آپ نے اپنے بزرگوں سے سنا ہوگا اور بعض لوگ تو قرآن شریف کی تعلیمات سے بھی کسی حد تک آگاہ ہوتے ہیں کہ انسان علم وکردار کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے، بے شمار احادیث اور لاتعداد اہل دانش کے کلام بھی اس پر ناطق ہیں کہ علم بڑی دولت ہے‘‘ ایک زمانے تک انسانوں میں ارباب علم ودانش کی بڑی قدر ہوا کرتی تھی جب تک زمانے میں سادگی تھی تو لوگوں میں صداقت تھی لیکن جوں جوں زمانے کے تیور بدلنے لگے لوگوں کے مزاجوں میں بھی فرق اور انقلاب آنے لگا، پہلے کے انسان کے علم کا پتہ اس کی گفتگو سے چلایا جاسکتا تھا لیکن جب معاشرے میں علمی گراوٹ آنے لگی تو علم پرکھنے کے لئے ایک کاغذ کو معیار مقرر کیا گیا جس کو قدیم اصطلاح میں ’’سند‘‘ کہا جاتا تھا اور آج کے عرف میں اسے ’’ڈگری‘‘ کہتے ہیں، اس پر جو عبارت درج کی جاتی ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ’’یہ شخص …فلاں … ولد …فلاں … ہمارے یہاں سے پڑھ کر کامیاب ہوا ہے اور ادارہ اس کو یہ سند دیتا ہے کہ وہ اس فن میں کام کرنے کے قابل ہے‘‘۔
جب یہ طریقہ مقبول ہونے گلا تو زمانہ کافی آگے جاچکا تھا اور نئے لوگ اس دنیا کے فرمانروا بن گئے تھے، انسانی سوچ ترقی کرتی رہتی ہے اور طبیعتیں آرام طلب ہوتی ہیں تقریباً ہر آدمی یا کم ازکم دس میں سے نو یا خصوصاً شوگر کے مریض چاہتے ہیں سوجائیں یا گپ شپ کریں کہ کیوں نہ ایک آسان راستہ تلاش کیا جائے کہ جس ڈگری پر ہمیں نوکری مل سکتی ہے یا اسمبلی کی سیٹ، وہ اس طرح حاصل کریں کہ اس کی شرط ’’امتحان‘‘ کو کسی طرح پورا کرلیا جائے اور کم محنت میں ڈگری حاصل کی جائے، یہ سوچ بہت کامیاب رہی اب ایسا ہونے لگا کہ کتاب میں سے امتحانی مقامات کو یاد کرنے کی بادل نخواستہ زحمت کی جاتی اور کامیابی کی سند مل جاتی، تاہم وہ شخص جب امتحان ہال سے نکلتا ہے تو اسے پڑھی ہوئی کتابوں کے متعلق دس پندرہ فیصد معلومات ہنوز ذہن میں باقی رہتیں۔
چونکہ ہمارے ہم وطن بہت ذہین ہیں اس لئے انہوں نے جلد ایک نیا حل تلاش کیا جو سب سے آسان تھا لیکن وہ حل صرف امیروں کے لئے ہے، غریب بے چارے تو ہر جگہ دھکے کھانے کے عادی بلکہ مستحق سمجھے جاتے ہیں، بہرحال وہ حل یہ تھا کہ کسی کو اپنی جگہ امتحان میں بٹھادیا جائے یا کسی ممتحن کو بڑے نوٹ دکھادیئے جائیں تو وہی آپ کا امتحان پاس کرکے آپ کے نام کی ڈگری حاصل کرے، اب تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کچھ ڈگریاں براہ راست فروخت ہوتی ہیں ’’واللہ علم‘‘
ہمارے وطن عزیز کی عمارت اب 70ویں منزل پر پہنچ گئی، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ خشتِ اول بلکہ پہلی منزلوں میں ایسی کوئی کجی یا اتنی زیادہ کجی ہرگز نہیں تھی نہ معلوم کہ یہ خم کس منزل سے شروع ہوا ہے، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہماری بلڈنگ کی بالائی منزلیں خم دار ہیں اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ جب بھی خم دار بلڈنگ زیادہ بلند ہوجاتی ہے تو اس کی نہ صرف ترچھی منزلیں زمین بوس ہوجاتی ہیں بلکہ پوری بلڈنگ سربسجود ہوجاتی ہے۔
جعلی ڈگری ملک وملت کے لئے کتنی نقصان دہ ہے، اس سے اداروں کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، میرے خیال میں ایک ان پڑھ چرواہا بھی اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ ہے، جعل سازی کسی بھی سطح پر ہو اس کا انجام کبھی بھی نیک نہیں ہوسکتا۔
مجھے صرف اس پر افسوس نہیں ہے کہ وطن عزیز میں بہت سے ذی استعداد، نوکریوں اور اسمبلی رکنیت سے صرف اس لئے محروم ہیں کہ ان کے پاس صلاحیت تو ہے لیکن ڈگری نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ افسوس اس پر ہے کہ عملاً وقولاً اس قباحت پر ارباب حل وعقد کا اجماع ہوچکا ہے کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اگرچہ جعلی ہو، یہ ایک ایسا فلسفہ بلکہ سفسطہ ہے کہ اس سے ملاوٹ اور جعل سازی کے تمام شعبوں کے دروازے کھل جاتے ہیں کیونکہ اگر تعلیم میں جعل سازی کو جائز مانا جائے اور اس کی روک تھام کے لئے بروقت سنجیدہ قدم نہ اٹھایا جائے حالانکہ تعلیم انسان کی شرافت وکرامت کا تاج ہے کہ تو مادی اشیاء میں ملاوٹ کی قباحت خود بخود ختم ہوجاتی ہے۔
اس امر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جعل ساز آدمی سے یہ توقع رکھنا کہ اس نے جعلی ڈگری پر منصب حاصل کرلیا ہے جو اتنی بُری بات نہیں ہے اصل چیز تو کام ہے، ایک فضول ہی نہیں بلکہ احمقانہ سوچ ہے کیونکہ جو شخص جعل سازی کے ذریعے کسی سیٹ پر براجمان ہونا چاہتا ہے وہ کبھی بھی ملک وملت کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا، وہ کسی نیک نیتی سے وہاں نہیں جاتا بلکہ اس کے پیچھے ایک خطرناک منصوبہ ہوتا ہے جو ہم وطن عزیز میں دیکھ رہے ہیں۔
میں اپنے ہم وطنوں اور قانون نافذ کرنے والوں کی خدمت عاجزانہ وہمدردانہ گزارش کرتا ہوں کہ ابھی بھی وقت ہے خدارا اس روش کو ترک کریں، میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر پورے ملک میں صرف دس بااثر افراد آج یہ اعلان کردیں کہ ہم اپنے کئے ہوئے پر نادم وتائب ہیں اور ہم آج اپنی جعلی ڈگری کو جلاتے ہیں تو پاکستان کا نام صحیح معنوں میں روشن ہوسکتا ہے اور ایسے لوگوں کا یہ اقدام بھی مثالی بن سکتا ہے۔
ہمیں اس کی مثال تلاش کرنے کے لئے ماضی بعید میں جانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ہندوستان کے رکشہ ڈرائیور اور پولیس اہلکاروں میں بھی ایک اچھا نمونہ پایا جاتا ہے جو ڈرائیور دیہاڑی پر رکشہ چلاتا ہو اور اسے روپوں سے بھرا ہوا بیگ مل جائے وہ اسے گھر لے جاکر بیوی کے مشورہ سے پولیس والوں کے حوالے کردے، حالانکہ وہ چاہتا تو اسے باآسانی ہضم کرسکتا تھا اور پولیس والے چاہتے تو میاں بیوی کو پاکستان سے مراسم کے الزام میں مار ڈالتے اور ساری رقم خود رکھ لیتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، تو کیوں نہ ہو کہ ہمارے وہ بڑے بھائی جو اپنے چھوٹے بھائیوں کی رقوم پر قبضہ کر کے ان کو بیرون ملک منتقل کرچکے ہیں آج وہ رقوم واپس لاکر زندہ دلی اور ایماندار کی مثالی قائم کردیں!!!۔