اپریل فول کے پس منظر کے حوالہ سے متعدد باتیں کہی جاتی ہیں، اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے مگر اس کے متعلق کبھی کہا جاتا ہے 1564م تک نیا سال مارچ کے اواخر میں شروع ہوتا تھا جو دراصل ایران کی قدیم روایات کے مطابق تھا جسے نو روز یعنی سال نو کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور آج تک نو روز کی رسم چلی آرہی ہے ، مارچ میں موسم سرما ختم ہوجاتا ہے اور بہار کی رونق اور رزق برق کھیت ہوتے ہیں چنانچہ اہل یورپ بھی یہ رسم جوش وخروش سے مناتے ایک دفعہ فرانس کے بادشاہ نے کلینڈر کا آغاز جنوری سے کرنے کا حکم دیا مگر جہاں جہاں لوگ عمومی سطح پر اس تبدیلی سے لاعلم تھے ۔ انہوں نے اس تبدیلی کی خبر بتانے والوں کا خوب مذاق اڑایا اور پھر یہ حرکت مستقل رسم بن گئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سپین والوں نے جب مسلمانوں سے اپنا ملک واپس چھین لیا اور بہت قتل عام کیا تو کچھ مسلمان خوف کے مارے بھیس تبدیل کرکے چھپ گئے ان کو ڈھونڈ نکالنے کے لئے حکمرانوں نے یہ ڈرامہ رچایا کہ سب مسلمانوں کو سرکاری خرچ پر کسی اسلامی ملک منتقل کیا جارہا ہے، لہٰذا سب لوگ ایک جگہ جمع ہوجائیں اور پھر ان کے بھرے جہاز کو سمندر برد کردیا اور اس پر سپین والوں نے خوب جشن منایا جو یکم اپریل کا دن تھا جس میں بقول ان کے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا گیا، بہرحال اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ آج کے اکثر مسلمان یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ اسلام دراصل ایسی ہی بے بنیاد اور غیر فطری رسومات کے صفایا کیلئے نازل ہوا تھا مگر آج وہی مسلمان جو کسی زمانہ میں جاہلیت اول کامٹانے والا تھا جاہلیت ثانیہ کی نشاۃ ثانیہ میں پیش پیش ہے جو قابل افسوس ہی نہیں بلکہ قابل مذمت ہے یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ صراط مستقیم کے دائیں بائیں ہر دو جانب راستے ملتے ہیں وہ ساری غلط راہیں ہیں ان سے قرآن وسنت نے منع کیا ہے، وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جھوٹ بولنا کتنا بڑا گناہ ہے؟ یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ کسی کو بے وقوف بنانا کسی غلط حرکت اور گناہ ہے یہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ غیر مسلموں کی مشابہت کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں یہ سب باتیں قابل غور اور واجب الترک ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین