میں اپنے مملکت خداداد پاکستان میں جب دولت اور سیاست یا سیاست اور مادہ پرستی کی مارا ماری شب وروز دیکھتا ہوں اور جب کبھی بڑے چھوٹے شہروں کے بازاروں میں نکلتا ہوں اور وہاں انسان کو مایہ کے ہوس اور حصول کے لئے اپنے خداداد مقام سے گرا ہوا پاتا ہوں، جب پیسے کی خاطر قریبی رشتوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھتا ہوں تو میں زندگی کی تخلیق، مراتب ومراحل اور مقصد اور منزل کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔
اس دنیا میں انسان کہاں سے وارد ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شفیق ماں پیدا کرکے انسان پر کسی قدر رحم وشفقت فرمائی ہے۔ انسان جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو دنیا میں موجود ان ساری عارضی ومتاع غرور سے ماورا اسی چھوٹی سی تاریک جگہ کو اپنی ساری کائنات سمجھتا ہے۔ وہاں اس کی خوراک اور زندگی کے شب وروز بڑے عجیب ہوتے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ انسان جونہی اس تنہائی سے نکلتا ہے اسے دنیا میں اپنے اردگرد بے شمار انسان اور دیگر مختلف النوع اقسام کی مخلوقات نظر آتی ہیں۔ انسان جوں جوں زندگی میں آگے بڑھتا ہے اس کے سامنے دنیا اور اس کی زندگی میں وسعت دیکھتا اور محسوس کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے سامنے ایک ایسی دنیا ہوتی ہے جس کی وسعتیں بلندی میں زمین سے آسمان تک اور عرض وچوڑائی و اُفق کو چھورہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انسان کی ذہنی وفکری اور روحانی بلاغت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ انسان دنیا میں اپنی سوچ اور عقل کے استعمال کو محدود رکھ کر صرف دنیاوی معاملات کے سدھار کے لئے دن رات محنت ومشقت کرنے لگ جاتا ہے اور روح کے تقاضوں اور ضروریات پر بہت کم توجہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا اور اس کی لذتوں اور دلچسپیوں کو دائمی سمجھ کر اس میں ایسا مشغول ہوجاتا ہے کہ اس سے آگے کی اس دائمی اور ابدالاباد تک رہنے والی دنیا (آخرت کی زندگی) اور اس کی لازوال نعمتوں کے بارے میں سوچنے اور عمل کرنے سے غافل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک عام فہم اور ذہن میں رچی بسی بات ہے کہ جس طرح رحم مادر، اس دنیا کی بے کراں وسعتوں کے سامنے ہیچ ہے اسی طرح آخرت کی زندگی کے سامنے اس دنیا ومافیا کی وہی حیثیت ہے اور انسان کی حقیقی منزل وہی دنیا (آخرت) ہے لیکن پھر بھی انسان کی توجہ اس طرف بہت کم جاتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس زندگی کے بعد کی زندگی کے بارے میں ہمارا عقیدہ اس معیار کا نہیں ہوتا جو انسان کو اس دنیا کے نفع ونقصان کی طرح کا یقین دلاسکے۔
حالانکہ دنیا کے سارے انبیاء کرام ،سارے مذاہب اور فلسفوں کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی ہے کہ زندگی ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کا ایک مختصر سا حصہ اس دنیا میں گزرتا ہے جبکہ باقی ساری زندگی آخرت کی ہے۔ انسان پیدا ہوتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں مرتا نہیں بلکہ اس دنیا سے آخرت کی منزل کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ بنی نوع انسان کو سمجھاتے رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔انسان کا جسم خاکی اس دنیا میں روح کی بدولت بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا ہے لیکن جب روح پرواز کرکے دوسری دنیا میں جسمِ لطیف کے ساتھ منتقل ہوجاتی ہے تو وہاں اپنے دنیاوی اعمال کے مطابق مقام پاتی ہے۔
زندگی کا یہ تسلسل اور مکافات عمل (جزا وسزا کی صورت میں بدلہ) کا عقیدہ نہ ہوتا تو انسان کے لئے اس دنیا میں زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ۔ عقیدۂ آخرت انسانیت کے لئے اس دنیا میں تکالیف ومصائب برداشت کرنے کے لئے بہت بڑا سہارا ہے۔ ہم سب کو اس دنیا میں بعض اوقات دشواریوں، ناکامیوں اور آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض جابر اور طاقتور وظالم اقوام وافراد کے ہاتھوں کمزوروں اور مجبوروں کو ناقابل برداشت حالات میں زندگی کے ایام گزارنے پڑجاتے ہیں لیکن یہ ہمت اور حوصلہ صرف ان کو ملتا ہے جن کا یہ عقیدہ مضبوط ہوتا ہے کہ اگلی زندگی میں ان سب مصائب کی تلافی ہوجائے گی۔
اگر انسانی معاشروں اور مذاہب سے اس عقیدے کو نکال دیا جائے تو اس دنیا میں بے شمار لوگ مایوس ہوکر خودکشی پر مجبور ہوجائیں گے اور بہت سارے لوگوں کو مایوسی اور ناامیدی گھیرلے گی۔معاشرے میں اعلیٰ اور غریب طبقات کے درمیان تصادم کے واقعات عام ہوجائیں گے اور عین ممکن ہے کہ دنیا کے غریب مل کر ارب پتیوں کے گریبان پھاڑ ڈالیں اور تمام اخلاقی اور روحانی اقدار ختم ہوکر امن عالم پارہ پارہ ہوجائے۔یہ دنیا جو اس وقت جیسی بھی ہے اس میں بھلے لوگ اب بھی پائے جاتے ہیں اور اس لئے پائے جاتے ہیں کہ ان کے سامنے تاریخ کی وہ شخصیات اور ان کی زندگی کے شب وروز اور ان کی اس دنیا میں رہ کر روح اور آخرت کی زندگی کے لئے توشہ جمع کرنے کے واقعات سے قابل عمل سبق حاصل کیا جاتا ہے ۔
معلوم تاریخ میں سقراط وہ شخصیت ہیں جو اونٹ کی پشم (بال) کا کرتہ پہنے، باسی روٹی کے چند ٹکڑے پیٹ میں ڈال کر ایک کٹیا میں زندگی کے ایام گزارتے ہوئے اپنے دور کے انسانوں کو روح کے تقاضوں، انسان کے اصل مقام ومنزل کی تعلیم کے لئے شہر کے گلی کوچوں میں گشت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابراہیمؑ ایک اعلیٰ وارفع مقصد زندگی کو لوگوں پر واضح کرنے کے لئے آتش نمرود میں ڈالے جانے پر مسکرا اٹھے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی تجدید اور انسان کو اپنی حقیقی منزل سے روشناس کرانے کے لئے صلیب کی طرف پیش قدمی پر تیار ہوئے۔ سب سے بڑھ کر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھری دنیا سے اپنے لئے صرف ایک اونٹنی، ایک گھوڑا، موٹے کپڑے کا ایک جوڑا اور بان کی ایک چارپائی مختص فرمائی تھی۔ اس دنیا اور متاع دنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ علیہ صلوٰاۃ وسلام نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے فرمایا کہ ’’میری بالیں کے نیچے دو دینار ہیں، انہیں اللہ کی راہ میں دے ڈالو۔ تاکہ رب کائنات سے ملتے وقت اطمینان قلب میں خلل بھی واقع نہ ہو۔‘‘
کیا ان دایان رازِ فطرت وحیات، نسل انسانی کے ہادیان اور عظیم شخصیات کائنات کے دامن دل کو دنیا ومتاع نے نہیں کھینچا ہوگا؟ کیا ان میں سے ہر ایک زمانے میں بادشاہان وقت اور امراء وکبراء کے طرز زندگی، اونچے اور دلکش محلات، باغات اور زندگی کی لطافتوں، نزاکتوں اور آسودگیوں نے اپنی طرف مائل نہیں کیا ہوگا…ضرور خیال پیدا ہوا ہوگا…لیکن زندگی کی حقیقی منزل ان کی دنیاوی زندگی پر اس طرح حاوی وغالب تھی کہ زندگی کی دلفریبیوں نے ان کو الجھانا بھی چاہا تو الجھا نہ سکیں۔ اگر اس زندگی ہی کو سارا کھیل سمجھا جائے اور موت کو اختتام زندگی …تو صاحبان عقل کے ذہن میں قدرتاً یہ سوال پیدا ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو اس دنیا میں اقتدار اور دولت کے نشہ میں چور، زندگی کی اعلیٰ اقدار سے غافل، آخرت کی جزا وسزا کے منکر، انسان کی مفلوک الحالی سے بے خبر، بدست، متکبر ومغروروں میں آخر کیا خوبی وصفت تھی کہ دنیا کی ساری آسائشیں ان پر ارزاں ہوگئیں اور حق کے پرستار مصائب وآلام سے بھرپور زندگی گزاریں۔
کوئی دانش مند وعقل مند چند روزہ زندگی کے عیش وتنعیم کے لئے لامحدود زندگی کو دائو پر نہیں لگاسکتا اور یہی وجہ ہے کہ دایان راز فطرت نے زندگی کی حقیقی منزل کو سامنے رکھا اور اس زندگی میں اپنے آپ کو ایک قیدی کے مانند سمجھ کر ابدی زندگی کے مفاد کو مقدم رکھا۔ یوں اس دنیا سے جاتے وقت لبوں پر تبسم اور دل میں اطمینان بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اللہ ہمیں ایسی زندگی نصیب کرے