تفصیل

یونائٹ کے زیر انتظام 24اور 25نومبر 2015ءکو اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں دو روزہ عالمی بین المذاہب کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 26ممالک سے 130افراد پر مشتمل وفود جن میں سات بڑے مذاہب کے سرکردہ روحانی ومذہبی رہنماؤں سمیت بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالرز، علمائ، زعماءاور سیاسی ومذہبی لیڈرز شریک تھے۔دو روزہ کانفرنس میں افتتاحی، اختتامی اور ایک جنرل سیشن کے علاوہ چھ ورکنگ سیشنز منعقد کیے گئے اور مجموعی طور پر 75سیاسی ومذہبی رہنماؤں نے اظہار خیال کیا۔ جن میں 26باقاعدہ مقالے بھی شامل تھے۔کانفرنس کے اختتامی سیشن میں 26ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ پیش کیا گیا جبکہ مختلف قرار دادیں اور سفارشات بھی پڑھی گئیں۔عالمی بین المذاہب کانفرنس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ یونائٹ کے زیر انتظام اسلام آباد میں عالمی معیار کا ڈائیلاگ سینٹر قائم کیا جائے گا جس میں مختلف مذاہب کی معلومات پر مشتمل انٹرنیشنل لائبریری بھی قائم کی جائے گی۔ ڈائیلاگ سینٹر میں ایک ایسا شعبہ قائم ہو گا جو تنازعات اور مسائل کے حل کے حوالے سے آن لائن خدمات فراہم کرے گا اور اس شعبے کا رابطہ دنیا بھر کے مختلف ڈائیلاگ سینٹرز سے قائم کیا جائے گا۔ ڈائیلاگ سینٹر کو بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی ورواداری کے لیے انتہائی اہم اور موشر کاوش قرار دیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پر اپنی نوعیت کا یہ پہلا قدم ہوگا ۔
مختلف مذاہب کے درمیان اتحادوہم آہنگی مجلس صوت الاسلام اور یونائٹ کے چیئرمین مفتی ابوہریرہ محی الدین کے اس وژن کا نام ہے جو وہ گزشتہ کئی سالوں سے لیکر چل رہے ہیںاور بدامنی، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کی فضا میں محبت واخوت اور امن کا علم بلند کررہے ہیں جس کے لئے انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انتھک محنت کی ہے۔ ہمیں امید قوی ہے کہ ان کی یہ محنت اب ضرور رنگ لائے گی تسلسل کے ساتھ محنت کے بعد الحمدللہ تدریجاً اچھے نتائج برآمد بھی ہورہے ہیں جس کی ایک عمدہ مثال عالمی بین المذاہب کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہے ۔ اللہ رب العزت کے فضل وکرم سے مجلس صوت الاسلام اور یونائٹ نے نامساعد حالات کے باوجود ملکی وبین الاقوامی سطح پر امت کا درد رکھنے والے بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کرلیا ہے جس کی آواز پر وہ لبیک کہتے ہیں ۔ اسی اعتماد کی بدولت دنیا کے سات بڑے مذاہب کے نمائندے 26ممالک سے سفر کرکے اسلام آباد تشریف لائے۔ ہمیں اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ ہمارے پلیٹ فارم سے اسلام آباد کی فضاؤں سے عالمی سطح پر امن واخوت اور ہم آہنگی کا پیغام دیا گیا ہے جس سے پاکستان کی نیک نامی میں یقینا اضافہ ہوا ہے۔ 
عالمی کانفرنس کے دوران ہم نے عالمی رہنماؤں سے جو کہا جو سنا یا جو محسوس کیا اس کو اگر کانفرنس کے پیغام کے طور پر ذکر کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ ہمارے مختلف مذاہب ، مختلف خیالات اور عقائد رکھنے والے یہ تمام معزز مہمان اس نکتے پر متفق ہیں کہ آج انسانیت کو سب سے بڑا اور مشکل چیلنج دہشت گردی، قتل وغارت گری اور خوف ودہشت کی فضا ہے، ہم سب نے مل کر اس گھٹن والی فضا سے نکلنا ہے، ظلم کی زنجیر کو توڑنا ہے ، غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے، اپنے معاشروں میں امن و اخوت کی فضا قائم کرنی ہے، مذاہب اور مذاہب کی عمدہ تعلیمات کو عالمی امن کی بنیاد بنانا ہے جس پر” جیو اور جینے دو“ کے سلوگن پر مشتمل حسین عمارت تعمیر کرنی ہے اور اس عمارت کی تعمیر میں آنے والے ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہے۔ 
عالمی بین المذاہب کانفرنس میں سب ہی اس بات پر پریشان دکھائی دیے کہ شرپسند اور انسانیت کے قاتل عناصر مذہبی تعلیمات کو غلط استعمال کرکے نوجوانوں کو فتنہ وفساد کی طرف شدت اور دہشت پھیلانے کی طرف مائل کرنے میں مصروف ہیں اور ہمیں افسوس ہے کہ یہ عناصر اور گروپ دن بدن معاشروں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں اور ظلم وتشدد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں امن پسند قوتوں کو اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے، مختلف خیالات اور عقائد کے لوگوں کو منافرت کے بجائے محبت والفت کا مظاہرہ کرنا چاہیے ،اپنے درمیان مذہبی رواداری کو فروغ دینے کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اپنے اپنے ملکوں اور معاشروں میں نفرت اور عداوت پھیلانے والے شدت پسند گروپوںکے مقابلے میں حکمت وتدبر، انسانیت سے محبت اور دوسروں کے عقائد ونظریات کے احترام کا پیغام عام کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ دہشت گردی، قتل وغارت گری اور فتنہ فساد پھیلانے والے تمام عناصر کی قوت وطاقت ہمارے نوجوان ہیں جنہیں نفرت وعداوت کی جنگ کا ایندھن بنایا جارہا ہے اورہمارے ہی نوجوان غلط فہمی کا شکار ہوکر ہمارے ہی شہروں اور انسانی معاشرے کو نقصان پہنچارہے ہیں ، شدت پسندی کی اس انتہا کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم معاشروں میں پھیلی آپس کی غلط فہمیوں ،مختلف مذاہب کے درمیان بڑھتی ہوئی منافرت اور ایک دوسرے کے عقائد اور مذہبی شخصیات کا احترام معاشروں میں پیدا نہیں کرلیتے۔ جب تک ہم معاشروں میں مذہبی بنیاد پر ہونے والی تفریق کا خاتمہ نہیں کرلیتے ہم اپنا نصب العین اور اپنی منزل حاصل نہیں کرسکتے، ہمیں ان عناصر کا راستہ روکنا ہوگا جو دہشت گردی کی جڑیں مذاہب میں تلاش کرتے ہیں ۔ اقوام عالم سے یہ بھی اپیل کی گئی کہ دہشت گردی صرف دہشت گردی ہے اس کی کوئی اور توجیہ نہ کی جائے اور دہشت گردی کو اپنے مذہبی ومسلکی زاویوں سے دیکھنا ایسا عمل ہے جو ہمیں منزل سے دور کرسکتا ہے۔ کانفرنس کے شرکاءسے یہ اپیل بھی کی گئی کہ مختلف مذاہب اور مختلف عقائد اور خیالات کے حامل تمام نوجوان انسانیت کے احترام، آپس میں محبت والفت پھیلانے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور مذہبی شخصیات اور مذہبی عقائد کی توہین سے باز رہیں اور معاشرہ میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے جیسے اہم ایشوز پر متحد ومتفق ہوجائیں ۔
یونائٹ کے تحت ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں اس بنیادی بات کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی کہ دنیا کی تعمیر وترقی مذہبی تعلیمات سے ہی وابستہ ہے اور مذہب کا راستہ اپناکر ہی اقوام عالم منزل پاسکتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں مذاہب کا کردارکم ہونے سے معاشرے میں نفرتیں ‘ عداوتیں اور دوریاں بڑھتی چلی گئیں آج کا انسان اگر آسمانی تعلیمات کی طرف لوٹ آئے تو سوسائٹی کا تعلق اللہ سے قائم ہو جائے گا اور یہ دنیا ایک پرامن اور بھائی چارگی کا بہترین نمونہ بلکہ جنت کا منظر پیش کرے گی۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے