فطری بات ہے کہ جب بھی کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو لوگوں کی توجہ اس کی جانب ہوجاتی ہے اور پھر تبصروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، 29فروری کو ممتاز حسین قادری کی پھانسی کی خبر سنتے ہی اہلیان پاکستان کے مختلف ردعمل سامنے آنا شروع ہوئے جو ابھی تک جاری ہیں ہمارے لئے تو یہ دکھ کی بات ہے مگر شاید کسی کو خوشی بھی ہوئی ہوگی، بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ توہین رسالت کے مسئلہ پر فقہائے کرام کی مفید ابحاث بھی سامنے لائی جائیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہنا چاہتے ہیں چونکہ یہاں بہت سارے سوالات نے جنم لیا ہے کہ آیا گورنر پنجاب، سلمان تاثیر نے جو الفاظ کہے تھے، وہ ان کے حلف کے منافی تھے یا نہیں؟ وہ توہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں؟ اگر آتے تھے تو انہوں نے اس سے توبہ کی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں کی تھی تو ان کو سزا کیوں نہیں ہوئی؟ اور کیا ایک عام شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ازخود مجرم کو سزا دے دے؟ سلمان تاثیر نے اپنے کلام کی کوئی وضاحت کی تھی یا نہیں؟ اور کیا قادری صاحب کی سزائے موت شرعی وقانونی تقاضوں کے مطابق تھی یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے میں یہاں علامہ شامی رحمہ اللہ کے رسالہ ’’تنبیہُ الولاۃ والحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام واحدا صحابہ الکرام علیہ وعلیہم السلام‘‘ کا مختصر خلاصہ نقل کرنا چاہتا ہوں جو اس موضوع پر فقہہ حنفی میں جامع اور مدلل ومعتدل موقف پر مشتمل کتاب ہے۔ علامہ شامی نے اپنے اس رسالہ کو دو بابوں پر منقسم کیا ہے جیسا کہ نام سے واضح ہے۔ پہلا باب شاتم رسول اور دوسرا شاتم اصحاب رسول سے متعلق ہے یہاں پہلے باب کا خلاصہ پیش ہے۔
علامہ شامی لکھتے ہیں ’’عام مرتد کا حکم یہ ہے کہ اسے پہلی فرصت میں قتل کرنا مکروہ ہے، پہلے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اور تین دن تک اس کے ردعمل کا انتظار کیا جائے گا اگر وہ اسلام کی طرف واپس لوٹے تو اسے معاف کرکے اسلام اور توبہ کو قبول کیا جائے گا ورنہ اسے قتل کیا جائے گا وہ عام کافر کی طرح صلح یا جزیہ کا حقدار نہیں ہے یہ حکم مرد کا ہے عورت اگر مرتدہ ہوجائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا لیکن قید کرکے توبہ تک اسے جیل میں رکھا جائے گا۔
چونکہ مرتد کا قتل حد ہے اس لئے اس کی معافی کی سوائے توبہ کے اور کوئی صورت نہیں ہے جو مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ بھی چونکہ مرتد ہوجاتا ہے اس بنا پر اس کا حکم بھی وہی ہے جو مرتد کا ہے تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ شاتم کی سزا محض ارتداد کی وجہ سے ہے یا توہین کی بنا پر یا دونوں اسباب کی بنیاد پر ؟بظاہر سزائے موت کی وجہ ارتداد اور توہین دونوں ہیں کیونکہ اگر سزا صرف سب وشتم کی وجہ سے ہوتی تو پھر ذمی کی سزا بھی یہی (قتل) ہونی چاہیے تھی حالانکہ ذمی توہین رسالت کی وجہ سے واجب القتل نہیں ہے اگرچہ سیاستہً یعنی مصلحت کے پیش نظر حکومت اسے قتل کرسکتی ہے جیسا کہ بحث کے آخر میں آئے گا۔
قاضی عیاض نے شفاء میں ایک مقام پر چاروں آئمہ سے نقل کیا ہے کہ شاتم کی توبہ قبول نہیں وہ ہر حال میں واجب القتل ہے اور یہی عام علماء کا قول مختار ہے البتہ ایک دوسرے مقام پر انہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے قبول توبہ کا قول بھی نقل کیا ہے اور یہی قول امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
غرض جو حضرات شاتم کی سزائے موت کو حد کہتے ہیں وہ توبہ کو قبول نہیں مانتے بلکہ اسے زندیق کے زمرے میں شامل کرکے واجب القتل کہتے ہیں اگرچہ عنداللہ اس کی توبہ قبول ہوگی لیکن قانوناً قبول نہیں کی جائے گی اس کے برعکس جو علماء اسے مرتد کی سزا کہتے ہیں وہ قانوناً بھی اس کی توبہ کو قبول مانتے ہیں‘‘۔
علامہ شامی لکھتے ہیں امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک شاتم رسول کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ توبہ کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور یہی ایک روایت امام مالک رحمہ اللہ کی بھی ہے جسے ولید بن مسلمؒ نے نقل کیا ہے، امام سفیان ثوریؒ، امام اوزاعیؒ اور اہل کوفہ کا بھی یہی مذہب ہے، تاہم امام مالک اور امام احمدؒ کی مشہور روایت کے مطابق چونکہ شاتم کا قتل حد ہے اس لئے اس کی توبہ قابل قبول نہیں وہ ہر حال میں واجب القتل ہے، بہت سارے متاخرین حنفیہ کا میلان بھی اسی جانب ہے جیسے صاحب بزازیہ، فقیہ ابو اللیث، شیخ ابن ہمام، ابن نجیم اور صدر الشہید وغیرہ لیکن علامہ شامی نے ایک لمبی اصولی تمہید کے بعد اس پر زور دیا ہے کہ متاخرین احناف نے دراصل یہ تحقیق اور امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب قول قاضی عیاض کی کتاب شفاء اور ابن تیمیہؒ حنبلی کی کتاب الصارم المسلول سے نقل کیا ہے۔
چونکہ قاضی عیاض کے نزدیک شاتم رسول کی سزا وہی ہے جو زندیق کی ہے اور اس پر اجماع نقل کیا ہے تو صاحب بزازیہ کو یہ شبہ ہوا کہ گویا سب کے نزدیک شاتم رسول واجب القتل ہے خواہ توبہ کرے یا نہ کرے حالانکہ خود قاضی عیاض اور ابن تیمیہ نے شاتم کے متعلق امام صاحب کا قول قبول توبہ کا نقل کیا ہے۔ غرض امام صاحبؒ کی طرف شاتم کی توبہ قبول نہ کرنے کا جو قول منسوب کیا گیا ہے اس میں بہت سے متاخرین مصنفین سے سہو صادر ہوا ہے امام صاحب کا اپنا مسلک قبول توبہ کا ہے، یہی قول امام شافعی کا ہے بحث کو سمیٹتے ہوئے وہ مزید لکھتے ہیں کہ شاتم رسول کے حوالہ سے حنفیہ کے تین قول ہیں۔
(1) شاتم کی توبہ قابل قبول ہے ۔(2) قابل قبول نہیں ہے۔ (3) اگر اسے توبہ کرنے سے پہلے گرفتار کرکے حاکم کے سامنے پیش کیا جائے تو پھر اگر توبہ کرے بھی لیکن وہ منظور نہیں کی جائے گی مگر گرفتاری سے پہلے اگر وہ توبہ کرتا ہے تو وہ توبہ قابل قبول ہوگی۔ خود علامہ شامیؒ نے پہلے قول کو حنفیہ کا اصل مذہب قرار دیکر ترجیح دی ہے یعنی کہ شاتم کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے مضبوط دلائل سے ثابت بھی کیا ہے، من جملہ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جان اور خون کا مسئلہ بڑا نازک اور غیر معمولی قضیہ ہے یہاں تک کہ اگر مسلمان بادشاہ غیر مسلموں (یعنی دشمنوں) کے قلعہ یا بستی کا محاصرہ کرلے اور اسے معلوم ہوجائے کہ اس قلعہ یا بستی میں ایک مسلمان بھی ہے تو اس کے لئے محصورین میں سے کسی بھی فرد کا قتل جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اس محصور مسلمان کے مارے جانے کا بھی احتمال ہے، لہٰذا اس کا تقاضا اور احتیاط یہ ہے کہ جو شخص توہین رسالت کے بعد توبہ کرے اسے قتل نہ کیا جائے کیونکہ اس کے مستحق قتل ہونے کا یقین نہیں کیا جاسکتا (ایک تو اس لئے کہ ممکن ہے اس کی توبہ عنداللہ قبول ہوئی ہو دوم اس بارے میں اقوال بھی مختلف ہیں) ۔
دوسری بات یہ ہے کہ قاضی عیاض نے شفاء میں لکھا ہے ہزار کافروں کے قتل نہ کرنے میں غلطی ہوجانا ایک مسلمان کے قتل کرنے میں غلطی ہوجانے سے آسان تر ہے۔
علیٰ ہذا مسلمان کی جان کی اہمیت کے پیش نظر قتل نہ کرنا ہی متعین ہوجاتا ہے نیز ابن ابی سرح مرتد ہوگئے تھے اور اس کے بعد آپ علیہ الصلٰوۃ والسلام پر بہتان تراشی جیسی قباحتوں کا ارتکاب بھی کرتے تھے مگر اس کے باوجود جب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی وساطت سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوکر دوبارہ تائب ہوئے اور بیعت علی الاسلام کی تجدید کرلی تو ان کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی اگر شاتم کی معافی کی کوئی صورت نہ ہوتی تو آپﷺ ان کو کبھی معاف نہ کرتے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دولت عثمانیہ کے دور میں سلطان سلیمان خان رحمہ اللہ کے فرمان پر یہ قانون بنایا گیا تھا کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر توبہ کر بھی لیتا تب بھی قاضیوں کو حکم تھا کہ اس کے طرز عمل پر کڑی نظر رکھی جائے اگر اس کا کردار مشکوک لگے تو اسے سزائے موت دی جائے جبکہ کردار کے قابل اطمینان ہونے کے باوجود اسے تعزیری سزا دی جائے، گویا توہین رسالت کرنے والا تعزیر وسزا سے کسی صورت میں بچنا نہیں چاہیے۔
علامہ شامیؒ اس قانون کی تحسین کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ شاتم کو محض توبہ کی وجہ سے بلا سزا معاف کردینا کسی مسلمان کو گوارا نہیں لہٰذا شاتم بغیر سزا کے نہیں چھوڑنا چاہیے تاکہ کوئی مسلمان وغیرہ اس قبیح حرکت کی جسارت نہ کرسکے (کیونکہ پھر تو بعض شاطر سب وشتم کرکے کہیں گے کہ ہم نے توبہ کرلی ہے) علیٰ ہذا اس غلط ترین حرکت کے سدباب کے لئے ہر قسم کے مشتبہ الفاظ پر سخت پابندی ہونی چاہیے۔المسترشد عرض کرتا ہے چونکہ پاکستان کی صورت حال بھی ترکی سے زیادہ مختلف نہیں ہے شاید اسی بنا پر ماہرین قانون نے توہین رسالت کی سزا بلا استثنا موت مقرر کی ہے یہ ان علماء کی رائے پر مبنی ہے جو توہین رسالت کے مرتکب کی سزا ہر حال میں قتل مانتے ہیں خواہ توبہ کرے یا نہ کرے اگر جمہوریت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی عوام کا بھی مطالبہ ہے۔
یہ تفصیل اور حکم اس شاتم رسول کے بارے میں ہے جو اصلاً مسلمان ہو جہاں تک ذمی (وہ غیر مسلم جو اسلامی اور مسلم اکثریتی ریاست میں بحیثیت شہری رہتا ہے) کا تعلق ہے تو ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک اس کی سزا بھی قتل ہی ہے ہاں البتہ اگر وہ ازخود خوشی سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلے تب وہ سزا سے بچ جائے گا جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ذمیوں کو جو امان حاصل ہے وہ توہین رسالت سے ختم نہیں ہوگی، لہٰذا اس حرکت سے ذمی مستحق قتل نہیں ٹھہرے گا مگر اسے تعزیری سزا دی جائے گی جو حکومت وقت کی صوابدید پر ہے وہ جِسے اور جیسے چاہے سزا دے دے، مثلاً اگر کوئی شاتم یہ حرکت علانیہ کرتا ہو یا بار بار کرتا ہو یا اس سے ماحول اور ملک میں انتشار اور فساد کی فضا قائم ہوتی ہو تو حکومت ایسے مفسد کو قتل بھی کرسکتی ہے مگر یہ حد نہیں بلکہ تعزیر اور سیاستاً سزا شمار ہوگی۔
یہ حکم صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین تک محدود نہیں بلکہ تمام انبیاء اور ملائکہ علیہم السلام کی اہانت کو بھی شامل ہے البتہ جس محترم شخص کی نبوت ثابت نہ ہو جیسے لقمان حکیم تو ایسی شخصیت کی توہین کی سزا توہین رسالت سے گو کم ہونی چاہیے مگر تادیباً جو مناسب حال ہو وہ سزا دی جائے گی ‘‘ (باب اول کا خلاصہ ختم ہوا)