ایک طالب علم کی ایوان اقتدار میں حاضری

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الدین النصیحۃ،النصیحۃ للّٰہ و لکتابہ و لرسولہ و لأئمۃ المسلمین و عامۃ الناس
نصیحت کا مفہوم: نصیحت ہر وہ بات یا عمل جو اخلاص سے ہو اور جوڑ پیدا کرنے کے لئے ہو، عام طور پر اس کا معنی خیر خواہی لیا جاتا ہے۔ 
النصیحۃ للّٰہ کا مفہوم: اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس سے شرک کی نفی کرنا، اس کی جملہ صفات کمالیہ کو ماننا اور اس کو جملہ نقائص سے پاک ماننا، اس کی اطاعت پر کمربستہ رہنا اور نافرمانی سے بچنا۔ 
النصیحۃ لرسولہ کا مفہوم:رسالت کا اقرار کرنا اور حضورؐ کے لائے ہوئے تمام احکامات پر ایمان لانا اور اس کے اوامرونواہی میں اطاعت کرنا، ان کے دین کی مدد کرنا، ان کے بتلائے ہوئے آداب اختیار کرنا، آپ کے اہل بیت اور اصحاب کی محبت دل میں جاگزین کرنا۔ یہ حقوق تمام مخلوق پر واجب ہیں۔ 
النصیحۃ لائمۃ المسلمین کا مفہوم:حق پر مسلم حکمرانوں کی معاونت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا اور ان کی اطاعت سے تلوار لے کر خروج نہ کرنا۔ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ان کی اطاعت نہ کرنا رعایا میں بغاوت اور شورش پیدا کرنے سے پرہیز کرنا۔ 
النصیحۃ لعامۃ المسلمین کا مفہوم: ان کے مصالح کی رعایت کرنا ان کو تکلیف دینے سے پرہیز کرنا ان کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ 
حالات حاضرہ میں جامع حدیث کا پیغام عمل
(۱) تمام مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور قرآن پاک پر عمل ضروری ہے۔ 
(۲)ائمہ مسلمین پر لازم ہے کہ اپنی رعایا کی بھلائی اور خیر خواہی کے اقدام کریں۔ 
(۳)رعایا پر لازم ہے کہ ائمہ مسلمین کی خیر خواہی کریں اور ان کو خیر خواہانہ مشورے دیں، ان کو جان لینا چاہئے کہ حکام بالا اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے بالا تر نہیں۔ حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور تمام حکام کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی چاہئے اور قرآن و حدیث کے تقاضے کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: الاکلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ اپنے اپنے درجے کے مطابق تم سب حاکم اور تم سب سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ کیا تم نے رعایا سے انصاف کیا؟ ان کے حقوق ادا کئے؟ ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لئے مامور کیا؟ جتنا بڑا حاکم ہوگا اتنا ہی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ صدر مملکت اور وزیراعظم بڑے حاکم ہیں ان سے سب ملک کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اس لئے اپنی حکومت کے دوران تمام رعایا کے حالات سے آگاہی اور ان کی خیر خواہی کرنی چاہئے۔ خصوصاً غربا ء کی دیکھ بھال اور معذور طبقے کی نگرانی اولین فرض ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے غلام کو ہدایت جاری فرمائی کہ جنگلات سے غریبوں کے جانوروں کو نہ روکنا۔ حضرت عثمان اور عبدالرحمن بن عوفؓ کے اونٹوں کو بے شک روک دینا۔ تھوڑی بکریوں، تھوڑے اونٹوں والوں کو نہ روکنا کیونکہ اگر ان کے جانور ہلاک ہوگئے تو بیت المال پر بوجھ پڑے گا۔ 
اس لئے حدیث پاک پر عمل کرنے کی غرض سے جسارت کر رہا ہوں اور خیر خواہانہ مشورے جو ایک طالب علم کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ان کو ذکر کرتا ہوں۔ 
وطن عزیز کو درپیش گھمبیر مسائل
(۱) ملک میں اسلامی نظام کی ترویج و تکمیل۔
(۲) ملک میں امن کے لئے دہشت گردی کا سدباب۔
(۳) ملک کو غیر مسلموں کے چنگل سے نجات دلانا۔
(۴) ملکی ترقی کے لئے تدابیر پر غور کرنا۔ 
(۵) غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی اور اس کی تدابیر۔
(۶) مزدوروں اور کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانا۔
(۷) ملک سے رشوت، ظلم اور خود غرضی کے رجحان کو ختم کرنا۔ 
ملک میں اسلامی نظام کی ترویج
(۱) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ان الدین عنداللہ الا سلام پسندیدہ قانون اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو اسلام کے علاوہ قانون سازی کرے گا اسے قبول نہیں کیا جائیگا۔
(۳) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: من لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٓئک ھم الظالمون
(۴) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: من لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٓئک ھم الفاسقون
(۵) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: من لم یحکم بما انزل اللہ فاؤلٓئک ھم الکافرون
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا نظام عدل جب تک قائم رہا حکومت اسلامیہ ترقی کرتی رہی۔ جب اسلامی نظام عدل ترک کرکے بادشاہ عیش و عشرت میں پڑ گئے، رعایا سے عدل کے کرنے کی بجائے ظلم کرنے لگے، رعایا کے حقوق پامال کرکے ظلم کرنے لگے تو حکومت اسلامیہ کو زوال آگیا جو اب تک بڑھتا چلا جارہا ہے۔ جب تک حکمران اسلامی نظامِ عدل کی طرف نہیں لوٹیں گے اور خود غرضی چھوڑ کر ایثار نہیں اپنائیںگے حکومتِ اسلامیہ کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے اسلامی قانون نافذ کرنا ملکی ترقی اور ملکی امن کے لئے ضروری ہے۔ 
ایک تاریخی واقعہ 
مغل بادشاہوں اور مسلمان حکمرانوں کا ہندوستان پر تقریباً ایک ہزار سال تک رعب قائم رہا۔ بادشاہوں نے جب اسلام سے رو گردانی اختیار کی تو انگریز کا رعب قائم ہوا۔ ہندوستان سمیت اکثر ممالک پر برطانیہ کی حکومت قائم ہوئی۔ برطانیہ نے جمہوریت کے عنوان سے قانون بنایا اور اس میں سود کو قانونی تحفظ دیا جس سے امیر، امیر ترین اور غریب، غریب ترین ہوتا گیا۔ دُنیا ایک صدی میں جمہوریت سے تنگ آگئی تو روس نے غریبوں، مزدوروںکو اُکسا کر جمہوریت کے خلاف سوشلزم کا نعرہ لگایا۔ روٹی ، کپڑا، مکان کا پر فریب نعرہ لگا کر ایک بڑی حکومت قائم کرلی لیکن غریب عوام کو اس سے بھی کچھ نہ ملا۔ ستر سال کے اندر غریب مزدور کی چیخیں نکلنے لگیں۔
دُنیا اب دونوں نظاموں یعنی جمہوریت اور سوشلزم سے تنگ آچکی ہے اس لئے دُنیا امن کی متلاشی ہے اور پھر سے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے۔ اس لئے ملک میں اسلامی نظامِ عدل قائم کرنا مسلم حکمرانوں کا فریضہ ہے کہ ملک میں اسلامی نظام کی ترویج و تکمیل فرمادیں۔ 
نفاذِ اسلام کی عملی شکل
یعنی کن خطوط پر کام کیا جائے کہ مختصر وقت میں تشکیلِ اسلام مکمل ہو، اللہ رب العزت نے حکام کے لئے اولین ہدایت جو جاری کی ہے وہ یہ کہ اقامت صلوٰۃ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہو اور ادا ئے زکوٰۃ کریں تا کہ غریب پروری ہو اور امر بالمعروف کریں تاکہ ملک میں امن اور نیکی پھیلے اور نہی عن المنکر کریں تاکہ ملک سے دہشت گردی، چوری، ڈاکہ، زنا جیسے جرائم ختم ہوں اور ان کے لئے جو خدائی احکام ہوں ان کو نافذ کریں۔ 
ملک سے دہشت گردی کا سدباب
انسدادِ دہشت گردی سے پہلے معلوم ہونا چاہئے کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ دہشتگردی کہتے ہیں طاقت کے زور سے کمزور کو رائے بدلنے پر مجبور کر دینا۔ اس طرح ہر طاقتور جو اپنی طاقت سے کمزروں کو رائے بدلنے پر مجبور کرے وہ دہشت گرد ہے۔ اس کے پیش نظر جو ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرتا ہے وہ دہشت گرد کہلائے گا۔ کشمیر، افغانستان، چیچنیا، بوسنیا اسی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ نیز حقِ خود ارادیت کو پامال کرنے والا بھی دہشت گرد کہلائے گا۔ اسلامی نظام کو ختم کرکے مغربی جمہوریت کو طاقت کے زور سے مسلط کرنا بھی دہشت گردی کی تعریف میں شامل ہوگا۔ اس بناء پر کشمیری عوام، افغانستان میں غیر ملکیوں سے اپنے ملک کو پاک کرنے کی جدوجہد کرنے والے مجاہدین، چیچنیا کے مجاہد دہشت گرد نہیں کہلائیں گے بلکہ اپنی آزادی کی کوشش کرنے والے مجاہد ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنا گھر بچاتا ہوا، مال بچاتا ہوا، عزت بچاتا ہوا قتل ہو جائے وہ شہید ہے۔ لہٰذا دوسرے کے گھر پر قبضہ کرنے والا، عزت لوٹنے والا، مال چھیننے والا دہشت گرد کہلائے گا۔ علیٰ ہذا بے گناہوں کو پکڑ کر دہشت گردی کے جرم میں پھنسانے والا دہشت گرد کہلائے گا۔ جھوٹا مقدمہ درج کرا کرکے عدالت کے ذریعے اپنے حق میں فیصلہ کرالینے والا بھی دہشت گرد کہلائے گا۔

پاکستان میں دہشت گردی کی وجوہات
ہندوستان اور دیگر اسلام دشمن ممالک پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے سے روکتے ہیں وہ ملک کے ا ندر دہشت گرد بھیجتے ہیں ان کے جاسوس امن کو تباہ کرتے ہیں جس کی بناء پر ہمارا ملک دہشت گردی کا شکار ہو چکا ہے۔ آزاد قبائل بھی درحقیقت پاکستان کے باغی نہیں بلکہ اس راستے سے جعلی طالبان کارروائیاں کرتے ہیں جو مجاہدین کے ذمہ لگتی ہیں وہ سب ایک صف میں شمار ہوتے ہیں حقیقی مجاہدین کو دہشت گردی کی لسٹ میں سے نکالنا چاہئے اور قبائل میں مذاکرات کے ذریعے ان کو مطمئن کرکے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے جس سے ملک میں امن بحال ہو سکتا ہے ورنہ یہ قبائل بر سرِ جنگ ہو کر حکومت کو کمزور کرنے اور فوج سے نفرت کا سبب بنیںگے۔ ماضی کو مستقبل کا آئینہ بنایا جائے 
خانہ جنگی کے نقصانات
برطانیہ نے دو صدیاںہندوستان پر حکومت کی لیکن ان قبائل کو زیر نہ کر سکا۔ روس دس سال بعد واپس ہوا اور امریکہ اور نیٹو افواج آٹھ سال سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ حکومت پاکستان کا ان قبائل سے الجھائو طویل خلفشار کا سبب بنے گا جس کے تین نقصانات ہیں:
(۱) دائمی خلفشار ملک میں باقی رہے گا جس سے ملک کا امن تباہ ہو جائے گا۔ 
(۲) ہماری عسکری قوت کمزور ہوگی جس سے ازلی دشمن بھارت کو آپریشن کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ 
(۳) عوام کی فوج سے دوری ہوگی اور فوج عوام کی حمایت کے بغیر جنگ نہیں جیت سکتی ۔

ملک کو غیر مسلم طاقتوں سے نجات دلانا 
ملک میں خود انحصاری پیدا کرنا اور غیر مسلموں پر انحصار ختم کرنے کا واحد راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سپر طاقت ہونے پر یقین پیدا کیا جائے۔ حکومت، رعایا مسلمان ہونے کے ناطے سے اس یقین پر عمل پیرا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مقابلے میں کفریہ طاقتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ قرآن پاک کا حکم ہے واعدو الھم ماستطعتم من قوۃ: جتنی طاقت ہے تیاری رکھو جس سے تمہارا اور اللہ تعالیٰ کا دشمن خوفزدہ ہوگا۔ تسخیر کائنات کے جو دو اصول حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ان پر عمل پیرا ہو کر ہی کافروں کو مرعوب کیا جاسکتا ہے۔ 
(۱) بقدر استطاعت تیاری۔ 
(۲) اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری۔ 
ورنہ اسلحہ کی طاقت کافروں کے پاس بھی ہے۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں فوج اور اسلحہ ہمیشہ کم رہا لیکن یقین کی طاقت سے چھوٹی جماعت نے بڑی جماعت پر ہمیشہ غلبہ حاصل کیا۔ ایک اُصول یہ بھی ہے کہ اتحاد پیدا کیا جائے۔ یعنی رعایا اور حکومت میں یکجہتی پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ولا تنازعو فتفشلوا: آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہو جائو گے۔ 
ملکی ترقی کیونکر ممکن ہے
ملک جس انداز سے زوال پذیر ہورہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ساٹھ سال سے اس کی ترقی کا سوچا ہی نہیں گیا اور اگر ترقی نام، فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کا ہے تو پاکستان اس میں بہت ترقی کر چکا ہے۔ اگر علماء کی جماعت، دینی مدارس، تبلیغی محنت ملک میں نہ ہوتی تو نامعلوم کہاں تک ملک پہنچ جاتا اس لئے مغربی طاقتیں دینی مدارس کے نصاف کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ علماء کا قتل ہورہا ہے۔ بعض ذرائع ابلاغ فحاشی پھیلا رہے ہیں اور نوجوان نسل گمراہ ہو رہی ہے اس لئے اولین ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان کو آزادی کی بجائے ہنر مندی، تعلیم اور محنت کا مزاج دیا جائے اس سے ملک میں پیشہ ورانہ افرادی قوت بڑھے گی جو کہ اندرون اور بیرون ملک ملکی ترقی کا سبب بنے گی۔ ذہنی ترقی کے لئے علماء کرام سے تعاون حاصل کیا جائے۔ 
زرمبادلہ کا استحکام
ملکی زائد پیداوار کو بیرون ملک فروخت کرنے کی منڈیاں تلاش کی جائیں۔ مال دیانت داری سے بھیجا جائے تاکہ کسی ملک کو شکایت نہ ہو کہ پاکستان ناقص مال بھیجتا ہے اور اشیاء وزن کے مطابق پوری ہوں بلکہ جھکتی ہوں۔ 
تاجر، صنعت کار حکومت ملکی ترقی کے لئے مذاکرات کریں۔ بیرون ملک سرمایہ جمع کرانے کی پابندی یا کم از کم حد بندی ہو۔ 
ایثار و ہمدردی
حکومت اپنی ذات کی ترجیح دینے کی بجائے ایثار سے کام لے۔ تنخواہیں کم از کم ضرورت کے مطابق مقرر کی جائیں۔ بے کار آسامیوں کو ختم کرکے خزانے سے بوجھ کم کیا جائے۔ اسی طرح ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ کا رجحان کارخانہ دار اور تاجروں سے ختم کیا جائے ۔ 
زراعت پر توجہ دی جائے 
ہمارا ملک زرعی ملک ہے۔ زراعت کی ترقی کے تمام اصول اپنائے جائیں۔ زراعت کے ماہرین کے مشورہ سے زراعت کی پالیسی طے کی جائے اور وہ اشیاء جن سے زرِ مبادلہ زیادہ حاصل ہو اُن کو ترجیحی طور پر کاشت کرایا جائے۔ پاکستان کے آم، کنوں، چاول کی باہر کی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہوتی ہے۔ ان کو ترقی دی جائے۔ کسانوں کو ہر سہولت پہنچائی جائے۔ 
پنجاب میں کپڑا، اُون، کپاس اس طرح سرحد اور بلوچستان میں معدنیات پائے جاتے ہیں جن کو حاصل کرکے زرمبادلہ میں ترقی کی جاسکتی ہے۔ سندھ میں کوئلہ کے بے پناہ ذخائر دریافت ہورہے ہیں۔ ان کو نکال کر ملکی ضروریات پر خرچ کیا جائے۔ وافر مقدار میں بیرون ملک زرمبادلہ کے مستحکم کرنے کے لئے فروخت کیا جائے۔ گیس کے جہاں ذخائر ہیں وہاں پیٹرول بھی ذخائر ہیں۔ ان کو دریافت کرکے ملکی خزانہ کی ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 
کسان اور مزدور
ملک کا سب سے سنگین مسئلہ کسان اور مزدور کا ہے۔ ساٹھ سال میں کوئی حکومت اس کو حل کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوئی۔ مزدور کی رعایت کرکے اگر خوردنی اجناس سستی کی جاتی ہیں تو کسان کو محنت کا پھل نہیں ملتا۔ کھاد اور پانی کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا۔ کپاس، چاول اور گنے کی فصل کو موقع پر سستا کردیا جاتا ہے۔ جب تاجر اور کار خانہ دار کے پاس پہنچتی ہے تو مہنگی کر دی جاتی ہے جس سے کسان کو اس کی محنت کا پھل نہیں ملتا۔ آج کل گنے سے کٹوتی کرکے کار خانہ، کسان کو نقصان پہنچاتا ہے اور اگر کسان کو اس کی محنت کا پورا پورا پھل دیا جائے مثلاً کھاد، ٹریکٹر اور پانی کا خرچ نکال کر اس کی محنت کو ملحوظ خاطر رکھ کر اجناس کے بھائو مقرر کئے جائیں تو کسان خوشدلی سے زیادہ محنت کرکے زیادہ اجناس اگانے کی کوشش کرے گا۔
رشوت، ظلم اور خود غرضی کے رجحان کو ختم کیا جائے
رشوت، ظلم، خود غرضی کے رجحان کو ختم کرکے ایثار و ہمدردی، خدمت خلق کا ماحول مہیا کیا جائے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ سودی نظام کو ختم کیا جائے اس لئے کہ سودی نظام خود غرضی پیدا کرتا ہے آج کل ساری دنیا اس میں جکڑی ہوئی ہے پوری دنیا میں امیر سے لے کر غریب تک حکومت سے لے کر مزدور تک خود غرض بنا ہوا ہے حکومتی طبقہ اپنی تنخواہیں پرتعیش مقرر کرتا ہے اور مزدوری کرنے والا ملازم تنگدستی میں مبتلا ہوتا ہے۔ اسی طرح مزدور بھی کام پورا نہیں کرتا اور مزدوری پوری مانگتا ہے۔ 
قومی اخلاق اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر چل کر ہی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ محکمے بنانے اور قانون سازی کے ذریعے رشوت اور ظلم کا بند کرنا ممکن نہیں۔ 
یکے دزداست دگزپردہ دار (ایک چور ہے اور دوسرا اس کا پردہ رکھنے والا ہے) کا معاملہ ہے۔ جب خود غرضی حکومتی سطح پر آجائے تو سلطنت اجڑ جاتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے!
گربہ میر، سگ وزیرو موش را دیوان کنند ایں چنیں ارکان دولت سلطنت ویران کنند 
’’جب ارکان سلطنت ہی ایک دوسرے کو کھانے والے ہو جائیں تو سلطنت ویران ہو جاتی ہے‘‘
نظام خلافت راشدہ کی ضرورت 
اس انقلاب کو لانے کے لئے خلافت راشدہ کے دور میں جانا ہوگا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے حضرت عمرؓ کو حکم دیا کہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر شکایت سن کر فیصلہ کیا کریں۔ سال کے بعد حضرت عمرؓ نے درخواست کی کہ میرے ذمہ کوئی اور کام لگا دیا جائے، سال بھر کوئی شخص کسی کی شکایت لے کر نہیں آیا۔ 
عادل کی حکومت کو بقاء ہوتا ہے کیونکہ وہ ظلِ رحمت خداوندی ہوتا ہے، اور ظالم کی حکومت کو بقاء نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو ظلِ غضب یعنی عذاب دینے کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ اس لئے امن کا سب سے قوی طریق یہ ہے کہ ملک میں نظامِ عدل اسلامی قائم کیا جائے۔ نظامِ فرنگی، مغربی جمہوریت اور سوشلزم اور کیپٹلزم میں ظلم کا علاج نہیں ہے دنیا اس سے تنگ آچکی ہے اور اب پھر اسلام کے نظامِ عدل کی طرف لوٹنا چاہتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے عوام اور حکومت کا فاصلہ ختم کرکے شیر و شکر بنایا جائے اور حضور ﷺ کی حدیث مبارکہ کے مطابق ہر طبقہ اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے