میڈیا رپورٹ کے مطابق سندھ کے وزیر اعلیٰ جناب مراد علی شاہ صاحب نے اسکولوں میں رقص وموسیقی اور ناچ گانوں کو فروغ دیتے کو لبرل معاشرے کا جُز اور آئین پاکستان کا تقاضا قرار دیا ہے۔
اگر خبر صحیح ہے تو یہ نہ صرف ایک افسوسناک فرمان ہوگا بلکہ اس موقف میں لغوی، قانونی، تاریخی اور معاشرتی ومعاشی خامیاں بھی ہیں جن کو خاطر میں لائے بغیر ایسا بیان داغنا کسی طرح ذمے دار شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔
جہاں تک رقص کا لبرل معاشرے کاجُز ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات محل نظر ہے اگر لبرل سے مراد آزاد خیال معاشرہ ہو تو یہ ثابت کرنا موصوف کے لئے بڑا مشکل ہوجائے گا کہ پاکستانی معاشرہ آزاد خیال ہے اور اگر ان کا مطلب کچھ اور ہو تو پھر اس کی وضاحت ان کو خود ہی کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کا قیام تو اسلامی معاشرت کے لئے معرض وجود میں آیا ہے اور اسی کے حصول کے لئے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اسلام میں رقص وموسیقی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔’’میں آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ موسیقی اور رقص اسلامی معاشرہ کا جز ہو…
رہی بات آئین کی تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ثقافت کا تحفظ الگ چیز ہے اور ناچ گانے دوسری شے ہے، لغت کی کسی ڈکشنری میں ثقافت بمعنی رقص وموسیقی کا ذکر تک نہیں ہے چنانچہ اردو کی مشہور لغت ’’فیروز اللغات‘‘ میں ثقافت کے مندرجہ ذیل معنے بیان کئے گئے ہیں ۔نمبر(1) عقل مند ہونا (2نیک ہونا (3) کسی طبقے کی تہذیب (4) تمدن۔ کلچر (طرز زندگی)
’’لغات کشوری‘‘ نے ثقافت کی معنی عقل مند ہونا، استوار ہونا، چُست ہونا بیان کئے ہیں ’’فرہنگ فارسی‘‘ میں یہ فرق ہے کہ اگر ثقافت کا لفظ عربی زبان میں استعمال ہو تو بمعنی مضبوط ہونے کے آتا ہے ورنہ بمعنی تہذی وکلچر کے آتا ہے۔
یہ بات مسلم ہے کہ آئین پاکستان میں رقص وموسیقی کے تحفظ کی کوئی دفعہ وشق موجود نہیں ہے ممکن ہے کہ موصوف نے لفظ ثقافت کو رقص وموسیقی پر فٹ کرنے کی کوشش کی ہو جو غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے اور دانستہ حرکت بھی۔ اگر غلط فہمی ہو تو اس کے ازالہ کے لئے مندرجہ بالا حوالے کافی ہیں اب موصوف کو چاہیے کہ اپنا بیان واپس لے لیں۔
لیکن اگر یہ دانستہ حرکت ہو تو پھر لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سوچ ہے جو افسوس ہے کہ ہمارا المیہ ہے اور یہ بیان اس سلسلہ کی کڑی ہے جو ایک عرصہ سے ملک میں پھیلایا جارہا ہے۔
ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی شہری ایسے بیانات اور ایسی سوچ پر افسوس ہی کرسکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ اپیل کرسکتے ہیں کہ خدارا ہمارے بزرگوں نے تحریک آزادی میں جس عظیم مقصد کے لئے قربانیاں پیش کی تھیں انہیں رائیگاں جانے سے بچالیجیے، اس معاشرہ کو پھر سے تاریک دور کی طرف دھکیلنے کی کوشش نہ کریں کہ اندھیرے کا سفر کسی طرح مبارک ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔
ذیل میں موصوف کے بیان سے ملتے جلتے ایک اور صاحب کے بیان اور اس منفی سوچ کے چند الفاظ پیش کررہا ہوں تاکہ تصویر کا یہ رخ بھی اہل وطن کو نظر آنے لگے۔
’’پی ٹی وی‘‘ کراچی کے پہلے جنرل منیجر ذوالفقار علی بخاری نے ’’پی ٹی وی‘‘ کے یوم تاسیس پر اس کے اغراض ومقاصد کو ایک خصوصی نشست میں مخصوص فنکاروں، ڈرامہ نویسوں اور متوقع پروڈیوسروں کے سامنے اس طرح بیان کیا تھا۔
’’آپ کا سب سے اہم مقصد یہ ہوگا کہ قوم کو اور سب سے پہلے متوسط طبقہ کو فرسودہ مذہبی تصورات سے آزاد کرائیں اور اس مقصد کو اس خوبی سے سرانجام دیں کہ لوگوں کو شعوری طور پر اس کا پتہ نہ چلے کہ آپ جدید نسلوں کو مذہبی اثرات سے پاک کرنے کی کوئی مہم چلارہے ہیں، اگر آپ نے یہ کام کرلیا تو یاد رکھیں کہ ہم ہمیشہ کے لئے مذہبی جنونیوں اور ملائوں سے اپنی معاشرت اور سیاست کو پاک کردیں گے۔
آپ اس مقصد کو اس طرح پورا کرسکتے ہیں کہ منافقت اور تضاد کردار کے لئے منفی ڈرامہ کرداروں کو ڈاڑھی لگائیں! مضحکہ خیز کرداروں اور افراد کو مشرقی لباس پہنائیے! یہ یاد رکھئے کہ آپ کو اپنے تمام کرداروں اور انائونسروں کو وہ لباس پہنانا ہے جو ہمارے ترقی یافتہ معاشرے میں سو سال بعد رائج ہونا ہے اور جو ایک فیصد اوپر کے طبقہ میں رائج ہے‘‘ (چنانچہ) ٹی وی کے کار پردازوں نے مکروہ عزائم کے حصول کے لئے اطلاعات، معلومات، تعلیم اور تفریح مہیا کرنے کے بہانے اپنی کوشش شروع کی یہی وجہ ہے کہ کم وبیش دو دہائیوں (اور اب تو کئی بیت گئی ) کے بعد ہماری نسلیں اس ادارے کے توسط سے باخبر اور تعلیم یافتہ ہونے کے بجائے مغرب سے مغلوب ہوکر اخلاق باختہ ہوئیں اور مغربی تہذیب کی نقال بن گئیں‘‘۔
’’بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کی بیوی سونیا گاندھی نے بمبئی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ’’جدید جنگ اوہم‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اپنی (بھارتی) ثقافت متعارف کرواکر ہم نے ایک ایسی جنگ جیتی ہے جو ہتھیاروں سے جیتنا ناممکن تھی اب سرحدوں پر لڑائی نہیں لڑی جاتی بلکہ اب نظریاتی جنگوں کا دور ہے آج پاکستان کا بچہ بچہ بھارتی ثقافت کا دلدادہ ہے اور تو اور اب پاکستان ٹیلی ویژن بھی ہمارے مذہبی رقص بڑے فخر سے دکھاکر ہمارا کام آسان کررہا ہے۔ ’’ہفت روزہ تکبیر 21مارچ 1996ء شمارہ نمبر 12)
اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔تاہم ایک بار پھر وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے زعماء کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ خدارا تعلیمی اداروں میں کوئی ایسا غیر شرعی اور اخلاق باختہ اقدام نہ کریں جس سے آنے والی نسلیں اخلاقی تباہی کا ایندھن بن جائیں۔
حامداً ومصلیاً ومسلماً
Please follow and like us: