امیدوں کا نیا سفر
8جنوری 2015ء جمعرات کا دن دینی مدارس ،مذہبی حلقوں اور مذہب سے وابستہ نوجوانوں کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا، یہ وہ دن تھا کہ جب دارالحکومت اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں صبح ہی صبح چہل پہل کا آغاز ہوا اور دھیرے دھیرے کنونشن سینٹر نورانی چہروں، روشن آنکھوں اور عزم وہمت سے بھرپور شخصیات اور نوجوانوں سے جگمگانے لگا اور دینی مدارس کی سطح پر ایک تاریخی عمل کا آغاز ہونے لگا اور تاریخ کے سب سے بڑے تقریری مقابلے کے آخری مرحلے میں شریک ملک بھر سے منتخب 12باصلاحیت مقررین کے خیالات اور جذبات سے ایک نئی صبح کا آغاز ہوا۔ مجلس صوت الاسلام پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور بڑے اعزاز سے نوازا اور کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلے کا یادگار اور باوقار اختتام ایک اور تاریخ رقم کرگیا، سچ ہے کہ اگر ارادے مضبوط وتوانا ہوں، صدق واخلاص کا ساتھ حاصل ہو اور خدمت خلق کا جذبہ دل میں موجزن ہو تو پھر رکاوٹیں مٹی کا ڈھیر اور مشکلات آسانی سے سر ہوجاتی ہیں۔ میرے لیے انتہائی مشکل ہورہا ہے کہ اس عظیم داستان کا آغاز کہاں سے کروں اور اسے کس طرح اختصار کے ساتھ بیان کروں بہرحال کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلہ مجلس صوت الاسلام پاکستان کی عظیم خدمات کا حصہ تھا جس کا مقصد دینی مدارس اور ان کی اہمیت کو معاشرہ کے سامنے پیش کرنا اور دینی مدارس کے طلباء کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تھا۔
دینی مدارس اسلامی معاشرہ کا اہم ترین حصہ ہیں اور مسلمانوں کا کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا کہ جب تک اس میں مسجد اور مدرسہ تعمیر نہ کیا جائے، دینی مدارس ایک لازوال داستان رکھتے ہیں، آج جتنے بھی جدید علوم اور فنون دنیا میں انسانیت کی تعمیر اور انسانوں کی خدمت میں مصروف ہیں کہیں نہ کہیں ان کے آغاز میں دینی مدارس کا بھی حصہ ہے، آج کی جدید دنیا کے تقریباً تمام علوم کا آغاز ماضی کے مدارس میں پڑھنے والے علماء ہی کے ذریعے ہوا لیکن افسوس نامساعد حالات ،ظلم وجبر اور مالی مشکلات کی وجہ سے یہ دینی مدارس اپنی عظیم روایات سے محروم کردیے گئے اور دھیرے دھیرے ان کا کردار محدود سے محدود تر ہوتا گیا لیکن ان مدارس کا یہ شرف واعزاز بہرحال برقرار رہا کہ دینی علوم میں اب بھی یہ قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔
معاشریے میں مدارس دینیہ پر تنقید ایک روایت بنتی جارہی ہے اور تقریباً ہمارے تمام مسائل کی وجہ کسی نہ کسی طریقے سے دینی مدارس اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس بغیر کسی ثبوت اور ٹھوس وجہ کے تمام مدارس کو شک وشبہ سے دیکھنے والوں نے کبھی بھی دینی مدارس میں اصلاح کے لیے نہ تو کوئی تجاویز پیش کیں اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل مرتب کیا۔
بہرحال دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے کہ جتنا کہ کسی دوسرے کا ہے، دینی مدارس کے طلباء میں یہ جذبہ اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے کہ معاشرے میں وہ بھی اہمیت کے حامل ہیں اور وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معزز شہری ہیں، دینی مدارس سے وابستہ لاکھوں نوجوانوں میں یہ جذبہ بیدار کرنا کہ وہ ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ہمیں یقین ہے کہ یہ نوجوان ملک وقوم کا اہم ترین حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا قیمتی اثاثہ بھی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مجلس صوت الاسلام پاکستان نے ہمیشہ مذہب سے وابستہ نوجوانوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی سے بچانے کے لیے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور ان میں یہ احساس اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ معاشرہ کی تعمیر وترقی میں ان کا کردار نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
ہمارا یہ یقین کامل ہے اور ہم نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ نوجوان علماء اور طلبہ اس وقت تک معاشرہ میں کلیدی کردار ادا نہیں کرسکتے کہ جب تک وہ نبی کامل صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کو اپنا نہیں لیتے اور اسی نبوی منہج پر دعوت وتبلیغ کا سلسلہ شروع نہیں کرتے، ہمارے نوجوانوںں کو تحمل وبرداشت، محبت واخلاص، دلیل وحکمت اور انسان کی محبت سے آراستہ ہوکر معاشرہ میں خدمات سرانجام دینا ہوں گی، دور حاضر کے مسائل کا ادراک کرنا ہوگا، معاشرتی اور سماجی برائیوں کو جان کر ان کا حل پیش کرنا ہوگا اور دعوت وتبلیغ کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال میں بھی مہارت حاصل کرنا ہوگی۔ کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلے کی بنیاد بھی انہی مقاصد پر رکھی گئی اور نوجوانوں کو منبر ومحراب کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور انہیں اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ نہایت ہی عمدگی سے صحیح اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں اور ملک وقوم کی رہنمائی کریں یہ بھی اس تاریخی قدم کی ایک اہم وجہ تھی، ہمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ملکی سطح پر منعقد ہونے والے اس تاریخی عمل میں پہلی مرتبہ تمام مسالک کے دینی مدارس کے طلباء کو یکساں طور پر موقع فراہم کیا گیا۔
ہمارے اس عمل کو بھی سراہا گیا اور بڑی تعداد میں مختلف مسالک کے نوجوانوں نے اس میں شریک ہوکر ملک میں بین المسالک ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا اور ملکی سطح پر ایک نئی روایت قائم کی۔
’’کل پاکستان بین المدارس تقریری مقابلہ‘‘ مشکل حالات اور کٹھن صورتحال میں ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے اور ہمیں امید ہے کہ دیگر تنظیمیں اور ادارے بھی ہمارے اس تجربے سے فائدہ اٹھائیں گے اور اس طرح کی تقاریب کے ذریعے محبت واخوت ،امن وسلامتی اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دیں گے۔