اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عالمی بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا جو معروف معنیٰ کے اعتبار سے بھی بین الاقوامی کانفرنس تھی کہ اس میں دنیا کے ۲۶ سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں اورا سکالرز حضرات کے علاوہ پاکستان میں موجود مختلف مذاہب کے رہنمائوں نے شرکت کی اورشرعی اعتبار سے بھی بین الاقوامی کانفرنس تھی کہ اس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں نے اظہارِ خیال کیا ۔
حقیقت کی باریک بین نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کانفرنس نے مذہب اور ہلِ مذاہب کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے ۔
میری خوش قسمتی کہ میں اس کانفرنس کی ابتدائی منصوبہ بندی سے لیکر اس کے اختتامی اجلاس کے بالکل آخری حصہ تک اس کے انعقادوانتظام میں مسلسل شریک رہا ۔ اس کے نتیجہ میں کانفرنس سے متعلق اپنے تاثرات درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیے جاسکتے ہیں:
٭ایک دینی ادارہ کے لیے پاکستان کے عمومی فضاء میں اس قدر بڑے پیمانے پر بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد یقینا ایک بہت مشکل امر ہے ، ہمارے ماحول اور معاشرہ میں اس حوالہ سے مختلف نظریات اور افکار پائے جاتے ہیں ،میں ان افکارو آراء کو ہرگز غلط نہیںقرار دیتا لیکن ان سے کسی قدر اختلاف کا حق یقینا رکھتا ہوں اور اس ضمن میں میرے پاس دلائل بھی ہیں جن کی تفصیلات پھر کسی وقت کے لیے اٹھارکھتے ہیں ۔اس فضاء اور ماحول میں ایک کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر اس کی انتظامیہ یقینا مبارکباد کی مستحق ہے ۔
٭اس کانفرنس کے نتیجہ میں مختلف ممالک اور مختلف مذاہب کے حاملین ایک چھت کے نیچے دو دن مسلسل اکٹھے رہے ،ایک دوسرے کو سنا ، ایک دوسرے سے ملاقاتیں بھی کیں ، اور کھانے بھی ساتھ کھائے،گلے شکوے بھی سامنے آئے لیکن ان کو پوری سنجیدگی ،کامل وقار و تمکنت اور رواداری کے مکمل احساسات و جذبات کے ساتھ سنا گیا ، مقالات بھی پیش کیے گئے ، زبانی گفتگو کی نشستیں بھی ہوئیں ،ان پر سوال جواب بھی ہوئے اور مبصرین نے تبصرے بھی کیے،لیکن کسی بھی موقع پر علمی تمکنت اور وقار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا اور یوں اس دوروزہ کانفرنس نے یہ پیغام دیا کہ اختلاف کے باوجود مخالفت سے بچاجاسکتاہے ۔
٭اس کانفرنس نے دنیائے انسانیت کو بہت اہم پیغام بھی دیا اور یہ پیغام مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ تمام ہی شرکاء نے دیا اور وہ پیغام یہ تھا کہ دنیا ئے انسانیت اس وقت جن گھمبیرمسائل خصوصاً بقائے باہمی اور امن و سلامتی کے جس فقدان کاشکار ہے اس کا بنیادی سبب مذہب بیزاری ہے ،اگر مذہب بیزاری کے اس رجحان پر قابو پالیاجائے اور انسانی معاشروں کومذہب کی تعلیمات اپنانے اور انہیں اپنی عملی زندگی میں زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے تو امن وسلامتی کی خوبصورت فضاء قائم کی جاسکتی ہے۔اس وقت دنیا اگرچہ مذہب کو ہر قسم کی بدامنی کا ذمہ دار ٹھہرا تی ہے لیکن حقیقت یہ ہے اس وقت کی بدامنی کا واحد حل مذہبی تعلیمات کا فروغ اور ان پر عمل درآمد ہے اور اس طرح بدامنی کی واحد وجہ مذہب سے روگردانی ہے۔
٭ اس کانفرنس میں مذہبی رہنمائوں کے درمیان ایک دوسرے کی عزت اور بقائے باہمی کے جس ماحول کا مشاہدہ ہوا،اس نے یہ پیغام بھی دیا کہ پورے پاکستان کی سطح پر مختلف مذاہب کے لوگوں پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جائیں جو مذاہب اور ان کے پیروکاروں کے درمیان اسی ماحول کو فروغ دینے کے لیے مئوثر اور مضبوط کردار ادا کریں اور اس ماحول کو عام آدمی کی سطح پر بھی زندہ کریں،اس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر چھوٹے چھوٹے پروگرامزرکھے جائیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے علماء بھر پور کردار ادا کریں اور ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ کی بنیاد پر دعوتِ دین کے کام کو آگے سے آگے بڑھائیں ۔
٭رابطہ عالمِ اسلامی کے امین العام ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی کانفرنس میں شرکت نے کانفرنس کو چار چاند لگادیئے اور یہ بات واضح ہوئی کہ عالمِ اسلام کو مکالمہ بین المذاہب کے فروغ اور اس کو صحیح جہت دینے کے لیے رابطہ عالم ِ اسلامی کے پلیٹ فارم کو بھی کام میں لایاجائے۔
٭ کانفرنس نے یہ پیغام بھی دیا کہ مختلف اسلامی ممالک پوری شعوری کیفیات سے اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کے آئین اور دستور میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کا اور اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ ان دستوری شقوں پر کس حدتک عمل ہورہا ہے۔
٭ کانفرنس نے یہ پیغام بھی دیاکہ امتِ مسلمہ جہاں کہیں بھی مشکلات میں گرفتار ہے یا اپنے حقوق کو حاصل کر نے کے لیے پیہم کوشش کررہی ہے، اس کی بھر پور مدد کی جائے اور امت کی مشکلات کو کم سے کم کرنے کے لیے مؤثر ذرائع اور وسائل اختیار کیے جائیں ۔
٭ میرا ایمان ویقین اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کانفرنس اور اس کے پیغامات انسانی معاشرہ میں ایک دوسرے کی عزت، بقائے باہمی ،رواداری، اور برداشت کی فضاء کو عام کرنے میں کامیاب و کامران ہونگے اور انسانیت ایک روشن اور پر امن مستقبل سے روشناس ہوگی ۔(ان شاء اللہ تعالیٰ )