وقتاً فوقتاً سربراہان مملکت اعلان کرتے رہتے ہیں کہ دہشت گردی روکیں گے‘ دہشت گردی جڑ سے اکھیڑ دیں گے دہشت گردی ختم کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔ خصوصاً صدر مملکت آصف علی زرداری جہاں کہیں بھی دورے پر گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دہشت گردی ختم کرنے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں گے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دہشت گردی کی وضاحت نہیں کی جاتی کہ دہشت گردی کیا ہے؟
دہشت گردی کا مفہوم کیا ہے!
دہشت گردی یہ فارسی زبان کا لفظ ہے اور فارسی کی مشہور لغت غیاث اللغات صفحہ 219پر دہشت کا معنی لکھا ہے ’’حیرت وسراسیمگی ‘‘اور صفحہ 267پر سراسیمہ کا معنی ’’شوریدہ ‘‘یعنی پریشان ہونا لکھا ہے ۔ اسی طرح عربی لغت مصباح اللغات صفحہ 239پر دہشت کا معنی متحیر ہونا لکھاہے۔ لغت کی ان دونوں کتابوں سے معلوم ہوا کہ دہشت کا معنی ہے حیرانی‘ پریشانی‘ مدہوشی اور دہشت گرد کا معنی ہے حیرانی‘ پریشانی اور مدہوشی پھیلانے والا۔ لہٰذا ہر وہ شخص دہشت گرد کہلائے گا جو انسانوں کو پریشانی میں مبتلا کرتا ہے اور امن عامہ کو نقصان پہنچاتا ہے جس سے عوام پریشان ہوجاتی ہے۔ دہشت گرد اپنی جارحانہ قوت کے ذریعے دوسرے کی رائے بدل دیتا ہے اسی طرح جو بھی شخص انسانوں کی قیمتی چیزوں کا نقصان کرے وہ دہشت گرد ہے۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے اسی دہشت گردی کو روکنے کیلئے ایک اصول تجویز فرمایا ہے (المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ ) یعنی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ گویا کہ دہشت گردی کی ابتداء زبان اور ہاتھ سے ہوتی ہے اگر ابتدائی مرحلہ میں ہی دہشت گردی روک دی جائے تو ملک میں امن وسلامتی پھیلتی ہے کہ اسلام نام ہی امن وسلامتی کا ہے۔ سب سے پہلے انسان زبان سے گالی اور ہاتھ سے تھپڑ اور مکے کے ذریعے دوسرے کو پریشان کرتا ہے اگر اس پر ابتداء میں ہی قابو پالیا جائے تو دہشت گردی ابتداء میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔
ہاتھ کی دہشت گردی پروان چڑھتی ہے تو دوسروں کے مال کی چوری کرنا‘ ڈاکے ڈالنا‘ قتل کرنا‘ دوسرے کے گھر طاقت کے زور سے گھس جانا‘ دوسرے کے گھر یا زمین پر قبضہ کرلینا جیسے جرائم سرزد ہوتے ہیں جس سے لوگ پریشان ہوتے ہیں اور امن عامہ خطرے میں پڑجاتا ہے اسی بناء پر اگر کوئی ملک دوسرے ملک پر چڑھائی کردیتا ہے تو بڑے درجہ کی دہشت گردی شمار ہوگی۔
ایسے ہی جب زبان کی دہشت گردی پروان چڑھتی ہے تو الزام لگاکر یا جھوٹا مقدمہ درج کرواکے یا جھوٹی گمراہی دے کر یا جھوٹی تہمت لگاکر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے اور امن عامہ کو تباہ کیا جاتا ہے۔ اس کا سدباب کرنے کے لئے اسلام نے تعزیر اور زنا کی تہمت چونکہ یہ بھی سنگین زبانی دہشت گردی ہے اس لئے اس کی سزا اسی کوڑوں کی مقرر کی گئی ہے تاکہ امن عامہ میں خلل نہ آئے اور نقص امن نہ ہو جب سے کافروں کا مسلمان ملکوں پر تسلط ہوا ہے اس وقت سے کفار نے اسلحہ کے زور پر مسلمان ملکوں میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے اسی طرح سے انہوں نے زبان کی دہشت گردی کو انتہا تک پہنچاکر سرکار دو عالم ﷺ کی ذات مبارکہ کی توہین کا سلسلہ شروع کررکھا ہے جو کہ تمام عالم کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔ سرکار دو عالمﷺ کی ذات مبارکہ کی توہین دہشت گردی ہے کہ ہر مسلمان محبت رسول ﷺ کی وجہ سے ناقابل برداشت اذیت محسوس کرتا ہے ۔
اگر ضابطہ ملحوظ رہے کہ دوسرے کی جان‘ مال‘ عزت پر حملہ کرنے والا دہشت گرد ہے اور ان چیزوں کی حفاظت کرنے والا امت کا محسن کہلائے گا۔ تو ایسی سوچ سے دنیا میں موجود دہشتگردی ختم ہوجائے گی۔
اسلام میں دہشت گردی کی انتہا یہ ہے کہ محمد ﷺ کی ناموس پر حملہ کرکے اس کی توہین کی جائے اسلام میں اس کی سزا قتل ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
اب ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کی ذات مبارکہ کی توہین کو دہشت گردی کے زمرے میں لائے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فساد پھیلانے والوں کو بروقت عدالتوں سے سزا دلوائے اگر حکومت اس میں غفلت کا مظاہرہ کرے گی تو پھر چوکوں اور چوراہوں پر لوگ خود ہی فیصلے کرنے لگیں گے یہ صورت امن عامہ کیلئے خطرناک ہوگی۔
اسی طرح اگر ہمارے ذمہ دار لوگ پاکستان کے آئین اور قانون کے خلاف بات کریں گے تو اس سے بھی فساد پھیلے گا ہمارے ارباب اقتدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ جو لوگ حکومتی مراعات لیکر اور حکومتی بنچوں پر بیٹھ کر آئین پاکستان کے خلاف مہم چلاتے ہیں کیا وہ ’’غداری‘‘ کے زمرے میں نہیں آتے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ شیریں رحمن نے ناموس رسالت میں ترمیم کا بل پیش کرکے کسی دہشت گردی کا ارتکاب تو نہیں کیا؟ جس سے سارے مسلمان پریشانی میں مبتلا ہیں اور اسی طرح عاصمہ جہانگیر نے یہ بیان دے کر کہ ’’ملا ڈنڈے کے زور پر ہڑتال کراسکتا ہے لیکن دل نہیں جیت سکتا ‘‘اور اس نے سڑکوں پر دہشت گردی پھیلائی ہے۔
کیا اس نے یہ بیان دے کر تمام ہڑتال کرنے والوں کی توہین کرکے دہشت گردی کا ارتکاب تو نہیں کیا؟
اولاً پارلیمنٹ کے سوچنے کی بات ہے اور اس کے بعد وکلاء کے سوچنے کی بات ہے جنہوں نے اسے بار کا صدر بنایا اور اس کے بعد عدلیہ کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ جیسے خودکش حملہ کرنے والا ‘ بم دھماکہ کرنے والا‘ قتل کرنے والا‘ ڈاکہ ڈالنے والا دہشت گرد ہے ایسے ہی توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کو دہشت گرد قرار دے اور عدالت ایسے مجرموں کو سزا دے تاکہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔