حدیث نبویؐ…تمام علوم کا سرچشمہ

حدیث نبوی ﷺ اپنے عمومی مفہوم میں جناب نبی اکرمﷺ کے اقوال واعمال اور احوال وواقعات پر مشتمل ہے اور تمام علوم دینیہ کا سرچشمہ اور ماخذ ہے ہمیں قرآن کریم حدیث نبویﷺ کی وساطت سے ملا ہے‘ سنت نبویﷺ کے حصول کا ذریعہ بھی یہی ہے اور فقہ کا استنباط بھی اسی سے ہوتا ہے‘ اسی لئے حدیث نبویﷺ کو ہمارے نصاب میں سب سے زیادہ مقدار میں اور تفصیل کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔

ہمارا آخری تعلیمی سال حدیث نبویﷺ کی تدریس وتعلیم میں گزرتا ہے اور ہم دورۂ حدیث کے عنوان سے حدیث نبویﷺ کی اہم کتابوں کا سماع کرتے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں اس وقت حدیث نبویﷺ کی تعلیم کے حوالہ سے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں حدیث نبویﷺ کی یہ بڑی بڑی کتابیں کس طرح پڑھنی چاہیں اور ان سے کس طرح استفادہ کرنا چاہیے؟
جہاں تک مسائل کا تعلق ہے انہیں ہم اس سے قبل فقہ کی بہت سی کتابوں میں پڑھ چکے ہیں اور مسائل کی تفصیلات انہیں میں ملتی ہیں اس لئے میں یہ گزارش کروں گا کہ دورۂ حدیث کے دوران ہمیں حدیث نبوی ﷺ کی یہ کتابیں مسائل معلوم کرنے کے لئے پڑھنے کی بجائے محدثین کے الگ الگ ذوق‘ اسلوب اور طرز استدلال سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے پڑھنی چاہیں۔
محدثین کا الگ الگ ذوق ہے‘ الگ الگ دائرہ کار ہے اور الگ الگ طرز استدلال ہے اور میری طالب علمانہ رائے میں حدیث نبویﷺ کی کتابوں کو پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اس تنوع اور توسع سے مستفید ہونے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر تین بزرگوں کا ذکر کروں گا امام بخاریؒ سب سے بڑے محدث سمجھتے جاتے ہیں اور ان کی ’’الجامع الصحیح‘‘ کو حدیث کی سب کتابوں پر فوقیت حاصل ہے اس کی ایک وجہ ان کے ہاں سند وروایت کا کڑا معیار اور اس کی پابندی ہے جس کی وجہ سے اسے ’’اصح الکتب بعد کتاب اللہ‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا ایک اہم امتیاز امام بخاریؒ کا طرز استدلال اور اسلوب استنباط بھی ہے جسے ہمارے ہاں ’’ترجمۃ الباب‘‘ اس کے تحت درج روایت کے ساتھ تعلق اور ان میں مناسبت تلاش کرنے کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’’ترجمۃ الباب ‘‘کا حدیث وروایت کے ساتھ کیا تعلق ہے اور امام بخاریؒ نے اس سے کس طرح استدلال کیا ہے؟ یہ معلوم کرنا اور بیان کرنا تدریس بخاریؒ کی مہمات میں شمار ہوتا ہے میں اسی کو طرز استدلال اور اسلوب استنباط سے تعبیر کررہا ہوں کہ ہمیں امام بخاریؒ سے استدلال اور استنباط کا فن سیکھنا چاہیے‘ بخاری شریف کے تراجم ابواب امام بخاریؒ کے استدلال واستنباط کے فن کے شاہکار ہیں۔ بسا اوقات وہ بہت دور کی کوڑی لاتے ہیں اور حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت تلاش کرنے میں خاصی مغز کھپائی کی ضرورت ہوتی ہے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ فرمایا کرتے تھے کہ امام بخاریؒ کا استدلال بسا اوقات اس طرز کا ہوتا ہے جسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیے
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
یعنی شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دینا اس لئے کہ وہ باغ میں جائے گی تو پھولوں کا رس چوسے گی‘ پھر شہد بنائے گی‘ شہد کے لئے چھتہ بنائے گی‘ اس میں شہد نکالے گی‘ شہد کو حاصل کرنے کے لئے لوگ چھتے کو نچوڑیں گے‘ نچوڑنے کے بعد چھتے کے باقی ماندہ حصے سے موم حاصل ہوگی‘ اس سے موم بتی بنے گی اور موم بتی جب جلے گی تو پروانہ اس پر آکر بیٹھے گا تو جل جائے گا۔
اسی لئے دورہ حدیث کے طلبہ کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ بخاری شریف پڑھتے ہوئے اس طرف بطور خاص توجہ دیں اور امام بخاریؒ کے استدلال کے اسلوب اور استنباط کی ندرت سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ 
امام طحاویؒ کی ’’شرح معانی الآثار‘‘ کا کچھ حصہ ہم دورۂ حدیث میں پڑھتے ہیں۔
میرے خیال میں اسے طلبہ کو دورہ حدیث سے پہلے پڑھانا چاہیے اور مکمل پڑھانا چاہیے۔
امام طحاویؒ کے خوبصورت فقہی مجادلہ سے گزر کر جب طلبہ دورۂ حدیث میں آئیں گے تو حدیث نبویﷺ پڑھنے کا لطف ہی اور ہوگا۔
امام طحاویؒ کا بنیادی ذوق فقہی مجادلہ اور مکالمہ ہے اور حنفیت کے دفاع میں امام طحاویؒ کے فقہی مکالمہ کی طرز کو میں اس باب میں آئیڈیل سمجھتا ہوں‘ یہی فقہی مجادلہ کا اصل اور معیاری اسلوب ہے مثلاً وہ 
٭کسی بھی فقہی مسئلہ میں تمام اقوال کا دیانت داری کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور ان کے پورے دلائل تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
٭پہلے دوسرے فریق کے اقوال کا ذکر کرتے ہیں‘ ان کے دلائل کا ذکر کرکے ان کا تجزیہ کرتے ہیں‘ ان کی کمزوری واضح کرتے ہیں‘ پھر اپنے موقف اور دلائل بیان کرتے ہیں‘ ان کا تقابل کرکے وجوہ ترجیح کا ذکر کرتے ہیں اور اپنا موقف خالصتاً علمی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں۔
٭وہ کسی جگہ بھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ امام ابوحنیفہؒ‘ امام ابو یوسفؒ اور امام محمد کا یہ قول ہے اور فلاں فلاں حدیث انکی تائید کرتی ہے بلکہ اس کی بجائے وہ یہ فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے اور امام ابو حنیفہؒ اور ان کے رفقاء بھی یہی کہتے ہیں۔
٭ہر مسئلہ کی نوعیت اور اس کا دائرہ بیان کرتے ہیں کہ خطاء وصواب کا معاملہ ہے یا اولیٰ غیر اولیٰ کا مسئلہ ہے‘ ہمارے ہاں فقہی اختلافات میں ایک بہت غلط رویہ ہمارے ہاں پیدا ہوگیا ہے کہ ہم فقہی مسائل میں درجہ بندی کا عام طور پر لحاظ نہیں رکھتے‘ مثلاً حق وباطل کا دائرہ الگ ہے‘ خطا وصواب کا دائرہ اس سے مختلف ہے اور اولیٰ غیر اولیٰ کا دائرہ ان دونوں سے جدا ہے مگر ہم اولیٰ غیر اولیٰ کے مسائل میں بھی بسا اوقات اس قدرشدت اختیار کرلیتے ہیں کہ وہ حق وباطل کا معرکہ دکھائی دینے لگتا ہے اور اسلام وکفر کی جنگ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ہمیں طحاوی شریف پڑھتے ہوئے امام طحاویؒ سے یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ جس مسئلہ میں ہم بحث کررہے ہیں اس کی سطح اور دائرہ کیا ہے اور امام طحاویؒ اس کا بطور خاص اہتمام کرتے ہیں۔
٭امام طحاویؒ کے طرز استدلال میں ایک اور بات بھی آپ کو نظر آئے گی جو ہر سنجیدہ صاحب علم کی خصوصیت ہوتی ہے کہ مباحثہ ومکالمہ میں جہاں اپنے موقف یا استدلال میں کمزوری محسوس کرتے ہیں اس کے اظہار میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے یہ علمی دیانت کی بات ہے اور امانت کا تقاضہ ہے جس سے کسی صاحب علم کو پہلوتہی نہیں کرنی چاہیے۔
اس لئے میں دورۂ حدیث کے طلبہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ وہ طحاوی شریف پڑھتے ہوئے امام طحاویؒ سے فقہی مجادلہ کا اسلوب سیکھیں اور فقہی مکالمہ کی اخلاقیات کا درس لیں۔
تیسرے بزرگ جن کا میں اس حوالہ سے ذکر کرنا چاہتا ہوں‘ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور ان کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ ہے جسے حضرت شاہ صاحب نے بنیادی طور پر علم حدیث کی کتاب کے طور پر ہی پیش کیا ہے ۔حضرت شاہ صاحبؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں حدیث نبویﷺ کی اہمیت بیان کی ہے‘ جناب نبی اکرم ﷺ کے ارشادات واعمال کی حکمتوں پر بحث کی ہے‘ اسلامی شریعت کی حکمتوں اور فوائد کو واضح کیا ہے‘ محدثین اور فقہاء کے اسلوب میں فرق کی نشاندہی کی ہے اور احادیث نبویﷺ سے مسائل واحکام کے استنباط واستدلال کے حوالہ سے صحابہ کرامؓ‘ تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ کے اسالیب سے متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ مختلف فقہوں کے وجود میں آنے کا پس منظر اور تاریخ بیان کی ہے‘ اسلامی احکام اور مسائل شریعت کی حکمتوں اور اسرار ورموز سے واقفیت اور اس اسلوب سے استفادہ کیلئے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہے اس لئے میری رائے میں حدیث نبویﷺ کے اس پہلو سے بھی ہمارے طلبہ اور اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے بلکہ آج کے دور میں اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ہمارے دینی مدارس میں حجۃ اللہ البالغہ کو بطور نصاب شامل کیا جانا چاہئے یا کم ازکم دورۂ حدیث میں کچھ ابواب کو ضرور شامل کیا جانا چاہئے۔
میں نے حدیث نبویﷺ کی تعلیم وتدریس کے حوالہ سے صرف ایک پہلو پر کچھ معروضات پیش کی ہیں‘ دعا کریں کہ اللہ رب العزت ہمیں حدیث نبویﷺ کے ذخیرے سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق دیں‘ آمین یا رب العالمین۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے