امت مسلمہ کو اس وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اسے مختلف حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلم امہ کو سیاسی ، داخلی، خارجی، معاشی، تعلیمی و تکنیکی ، دفاعی و عسکری، معاشرتی و اخلاقی ، تہذیبی و ثقافتی، سائنسی و ابلاغی اور فکری و نظریاتی چیلنجز درپیش ہیں۔
حالات کا تجزیہ کیا جائے تو سیاسی پہلو سے اس کی صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں جو باقاعدہ آزاد ممالک کہلاتے ہیں اور قوت و اقتدار سے بہرہ ور سمجھے جاتے ہیں‘ لیکن وہ عالمی سطح پر انفرادی یا اجتماعی طور پر کسی مسئلہ میں بھی کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کی ایک عالمی تنظیم بھی اسلامی سربراہ کانفرنس (او آئی سی) کے عنوان سے کام کررہی ہے لیکن عالمی مسائل اور اُمت مسلمہ کو درپیش اجتماعی معاملات میں ایک قرار داد پاس کرنے اور کسی ڈھیلے ڈھالے مؤقف کا اظہار کردینے کے سوا کچھ بھی اس کے بس میں نہیں۔ اقوام عالم کے مشترکہ فورم اقوام متحدہ میں ساٹھ کے لگ بھگ مسلم ممالک کا یہ گروپ بالکل بے دست و پا ہے، تمام معاملات کا کنٹرول سلامتی کونسل کے پاس ہے اور اس میں بھی اصل قوت اور پاور ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک کے ہاتھ میں ہے اور عملاً صورتحال یہ ہے کہ جس مسئلے پر یہ پانچ ممالک متفق ہوجائیں وہی پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ بن جاتا ہے اور جس معاملے میں ان میں سے کوئی ایک اڑ جائے اس میں کسی قسم کی پیش رفت ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے‘ اس طرح عالمی نظام کا کنٹرول ان پانچ ممالک کے پاس ہے اور پوری دنیا ان کے رحم و کرم پر ہے مگر ان میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے اور نہ ہی مسلم ممالک کو انفرادی طور پر، علاقائی سطح پر یا اجتماعی حیثیت سے اس میں شریک کئے جانے کا بظاہر کوئی امکان دکھائی دیتا ہے۔
مسلم ممالک کی داخلی صورتحال یہ ہے کہ اکا دُکا کوئی مسلم ملک بیرونی مداخلت سے محفوظ ہوگا‘ ورنہ مسلم ممالک کی داخلی پالیسیاں بھی عالمی طاقتوں کی مداخلت کا شکار ہیں اور جہاں براہ راست مداخلت مشکل نظر آئے وہاں اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس مداخلت کا ماحول پیدا کرکے اس کی راہ ہموار کرنے کے لئے ہر وقت مستعد ہیں‘ اسی طرح اپنی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے اپنی پالیسیاں قومی سطح پر خود طے کرنے کے بارے میں بھی مسلم ممالک بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
معاشی اور اقتصادی طور پر عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ عالمی صنعت و تجارت اور معیشت میں ان کا گراف ناگفتہ بہ ہے، خود ان کے اپنے وسائل پر ان کا کنٹرول نہیں ہے اور وہ ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کی جادو گری کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘کا مصداق بن کر رہ گئے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں وہ پچھلی صفوں میں کھڑے ہیں، تعلیم علوم کی ہو یا فنون کی، اقوام عالم کے تناسب کی فہرست میں مسلم ممالک میں سے کسی کا نام تلاش کرنے سے بھی مشکل سے دکھائی دیتا ہے۔
میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا جائزہ لیں تو عالمی سطح پر اسلام کا نام اور مسلمانوں کا مثبت تعارف نقارخانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا‘ جبکہ مسلم ممالک کا اس حوالے سے داخلی ماحول بھی اپنا کوئی امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے بجائے اسی عالمی ماحول کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔
عسکری محاذ پر نظر ڈالیں تو وقت کی ضرورت کے مطابق جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال کی استعداد و صلاحیت کا حصول مسلم ممالک کے لئے شجر ممنوعہ قرار پاگیا ہے اور اس شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی جھوٹی رپورٹوں پر بھی مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی ہے۔
مسلم ممالک کی حکومتوں اور قیادتوں کی طرف دیکھیں تو ان میں سے بیشتر ’’اینگلو سیکسن‘‘ کلاس سے تعلق رکھتے نظر آتے ہیں، معاشرتی اور اخلاقی منظر یہ ہے کہ کرپشن، بد دیانتی، نا اہلی، کام چوری، منافقت ، حرام خوری اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی نفسیات نے ہر طرف اور ہر سطح پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اس میں افراد کی استثناء تو یقینا ہر جگہ ہوگی لیکن کسی طبقے کی بحیثیت طبقہ استثناء شاید خود فریبی کی ہی بات ہو، اس شعبے میں ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان کے داخلی تناظر میں این آر او کو فرد جرم سمجھنے کی بجائے ’’تمغہ ‘‘قرار دینے والے اور کرپشن اور بددیانتی پر فخر کرنے والے وی آئی پی بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ کھلے بندوں اس کا اظہار کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
جبکہ ستم بالائے ستم کی جھلک دیکھنی ہو تو قومی سیاست میں اس مذہبی قیادت نے بھی عوام کو مایوس کیا ہے اور اپنے اسلاف کے طرز عمل کو چھوڑ دیا ہے‘ دینی سیاسی جماعتوں کو ان کی اصل اور سادگی اور قناعت سے ہٹا کر عوامی کے بجائے صرف محلات کی سیاست شروع کردی ہے اور اپنا اصل مقام کھو بیٹھے ہیں وہ تعیش کی زندگی اور جدیدیت کے رنگ میں رنگے جانے کو اپنی حکمت و دانش کی معراج سمجھ بیٹھی ہیں اور
چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی
یا
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یہ نقشہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک اس سعی نا مسعود کا تذکرہ نہ کردیا جائے جو اس معروضی ماحول اور تناظر کو حتمی سمجھتے ہوئے اور اس میں کسی ترمیم یا تبدیلی کا حوصلہ نہ پاتے ہوئے خود اسلام کو ان معروضی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لئے اسلامی احکام و قوانین میں کتربیونت کی صورت میں ایک عرصہ سے جاری ہے اور ’’خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘ کا ذوق رکھنے والے دانش ور استعمار کے مظالم اور اس کی تہذیبی حماقتوں پر اسے ٹوکنے کے بجائے قرآن و سنت کے قوانین کی ’’ری کنسٹریکشن‘‘ میں مصروف ہیں اس تناظر میں اہل دین کی سرگرمیوں اور دینی حلقوں کی مصروفیات پر نظر ڈالی جائے تو حوصلہ اور امید کا کوئی پہلو اجاگر ہونے کے بجائے خدشات کی دھند اور زیادہ گہری ہونے لگتی ہے اس لئے کہ حالات جس تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں دینی حلقوں اور مراکز کے کام کی رفتار کا تناسب اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے مترادف ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم خلائی شٹل کی رفتار کا مقابلہ کسی عمدہ گھوڑے کے ساتھ کرنے کی خواہش ہے کر رہے ہیں ۔
ہمیں نہ ابلاغ اور تعلیم کے جدید اسلوب اور وسائل کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، نہ آج کے حالات سے واقفیت اور درپیش صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے کوئی داعیہ ہمارے دل و دماغ کے کسی کونے میں کروٹ لے رہا ہے، نہ میڈیا اور لابنگ کے جدید ترین ہتھیاروں کی تباہ کاری دیکھ کر ہمارا دل پسیج رہا ہے اور نہ ہی مستقبل کے سامنے نظر آنے والے خوفناک امکانات کا منظر ہمارے احساسات کی کسی تار کو حرکت دینے میں کامیاب ہورہا ہے۔
مجھے نہ خواب کی حیثیت سے انکار ہے اور نہ ہی کرامات کے ظہور کا منکر ہوں لیکن اسے بہرحال بدنصیبی ہی قرار دوں گا کہ مستقبل کی پیش رفت اور کامیابیوں کے لئے ہمارا تمام تر انحصار اب خوابوں کی بشارات اور کرامات کے ظہور کی توقعات پر رہ گیا ہے جو ناممکن تو نہیں لیکن قدرت کے قانون فطرت کے تقاضوں سے بہرحال ہم آہنگ نہیں ہے۔
اہل دین اور علمی مراکز کے اصل میدان ’’غزو فکری‘‘ ’’غزو علمی ‘‘اور تہذیب و ثقافت کا میدان ہے کہ استعمار کی فکری اور ثقافتی یلغار نے ہماری نئی نسل کو فکری ارتداد کے دوراہے پر کھڑا کردیا ہے۔ مشرقی اخلاقیات اور روایات و اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے مگر ہم ابھی تک اپنی کھال میں مست اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ طوفان خود بخود آگے بڑھ جائے گا اور ہم کچھ بھی کئے بغیر اس میں سے صحیح سلامت نکل آئیں گے‘ ہماری آج کی سب سے بڑی ضرورت حالات کا صحیح ادراک کرنے اور اپنے اردگرد کے اس ماحول کو پوری طرح سمجھنے کی ہے جو گلوبلائزیشن کے اس دور میں پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اگر اس میدان کو صحیح طریقے سے سنبھال کر امت مسلمہ میں فکری بیداری اور صورت حال کے صحیح ادراک کا ماحول پیدا کیا جاسکے تو دیگر تمام شعبوں میں بھی اصلاحِ احوال کی عملی صورتیں سامنے آسکتی ہیں اور یہ کام علماء کرام کے کرنے کا ہے، علمی مراکز کے کرنے کا ہے، دینی حلقوں کے کرنے کا ہے، اہل فکر و دانش کے کرنے کا ہے اور سب سے زیادہ دینی مدارس کے اساتذہ کے کرنے کا ہے۔ خدا کرے کہ ہم آج کے حالات میں اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح سمجھ کر انہیں صحیح طور پر بروقت ادا کرسکیں۔
اہل فکر ودانش کی ذمے داریاں
Please follow and like us: