خطاب حضرت مولانا مفتی محمد محی الدین صاحب

مہمان خصوصی محترم جناب چوہدری شجاعت حسین صاحب اور عالمی سیرۃ کانفرنس کی اس نشست کے صدر اور میر ے تمام اسلامی اسکالرز، اکابرین علمائے امت مختلف ممالک سے تشریف لائے ہمارے معزز مہمانان گرامء اور پاکستان بھر کی مقتدر علمی شخصیات، علمائے کرام اور میرے صحافی بھائیو! 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عالمی سیرۃ کانفرنس مجلس صوت الاسلام کے زیر اہتمام تین روز سے جاری ہے جس کا یہ آخری اجلاس اور اختتامی نشست ہے، اکابرین ملت اور امت کے بڑے بڑے اسکالرز کے مقالات اور خطاب سنے اور انشاء اللہ جب وہ کتابی شکل میں آئیں گے تو پوری امت ان سے فائدہ اٹھائے گی۔


میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجلس صوت الاسلام پاکستان نے اس عالمی سیرۃ کانفرنس کا انعقاد جس موقع پر اور جن حالات میں کیا ہے اس کی اہم ضرورت تھی، فقط پاکستان کو نہیں بلکہ پوری کائنات کو اس وقت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ پاک سے راہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور میں یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں کہ سورج کی روشنائیوں کا ہر لمحہ اوررات کی گھڑیوں کی ہر ساعت، مشرق ومغرب، شمال وجنوب، ہر قوم، ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان یہ گواہی دے رہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں تمام قُوَّتیں امن قائم کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں ۔اس ناکامی کی بنیادی وجہ انسانی سوچ وفکر کی غلطی ہے جس میں مسلمانوں سمیت تمام قومیں اس کی مرتکب ہو رہی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ امن کا قیام قوت کے ذرائع و وسائل استعمال کر کے قائم رکھا جاسکتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیامیں امن کا راز انصاف اور اعتدال پسندی میں مضمر ہے جس کی تعلیم سابقہ تمام آسمانی مذاہب میں بھی موجود ہے اور اسی کو اللہ کے آخری پیغمبر ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نہایت اہتمام سے اجاگر فرمایا ہے اور اسلام نے انصاف اور میانہ روی پر بہت زیادہ زور دیا ہے جو کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ایک وافر حصہ ہے۔
قوموں کی اجتماعی وانفرادی حیثیت میں انصاف کرنے اور اس کے قیام کا جذبہ اور اعتدال پسندی سب انسانوں کے لئے امن اور سکون کا ذریعہ ہے۔ اللہ کے آخری رسول جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ مبارکہ کا اہم جزء ہے، کبھی بھی آپ اس سے ایک لمحہ بھی الگ نہیں ہوئے، آپ نے ہر ایک کے ساتھ ہمیشہ انصاف پر مبنی سلوک فرمایا اور میانہ روی کو اپنا شعار بنایا، جس سے دنیا کو امن قائم کرنے کے راستے ملے، آج دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بدامنی، خوف وہراس، دہشت گردی کا اصل سبب حضور اکرم ؐ کی تعلیمات سے دوری اور آپؐ کے قائم کردہ اصولوں کو پس پردہ ڈالنے اور ان پر عمل نہ کرنا ہے۔آج ساری دنیا میں جبر و ظلم کا تسلط ہے، آج کسی قوم کا معاشرہ انصاف کے عمدہ اصولوں پر مبنی نہیں، ہر قوم نے انصاف واعتدال پسندی کے الگ الگ پیمانے بنارکھے ہیں، طاقت اور قوت رکھنے والوں نے اپنی قوم اور کمیونٹی کیلئے انصاف واعتدال پسندی کوعلیحدہ پیمانے سے ناپا جاتا ہے، دوسری کمزور قوموں اور کمیونٹی کیلئے انصاف کا پیمانہ دوسرا ہے جس سے انصاف اور اعتدال کی اصلی صورت کہیں نظر نہیں آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں سمیت تمام اقوام کے معاشروں کو پرامن رکھنے کے لئے عمدہ اصول انصاف واعتدال پسندی کو اپنی زندگیوں اور حکومتی سطح پر حکمت عملیوں کا لازمی حصہ بنایا جائے ، جو کہ عالمی سطح کے قیام امن کیلئے ضروری ہے۔ 
اسلامی اسکالرز کو آگے بڑھ کر اس مشکل کو بھی دور کرنا ہوگا جو مغربی دنیا کی طرف سے دانستہ یا نادانستہ طور پر پیدا ہو رہی ہے، کچھ سالوں سے مغرب اسلام فوبیا میں مبتلا نظر آتا ہے، اظہار آزادیٔ رائے کی آڑ میں مغرب اسلام کے خلاف تعصبات کا کھلم کھلا میڈیا ٹرائل کر رہاہے، جس سے معاشروں میں نفرت اور بد اعتمادیاں جنم لے رہی ہیں، مغربی ممالک میں سیرۃ کانفرنسوں کا انعقاد کر کے سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے امن کے اصولوں کو صحیح طور پر پیش کر کے اقوام عالم کو ان کی طرف متوجہ کیا جائے، کیونکہ سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی حاصل کئے بغیر کوئی قوم کسی قوم کے لئے پُرامن نہیں بن سکتی۔ سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ حصے اور جزء جن میں اقوام عالم کے آپس کے خوشگوار پرامن تعلقات رکھنے کی تعلیم ہے، اسے عام کرنے کی نہایت ضرورت ہے۔
اقوام عالم پر یہ باور کرانا بھی ضروری ہے چاہے وہ اقوام مشرق کی ہوں یا مغرب کی، آج جو اقوام علوم وٹیکنالوجی کے عروج پر ہیں ان کی ترقی اور ان کے علوم بھی ہادی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مرہون منت ہیں جن علوم کی بنیادیں مسلمانوں نے تعلیمات نبوت سے مستفید ہو کر رکھی آج کی اقوام نے مسلمانوں کی رکھی ہوئی ان علمی بنیادوں پر محنت کرکے بڑے بڑے علمی محلات یونیورسٹیوں کی صورت میں تعمیر کئے ہیں، جس علم سے آج دنیا ترقی کے راستوں پر گامزن ہے، ان کی اس علمی محنت و کمال پر ہمیں کوئی حسد نہیں، بلکہ ان کی علمی محنت کو ہم حسن نظر سے دیکھتے ہیں۔ مغرب کی طرف سے علوم کی ترقی پر کی جانے والی محنت پر مسلم قوم کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں، مگر ان اقوام کے پاس بھی انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ انہوں نے استفادہ ابتدائی طور پر مسلمانوں کے ایجاد کردہ علوم سے نہیں کیا، کیونکہ آپ کی تمام لائبریریاں مسلمانوں کے علوم اور فلسفوں پر کیے جانے والے ریسرچ ریکارڈ سے بھری پڑی ہیں، جس سے ان اقوام کو علم میںآگے بڑھنے کا راستہ ملا ہے، یہ کہنا غلط ہوگا کہ محمد الرسول اللہ کے علوم نبوت سے فقط مسلمانوں کو اپنی مذہبی و دینی ہدایت حاصل کرنے کا فائدہ پہنچا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ کے تشریف لانے سے دنیا میں علم آیا، جس سے یہ دنیا آج چمک رہی ہے اور دنیا بھر کی انسانیت کو اس سے آسائش اور فائدہ پہنچ رہا ہے اور دنیا بھر کو مربوط منظم طور پر نظام حکومت چلانے کے اسلوب بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے، کیونکہ حکومتی سطح پر نظام تعلیم کا اجراء، مواصلات کا نظام پوسٹ ، فوج اور پولیس کا نظام یہ سب کے سب مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمرؓ بن الخطاب کے دور حکومت کے جاری کردہ ہیں ، جس سے قوموں کو نظام حکومت مربوط اور منظم طور پر بنانے کی راہ ملی اور اس پر مزید کام ہوتا گیا جس کی بدولت آج دنیا میں قوموں کی مربوط نظام کی حامل حکومتیں موجود ہیں ۔ اسلامی تعلیمات نے مسلمانوں کو بھی اور ان قوموں کو جنہوں نے اسلام کو تسلیم نہیں کیا فائدہ سب کو پہنچایا اور پہنچ رہا ہے۔
اہل مغرب کی طرف سے بڑے شدومد سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ پاکستان میں علماء کرام اور مذہبی طبقے تشدد اور انتہا پسندی کا شکار ہیں اور ان میں انتہا پسندی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ پاکستان کو بنے ہوئے عرصہ 63 سال گزر گئے، علماء بھی اس میں موجود تھے اور مذہبی طبقے بھی موجود تھے کسی قسم کی نہ تو دہشتگردی تھی اور نہ ہی انتہا پسندی، آج جہاں کہیں بھی پاکستان میں چند مٹھی بھر افراد کی طرف سے پیدا کردہ صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے، ان عوامل کو تلاش کرنا ہوگا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کیسے پیدا ہوئی کیونکہ پاکستان کی حکومت اور عوام، علماء اور مذہبی طبقے قطعاً نہ پہلے دہشت گرد و انتہا پسند تھے اور نہ آج ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ چند افراد انتہا پسندی کے حامل کس کی پیداوار ہیں، کسی رویئے کی یا جبر و ظلم کی یا نا انصافیوں کی، کسی نہ کسی عوامل نے تو ان کو اس مقام پر پہنچایا ہے۔ اس کی تلاش و ازالہ انصاف کا تقاضا بھی ہے اور پائیدار امن کا واحد ذریعہ بھی۔
یہاں پر اس بات کی بھی میں نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں، جو ایک خطرناک صورت حال سامنے آرہی ہے جس کے حکومتی وغیر حکومتی این جی اوز اور ملکی میڈیا پر بڑے زور شور سے کہا جا رہا ہے کہ عیسائیت کو تحفظ نہیں، اقلیتوں کو تحفظ نہیں، ان کے تحفظ دینے کے مطالبات پر چند افراد پر مبنی ریلیاں جلوس کی شکل میں کبھی کبھار نظر آتی ہیں اور ان کا بڑا پرچار کیا جاتا ہے جس میں دانستہ یا نادانستہ طور پر ہمارے جرائد و اخبارات اور بعض دانشور بھی اس کوشش میں شریک نظر آتے ہیں، حالانکہ پاکستان کی تمام اقلیتیں عیسائیت سمیت محفوظ ہیں اور انہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ان کی عبادت گاہیں، ان کے اسکول، ان کے کاروبار، ان کی ملازمت اور مسلمانوں کے ساتھ سماجی، معاشرتی تعلقات پوری طرح محفوظ ہیں۔ 
میں عالمی سیرت کانفرنس کے اس مقدس اجتماع میں جو پاکستان بھر کے چاروں صوبوں سے تشریف لائے ہوئے علماء کرام اور ہمارے دیگر ممالک سے لائے ہوئے معزز اسلامی اسکالرز کی موجودگی میں پاکستان بھر کے ان علماء کو گواہ بناکر یہ اعلان کر رہا ہوں، پورے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر کسی ایسی تنظیم کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جو کسی بھی اقلیت کے خلاف کام کر رہی ہو۔ یہاں عیسائیت، ہندو، سکھ، پارسی ہر اقلیت کا ہر طبقہ محفوظ ہے، جب کسی اقلیت کے خلاف کام ہی نہیں کیا جارہا تو پھر عیسائیت کی بات اتنے زور شور سے کیوں کی جا رہی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ کئی زاویوں کے اعتبار سے ایسا کرنے والے کیوں کر رہے ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں۔ 
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کا قتل نہایت افسوسناک اقدام ہے، جس کی مذمت ملک بھر میں کی جا رہی ہے، ان کا قتل مذہبی فرقہ واریت پر مبنی قتل نہیں ہے، ان کا قتل عیسائیت کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔ حکومت اس کی جوڈیشل انکوائری کرائے تو عوامل کھل کر سامنے آجائیں گے جو کہ وہ مذہبی فرقہ واریت نوعیت کے نہیں ہونگے، بلکہ ملک دشمن سازشی عناصر کی ظالمانہ کارروائیوں کا عمل ثابت ہوگا۔ اس واقعہ کو اقلیت کے معاملات کے ساتھ جوڑنا حقائق کے منافی ہے۔میری گزارش ہے حکومتی حلقوں، نشریاتی اداروں، اہل دانش اور سیاست دانوں سے کہ اقلیت سے منسوب مسیحی برادری کا دیگر اقلیتوں پر زیادہ ترجیحی انداز کا ذکر مناسب نہیں، اس سے بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان میں تمام اقلیتیں محفوظ بھی ہے اور مامون بھی۔
میں واضح کرنا چاہتا ہوں میرا کسی بھی سیاسی اور مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں ایک غیر سیاسی آپ کا خادم ہوں لیکن اپنے ملک پاکستان کا استحکام، اپنے ملک کی حفاظت، اپنی قوم کی حفاظت، اپنی قوم کا امن، اپنے ملک کا امن جتنا مجھے ایمان عزیز ہے، ایمان کے بعد مجھے سب سے پہلے ملک کا چپہ چپہ عزیز ہے اور قوم کا ہر فرد مجھے عزیز ہے۔ میرا تعلق ان اکابرین علماء سے ہے جن کی صفوں میں علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے اکابرین ہیں جنہوں نے پاکستان کے قیام کے موقع پر پاکستان کے سبز جھنڈے کو بلند کیا تھا۔ اس جھنڈے کی خیر خواہی اور حفاظت ہم نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ دہشت گردی، بدامنی کی لعنت کی ذمہ داری ساری موجودہ حکومت پر نہیں ڈالتا یہ تو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ لیکن میں پاکستان کے سلامتی اداروں سے اتنا ضرور کہونگا کہ ایک عرصے سے دہشت گردی چل رہی ہے، قوم بٹی ہوئی، قوم کا ذہن بٹا ہوا ہے۔ تم اتنے ناکام ہوکہ آج تک دہشت گردی کون کر رہا ہے یا کون کروا رہا ہے وہ متعین نہیں کرسکے۔ 
دہشت گردی کی ذمہ داری فقط مذہبی طبقے پر عائد کرنا حقیقت پر مبنی نہیں‘ کیا انتہا پسندی پاکستان میں سیاسی عنصر میں نہیں جس کی انتہا پسندی آسمانوں کو چھورہی ہے ‘ سیاست دانوں کے منہ سے ایک دوسرے کیخلاف آگ نکل رہی ہے‘ ہر جماعت اپنے کارکنوں کے دل میں دوسری جماعت اور اس کے کارکنوں کیخلاف نفرت وعداوت اور دوری کے بیج بورہے ہیں‘ سیاسی جماعتوںنے پاکستانی قوم کی یکجہتی کو تار تار کرکے رکھ دیا ہے۔ 1977ء سے لیکر آج تک پاکستان کے سیاسی کلچر میں روز افزوں انتہا پسندی تشدد کا اضافہ ہورہا ہے جس کا نہ کہیں ذکر کیا جاتا ہے نہ اس کی کسی اسٹیج سے مؤثر طور پر نشاندہی ہورہی ہے تاکہ اصلاحی اقدامات کی طرف توجہ دی جائے جبکہ ایک حقیقت ہے مذہبی فرقہ واریت سے کہیں زیادہ ملک اور قوم کو سیاسی انتہا پسندی اور تشدد نے نقصان پہنچایا اور ملک کو اس ناگفتہ بہ حالت پر لاکھڑا کیا ہے۔
افسوسناک امر تو یہ ہے عرصہ دراز سے ہونے والی دہشت گردی کا تعین نہیں ہو سکا، وقت کا تقاضا ہے کہ وقت ضائع کئے بغیر حکومت قومی سطح کا اجلاس بلائے جس میں علماء، تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کالعدم جماعتوں کے رہنما ، عدلیہ ، میڈیا ، فوج ، وکلاء اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نمائندے شامل ہوں، تاکہ دہشت گردی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ دہشت گردی کے ذمہ دار ملک کے اندر ہیںیا باہر، تاکہ پورے ملک کے عوام وعلماء اور فوج حکومت سب مل کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے متحد ہوکر دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کا مؤثر لائحہ عمل اختیار کریں۔
ہمارے ہمسایہ افغانستان میں امریکہ سمیت نیٹو کی افواج براجمان ہیں۔ ہم امریکا سے کہتے ہیں کہ وہ افغانستان میں شروع کی ہوئی جنگ کو فتح یا شکست سے بالاتر ہوکر مذاکرات کے ذریعے ختم کریں اور فوری طور پر طالبان سے مذاکرات کیے جائیں، کیونکہ تمام مذاہب ومسالک کا یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ جنگ کا خاتمہ آخر ڈائیلاگ پر ہی ہوتا ہے۔ افغانستان میں شروع کئی سالوں کی جنگ نے پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کردیا ہے اور دنیا میں بدامنی کی اصل وجہ بھی اسی کو بتایا جا رہا ہے۔ اگر مذاکرات کے ذریعے اس جنگ کو ختم کر دیا جائے تو اس سے دنیا میں امن قائم ہوگا، ورنہ خدشہ ہے کہ اس جنگ کے طول سے فقط پاکستان میں بدامنی نہیں رہے گی، بلکہ اس جنگ کے بدامنی کے اثرات ساری دنیا میں مزید پھیلیں گے اور دنیا بھر میں غربت، افلاس اور بیروزگاری بھی بڑھے گی۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے