تحریک آزادی کشمیر …اخلاقی وسیاسی مدد

ہم پاکستانیوں نے ہمیشہ کہنے کی حد تک کشمیریوں کو اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد کرنے کا دعویٰ دہرایا ہے لیکن آج تک کسی نے آزادی کشمیر کے لئے کوئی ٹھوس کام بہت کم کیا ہے۔حالانکہ جس مقام اور علاقے کو بانی وطن اپنے ملک کے لئے شہ رگ قرار دے دے اور وہ شہ رگ ایک ایسے ملک کے قبضے میں آجائے جو پاکستان کے وجود ہی کا مخالف ہی نہیں بلکہ دشمن ہو اور اس کے وجود کو (اللہ نہ کرے) مٹانے کے درپے ہو، تو اس علاقے کو پنجہ دشمن سے چھڑانے کے لئے کیا کرنا چاہیے، کیا یہ بات دو اور دوچار کی طرح ہر پاکستانی بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کو معلوم نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ابھی تک معلوم نہیں تو مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان کی تحریک آزادی اور یورپ کے کئی ایک ملکوں میں کئی ایک اہم معاملات پر ریفرنڈم کی تاریخ کا مطالعہ کریں ۔
9/11کا ایک بہت بڑا اثر مسلم دنیا پر یہ پڑا کہ کشمیر اور فلسطین میں اپنے بنیادی حق آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو بھی دہشت گردوں کی صف میں لاکھڑا کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اس میں عالم اسلام کے کچھ بڑے بھی اپنے اقتدار کی حفاظت وطوالت کے لئے بری طرح استعمال ہوئے۔ ورنہ تاریخ میں حق پر مبنی جنگ (Just war)اور ظلم پر مبنی جنگ (ungust war)میں ہمیشہ ایک واضح فرق رہا ہے اور آج بھی موجود ہے، اسی بنیاد پر اسلام نے مبنی برحق وانصاف جنگ کو جو انسانیت پر ظلم کو روکنے کے لئے کی جائے کو خیرو فلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے اور اسے جہاد کا نام دیا ہے اور وہ جنگ جو دنیا کے قیمتی وسائل کو زیر قبضہ لانے اور زر زمین کو بزور قوت حاصل کرنے اور کمزوروں کو محکوم وغلام بنانے کے لئے برپا کی جائے کو استعمار، سامراج قرار دیا ہے جو ہر حال میں قابل مذمت ہے اور دنیا کے ہر خطے میں تاریخ کے ہر دور میں ایسے جابر اور ظالموں کے خلاف ہمیشہ مزاحمت ہوتی رہی ہے اور ایسی ہی مزاحمتی تحریکوں کو جس کا ایک حصہ (ونگ) سیاسی امور کی نگرانی کرتا ہے اور دوسرا حصہ عسکری جنگ کی شکل میں استعمار وسامراج کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھتا ہے اور اس جدوجہد کو بین الاقوامی طور پر عرف عام میں جنگ آزادی (War of Liberation)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں برطانیہ کے خلاف امریکہ میں برطانیہ کے خلاف اور اسی طرح اقوام متحدہ کے تقریباً ایک سو پچاس رکن ممالک نے اپنے اپنے وقت کے استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑکر ہی آزادی حاصل کرلی۔ اس لئے آج کی اس نئی دنیا میں جنگ آزادی اور دہشت گردی میں فرق کرنے کے لئے تاریخ کے یہ حوالے بہت مستند ہیں لیکن یہ انسانیت کی اور آج کے زمانے کی بدقسمتی ہے کہ 9/11کے پرآشوب وخون ریز واقعات کے بعد بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی دہشت گردی کی کسی متفقہ تعریف پر متفق نہیں ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے لئے کوئی دہشت گرد کی حیثیت رکھنے والا کوئی شخص کسی دوسری قوم کا ہیرو ہوسکتا ہے اور یہ بھی قابل غور ہے کہ آج کوئی فرد کسی قوم کے لئے دہشت گرد ہوسکتا ہے لیکن کل حالات تبدیل ہونے پر ہیرو بھی ہوسکتا ہے اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے، استاد ربانی، گل بدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، جلال الدین حقانی وغیرہ کبھی امریکی صدر رونالڈ ریگن کے واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے مہمان اور ہیرو تھے اور ریگن کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں کہ ’’یہ مجاہدین عالمی امن کی ضمانت ہیں‘‘ کیونکہ اس وقت وہ روس کے خلاف برسر پیکار تھے اور بعد میں وہ دہشت گرد قرار پائے اور آج بھی دہشت گردوں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔
یہی حال جموں وکشمیر کے مظلوم ومجبور ومقہور عوام کا ہے۔ بھارت نے 9/11کے بعد ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے‘‘ کے مصداق ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیری حریت پسندوں کو بھی دہشت گردوں کی صف میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کسی حد تک وہ کامیاب ہوتے ہوئے بھی دکھائی دینے لگے تھے۔ ایک تو بھارت نے اسرائیل کی دوستی سے مستفید ہوکر اپنے بارڈر پر باڑیں اور الیکٹرانک تار لگوائے جس کے نتیجے میں کشمیری حریت پسندوں کا اپنی عسکری ضروریات کی تکمیل کے لئے آنا جانا بہت محدود ہوکر رہ گیا اور اس کے علاوہ پرویز مشرف کی کمزور اور کنفیوژن پر مبنی پالیسیوں نے نہ صرف پاکستان کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچایا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عشروں سے مستحکم پاکستان کے اصولی اور عملی کردار کو بری طرح مجروح کیا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کے بعد واحد زمینی سہارا پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے دلوں میں پاکستان سے بے لوث محبت ہر دور میں قائم رہی ہے۔ ان کے دل آج بھی ان تمام مظالم کے باوجود پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستانی پرچم آج بھی ان کے جلسے جلوسوں میں لہرارہا ہوتا ہے یہاں تک برہان مظفر وانی کا جسد خاکی پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لحد میں اتارا گیا۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ بہت افسوس ناک ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اب تک وہ کردار ادا نہیں کیا جو کشمیریوں کے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کا وسیلہ بنتا۔ ہماری حکومتوں بالخصوص پرویزی دور نے تو پاکستانی عوام کے جذبات کا خون کرتے ہوئے 9/11کی آڑ میں 2002ء سے جو پالیسیاں اپنائیں، وہ اصولی اور اسلامی اعتبار سے صریح غلط اور سیاسی اور علاقائی سلامتی اور استحکام کے اعتبار سے تباہ کن رہیں۔
لہٰذا اب ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے کشمیریوں کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل ایک نادر موقع پیدا کیا ہے جس میں پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کو جارحانہ انداز میں فعال بناتے ہوئے کشمیریوں کے بنیادی حق خود ارادیت کے حوالے سے اقوام متحدہ اور اپنے سفارت کاروں کے ذریعے دنیا بھر میں ایک ایسی مہم چلائے کہ بھارت کے پاس کہنے اور کرنے کو کچھ رہنے نہ پائے۔
مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت نے آزادی کشمیر کی تحریک کو جو مہمیز دی ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہندوستانی پریس میں ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں جو کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ معروف بھارتی صحافی کلدیپ نائر جو کٹر ہندو اور ہندوستانی ہے، اس تازہ لہر کے بعد لکھتا ہے کہ ’’مسئلہ (کشمیر) کا سیاسی حل نکالنا بہت ضروری ہے‘‘۔
فاروق عبداللہ نے لکھا ’’کہ نئی دہلی نے کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے لہٰذا وہ اپنے حق کے لئے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوگئے‘‘۔ ارون دھتی رائے نے کھل کر لکھا کہ ’’کشمیر میں بھارت کی حیثیت ایک قابض حکمران کی ہے اور جو جدوجہد وادی میں ہورہی ہے وہ ایک قانونی اور جائز تحریک آزادی ہے، وہ جو اس کی تائید نہ کرے وہ اخلاقی طور پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کررہا ہے‘‘۔ کیا ہم پاکستانی سیاست دان چند برسوں کے لئے اپنی سیاسی ومفاداتی تفرقہ بازی چھوڑ کر ایک ایسی قومی حکمت بنانے پر اتفاق کے لئے کوئی سا فارمولا نکال سکتے ہیں جس میں کشمیریوں کی بھرپور انداز میں اخلاقی سیاسی اور سفارتی مدد کریں اور پاکستان میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے اس عظیم مملکت کو اپنے مقصد قیام کی راہ پر ڈالیں!!…

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے