‘‘بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کا فروغ’’

کسی بھی معاشرے کی مضبوطی اور اس کی تعمیر وترقی کی بنیاد معاشرے میں موجود افراد کے درمیان باہمی اعتماد اور ان میں محبت والفت کے قیام میں ہے، ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ انسانیت اور وطن دشمنوں نے ہمین ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا ہے، ہمارے ملک میں مذہبی منافرت اور مسلکی تضادات بہت نمایاں ہیں اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ کئی مرتبہ یہ خونی فسادات میں بھی تبدیل ہوچکے ہیں، مختلف شہروں میں مذہبی حوالے سے ہونے والے فسادات میں ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا ہے تو مسلک کی بنیاد پر ہونے والی خونریزی بھی سیکڑوں شخصیات کو نگل چکی ہے، دین اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کیا ہے اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلم شہریوں کے حقوق خود اپنے ذمہ لیے ہیں، اسی لیے ہمیں سب سے زیادہ اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کسی بھی اسلامی معاشرے کے لیے اس سے بڑی شرمندگی کوئی نہیں ہوسکتی کہ وہاں رہنے والے غیر مسلم شہری اپنے جان ومال کے بارے میں کسی بھی قسم کی تشویش میں مبتلا ہوں۔


دین اسلام میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو معاشرے میں عام کرنے اور مسلمان نوجوانوں کو ان حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنے اور قومی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے مجلس صوت الاسلام نے گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں اور اس سلسلہ میں یونائٹ (Universal Nexus For Interfaith Trust & Engagement) کے نام سے ایک ذیلی تنظیم بھی تشکیل دی گئی جس نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔2015ء کو ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں 26ممالک کی نمایاں شخصیات نے شرکت کی جن کا تعلق دنیا کے 7بڑے ادیان سے تھا۔
اسی طرح مجلس صوت السلام پاکستان ملکی سطح پر بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کررہی ہے اور اپنے قیام سے اب تک ہمارے ہر پروگرام میں تمام مکاتب فکر کو بھرپور نمائنددگی دی جاتی ہے اور نوجوان علماء اور طلباء کے لیے ترتیب دیے گئے پروگراموں میں تمام مکاتب فکر بھرپور شرکت کرتے ہیں۔
مختلف مذہبی ایام میں مذہبی حوالے سے تمام مسالک کو ایک ہی جگہ جمع کرنا اور صرف اور صرف دین اسلام کی بات کرنا یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے، ہماری سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف مختلف مسالک کے نوجوان علماء اور مذہبی راہنما ایک جگہ جمع ہورہے ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کے خیالات اور عقائد کے بارے میں گفتگو کا موقع بھی مل رہا ہے اور آپس کی غلط فہمیوں کے ازالے کے ساتھ ساتھ ان میں تحمل وبرداشت اور رواداری بھی پیدا ہورہی ہے جو یقیناً ہمارے مستقبل کے لیے خوش آئند ثابت ہوگی۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے