تعلیم کا لفظ اگرچہ اردو میں طالب علم کے لئے استعمال ہوتا ہے جو غلط مشہور ہوگیا ہے کیونکہ یہ باب تفعیل کا مصدر ہے بمعنی سکھانے کے آتا ہے جو استاذ کا فعل ہے جبکہ طالب علم کے لئے تعلّم آتا ہے یعنی سیکھنا لیکن اس طرح بہت سارے الفاظ ہیں جو غلط استعمال ہوتے ہیں اور واقف حال بھی ماحول کی مجبوری کی بنا پر غلطی کرنے میں عافیت سمجھتا ہے، بہرحال آج کی دنیا پہلے کے مقابلہ میں زیادہ مہذب کہلاتی ہے اور دور حاضر کا انسان قدیم انسان کی بنسبت زیادہ تعلیم یافتہ کہلاتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ گائوں گائوں اور قریہ قریہ تعلیم عام ہوگئی ہے اور ہر بچہ کسی نہ کسی درجہ میں تعلیم سے وابستہ رہتا ہے اگرچہ بعض بچے اب بھی اس نعمت سے محروم ہیں۔
ان تمام تعلیم گاہوں میں اکثریت ان درس گاہوں کی ہے جہاں انسانی بچے کو مشین سازی اور مشین چلانے کا کام سکھایا جاتا ہے خواہ وہ کسی بھی شعبۂ زندگی سے متعلق ہو اگر وہ مزدور ہے تو وہ بھی ایک مشین اور اوزار کا استعمال سیکھتا ہے اور انجینئر ہے تو وہ بھی مشین بنانے یا چلانے کا گُر سیکھتا ہے، جہاں تک مقصد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی تفاوت نہیں پایا جاتا کہ سب کا نصب العین پیسے کمانا ہوتا ہے مگر غریب کا بچہ اپنی بساط کے مطابق کم پڑھتا ہے اور امیر کا بیٹا اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ پڑھتا ہے یا کم ازکم اعلیٰ تعلیم کی ڈگری حاصل کرتا ہے، یہ روش پوری دنیا اور ہر ملک میں جاری وساری ہے مشین کی اہمیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن یہاں ایک بات بطور خاص قابل غور ہے کہ ہم لوگ مشینوں پر تو تحقیق اور محنت کرتے ہیں لیکن خود انسان کیسا ہونا چاہیے اس عظیم مقصد کی طرف ماہرین تعلیم توجہ نہیں دیتے اور جہاں کہیں نصاب میں اچھے اخلاق، آداب معاشرت اور رہن سہن کے اصول شامل ہیں تو ان کی حیثیت ثانوی ہے۔
بحیثیت مسلمان ہمیں اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اچھے معاشرہ کی تشکیل کے لئے یہ بہت اہم ہے، ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم جس استاذ کا انتخاب کرتے ہیں وہ خود کتنا بااخلاق، ماہر تعلیم اور علم کے زیور سے آراستہ ہے اور یہ کہ آیا وہ بچوں کو تعلیم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں اور یہ کہ تعلیم کا آغاز بچے کی کتنی عمر سے کرنا چاہیے اور سب سے پہلے کن کن علوم کی تعلیم دینی چاہیے؟۔
مسلمانوں میں صدیوں پرانے نصاب اور طرز تعلیم کو اگر دیکھا جائے تو اس میں یہ عنصر بہت نمایاں ہے، تاہم اس بارے میں ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ تعلیم میں ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ کونسے علوم پہلے ہوں اور کونسے بعد میں لیکن اس پر اتفاق ہے کہ بچے کو قرآن اور دین کے اصول کی تعلیم بہرحال دی جائے، مزید علوم بچے کے شوق، ذہانت اور حالات پر منحصر ہیں، تعلیم خواہ کوئی بھی ہو مگر یہ ضرور ہونا چاہیے کہ دوران تعلیم بچہ اخلاقی اعتبار سے بہرحال صحت مند ہو، تعلیم میں کوئی ایسا وقفہ یا عنصر شامل نہیں کرنا چاہیے جس سے اچھے اخلاق پر منفی اثرات مرتب ہوں بچوں کو تمام آدابِ زندگی کے ساتھ اپنے پیشے کے آداب ضرور سکھائے جائیں، مثلاً اگر بچہ شاہ یا وزیر کا ہے تو اُسے اچھی سیاست اور رعایا کے حقوق کے بارے میں تعلیم دی جائے اور جو عام شہریوں کے بچے ہیں انہیں حکمرانوں کے حقوق کے متعلق ضروری احکام وقوانین اور آداب سکھائے جائیں، آج آئے دن کسی نہ کسی شہر کی سڑکوں پر جو شور، حکم عدولی کی مثالیں اور ہنگامے ہمیں نظر آتے ہیں یہ اس بنیادی تعلیم کے فقدان کا نتیجہ ہے، کبھی کسی مورخ نے یہ نہیں لکھا ہوگا کہ مدینہ میں ہڑتال ہوئی تھی بغداد میں جلوس نکالا گیا تھا اور دہلی میں املاک جلادی گئی تھیں یہ رسم اس وقت سے چلی ہے جب سے مسلمانوں نے اپنی بنیادی تعلیمات اور بنیادی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں ۔
اس سلسلہ میں مشہور مؤرخ علامہ عبدالرحمن بن خلدون نے ہارون الرشید رحمہ اللہ کی وہ چند نصیحتیں نقل کی ہیں جو ہارون نے محمد امین کے اتالیق احمر کو اس وقت کی تھیں جب انہوں نے امین کو احمر کے حوالے کیا تھا، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
اے احمر! امیر المؤمنین نے اپنے دل کا ٹکڑا اور دل کا پھل تمہارے حوالے کردیا ہے، تم شہزادے پر اپنا ہاتھ پھیلا ہوا رکھو (یعنی انہیں اپنے اشارے پر چلائو!) اور انہیں اپنا فرمانبردار بنائو اور اسی مقام پر رہو جو مقام امیر المؤمنین نے تمہیں عطا فرمایا ہے، انہیں اللہ کی کتاب پڑھائو! تاریخی حقائق سمجھائو! اشعار کی روایت کرائو! (یعنی عربی ادب سکھائو) احادیث کی تعلیم دو، گفتگو کے مواقع بتائو اور بات کرنے کا ڈھنگ سکھائو، ہنسنے پر پابندی لگائو! ہاں کبھی کبھی ہنسی آجائے تو خیر۔
انہیں بتائو کہ جب بنو ہاشم (سیدوں) کے بزرگ آئیں تو ان کی تعظیم کرنے کی عادت ڈالو اور جب حکام اپنی اپنی کچہریوں میں حاضر ہوں تو ان کی بھی تعظیم بجا لائو!۔
خبردار! ایسا کوئی لمحہ نہ آنے پائے کہ تم انہیں کوئی مفید بات نہ بتائو! لیکن اس طرح بتائو کہ یہ دل برداشتہ نہ ہوں، ورنہ ان کا ذہن بجھ کر رہ جائے گا۔ خبردار! ان سے چشم پوشی نہ کرنا! ورنہ ان کے مزاج میں آوارگی وآزادی پیدا ہوجائے گی اور پھر اس کی عادت بن جائے گی حتی الامکان محبت وپیار ونرمی سے زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے پاس بٹھاکر ان کی اصلاح کرو اور آداب سکھائو۔ اگر اس طرح یہ مہذب وشائستہ نہ بنیں تو پھر سخت پکڑو (مقدمۂ ابن خلدون ص۴۶۶ج۲)
بچے کو متادب وباادب بنانے کی ذمہ داری اگرچہ ماں باپ کی بھی ہے لیکن سب ماں باپ اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ آداب زندگی بتاسکیں کیونکہ آدمی دوسروں کو وہی بتاتا ہے جو وہ خود سمجھ سکتا ہے اور لوگ سمجھ بوجھ میں بہت مختلف ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض ماں باپ تو آداب سے تقریباً عاری ہوتے ہیں ایسے میں وہ اپنے بچوں کو کبھی بھی باادب نہیں بناسکتے، اس لئے ہونا یہ چاہیے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے ایسے تعلیمی ادارے کا انتخاب کریں جہاں اچھا ماحول اور بااخلاق اساتذہ اور باادب انتظامیہ ہو، اگر کوئی ماں باپ شعور ی وارادی طور پر اپنے بچوں کی اچھی پرورش کو یا ان کی تعلیم کو نظر انداز کرتے ہوں تو وہ نہ صرف آخرت میں جوابدہ ہوں گے بلکہ ایک شہری ہونے کی حیثیت سے بھی وہ معاشرتی جرم کے مرتکب شمار ہوں گے۔
بچوں کی پرورش، چند ضروری گزارشات
Please follow and like us: