دنیا میں توانائی کا بحران پاکستان کے قدرتی وسائل

جس سر زمین پر اللہ کے احکامات پر عمل ہوتا ہو وہاں اللہ کی رحمت بارش کی طرح برستی ہے اور زمین و آسمان اپنے خزانے کھول دیتے ہیں، دنیا کی تمام مخلوق اللہ کی رحمت سے فائدہ اٹھاتی ہے مگر جب اللہ کی زمین پر اللہ کی نافرمانی عام ہو جائے تو اللہ کی ناراضگی ظاہر ہوتی ہے اور رحمت کی بارشیں رک جاتی ہیں۔ 
اس وقت پوری دنیا میں توانائی کا بحران اسی وجہ سے ہے کہ ’’انسان‘‘ نے اللہ کی نافرمانی کی تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔
ہم آج کی نشست میں توانائی کے بحران اور پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لینگے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پاکستان جیسے معدنی ذخائر سے مالا مال ملک میں بحران کیوں ہے؟ 
سطح زمین پر توانائی کے بڑے ذرائع تیل (پیٹرولیم مصنوعات) گیس، کوئلہ اور پانی ہیں۔ دنیا میں توانائی کی کل کھپت اندازاً 15.7 ٹیراواٹ ہے، جس میں پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ان کا استعمال صنعت و حرفت، تجارتی عوامل، ذرائع نقل و حمل اور گھریلو کام کاج میں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کا ایک ذریعہ نیو کلیئر پاور بھی ہے اور متبادل توانائی میں شمسی توانائی اور ہوا سے توانائی کی پیداوار اہم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پیٹرولیم کے ذخائر موجودہ تیل کی کھپت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ سولہ سال کے عرصے کے لئے کافی ہیں۔ 
توانائی کا حصول ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور ترقی یافتہ، کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر تمام ممالک اس سے دوچار ہیں، تاہم ترقی یافتہ ممالک میں توانائی کا مسئلہ زیادہ گمبھیر نہیں ہے، البتہ پاکستان، ہندوستان، ایشیا کے دوسرے ممالک اور بحرالکاہل کے خطے میں یہ مسئلہ شدید نوعیت کا ہے۔ یورپ اور امریکا میں توانائی کے دوسرے ذرائع بھی ہیں، لیکن پیٹرولیم مصنوعات ان کی بھی اہم ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق سال 2010ء میں دنیا میں توانائی کی عالمی طلب 85 ملین بیرل سے بڑھ کر 105 ایم بی ڈی ہو جائے گی، ان ممالک میں فی کس توانائی کی کھپت 18 سو کلو واٹ آورز ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ کھپت 2870 کلو واٹ آورز ہے۔ دنیا میں ایک چوتھائی تیل کی کھپت امریکا میں ہے۔ امریکا میں تیل کی کھپت تقریباً 20ملین بیرل روزانہ ہے۔ اسی طرح یورپ کے ممالک میں بھی تیل کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 
ایشیاء اور بحرالکاہل کے ممالک کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے 2030ء تک 9 کھرب 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے ۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت ہے اور اس کی پیٹرولیم مصنوعات کی روزانہ کھپت 3 کروڑ 12 لاکھ 11ہزار لیٹر ہے۔ وزارت پیٹرولیم سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران سے یومیہ 2 لاکھ 17 ہزار بیرل تیل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کا آٹھواں بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک ہے، حالانکہ پاکستان خود بھی تیل کی دولت سے مالا مال ہے، لیکن یہ تیل منصوبہ بندی نہ ہونے کے سبب ضائع ہورہا ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سال 2008ء کے پہلے 4 ماہ یعنی جولائی تا اکتوبر کی نسبت سال 2009 ء کے پہلے 4 ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں 11.43 فیصد کمی ہوئی تھی، جب کہ سال 2008ء اکتوبر کی نسبت سال 2009 ء میں پیٹرولیم کمپنیوں کی پیداوار میں بھی 12.29 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی، حالانکہ ملک میں جولائی سے اکتوبر 2009ء کے دوران مجموعی طور پر 62 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے تیل اور گیس کے شعبوں میں 16 کروڑ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ مالی سال 2008-09ء تک تیل کا درآمدی بل 738 ارب روپے سے زیادہ مالیت کا تھا جس میں 429 ارب روپے کی پیٹرولیم مصنوعات اور 308 ارب روپے کا خام تیل تھا۔ اکتوبر 2009ء کے دوران پاکستان سے پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد 3.12 فیصد کی کمی کے ساتھ 4 ارب 99 کروڑ 40 روپے تھی۔ مالی سال 2009-10ء کے پہلے 5 ماہ میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری تیل و گیس کے شعبے میں سب سے زیادہ رہی جس کا حجم 20 کروڑ 73 لاکھ ڈالر تھا۔ بعد ازاں پاکستان میں نجی رینٹل پاور پلانٹس چلانے کے لئے 2009ء کے آخر تک تیل کی طلب میں 39 فیصد تک اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے 5 لاکھ 20 ہزار ٹن فیول (ہائی سلفر فیول آئل) کی خریداری کا ٹینڈر جاری کیا۔ 
سال 2009 ء تک ملک میں فرنس آئل کی کھپت 82 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ تھی، جو رواں سال 2010ء میں بڑھ کر ایک کروڑ میٹرک ٹن سالانہ ہو جائے گی اور اس طرح 18 لاکھ میٹرک ٹن فرنس آئل درآمد کرنا پڑے گا۔ سال رواں 2010ء میں پیٹرولیم مصنوعات میں برائے نام کمی کے باعث تیل صاف کرنے والے کارخانوں نے فرنس آئل کی قیمت میں کچھ کمی کی ہے، جب کہ مالی سال 2009-10 ء کی پہلی شش ماہی جولائی تا دسمبر کے دوران آئل ریفائنریز کی پیداوار میں 7.7 فیصد کمی ہوئی اور پیداوار 41 لاکھ 64 ٹن رہی۔
انڈسٹریز نے سال 2009-10 میں بجلی پیدا کرنے کے لئے ایک کروڑ 27 لاکھ میٹرک ٹن فرنس آئل کی کھپت کا اندازہ لگایا ہے جس سے 850 میگا واٹ بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی، تاہم اس وقت ملک میں بجلی کی کمی کے باعث صنعتیں زوال کا شکار ہیں اور گھریلو صارفین پریشان ہیں۔ پاکستان میں ہائیڈل پاور جنریشن میں کمی کے باعث تھرمل پاور پر انحصار بڑھ رہا ہے۔ اس وقت ملک میں ایک ارب 20 کروڑ مکعب فٹ گیس کی قلت ہے۔ سال 2010ء جنوری میں 30 لاکھ ٹن مائع قدرتی گیس کی درآمد کا معاہدہ طے پائے گا، جس سے گیس کی قیمتوں میں استحکام آنے کا امکان ہے۔ موجودہ حکومت نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں متعدد بار اضافہ کیا ہے۔ 30 نومبر 2009ء کے حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 66 روپے فی لیٹر، لائٹ ڈیزل 60.22 روپے، ہائی اسپیڈ ڈیزل 70.52 روپے، ہائی اوکٹین 82.52 روپے، مٹی کا تیل 62.63 روپے فی لیٹر کی گئی۔ یہ اضافہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے خام تیل کی قیمت میں 5 سے 7 فیصد اضافے کے باعث کیا تھا۔ اس سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا تعین آئل مارکیٹنگ کمپنیاں کرتی تھیں، جس کی وجہ سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا، بیروزگاری بڑھی اور غربت کا گراف مزید نیچے کی جانب آگیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کے اضافے کے باعث بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی مقابلے کی سکت ختم ہوگئی ہے، جس سے ملک کی آمدنی میں کمی آئی ہے۔ اس عرصے میں پڑوسی ملک بھارت نے پیٹرول اور اس کی مصنوعات میں کمی کی۔ وہاں پیٹرول کی قیمت 7 روپے 40 پیسے اور ڈیزل کی قیمت 5 روپے 90 پیسے کم ہوئے۔ بھارتی وزیراعظم نے پیٹرول، ڈیزل، چینی، آٹے اور پان سے سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی، تاکہ غریب عوام کو ریلیف مل سکے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حکومت ماہانہ 8 ارب روپے پیٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے، اس پر ستم یہ کہ پیٹرولیم لیوی سے بھی زیادہ جی ایس ٹی پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ اوگرا کے پیٹرولیم لیوی کے نئے آرڈیننس کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی فکسڈ ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی بیشی سے اس ٹیکس کی شرح میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ دسمبر 2009ء میں پیٹرول پر 10 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کی گئی، جب کہ ہائی اوکٹین پر 14 روپے، مٹی کے تیل پر 6 روپے، لائٹ ڈیزل پر 3 روپے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 8 روپے فی لیٹر وصول کی جا رہی ہے، نیز پیٹرول پر جی ایس ٹی 9 روپے 10 پیسے، ہائی اوکٹین پر 11روپے 11 پیسے، لائٹ ڈیزل پر 8 روپے 81 پیسے اور مٹی کے تیل پر 8 روپے 64 پیسے فی لیٹر کے حساب سے جی ایس ٹی بھی وصول کی جا رہی ہے، لیکن اس کے برعکس ایئر لائنز اور فوج کے ہوائی جہازوں میں استعمال ہونے والے ایندھن جے پی ون اور جے پی فور پر پیٹرولیم لیوی وصول نہیں کی جاتی ہے۔ جب کہ جے پی ون کی قیمت 50.70 روپے اور غیر ملکی پروازوں کے لئے 43.71 روپے فی لیٹر ہے۔ نیز حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قلت دور کرنے کے لئے 15 ارب روپے دسمبر 2009 ء میں جاری کئے تھے، لیکن اس کے برعکس پاکستان میں تیل صاف کرنے والی آئل ریفائنریوں نے اپنی پیداوار میں 40 فیصد کٹوتی کر دی ہے، جس کی بنا پر ہوائی جہازوں کے لئے جیٹ فیول (جے پی ون) کی قلت ہوگئی ہے، حالانکہ 4 نومبر 2009ء کو وزارت خزانہ نے اس مسئلے کے حل کے لئے 15 ارب پی ایس او کو دینے کا حکم دیا تھا، اس کے باوجود یہ رقم پی ایس او کے ذریعے آئل ریفائنریوں کو نہ مل سکی۔ جنوری 2010ء کے دوسرے ہفتے میں آئل سیکٹر کے قرضوں کا بحران سرکلر ڈیٹ کا معاملہ سنگین ہوگیا ہے۔ 
پاکستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجودہیں، لیکن کوئلے سے 4 صرف 4 فیصد بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملکی گیس کے ذخائر 30 کھرپ مکعب فٹ کے ہیں، جو غالباً سال 2030 ء سے پہلے ختم ہو جائیںگے اس طرح مستقبل میں توانائی کے حوالے سے ہمیں شدید مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ 
تھرکول پاور پلانٹ کے ذریعے اضافی بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ ہو کر منسوخ ہوگیا یہ بھی ایک المیے سے کم نہیں۔ پاکستان کو اللہ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے نوازا ہے، ہماری زمین معدنی وسائل سے مالا مال ہے، ہمارے سمندر سیال سونا ہیں، ہمارا جغرافیہ دنیا کے لئے قابل رشک، مگر ہمارے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہم اس بہترین محل و قوع سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے،اگر ہماری حکومتیں مخلص ہوں تو ہم اپنے تمام پڑوسیوں کی ضرورت بھی حل کر سکتے ہیں۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے