جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم

برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں نے اپنے اوپر مسلط ظالم وجابر حکمرانوں کے سامنے جب اپنے حقوق کے لئے انگڑائی لی تو ظالموں نے مظلوموں پر ظلم وستم کہ وہ پہاڑ توڑے کہ جو رہتی دنیا تک تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ وسائل کے فقدان اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود ان کے حوصلے چٹانوں کی طرح مضبوط اور ہمالیہ سے بھی بلند رہے۔ جذبہ ایمانی کی قوت حرارت تھی کہ مسلمانوں میں اپنی آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑتی رہی۔
اور بالآخر وہ وقت بھی آن پہنچا جب ہمارے بزرگوں کی بے پناہ قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک آزاد ملک، آزاد فضا اور آزاد ماحول عطا کیا اور آج ہم دنیا بھر میں مدینہ منورہ کے بعد خالصتاً اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی دنیا کی دوسری اسلامی ریاست کی شناخت کے ساتھ اس دنیا کا حصہ ہیں جہاں انسانوں کا بلا تفریق قتل عام، مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری، ایک دوسرے کی حق تلفی، بم دھماکے، انسانی نعش کو جلاکر راکھ کا ڈھیر بنانے والے خوفناک دھماکہ خیز مواد، ایٹم بم وہائیڈروجن کی فراوانی، جنگ وجدل کے نئے نئے طریقے اور نئے نئے انداز ایجاد ہورہے ہیں۔ انسان ہی انسان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ ایک ویکسین تیار کی جاتی ہے پھر وہ دوسرے انسان پر آزمائی جاتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی بیماری کے جراثیم کو ختم کرنے کے لئے پھر دوسری ویکسین تیار کی جاتی ہے۔
یہ جراثیم کش ویکسین مارکیٹ میں آتے ہی جہاں ایک طرف شفاء کا سبب بنتی ہے وہیں مختلف امراض کا موجب بھی بنتی ہے کیوں ؟ کیونکہ یہ ایک کاروباری یا پھر سازشی آمیزش کا مرکب ہوتی ہے۔ پھر اس کے بارے میں تعلیمی اداروں کے اندر مختلف مضامین ترتیب دیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک برائی کو پیدا کرنے کے لیے لمحے اور پھر اس کے خاتمے کے لیے صدیاں لگ جاتی ہیں۔ اس دوران طاقت کا توازن بگڑتا ہے۔ ایک طرف خوشحالی تو دوسری طرف غربت جنم لیتی ہے اور دنیا دو طبقات میں تقسیم ہوتی ہے۔ پھر یہ تقسیم در تقسیم مختلف مواقع پر مختلف شکل اختیار کرتے کرتے معاشروں کو ایسی شکل دے دیتی ہے جس کا آج کی دنیا بالخصوص پاکستان اور ایشیاء کو سامنا ہے۔
یوں تو وطن عزیز اپنی پیدائش سے ہی مشکلات کا شکار ہے، کئی مواقع پر ناعاقب اندیش حکمرانوں نے نقصان پہنچا تو کئی مواقع پر بیرونی طاقتوں نے اس سے نوچا مگر موجودہ حالات خصوصاً گزشتہ دو دہائیوں نے تو اس اسلامی مملکت کی چولیں ہی ہلاکر رکھ دی ہیں۔
9/11کے بعد اتنے آپریشنز افغانستان، بھارت، امریکہ، عراق اور دیگر ممالک میں نہیں ہوئے جتنے پاکستان میں ہوئے۔ 60ہزار سے زائد کا جانی نقصان اور اربوں روپے کی معاشی تباہی کے باوجود آج بھی عالمی دنیا ہمیں سننے کو تیار نہیں جبکہ پڑوس میں اگر کوئی بلی کا بچہ بھی مرجائے تو الزام پاکستان پر آجاتا ہے اور پھر پوری دنیا یک زبان ہوکر پاکستان پر سزا وجزا کے لئے دبائو ڈالنا شروع کردیتی ہے جس کی واضح مثال پٹھان کون ایئر بیس ہے جہاں حملے کے بعد پاکستان نے مختلف اقدامات کئے، کارروائیاں کیں اور پڑوسی ملک کو ہرممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن پڑوسی نے حسب معمول اپنی ہٹ دھرمی دکھائی اور واشگاف الفاظ میں بدلے کا بھی اعلان کردیا۔
بھارتی دھمکی میں پورے سال کا وقت دیا گیا تھا مگر یہاں تو ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی کے 22سے زائد طلبہ واساتذہ کو خون میں نہلادیا گیا۔ اس حملے کے فوری بعد ابتدائی تحقیقات میں ہی دہشت گردوں کے تانے بنے کابل سے نئی دہلی سے جاملے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان حکومت کو ثبوت بھی فراہم کردیے مگر کابل نے نہ صرف یہ ثبوت تسلیم نہ کئے بلکہ اپنی سرزمین استعمال ہونے سے بھی انکاری ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دو دہائیوں سے افغانستان سے پاکستان میں بھارتی مداخلت سے متعلق احتجاج کررہا ہے اور ثبوتوں بھری کئی فائلیں عالمی اداروں اور انسانی حقوق تنظیموں کے حوالے کی جاچکی ہیں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ عالمی برادری ہماری آواز کیوں نہیں سنتی؟ جبکہ عالمی امن کی لئے جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اتنی کسی بھی ملک نے نہیں دی ۔ خود کو غیر محفوظ کرکے دوسروں کو تحفظ فراہم کرنے میں جتنی مائوں کی گودیں پاکستان میں اجڑیں۔ جتنی بہنوں کے بھائی پاکستان میں لقمہ اجل بنے، جتنے بوڑھے ماں باپ کی لاٹھیاں پاکستان میں ٹوٹیں ان کی مثال دنیا کا کوئی اور معاشرہ پیش نہیں کرسکتا۔
حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ نجی سطح پر بھی دنیا کو پرامن بنانے کے لئے جو اقدامات کئے گئے اور کئے جارہے ہیں ان کی مثال بھی کسی دوسرے معاشرے کا کوئی نجی ادارہ پیش نہیں کرسکتا۔ تازہ مثال دنیا کو پرامن بنانے اور مذہب وتہذیبوں کے درمیان ٹکرائو ختم کرنے کی نومبر میں دنیا نے دیکھی۔ جب یونائٹ کے زیر اہتمام ہم نے تن تنہا دنیا کے 26ممالک سے 7بڑے مذاہب کے ماننے والوں کو اسلام آباد میں جمع کرکے اسلام کے امن وسلامتی کے پیغام سے روشناس کرایا اور پاکستان کی اسلام پر مبنی حقیقی تعلیمات کے تحت خدمات ان کے سامنے رکھیں۔ شرکاء نے انتہائی فراخدلی اور ذمہ داری سے اسلام کے پیغام کو سمجھا اور پاکستانی اقدار واقدامات کی تعریف کی۔
ان سب اقدامات کے باوجود اگر دنیا کو ہماری بات سمجھ نہیں آتی تو پھر یہ امن عالم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ دنیا کو جاننا ہوگا کہ اب پاکستان ایک دہائی یا 5سال پہلے والا پاکستان نہیں۔ اب یہ ملک پہلے کی نسبت زیادہ پراعتماد، امن پسند اور راست اقدام کی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ عالمی برادری کو اس پاک سرزمین پر بیرونی مداخلت رکوانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں بھی لانا ہوگا۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے