تاریخ انسانی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑا معاشرتی اور اخلاقی انقلاب قرآن کریم اور صاحب قرآن کریم یعنی خاتم الانبیاء‘ امام الرسل، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا‘ ساتویں صدی عیسوی کے ان ابتدائی سالوں میں جبکہ علماء وفلاسفہ اخلاقیات یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ انسانی اخلاق میں تبدیلی اسی طرح ناممکن ہے جس طرح اس کے جسمانی ساخت میں تبدیلی ناممکن ہے۔ آنکھ کو ناک اور ناک کو آنکھ‘ ہاتھ کو پائوں یا پائوں کو ہاتھ‘ دل کو دماغ اور دماغ کو دل سے جس طرح تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انسانی اخلاق میں بھی تبدیلی پیدا کرنا ناممکن ہے۔ یہ تصور ان کے اندر اس لئے موجود تھا کہ انسان آگ‘ ہوا، مٹی اور پانی کے عناصر ترکیبی سے بنا ہے‘ نہ تو انسان سے ان عناصر میں سے کسی عنصر کو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان عناصر کی خاصیتوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ آگ میں سے جلانے اور حرارت کی خاصیت کون نکال سکتا ہے‘ پانی میں سے بہانے کی صفت وخصوصیت کو کون نکال سکتا ہے۔ اس لئے انسانی اخلاق میں تبدیلی کا امکان موجود نہیں ہے۔ اخلاقیات کے اس تصور ونظریہ میں نبی کریم ﷺ نے ایسا اخلاقی انقلاب اور ایسی تبدیلی پیدا کی کہ تاریخ انسانی میں نہ اس سے پہلے کبھی ایسی تبدیلی ہو سکی اور نہ ہی آئندہ ہو سکتی ہے۔ اس اخلاقی تبدیلی کے دو بڑے منابع اور سرچشمے تھے۔
نظریاتی‘ فکری اور اعتقادی اعتبار سے قرآن کریم کی تعلیمات اور عمل واخلاق کے پیکر کے اعتبار سے نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات یہ اخلاقی تبدیلی اس تربیتی نظام کی بدولت ممکن ہوئی، جس کو قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ نے اختیار کیا‘ وگرنہ واقعتاً انسان کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
نبی کریم رئوف رحیم علیہ الف الف تحیۃ وتسلیم نے اپنے اس تربیتی نظام کی بدولت صحابہ کرامؓ کی ایک ایسی جماعت سعیدہ تیار کی جس کا ہر ہر فرد آسیمان وہدایت کا ستارہ تھا‘ نبی کریم ﷺ نے بلا تخصیص واستثنا یہ اعلان فرما دیا کہ میرا ہر صحابی‘ ستارے کی طرح جس کی پیروی کرو گے‘ راہ ہدایت پا جائو گے۔
ستاروں اور سیاروں کے نظام کی معلومات اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ ستارہ زیادہ روشن اور چمکدار ہوتا ہے‘ اس کی روشنی اور چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور کسی ستارے کی روشنی اور چمک مدہم ہوتی ہے یا فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے کم محسوس ہوتی ہے، اسی طرح اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آسمان ہدایت کے ستارہ ہیں، کوئی سراج منیر سے زیادہ قریب ہے جس کے نتیجے میں زیادہ روشن‘ زیادہ چمکدار اور زیادہ ہدایت دینے والا ہوتا ہے۔
جب ہم اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کا اس اعتبار سے جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس آسمان ہدایت کا سب سے روشن اور سب سے زیادہ چمکدار ستارہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ صدیق اکبرؓ نے سراج نبوت سے سب سے زیادہ فیض حاصل کیا اور اپنے قلب ودماغ تعلیمات ربانی اور ہدایات نبوی ﷺ سے اور اپنے اخلاق وکردار کو اسوۂ نبوی ﷺ سے روشن اور منور کیا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہیں‘ بہادر سپہ سالار‘ جرأتمند حکمران‘ صدق وصفا کا پیکر‘ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک بہترین مربیٔ اخلاق اور صوفی۔ آج ہم صدیق اکبرؓ کی شخصیت کے اس پہلو کاجائزہ لیں گے۔
تصوف کی تعلیمات پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ اس کی چند ایک اہم بنیادیں ہیں۔
تصوف کی تعلیمات کی سب سے بڑی اور سب سے اہم بنیاد اخلاص کے ساتھ عقیدۂ توحید ہے، جس شخص کے دل میں عقیدۂ توحید پختہ نہیں‘ اس کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔
تصوف کی دوسری اہم بنیاد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ‘ اللہ کے احکام کی اتباع اور سنت نبوی ﷺ کی پیروی سے ہٹ کر کسی راستے کا نام تصوف نہیں ہو سکتا۔
تصوف کی تیسری اہم بنیاد تربیت حاصل کرنا‘ فیض صحبت سے فیضیاب ہونا اور پھر اس صحبت سے دوسروں کو فیضیاب کرنا ہے۔ تصوف کی چوتھی بنیاد واساس عمل واخلاق، صدق وصفا کا پیدا ہو جانا ‘ عمل واخلاق میں بناوٹ اور تصنع‘ جھوٹ اور منافقت رکھنے والا شخص کبھی صوفی کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
تصوف کی پانچویں اور آخری بنیاد واساس ذکر اللہ‘ مجاہدہ اور فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ہے۔ مجاہدہ اور اللہ کی راہ میں اپنا تن، من، دھن‘ سب کچھ قربان کر دینے کیلئے ہر وقت تیار رہنا تصوف کی اہم ترین اساس وبنیاد قرار پاتا ہے۔
تصوف کی ان بنیادوں کی روشنی میں ہم صدیق اکبرؓ کی زندگی، آپ کی سیرۃ حیات اور آپ کے فضائل وکمالات کا جائزہ لیتے ہیں۔
جہاں تک عقیدۂ توحید کا تعلق ہے، حضرت ابوبکر صدیقؓ مکہ مکرمہ کی ان چند بلکہ ان گنی چنی شخصیات میں سے ہیں، جو اس وقت بھی شرک اور بت پرستی سے بیزار اور متنفر تھے، جبکہ پورا معاشرہ اسی میں مبتلا تھا‘ افراد معاشرہ نے عبادت وبندگی کیلئے ایک دو نہیں 365 بت منتخب کئے ہوئے تھے اور ان کی پوجا وپرستش میں مبتلا تھے اور ان لوگوں کے پاس عقیدۂ توحید تھا نہ توحید کا کوئی تصور‘ توحید کی طرف کوئی بلانے والا تھا‘ نہ عقیدۂ توحید میں دلیلیں دینے والا‘ ایسے میں پورا معاشرہ اپنے آباء واجداد کی کورانہ تقلید میں شرک اور بت پرستی کے میدان میں سرپٹ دوڑ رہا تھا‘ لیکن ابوبکر صدیقؓ وہ شخصیت ہیں‘ جو اس زمانے میں بھی شرک اور بت پرستی سے بیزار اور متنفر تھی اور اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی بڑی گہری اور مضبوط دوستی اسلام سے قبل ہی موجود تھی، جب ہم تصوف کی دوسری بڑی بنیاد واساس کی روشنی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اللہ اور اس کے رسول کی سچی اطاعت کا پیکر تھے، آپ نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں بلکہ بحیثیت خلیفہ راشد قومی ومعاشرتی زندگی میں ایک لمحہ کیلئے بھی یہ بات برداشت نہ کرتے تھے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام وتعلیمات سے ذرہ برابر بھی انحراف کیا جائے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دنوں میں حضرت اسامہؓ کی قیادت میں ایک لشکر شام کی جانب روانہ کیا تھا‘ ابھی یہ لشکر مدینہ سے کچھ فاصلہ پر ہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حادثہ پیش آگیا۔ صدیق اکبرؓ جب خلافت پر متمکن ہوئے تو صحابہ کی رائے یہ تھی کہ اس لشکر کو واپس بلالیا جائے، کیونکہ اس وقت حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ افرادی قوت کو مدینہ منورہ میں جمع رکھا جائے۔ صحابہ کی اس رائے کو سننے کے بعد صدیق اکبرؓ نے فرمایا:
اگر جنگل کے کتے اور بھیڑیے مدینے میں داخل ہو کر مجھے اچک لے جائیں‘ تب بھی میں وہ کام کرنے سے نہیں رکوں گا، جس کے کرنے کا حکم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔
تصوف کی تیسری اہم بنیاد واساس فیض صحبت سے فیضیاب ہونا اور پھر اس فیض کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا‘ صحابہ کرامؓ کی اس جماعت سعیدہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ فیض نبوت سے جس قدر انوار وبرکات صدیق اکبر نے حاصل کئے تھے‘ جس گہرائی اور گیرائی سے اپنے اخلاق وکردار کو فیض نبوت سے منور کیا تھا‘ وہ آپ ہی کا حصہ ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے اندر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وصفات کا عکس نظر آنے لگا۔
مسلمانوں پر اہل مکہ کی سختیاں جب حد سے بڑھنے لگیں تو صدیق اکبرؓ نے ایک دن مکہ سے ہجرت کا ارادہ کیا اور اس ارادے سے حبشہ کی طرف چل پڑے، ابھی برک الغماد جو مکہ مکرمہ سے یمن کی جانب پانچ روز کی مسافت پر تھا‘ وہاں پہنچے تو بنو قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوگئی‘ ابن الدغنہ نے دریافت کیا: کہاں کا ارادہ ہے؟ سیدنا صدیق اکبرؓ نے فرمایا: میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے، اب سوچتا ہوں کسی اور ملک چلا جائوں اور وہاں نہایت دلجمعی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کروں۔
اس پر ابن الدغنہ نے کہا:
فان مثلک یا ابا بکر لایخرج ولایخرج انک تکسب المعدوم وتصل الرحم‘ وتحمل الکل وتقری الضیف وتعین علیٰ نوائب الحق۔
تمہارے جیسا شخص اے ابوبکر‘ نہ نکلے گا‘ نہ نکالا جائیگا‘ تم غریبوں کی مالی مدد کرتے ہو‘ صلہ رحمی کرتے ہو‘ اپاہجوں کا سہارا ہو اور حق کی طرف سے حوادث کا مقابلہ کرتے ہو۔
ذرا غور فرمائیں یہ وہی الفاظ ہیں جو پہلی وحی پر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت فرمائے تھے، جب آپ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تھی اور آپ ﷺ غار حرا سے واپس گھر تشریف لائے تھے تو سیدہ خدیجہؓ نے فرمایا:
انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علیٰ نوائب الحق۔
یہ اسی اطاعت وفرمانبرداری کا نتیجہ تھا کہ جو صدیق اکبر کی زندگی‘ آپ کی سیرۃ حیات کا خاصہ تھی اور پھر نہ صرف آپ نے بڑی گہرائی اور گیرائی سے فیض نبوت سے کسب فیض کیا، بلکہ سلاسل صحابہ میں خواجہ جنید بغدادی کے واسطے آج بھی امت صدیق اکبر سے کسب فیض کر رہی ہے۔
تصوف کی چوتھی اہم بنیاد واساس اعمال میں اخلاص‘ قول وکردار میں صداقت اور اخلاق میں صفا ہے۔ صدیق اکبرؓ پیکر صدق وصفا ہیں۔ آپ کے اخلاص وصفا کی سب سے اہم دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت میں رفیق بنانا ہے کہ پورا مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے‘ اعلان کیا جا چکا ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کو پکڑکر لائے گا۔ سو بہترین اونٹ انعام حاصل کرے گا‘ ایسے میں صرف ایسے ہی شخص کو رفیق سفر بنایا جا سکتا ہے کہ جس کے صدق واخلاص میں ذرہ برابر بھی شک نہ ہو۔
تین دن غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام فرمایا، جب آپؓ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو منکرین زکوٰۃ کا فتنہ کھڑا ہوا‘ آپؓ نے واضح الفاظ میں ان لوگوںکے خلاف جہاد وقتال کا اعلان کیا اور واقعتاً اپنے صدیق ہونے کا ثبوت دیا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد ایک دن عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے صدیق اکبرؓ غار ثور کی ایک رات یا منکرین زکوٰۃ کیخلاف اقدام والا دن مل جائے اور میری تمام زندگی کی نیکیاں صدیق اکبرؓ کو دیدی جائیں تو مجھے یہ سودا منظور ہے۔
یہی صداقت تھی جس نے صدیق اکبرؓ کو پیکر استقامت بنا دیا تھا۔ صلح حدیبیہ میں تمام صحابہؓ سخت پریشان تھے‘ لیکن صدیق اکبر مطمئن تھے۔ حضور ﷺ کے وصال کے روز صحابہؓ کو اگر قرار آیا تو وہ صدیق اکبرؓ کی تقریر سے آیا۔
تصوف کی پانچویں بنیاد فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول ہے۔
غزوۂ تبوک کا موقع ہے‘ صدیق اکبرؓ اس کیلئے اپنی کل جمع پونجی لاتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دریافت کرتے ہیں کہ گھر میں کیا چھوڑ کر آئے‘ پیکر صدق وصفا عرض کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کو۔
بقول شاعر:
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کیلئے ہے خدا کا رسول بس … صلی اللہ علیہ وسلم
شاہ ولی اللہ علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں تصوف صدیق پر طویل بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ کمال طریقت کیلئے جن اوصاف وملکات کی ضرورت ہے، یہ سب حضرت ابوبکر ؓ میں بتمام وکمال پائے جاتے تھے۔ اس بنا پر آپؓ طائفہ اصفیاء اور اہل طریقت کے سردار اور امام تھے۔
اور بقول حضرت علی ہجویریؒ تصوف کی جڑ اور بنیاد صفا ہے، اس صفت کی ایک اصل ہے اور ایک فرع‘ اصل انقطاع عن الاغیار (غیر اللہ سے دل کا خالی ہونا) اور فرع دنیا سے دل کا خالی ہونا ہے۔ ابن سعد الطبقات الکبریٰ میں حضرت عائشہؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے بوقت وفات فرمایا: ہمارے پاس مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے کچھ نہیں ہے‘ نہ تھوڑا نہ بہت‘ سوائے اس حبشی غلام کے‘ اس پانی کھینچنے والے اونٹ کے اور اس پرانی چادر کے‘ جب میں مر جائوں تو انہیں عمر کے پاس بھیج دینا اور بری ہو جانا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا، جب قاصد عمرؓ کے پاس یہ اشیاء لیکر آیا تو عمرؓ اتنے روئے کہ آنسو زمین پر گرنے لگے‘ کہنے لگے: اے اللہ! ابوبکرؓ پر رحمت کر‘ انہوں نے اپنے بعد والے کو مشقت میں ڈالدیا۔
آج جب ہم مختلف قسم کے معاشی‘ اخلاقی‘ روحانی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں‘ ہمارے لئے صدیق اکبرؓ کی شخصیت ان کی سیرت وکردار اور ان کی صوفیانہ اقدار و روایات روشنی کا مینار ہیں‘ ہمیں اپنی زندگی میں صدیق اکبرؓ کی توحید، اطاعت‘ استقامت‘ صبر‘ دین وایمان سے محبت اور دنیا سے بے رغبتی کے جذبات واحساسات پیدا کرنے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضیٰ سوز صدیق دے
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین
’’تصوف صدیق اکبرؓ ‘‘
Please follow and like us: