علامہ اقبالؒ جب اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے انہوں نے فرمایا کہ’’ اس فقیر کے آخری ایام آگئے ہیں نہ معلوم اب ایسا شخص کب آئے گا جو ملت اسلامیہ کے زوال وانحطاط کے اسباب کا پتہ لگاکر امت کی رفعت وسربلندی کیلئے ہمہ تن سرگرم عمل ہوگا۔‘‘
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ایسی ہی ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ ملت اسلامیہ کا درد اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے تھے اور علامہ جمال الدین افغانیؒ کے بعد صحیح معنوں میں ’’پان اسلامزم ‘‘کے علمبردار تھے ‘عالم اسلام کے مسائل ومشکلات پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ وہ بیک وقت صاحب بصیرت عالم دین اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے دور اندیش مبصر تھے۔ دنیا کی متعدد ترقی یافتہ زبانیں جانتے تھے اور انتہائی جرأت اور بے باکی اور قلندرانہ بصیرت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بے تکان مدلل گفتگو کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم انتہائی ذہین اور عظیم قوت حافظہ کے مالک تھے۔ کثیر المطالعہ تھے اور بڑی دلآویز شخصیت تھی۔ مجلس میں ہوتے تو وہ ہی صاحب مجلس ہوتے اور ہر نظر انہی کی جانب اٹھتی۔ علمی گفتگو‘ تجربات وواقعات کا تذکرہ اور لطائف اور شاعری سب ساتھ ساتھ چلتے۔ دین ہو یا سیاست‘ معیشت ہو یا معاشرت ‘شعروشاعری ہو یا میدان تصوف ہر میدان علم وفکران کی جولان گاہ بنا رہتا تھا۔
باکمال انسان اور صاحبان علم وفضل جو کچھ اپنے دور اور اپنے زمانے کو دے کر جاتے ہیں اور جو جواہر گراں قدر اپنے ملک وقوم کیلئے ودیعت کرجاتے ہیں قومیں ان کی شکر گزار ہوتی ہیں اور ان کو یاد کرتی ہیں۔ ہیروورشپ (HERO-WORSHIP) انسان کی سرشت کا ایک حصہ ہے‘ اسی لیے تقریباً دنیا کے تمام معاشروں میں اعاظم رجال کی توقیر کی جاتی ہے کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے یہاں بھی صاحبان علم وفضل کی توقیر اور ارباب بصیرت کی تکریم کا طریقہ مروج تھا مگر جن لوگوں کے ہاتھ میں زمام کار ہے اور جو طبقہ معاشرے کی جہتوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرتا ہے اسے ہیروورشپ کا یہ انداز نہیں بھاتا۔ بنا بریں صاحبان علم وفضل کے بجائے اداکار اور گلوکار مرکز نگاہ قرار دیدیئے گئے بعض ’’ اہل قلم ‘‘نے خیال کیا کہ ’’کار ‘‘کا لاحقہ کچھ زیادہ ہی سودمند ثابت ہوا ہے انہوں نے بھی قلم کے ساتھ کار کا لاحقہ لگاکر اعاظم رجال کی مجلس میں جگہ بنانے کی کوشش کی مگر یہ کار کا لاحقہ بے کار گیا۔
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صرف دنیائے علم وفن ہی کے مرد میدان نہ تھے بلکہ وہ میدان سیاست کے بھی غازی تھے۔ ان کے سرکردہ اور سربرآوردہ لوگوں سے مراسم تھے۔ وہ ایک عرصہ تک وزیر بھی رہے اور سپریم کورٹ اور فیڈرل شریعت کورٹ میں جج بھی رہے۔ لیکن مرحوم غازی صاحب کی وفات پر حسرت پر ایسا سکوت چھایا کہ ان کی موت سے زیادہ یہ صدمہ زیادہ جانکاہ ثابت ہوا اور پتہ چلا کہ جو قوم لاکھوں انسانوں کی سیلاب کی تباہ کاریوں کی نذر ہوجانے کی پرواہ نہ کرے اور جس معاشرے کے جسد احساس میں فرزندان قوم کے جہالت اور غربت کے سیل بے کراں میں بہہ جانے کے نظارے ارتعاش پیدا نہ کریں۔ وہ کسی عالم کی وفات پر کیا اظہار افسوس کرے گا!
مرحوم صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا سرمایۂ افتخار تھے وہ زیرک اور دیدہ ور اور عالم اسلام کے نبض شناس تھے۔ ان کے خطبات ان کے علم وفضل کے شاہد عدل ہیں۔ مرحوم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں منفرد نمایاں اور ممتاز تھے اور کچھ اسی انفرادی شان سے انہوں نے داعی اجل کو بھی لبیک کہا۔ صبح کی نماز ادا کی اور اسی انفرادی شان کے ساتھ جو زندگی بھر ان کا طرۂ امتیاز رہی خالق حقیقی سے جاملے۔
انا اللّٰہ وانا الیہ راجعون