اکثریت کے بھی حقوق کا خیال رکھئے!

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہے بلکہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے رہنما اصول ہے، دنیا کا ہر ملک آپﷺ کی سیرت سے استفادہ کرتا ہے ۔
ہمیں بحیثیت پاکستانی بلکہ بحیثیت ایک انسان کے مندرجہ بالا دفعات سے ایک اچھا سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کے ذمے اقلیت کی جان اور مال کی حفاظت لازم ہے اور اقلیتوں کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان شرعاً اور قانوناً ہمیں جائز رعایت دینے کے پابند ہیں، اسلام کے عروج کے تمام ادوار کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور اس پر گواہ ہے کہ جو رعایت اسلام میں اقلیتوں کو دی گئی ہے بلکہ عین حالت جنگ میں ان کے ساتھ جو برتائو کیا گیا ہے دنیا کا کوئی مذہب اور کوئی قوم اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی، بیسویں صدی کی عظیم کتابوں میں شمار ہونے والی برٹرینڈرسل کی کتاب ’’فلسفہ، مغرب کی تاریخ‘‘ کا ایک مختصر اقتباس پیش کرتا ہوں وہ لکھتے ہیں‘‘ قرون وسطی کے پورے عہد میں عیسائیوں کی نسبت مسلمان زیادہ مہذب اور زیادہ رحم دل تھے عیسائی یہودیوں کو، خصوصاً مذہبی جوش کے مواقع پر، اذیتیں دیتے تھے، صلیبی جنگیں ہیبت ناک منظم قتل سے منسوب ہیں اس کے برعکس مسلم ممالک میں یہودیوں کے ساتھ اکثر اوقات کبھی بھی کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی (ص۳۹۰ ترجمہ پروفیسر محمد بشیر صاحب) 
مگر افسوس ہے کہ چند سالوں سے بلکہ جب سے اخلاقی اقدار میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو دنیا بھر میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کے رجحانات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، دوسری جانب اقلیتوںں نے بھی اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہیاں برتنا شروع کی ہیں اس وقت میرے پیش نظر صرف پاکستان کے حالات ہیں یہاں کی اقلیتوں کو جو سرکاری تحفظ فراہم کیا جاتا ہے یقینا وہ اکثریت کے تحفظ سے کئی گنا زیادہ ہے اگر کوئی شہری انفرادی طور پر کسی اقلیتی فرد کو تنگ کرتا ہے تو ممکن ہے کہ اس کی وجہ کچھ اور بھی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس میں مذہبی جوش دخیل ہو، لیکن اس کی سزا ریاست کو دینا کسی طرح انصاف کی بات نہیں ہے۔ مندرجہ بالا نکات کے تناظر میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پاکستانی اقلیتوں کی بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ ان کو جب آئین اور شریعت نے وہ تمام جائز حقوق دیئے ہیں جن کے وہ مستحق ہیں تو کیا پاکستان کا یہ حق نہیں بنتا کہ وہ ان سے توقع رکھے کہ وہ پاکستان کے دشمن سے خفیہ مراسم نہ رکھیں، وہ پاکستان کے خلاف اپنے دلوںں میں کسی طرح کا حسد اور کینہ نہ رکھیں وہ اس وطن کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنیں جس میں انہوں نے اپنی خوشی سے رہنا پسند کیا ہے، وہ اسی ملک سے محبت رکھیں جو اپنے محدود وسائل میں ان کے ساتھ کسی طرح امتیازی سلوک وبرتائو نہیں کرتا وہ یہاں کی زمین کو باغ وبہار بنانے میں وہی کردار ادا کریں جو ایک عام پاکستانی پر لازم ہے وہ بجائے دوسرے ممالک کے اپنے وطن کی بات کریں وہ اسی کی ترقی میں اپنا خون پسینہ شامل کریں اگر یہ ذمہ داریاں مشترک ہیں تو پھر ہم سب پاکستانیوں کو چاہیے خواہ ہمارا تعلق کسی بھی نظریہ اور کسی بھی مذہب سے ہو کہ اس وطن کی دل وجان سے حاظت اور اس کی ترقی کو اپنا فرض جانیں مسلکی اختلاف اپنی جگہ لیکن ہمارا وطن ہمارا گھر ہے کسی سے اختلاف کی بنا پر اپنے گھر کو جلانا کسی طرح عقل مندی نہیں آئیے سب مل کر اس ملک کی تعمیر وترقی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے اتحاد سے دشمنوں کے ناپاک عزائم کو نہ صرف ناکام بنائیں بلکہ انہیں عبرت ناک شکست سے دوچار کردیں۔
اس کی اچھی صورت یہ بھی ہے کہ ہم سب آئین کی عملی پاسداری کریں۔ ایک دوسرے کے دینی عقائدکی توہین خصوصاً توہین رسالت اور دل آزاری سے گریز کریں تاکہ کسی کو سازش کا موقع نہ مل سکے۔آئین پاکستان میں غیر مسلموں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانا جرم ٹھہرتا ہے تو اقلیتوں پر بھی یہ لاگو اور لازم ہوتا ہے کہ وہ بھی آئین پاکستان کے تحت مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا احترام کریں،کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے یہاں کی اکثریت کے دینی جذبات مجروح ہوں اور حالات تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سخت گیر کی شکل اختیار کرجائیں اسی طرح اگر غیر مسلم کی عبادت گاہوں یا مذہبی مقاما ت کو نجس کرنا قابل گرفت ہے تو اس کے مقابلے میں غیر مسلم کو بھی مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے احترام کا درس دیا گیا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے چارٹر آف ہیومن رائٹس کا پابند ہے جس کی دفعہ18کے تحت ہر شخص کو سوچ ،ضمیر اور مذہب کی آزادی حاصل ہے ،کسی کو بذور طاقت تبدیلی مذہب پر مجبور کرنا جرم ہے اس میں حد صرف پاکستان تک محدود نہیں ،اسلامی قوانین اور ملکی آئین کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ دفعہ18کسی ایک مذہب یا فرقہ کے لئے نہیں اس میں تمام ادیان و مذاہب کے پیروکاروں کی آزادی کا درس شامل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ آج تک عالم اسلام کے کسی ملک میں بے بانگ دہل کسی دوسرے مذہب کے پیشوا کی شان میں گستاخی کا کوئی واقعہ خاص طور پر قابل ذکر نہیں جبکہ اس کے برعکس شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آڑ میں غیر مسلم ممالک کے اندر بعض انتہاپسند وں کی جانب سے دین اسلام کے خلاف اور پیغمبر اسلا م نبی آخر الزماں رحمت للعالمین محمد مصفطیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت تکلیف اور کرب سے گزرنا پڑا اور ردعمل بھی دیکھنے میں آیا۔موجودہ حالات میں بھی ہمارے پڑوسی ملک کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے جہاں مسلمانوں پر گائے کی ذبیحہ کی پابندی ہے،مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں ،اسلامی شعائر کی کھلم کھلا توہین کی جارہی ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کا آرٹیکل 18خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور نتیجتاً مذہبی ٹکراؤ یقینی ہے ۔
الحمدللہ پاکستان میں جتنی بھی اقلیتیں ہیں چاہئے وہ عیسائی ہو،یہودی ،ہندو،سکھ یاکسی بھی مذہب کے پیروکار ،سب کو برابری کے حقوق نہ صرف میسر ہیں بلکہ تحفظ کے ساتھ حاصل ہیں۔لہٰذا دیگر غیر مسلم ممالک کو بھی عالمی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی قدر کرنی چاہئے اور میں اپنے ملک کی باثر اقلیتوں سے بھی یہی کہوں گا کہ خدارا! اپنے ہم مذہب ممالک کو پیغام دیں کہ وہ بھی اسلامی عقائد اور مسلمانوں کے حقوق کاتحفظ کریں تاکہ یہ معاشرہ پر امن بقاء باہمی کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے