ہمیں چونکہ اپنے علاقے میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے حوالہ سے قادیانیوں سے سابقہ درپیش رہتاہے اس لئے تحفظ ختم نبوت اور رد قادیانیت ایک ہی موضوع کے مختلف عنوان سمجھے جاتے ہیں۔میں آج کے حالات کے تناظر میں اس موضوع پر گفتگو اور جدوجہد کے چند اہم پہلوؤں کی نشاندہی کرنا چاہتاہوں۔
٭اس کا پہلا شعبہ یا دائرہ اعتقادی ہے کہ اہل اسلام کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔آپ ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی وحی ونبوت کا دروازہ بند ہوگیاتھا۔اس لئے جو شخص بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ،وہ اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔اس عقیدہ کی دلائل کے ساتھ عوام کے سامنے وضاحت باربار ضروری ہے تاکہ عام مسلمان کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور ان کا عقیدہ وایمان محفوظ رہے۔علماء کرام کی ایک بڑی جماعت اس سلسلہ میں مصروف کار چلی آرہی ہے اور اس محاذ کی اولین قیادت امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے کی ہے۔
٭دوسرا دائرہ علمی ہے کہ منکرین ختم نبوت بالخصوص قادیانیوں نے اپنے غلط عقائد کو ثابت کرنے کے لئے قرآن کریم کی آیات اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی بے جاتاویلات کا شروع سے بازار گرم کیے رکھاہے اور نیم فلسفیانہ اور نفسیاتی موشگافیوں کے ذریعے خالی الذہن مسلمانوں کو گمراہی کا شکار کرتے رہتے ہیںاس لئے اس قسم کی تاویلات اور خودساختہ دلائل کا جواب دینا اور ان کے دجل وقریب کو واضح کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے تاکہ پڑھے لکھے لوگ اس دجل وفریب سے واقف رہیں اور اس سے اپنے ایمان کا تحفظ کرسکیں۔اس دائرہ میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری،حضرت پیر مہرعلی شاہ گولڑوی ؒاور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒجیسے اکابرعلماء کرام کی رہنمائی میں اہل علم کا ایک طبقہ ہر دور میں خدمات سرانجام دیتا آرہاہے۔
٭تیسرا دائرہ سماجی ہے کہ عقیدہ ختم نبوت سے انکار اور وحی ونبوت کو قبول کرنے سے معاشرہ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کو واضح کیا جائے اور اس کی سماجی نقصانات کی نشاندہی کرکے اصحاب دانش کو ان سے خبردار کیا جائے۔اس سلسلہ میں سب سے ٹھوس کام مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا ہے کہ انہوں نے یہ واضح کیا کہ چونکہ نبی اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کے طور پ غیر مشروط اطاعت کا مرکز ہوتا ہے اور وہی دینی معاملات میں آخری اتھارٹی ہوتا ہے اس لئے نبی کے بدلنے سے وفاداری اور اطاعت کا مرکز تبدیل ہوجاتاہے اور معاشرہ تقسیم ہوجاتا ہے۔اس لئے عقیدۂ ختم نبوت قیامت تک وحدت امت کی اساس ہے اور اس سے انحراف وحدت امت سے انحراف ہے۔
٭چوتھادائرہ سیاسی ہے کہ نبی نبوت اور وحی کے سیاسی عزائم کیا ہیں؟ جیسا کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے خود لکھا میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں اور میری نبوت کا سب سے بڑا مقصد جہاد کو حرام قرار دینا ہے۔ قادیانیوں کے سیاسی عزائم سے آگاہی کے لئے مجاہد ختم نبوت آغاشورش کشمیری کی کتاب’’عجمی اسرائیل‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے،جبکہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اسے اس انداز میں واضح کیا تھا کہ قادیانی یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان میں وہی حیثیت حاصل ہوجو امریکہ میںیہودیوں کو حاصل ہے کہ کوئی پالیسی ان کی مرضی کے بغیر طے نہ ہوسکے۔
٭پانچواں دائرہ تاریخی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں اس کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنیو الے اور نبی و نبوت کے نام سے الگ گروہ بنانے والوں کے حالات لوگوں کے سامنے بیان کئے جائیں تاکہ ان کا انجام ان کے سامنے واضح ہو اور وہ اس سے عبرت حاصل کرسکیں۔اس سلسلے میں اردوزبان میں سب سے زیادہ وقیع کام حضرت ابوالقاسم محمد رفیق دلاوری نے کیا ہے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کے تلامذہ میں سے تھے۔انہوں نے ’’ائمہ تلبیس‘‘کے نام سے دو جلدوں میں جھوٹے مدعیان نبوت کے حالات قلمبند کئے ہیں اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے اسے شائع کیا ہے۔
٭چھٹا دائرہ خلافت کا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ختم نبوت کے حوالہ سے ہی خلافت کا تذکرہ فرمایا ہے ۔بخاری شریف کی روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاسی قیادت انبیاء کرام علہیم السلام فرماتے تھے ۔ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرے نبی تشریف لے آتے تھے۔میرے بعد چونکہ کوئی نبی نہیں آئے گا اس لئے سیاسی قیادت کا فریضہ اب خلفاء سنبھالیں گے۔اس طرح ختم نبوت اور خلافت لازم وملزوم ہیں اس لئے کہ امت کے اجتماعی کاموں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت اور جانشینی کا منصب خلفاء کو عطا کیاگیا ہے۔
٭ساتواں دائرہ نسل انسانی کو اسلام کی دعوت دینے کا ہے کیونکہ دنیا کے ہرانسان تک توحید کا پیغام ،اسلام کی دعوت اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو پہنچانا پوری امت کی اجتماعی ذمے داری بن گئی ہے اور یہ بھی ختم نبوت کی وجہ سے ہے ،اس لئے کہ دعوت کا کام حضرات انبیاء کرام علہیم السلام کا تھا اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے یہ کام امت کو منتقل ہوگیا ہے۔
٭ختم نبوت کے حوالہ سے جدوجہد کا آٹھواں دائرہ یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد امت میں کوئی ایسی شخصیت نہیں آئے گی جو غیرمشروط اطاعت کی حقدار ہو،حتیٰ کی حضرات خلفاء راشدین کی شخصیات بھی معصوم نہیں بلکہ مجتہد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی بات دلیل کی بنیا د پرقبول کی جاتی تھی اور دلیل کے ساتھ اختلاف بھی ہوسکتا تھا۔اس لئے جس طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کونبی اور رسول ماننا جائز نہیں اسی طرح کسی کو معصوم تسلیم کرنا بھی ختم نبوت کے منافی ہے۔
٭نواں دائرہ عالمی ہے کہ قادیانیوں نے آج کے عالمی حالات میں اپنے تحفظ اور فروغ کے لئے بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کو اپنی پناہ گاہ بنارکھاہے۔وہ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی آڑ میں اپنی خودساختہ مظلومیت کا ڈھنڈوراپیٹتے رہتے ہیں اورعالمی اداروں کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں۔اس سطح پر عالمی اداروں اور لابیوں میں قادیانی دجل وفریب کو بے نقاب کرنے اور اہل اسلام کے موقف کو واضح کرنے کے لئے کوئی منظم کام ہماری طرف سے موجود نہیں ہے۔حالانکہ قادیانیوں کی سب سے محفوظ پناہ گاہیں بلکہ مورچے یہی بین الاقوامی ادارے اور فورم ہیں جن پر توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
٭ جبکہ اس سلسلہ میں جدوجہد کا دسواں دائرہ انہیں اسلام کی طرف واپسی کی دعوت دینے اور دعوت کا ماحول پیدا کرنے کا ہے۔جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں چار اشخاص(1)مسلیمہ کذاب(2)اسود عنسی(3)طلیحہ اسدی اور (4)سجاح نامی خاتون نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ان کے باقاعدہ گروہ بنے تھے اورا نہوں نے حضرات صحابہ کرام ؓ کے خلاف جنگیں لڑی تھیں۔ان میں سے اول الذکر دونوں قتل ہوگئے تھے جبکہ طلیحہ اسدی اور سجاح خاتون نے توبہ کرلی تھی۔ان کی توبہ کو قبول کیا گیا تھا اور مسلم معاشرہ میں دوبارہ شامل کرلیاگیا تھا۔طلیحہ اسدی نے حضرت عمر کے دور خلافت میں ایک معرکہ میں جام شہادت نوش کیا تھا اور ان کا تذکرہ محدثین نے شہداء صحابہ میں کیا ہے اور سجاح نے حضرت معاویہ کے دور میں توبہ کرکے کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور ایک عابدہ زاہدہ خاتون کے طور پر ان کی شہرت تھی جب ان کی وفات ہوئی تو ان کاجنازہ حضرت سمرہ بن جندب نے پڑھایا تھا۔
اس حوالے سے میں ایک بات قادیانیوں سے کہاکرتا ہوں کہ انہیں مسیلمہ اور اسود کے راستہ پر بضد رہنے کی بجائے طلیحہ اور سجاح کا راستہ اختیارکرنا چاہئے اور غلط عقائد سے توبہ کرکے مسلم امت میں واپس آجانا چاہئے۔جبکہ دوسری گزارش اہل اسلام سے ہے کہ قادیانیوں کے دجل وفریب کا مقابلہ بھی ضروری ہے لیکن انہیں اسلام کی دعوت دینااور دعوت کے لئے مناسب ماحول پیداکرنابھی ضروری ہے اور یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مقابلہ کا ماحول اور نفسیات الگ ہوتی ہیں جبکہ دعوت کا ماحول اور نفسیات اس سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔یہ دونوں محاذ بہرحال ہمارے ہیں اور ان دونوں کے لئے حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ جدوجہد کی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔