1953، 1974 اور 1984ء کی طرز کی ہمہ گیر تحریک کا ماحول پیدا کرنے کی ہے لیکن اس معاملے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اب صورتحال خاصی مختلف ہو چکی ہے۔ مذکورہ تحریکات میں ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات کی مجموعی حمایت تحریک ختم نبوت کو حاصل ہوتی تھی، اب میڈیا کی عمومی صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی اور میڈیا کے اہم مراکز اس سلسلہ میں خود ان مطالبات کے خلاف فریق کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ماضی کی ان تحریکات کے دوران ملک کے اندر بیرونی سرمائے اورا یجنڈے کے تحت کام کرنے والی سینکڑوں این جی اوز اس طرح متحرک نہیں تھیں، چنانچہ تحریک ختم نبوت کا ماحول دوبارہ پیدا کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے اور ملک بھر کے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کو اس ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن میڈیا کی یہ سہولت بے لگام ہونے کی وجہ سے عموماً اس کے مثبت کی بجائے منفی اثرات سامنے آتے ہیں اور کسی مسئلے پر ایک قومی سوچ پیدا ہونے کی بجائے افراتفری کا ماحول بن جاتا ہے۔ اگر ہماری دینی جماعتیں اس سلسلہ میں واضح گائیڈ لائن متعارف کروا سکیں اور اپنے کارکنوں کو ان کا پابند بنا سکیں تو روایتی میڈیا کی جانبداری کو سوشل میڈیا کی مدد سے بیلنس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے، ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف پے در پے تحریکوں کا سلسلہ سی پیک اور اس طرز کے دیگر معاشی منصوبہ جات کی متوقع کامیابی کے پیش نظر سامنے لایا جا رہا ہے، اس تاثر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دینی قوتیں اپنی جدوجہد کے حوالہ سے واضح اور غیر مبہم پالیسی متعارف کرائیں۔ 
اس کے ساتھ وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے بارے میں مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع ہوگئی ہے جو اخباری اطلاعات کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر چلے گی اور کہا جا رہا ہے کہ دو تین ہفتے میں فیصلہ سامنے آجائے گا۔ سودی نظام کا خاتمہ ہمارا شرعی اور دستوری تقاضا ہے، دستور پاکستان میں اس سلسلہ میں صراحت کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا شریعت بنچ دو ٹوک فیصلہ دے چکے ہیں مگر ہر دور میں حکومتیں ٹال مٹول سے کام لیتی رہی ہیں۔ سودی نظام کے بارے میں اس حکومتی طرز عمل کے خلاف بھی احتجاج کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں اس حوالہ سے مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا عبد الرؤف، حافظ عاطف وحید، سردار محمد خان لغاری، مولانا حافظ محمد سلیم، مرزا محمد ایوب بیگ اور راقم الحروف سمیت متعدد احباب نے باہمی مشاورت کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی و سیاسی کارکنوں کو توجہ دلانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ۶۱ فروری کو اسلام آباد میں اور یکم مارچ کو لاہور میں علمائے کرام، تاجروں اور کارکنوں کے مشترکہ اجتماعات کے انعقاد کے پروگرام طے کیا جا رہا ہے۔ 
ملک کو جس تیزی کے ساتھ سیکولر ریاست کی طرف لے جایا جا رہا ہے او رملک کی نظریاتی اور تہذیبی اقدار و روایات کو کمزور کرنے کے لیے میڈیا کے اہم مراکز اور سینکڑوں این جی اوز مسلسل مصروف ہیں، اس کے پیش نظر ان معاملات میں بے توجہی اور غفلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تمام دینی جماعتوں کے راہنماؤں اور کارکنوں کو اس صورتحال کا احساس کرتے ہوئے تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت اور سودی نظام کے خاتمہ کے جدوجہد میں مؤثر اور بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے