دہشت گردی اور فسادات کے اسباب وسدباب

لفظ فساد دراصل کون اور صحت کی ضد ہے جو چیز اپنی مناسبِ حال اور فطری حالت پر ہوتی ہے تو اسے صحیح کہا جاتا ہے بالفاظ دیگر جو چیز جیسی ہونی چاہیے اگر وہ اسی طرح رہتی ہے تو درست اور صحیح ہوگی لیکن اس حالت کو چھوڑ کر غلط رُخ اختیار کرنے سے وہ فاسد اور بگڑی ہوئی تصور کی جاتی ہے، یہ ضابطہ سب اشیاء کے لئے ہے۔
معاشرہ کی بھی ایک ہیئت ترکیبی ہوا کرتی ہے اگر اس کے برعکس اس ہیئت ترکیبی میں جتنے شگاف پڑیں گے اسی تناسب سے وہ معاشرہ بدعنوان کہلانے کا مستحق ہوگا چونکہ معاشرہ اور ریاست دونوں عموماً ایک ہی سمت ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں خاص کر آج کے دور میں تو دنیا بھر سے قبائلی نظام کا تقریباً صفایا ہوچکا ہے اس لئے حکم کے اعتبار سے معاشرہ اور ریاست دونوں کی ذمے داریاں ایک ہی جیسی ہیں کہ دونوں انسان کے لئے دل و دماغ کی جتنی اہمیت رکھتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ معاشرہ میں ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں لیکن ریاست چلانے کے لئے خاص خاص لوگ ہوتے ہیں اس لئے معاشرہ کی اصلاح کی سب سے زیادہ ذمے داری ریاست پر عائد ہوتی ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے عام آدمی کا کوئی واسطہ نہیں ہے بلکہ عام آدمی بھی اپنی استطاعت کے مطابق ذمے دار ہوتا ہے کیونکہ اجتماعی کام میں جب تک ہر فرد اپنا حصہ نہیں ڈالے گا تب تک وہ نتیجہ خیز نہیں بنے گا گویا ریاست کی ذمے داری ماں باپ کی طرح ہوتی ہے اور رعایا کی ذمے داریاں گھر کے باقی افراد کی مانند ہوتی ہیں۔
گو بعض انسان بالطبع شرارتی ہوتے ہیں مگر عام طور پر انسان اشرف المخلوقات ہونے کی بناء پر شریف الطبع ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ انسان مدنی الطبع بھی ہے ہر شخص تمدن کو پسند کرتا ہے اس لئے ریاست کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ ریاست اگر اچھی ہوگی تو اس کی حیثیت کسی نعمت سے کم ہرگز نہ ہوگی جبکہ ناکام ریاست سے بجائے خوشحالی کے بے چینی جنم لیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہیے کہ ان کی ریاست اچھی ہی ہو لیکن سوال یہ ہے کہ اچھی ریاست کیا ہوتی ہے تاکہ اس میں رہنے والوں کا معاشرہ عمدہ معاشرہ کہلانے کے اعزاز اور خوشیوں سے سرفراز ہو اگر ہم اس سوال کا جواب آسان لفظوں میں دینا چاہیں تو وہ یہ ہوسکتاہے کہ جو معاشرہ یا ریاست عدل، امن، اتفاق اور خوشحالی پر مشتمل ہو بلکہ کفیل ہو تو وہ معاشرہ بھی کامیاب ہے اور ریاست بھی بامراد ہے اور اگر ہم اسے مزید اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ امن واتحاد اور خوشحالی تینوں عدل سے مختلف چیزیں نہیں بلکہ یہ عدل کے ثمرات ہیں اس بناء پر اچھے معاشرہ اور ریاست کا محور بس عدل ہی ہے، اگر عدل ہے تو اچھائی کے سارے پہلو ہیں اور عدل نہیں تو کچھ بھی نہیں…یہاں جماعتی یعنی معاشرتی عدل کی بات ہورہی ہے جو معاشرہ اور ریاست سے متعلق ہے۔عادل جماعت وہ ہے جس کے نظم وقوانین اس قدر سہل الوصول اور آسان ہوں جو اس کے تمام افراد کے لئے ان کی اپنی اپنی استعداد کے مطابق یکساں ترقی کا باعث بنتے ہوں، سو اس وقت تک کسی جماعت کو عادل نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ اس کے ذریعے انسانوں کے ہر ایک گروہ کے لئے وسائلِ ترقی بہتات کے ساتھ میسر نہ آتے ہوں۔
افلاطون نے اسی کو اپنے اس قول میں ادا کیا ہے:۔
’’بہترین حکومت وہ ہے جو قوم کے ہر فرد کو اس کے لائق بہترین جگہ دے اور یہ طاقت رکھتی ہو کہ ہر فرد میں اپنے عطیات کو نمایاں کرسکے تاکہ وہ اپنے ادائے فرض وعہد کے قابل ہوجائے، لہٰذا کوئی حکومت اس وقت تک عادل نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنے اس فرض کو پورا نہ کردے‘‘ (اخلاق وفلسفۂ اخلاق ص۳۷۷)
مغربی دنیا میں افلاطون سے زیادہ ارسطو کو سیاست کا مؤسّس مانا جاتا ہے ۔ارسطو نے ریاست کے اغراض ومقاصد پر بڑی تفصیلی ابحاث کی ہیں ان کے چند جملے پیش خدمت ہیں۔ ارسطو کہتا ہے کہ ’’جس نے ریاست کی بنیاد رکھی ہے وہ محسنوں میں سب سے بڑا تھا کیونکہ قانون کے بغیر انسان حیوان سے بھی بدتر ہے اور قانون کے اپنے وجود کا انحصار ریاست پر ہے، ریاست محض ایسا معاشرہ نہیں جس میں اشیاء کا تبادلہ یا جرم کی روک ہو ’’ ریاست کا مقصد اچھی زندگی ہے…ریاست کنبوں اور گائوں کا ایسا اجتماع ہے جس میں زندگی خود کفیل ہو، جس کے معانی پُرمسرت اور باعزت زندگی ہے، ایک سیاسی معاشرے کا وجود محض اجتماع کے لئے نہیں بلکہ بہترین اعمال کے لئے تشکیل پاتا ہے‘‘ (فلسفۂ مغرب کی تاریخ برٹرینڈرسل ص۲۴۱ پورب اکادمی) 
وہ مزید لکھتے ہیں۔’’ اچھی حکومت وہ ہوتی ہے جس کا مقصد کل اجتماع کی بھلائی ہو اور وہ بُری ہے جس کا مقصد محض اپنی ذات ہو، اچھی حکومتیں تین قسم کی ہوتی ہیں بادشاہت، امارت اور آئینی حکومت، تین قسم ہی کی حکومتیں بُری ہوتی ہیں، استبدادیت، اعیانیت (یعنی چند امیروں کی حکومت) اور جمہوریت۔‘‘(ایضاًص۲۴۵)
اگر اس طرح کی مزید آراء تلاش کی جائیں تو باآسانی مل جائیں گی مگر اختصار کے پیش نظر اس بحث کو یہاں ملتوی کرکے اپنی بات کی طرف آتے ہیں، ملک خداداد پاکستان کوئی عام انسانی معاشرے یا ریاست کا نام نہیں ہے بلکہ اپنے عنوان کی طرح یہ اسلامی معاشرہ کو تشکیل دینے کے لئے معرض وجود میں آیا تھا ۔اوپر جو آراء پیش کی گئیں یہ اصول کسی بھی انسانی معاشرہ کے لئے ضروری ہیں اگر بات اچھے معاشرہ کی ہو تو، لیکن اگر اس پر ان اصول کا اضافہ کرلیا جائے جو خالق کائنات نے انسانوں کی بھلائی اور اچھی معاشرت کے لئے نازل فرمائے ہیں تو یہ نور علی نور اور سونے پہ سُہاگا کا مصداق بن جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارا معاشرہ اور ملک باقی دنیا کے لئے ایک مثالی معاشرہ اور قابل تقلید نمونہ ہوتا مگر افسوس ہے کہ ہم جتنے آگے جاتے گئے اتنے ہی خوبیوں سے دور ہوتے چلے گئے اب حالت یہ ہے کہ کوئی کرکٹر بھی کھیلنے کے لئے یہاں آنے سے گھبراتا ہے۔
اسباب اور محرکات
ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی مستحکم ملک نہ تو یک دم معرض وجود میں آتا ہے اور نہ ہی یکدم ختم ہوتا ہے جس طرح اس کے بنانے میں ایک عرصہ گزرتا ہے اسی طرح اس کو کمزور یا ختم کرنے کیلئے بھی عرصۂ دراز درکار ہوتا ہے۔ پاکستان بنانے کے پیچھے جس عظیم قربانی کی تاریخ ہے وہ سب پر عیاں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اس ملک کی تعمیر کے ساتھ ہی اس کو دیمک نے چاٹنا شروع کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ان چند سطور میں ان تمام اسباب ومحرکات کا احاطہ ممکن نہیں جن کی بناء پر ملک کو غیر معمولی نقصان پہنچا ایک موقع پر اس کا ایک بازو بھی تن سے الگ ہوگیا مگر اللہ کے فضل سے اس نے ایک ہی بازو کے زور پر اپنا وجود قائم رکھا ہے۔ یہاں صرف مختصر سی بات اور چند موٹے موٹے اسباب کا اجمالی تذکرہ ممکن ہے، اگر ارباب اختیار ان پر خلوص نیت سے غور کریں اور پھر ملی وملکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے ازالے کے اقدامات کریں تو عین ممکن ہے کہ ہم ایک خوشحال معاشرہ کی تشکیل دینے اور ملک کے مزید استحکام میں کامیاب ہوجائیں گے۔
(1) جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے سیاسی معاشرے کا وجود محض اجتماع کے لئے نہیں بلکہ بہترین اعمال کے لئے تشکیل پاتا ہے…اور یہ کہ بہترین حکومت وہ ہے جو قوم کے ہر فرد کو اس کے لائق بہترین جگہ دے وغیرہ وغیرہ۔
اگر ہم ریاستی ذمے داریوں میں سے اس ایک اصول پر غور کریں تو ضمیر کی آواز یہی سنائی دے گی کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔ کیا ہم جن عہدوں پر افراد کی تعیناتی کرتے ہیں ان کی لیاقت کے مطابق یا ذاتی مفادات کے پیش نظر؟ کیا آج ملک میں کوئی (باستثناء ایک دو کے) ایسا ادارہ ہے جہاں صرف قابلیت پر منصب ملتا ہو کسی کو اس لئے ذمے داری سونپی جاتی ہو کہ یہ قابل ہے، یا رشوت، اقربا پروری اور سفارش کی بنیاد پر؟ حالانکہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ نااہلوں کو ذمے داریاں دینا قیامت کی علامات میں سے ہے، قیامت یکدم سے ہی آئے گی لیکن اس سے پہلے خرابی ضرور پھیلے گی جن کے اقدامات انسان خود ہی کرے گا۔
(2)ریاست میں خوشحالی کی بہار لانے کے لئے ضروری ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو لیکن ہم جانتے ہیں کہ آج اس آبی ذخائر سے مالا مال ملک میں قدرتی پانی کی ترسیل بھی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے جبکہ پانی کسی بھی زمینی حیات کی بنیادی ضرورت ہے، کراچی جیسے شہر میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سالہا سال سے لائن کا پانی نہیں آتا حالانکہ وہاں لاکھوں انسان آباد ہیں جبکہ ایسے علاقے تو شمار سے باہر ہیں جہاں ضرورت کا 20 فیصد پانی بمشکل ملتا ہے اور وہ بھی صاف نہیں۔ ملک کے باقی شہروں کی حالت زار بھی حوصلہ افزا نہیں ہے۔
(3) صحت بھی بنیادی ضروریات میں داخل ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ریاستی سطح پر جتنی سہولیات دی گئی ہیں وہ 30فیصد کے لئے بھی ناکافی ہیں۔
(4) تعلیم صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن آج ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ ہے کہ کوئی صاحب ثروت ان میں اپنے بچوں کو بھیجنے کے لئے تیار نہیں ۔
(5) اگر ہم انصاف کی بات کریں جس کی حیثیت واہمیت کسی بھی ریاست کے لئے ریڑھ کی ہڈی اور محور سے کم نہیں جیسا کہ اوپر گزارش کی جاچکی ہے تو انصاف یہ ہے کہ انصاف بہت مہنگا بھی ہے اور سست روی کا بھی شکار ہے سو روپے تو شاید امیر لوگوں کی نظر میں مثال بننے کے لائق نہیں لیکن اگر ہم ہزار روپے کی بھی بات کریں تو شاید کوئی بھی شہری اس شخص کے خلاف عدالت جانے کے لئے تیار نہ ہوجس کے ہاتھ سے کسی نے زبردستی چھین لیے ہوں۔
(6) انتخابی عمل میں جو بدنظمی اور زیادتی ہوتی رہتی ہے شاید اس سے کسی کو انکار نہ ہو ۔
(7) غریب کا بیٹا جتنی بھی تعلیم حاصل کرلے لیکن اسے بالآخر کرنا وہی ہے جو اس کا باپ کرتا تھا، الاّ ماشاء اللہ وقلیل مّاھم۔
اس طرح کے اور بھی ایسے عوامل ہیں جو معاشرہ میں اور خصوصاً احساس محرومی کے شکار لوگوں میں غصہ بھرنے کا موجب بنتے ہیں اور پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہوکر وہ سڑکوں پر کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کرتے اور وطن سے نفرت پھیلانے کا درس دیتے ہیں ، علاوہ ازیں عوام کے ساتھ پولیس کا رویہ کیسا رہتا ہے اس کا مشاہدہ کسی بھی دن، کسی بھی وقت کسی بھی سڑک پر کیا جاسکتا ہے کہ سگنل توڑنے والے تو آرام سے نکل جاتے ہیں مگر غصہ غریب رکشے والے پر اُتارا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
یہ وہ موٹے موٹے محرکات ہیں جو عوام کو مملکت سے بدظن کرتے ہیں، یہ کسی بیرونی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ہماری اپنی لاپرواہی یا مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔ 
(8) ملک میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو ابھی تک اس انتظار میں ہیں کہ ہم اپنے ملک میں بانی پاکستان کے خواب کو عملی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جو ان باتوں سے پاک ہو جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مایوسی میں اضافہ ہوتا گیا اس طرح وہ اپنے طور پر ملک ٹھیک کرنے لگے جس سے کام مزید خراب ہوگیا اور نتیجہ فساد کی شکل میں سامنے آگیا۔
(9) اگر ہم پاکستان کی سرحدات سے باہر دنیا پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو دو باتیں صاف نظر آئیں گی ایک یہ کہ ہماری جغرافیائی سرحدات الحمدللہ مکمل محفوظ ہیں اور دوسری یہ کہ ہماری سیاسی واخلاقی سرحدات مکمل غیر محفوظ ہیں۔
آئین کی رُو سے جو کام اس ملک خداداد میں ممنوع ہیں عملاً ان میں سے بعض کام ہورہے ہیں لیکن بجائے روکنے کے ایسا لگتا ہے کہ انہیں فروغ دیا جارہا ہے۔
ہمارے وطن عزیز میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بجائے ملکی مفادات اور اسلامی روایات کے بیرونی ایجنڈوں کی تکمیل میں شب وروز لگے رہتے ہیں اور یہ چیز تقریباً تمام اہم شعبوں میں پائی جاتی ہے گو ان کا طریقۂ کار الگ الگ ہے مگر ہدف ایک ہی ہے کہ پاکستان کو یا تو مٹادیا جائے یا کمزور کیا جائے یا کم ازکم اس کا اسلامی تشخص ختم کیا جائے ہمارے سیاست دانوں، صحافیوں، ججز، وکیلوں اور بعض مسلح تنظیموں میں یہ وائرس پایا جاتا ہے جو ان کے عمل سے عیاں ہے، غرض یہ سب کسی نہ کسی طرح استعمال ہوتے رہے ہیں خواہ عمداً ہو یا نادانی سے ہو۔
(10) قوم میں خود اعتمادی کا فقدان ہے کہ پاکستان میں تقریباً 50 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس میں مہارت حاصل کرنے یا تعلیم حاصل کرنے پر سرکاری نوکری مل سکتی ہو، اس سے ایک طرف خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور دوسری جانب احساس محرومی اور غلامی کا تصور جنم لیتا ہے نتیجتاً اپنے ملک اور زبان سے وہ محبت نہیں رہتی جو خود کفیل قوم میں ہوتی ہے۔
(11) لیڈر شپ پر اعتماد کی کمی بھی فساد کی ایک اہم جڑ ہے، قابل افسوس امر یہ ہے کہ انتخابات کے وقت لیڈر جو وعدے کرتے ہیں وہ ادھورے رِہ جاتے ہیں قول اور عمل کے اس تضاد نے قوم کو اپنے لیڈروں سے اس قدر مایوس کیا ہے کہ مجموعی طور پر لوگ کسی لیڈر کی نیک نیتی کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
(12) کرپشن اور رشوت ستانی تو بہرحال غیر اسلامی ،غیر اخلاقی اور غیر آئینی عمل ہے لیکن جب یہ بیماری حکام بالا میں نظر آئی تو عوام نے محسوس کیا کہ ہماری تمام لیڈر شپ وبائی مرض میں مبتلاء ہے، اس سے بھی اعتماد کو غیر معمولی نقصان پہنچا اور بیماری عام ہوتی گئی اب حال یہ ہے کہ کون کس کا علاج کرے؟۔
(13) ہماری سیاسی پارٹیوں میں یہ مرض عام ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں جب بھی ایک پارٹی کی حکومت بنتی ہے تو دوسرے مل کر اس کے خلاف سازشوں کا زلزلہ برپا کرتے ہیں خاص کر جب لاحقہ حکومت سابقہ حکومت کی کرپشن کی بات کرے تو پھر وہ قیامت لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
(14) اس وقت ملک میں مسلکی اختلافات بھی زوروں پر ہیں تقریباً تمام مسالک میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو اپنی بات بجائے دلیل کے گولی اور طاقت کے ذریعہ منوانا چاہتے ہیں یہ غیر سنجیدہ بلکہ ناجائز حرکت نہ صرف اسلام کی بدنامی کی وجہ بن رہی ہے بلکہ اس سے ملکی وانسانی جانی ومالی تحفظ بھی خطرہ میں پڑرہا ہے گزشتہ کئی سالوں سے اس طرز عمل سے ملک وملت کو غیر معمولی اور ناقابل تلافی نقصانات پہنچے ہیں، علماء عظام کو اس کے سدباب پر غور کرنا چاہیے اور مشترکہ رائے قائم کرکے حکومت کو اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔
تجاویز
یہ تو فساد کی چند موٹی موٹی جڑیں ہیں اگر تفصیل میں جانا چاہیں تو ضخیم جلد بھی شاید ناکافی ہوجائے، اگر کسی ڈاکٹر کے پاس ایسا مریض لایا جائے جو سراپا بیمار ہو تو شاید وہ سر پکڑ کر بیٹھ جائے لیکن بہرحال جب اللہ عزوجل نے جہد مسلسل کے نتیجہ میں پاکستان کو وجود بخشا ہے تو وہ اس کے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کے امراض کے دور کرنے کے اسباب مہیا کرنے یا غیب سے خصوصی مدد کرنے پر بھی قادر ہے۔حل تو یہی ہے کہ مندرجہ بالا اسباب کے ازالہ کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور انہیں مزید تیز کیا جائے لیکن میرے خیال سے اس کا حل یہ نہیں ہے کہ جس میں یہ مرض پایا جائے تو بس اسے گولی ماردی جائے کیونکہ جب تک پہلے ماحول کو سازگار بنانے، لوگوں کے اعتماد کو بحال کرنے اور اغیار سے رشتوں کو منقطع کرنے کے اقدامات نہیں کئے جائیں گے تو اس وقت تک مستقل امن قائم کرنا اور افراتفری کی فضاء کو ختم کرنا ممکن نظر نہیں آتا، اس لئے ضروری ہے کہ زخم کے اوپر پٹی رکھنے کے بجائے زخم کو مندمل کرنے کی دوا کا بھی انتظام کیا جائے بایں طور کہ اس کے لئے ماہرین کی آراء کے تناظر میں آگے بڑھنے کا عمل شروع کیا جائے۔
میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اچھے معاشرہ کا محور عدل ہے کیونکہ عدل نام ہی اس کا ہے کہ ہر چیز ٹھیک ٹھیک اپنی جگہ پر رہے، اس جملے میں سب کچھ آگیا لیکن اگر ہم عدلیہ کے ساتھ مل کر عدل قائم کرنا چاہیں تو اس کی صورت کیا ہوسکتی ہے؟ اس کے لئے مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ لکھتے ہیں:۔
’’جماعتی عدل میں جماعت کے ہر فرد سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ جماعتی عدل کو قائم کرنے میں اپنا فرض ادا کرے اور ثبوت عدل کے لئے جن اعمال کی ضرورت ہے اپنی طاقت بھر ان کو انجام دے۔ مثلاً اگر کسی شہر میں شفا خانوں کی ضرورت ہے تو ایک مقرر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی تقریر کے ذریعے ان کے قیام پر توجہ دلائے اور اخبار نویسوں کا فرض ہے کہ وہ مقالات کے ذریعے یہ خدمت انجام دیں اور شعراء کا فرض ہے کہ وہ اشعار کے وسیلہ سے اور مالداروں کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں صرف مال کے واسطہ سے یہ فرض انجام دیں اور ارباب قوّت وجاہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان جیسے جائز امور کی موافقت میں اپنی قوت وجاہ کو کام میں لائیں اور بالآخر حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت کی قوتِ تنفیذ کو اس کے نفاذ کے لئے استعمال کرے‘‘ (بحوالہ نقش قدم کامل۱۲ص۲۰۹)
فن عمرانیات کے مشہور ماہر علامہ عبدالرحمن بن خلدونؒ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:۔
’’پھر جب انسان جمع ہوجاتے ہیں اور ان سے دنیا کی آبادی مکمل ہوجاتی ہے تو انہیں ایک حکم کی بھی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ظالموں کو ظلم وتعدی سے روکے کیونکہ حیوانی طبیعتوں میں ظلم وتعدی ہے او رجو اسلحے درندوں کی مدافعت کے لئے بنائے گئے ہیں وہ انسانوں کو ظلم وتعدی سے روکنے کے لئے ناکافی ہیں کیونکہ اسلحہ ہر ایک کے پاس موجود ہوتا ہے اس لئے علاوہ اسلحہ کے انسان کو ظلم سے روکنے کیلئے ایک شخص کی ضرورت ہے اور یہ شخصیت انسانوں ہی میں سے ہوسکتی ہے غیروں میں سے نہیں کیونکہ تمام حیوانات عقل والہام سے محروم ہیں، لامحالہ یہ حکمران انسانوں ہی میں سے ایک ہوگا جسے سب پر غلبہ واقتدار حاصل ہوگا اور اس کے پاس پوری طاقت ہوگی تاکہ کوئی کسی پر ظلم وتعدی نہ کرسکے اسی حکمران کو ہم بادشاہ یا سلطان کہتے ہیں‘‘ (مقدمہ ابن خلدون ج۱ص۲۲۱ نفیس اکیڈمی کراچی)
غرض اسلامی روایات سمیت افلاطون وسقراط سے لیکر آج تک جتنے ماہرین فن عمرانیات ہیں وہ سب اس پر متفق ہیں کہ ارباب سلطنت کا اصل کام اور اولین ذمے داری عدل قائم کرنا ہے اسی سے سب کو ان کے پورے پورے حقوق ملتے ہیں اور ہر شخص خوش ہوکر اپنے وطن اور اہل وطن سے محبت کرنے لگتا ہے، ڈنڈے مارنے سے ہم کسی کی گردن تو توڑسکتے ہیں لیکن اس کے دل میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں دل میں محبت ڈالنے کے لئے عدل ہی ہے اور بس عدل ہی ہے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کی گرفت کو مضبوط کیا جائے تاکہ تمام ادارے بھی کامیابی کی منزل کی جانب سفر کرنے لگیں اور ملک سے بدانتظامی، بدعنوانی اور تشدد وظلم وزیادتی کا صفایا بھی ہوجائے۔

Please follow and like us:

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا. ضرورت کے کھیتوں ک* نشان لگا دیا گیا ہے